Sunday 1 June 2014

ہومر کے لافانی رزمیے


مرزا حامد بیگ ایک اہم قلم کار ہیں، افسانے پر ان کی تنقید اور اس صنف کے تعلق سے ان کی گہری دلچسپی نے انہیں اردو ادب میں ایک نمایاں مقام دلوایا ہے۔ان کی تحریر صاف، سادہ اور سلیس ہے۔پڑھنے والے کو وہ کسی الجھن یا ذہنی پریشانی میں مبتلا کیے بغیر اپنے مشکل خیالات بھی بیان کرنے پر قادر ہیں۔ان کا زیر نظر مضمون ’ہومر‘کی شخصیت، اس کے رزمیوں کی پراسرار تاریخ اور ہلکے سے تحقیقی نوعیت کا ہے۔مضمون دلچسپ ہے اور علم میں اضافے کا سبب بھی۔چنانچہ اسے یہاں پیش کرنے کا بنیادی مقصد ایک رواں تحریر کے ذریعے ایسے شاعر کی روداد بھی پیش کرنا ہے، جس کو ن م راشد نے اندھے کباڑی سے تعبیر کیا تھا۔امید ہے کہ یہ مضمون آپ کو پسند آئے گا۔مضمون ’اردو ادب ‘ کے ایک شمارے سے لیا گیا ہے،جو کہ انجمن ترقی اردو ہند کے زیراہتمام ہر تین مہینے میں شائع ہونے والا ایک ادبی مجلہ ہے اور اس کے تمام شمارے آپ عنقریب ریختہ پر پڑھ سکیں گے۔
ریختہ


ہومر کون تھا؟ کب پیدا ہوا اور کب وفات پائی؟ کہاں کا رہنے والا تھا، اور اس نے کس طرح زندگی کی؟ نیز یہ کہ اس کا جملہ تخلیقی سرمایہ کس قدر ہے؟
اِن سوالات کے جواب میں وثوق سے بات کرنا ممکن نہیں۔ ان سوالات پر صدیوں کی گرد بیٹھی ہوئی ہے۔ خود یونانیوں کو اپنے ملک الشعرا ہومر سے متعلق کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ ابھی تک تو یہی طے نہیں ہوپایا کہ ہومر نام کا کوئی شاعر تھا بھی یا نہیں۔ اس لیے بھی کہ ’ہومروس‘ یونانی زبان میں اندھے کو کہا جاتا ہے۔
کیا ہومر واقعی اندھا تھا؟ اِس سوال کا جواب بھی تحقیق طلب ہے۔
یونانی زبان میں ہومر کی آٹھ سوانح عمریاں ملتی ہیں جو اُس وقت لکھی گئی تھیں جب یونان کے لوگ صرف کہانی سے ہی نہیں، کہانی کہنے والے سے بھی دل چسپی لینے لگے تھے۔ زیادہ تر سوانح عمریوں میں ہومر کو ایک اندھا غریب گویّا بتایا گیا ہے، جو اپنا پیٹ پالنے کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرا۔ یوں تاحال ہومر کی ذات سے متعلق جتنی تحقیق ہوئی ہے وہ متضاد اور مختلف باتیں سامنے لاتی ہے۔
پہلی صدی عیسوی کا یونانی مورخ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ ہومر حضرت مسیح ؑ کی پیدائش سے ساڑھے آٹھ سو برس پہلے کا آدمی ہے، جب کہ دیگر مورخ گیارہویں صدی پیشتر مسیح ؑ کے زمانے کو ہومر کا عہد قرار دیتے ہیں۔ ہومر کی جاے پیدائش سے متعلق بھی اختلاف ہے۔ چناں چہ ایک یونانی شاعر نے طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سات مردہ شہر ہومر کی جاے پیدائش ہونے کے دعویدار ہیں، جہاں زندہ ہومر بھیک مانگتا پھرا تھا۔‘‘
ہومر کی کچھ سوانح عمریوں میں ہومر کو دریائے میلس کا بیٹا بتایا گیا ہے جو سمرنا شہر کے نیچے بہتا تھا اور ہومر کی ماں ایک دریائی پری (NYMPH) بتائی گئی ہے جس کا نام کریتھائیس تھا۔
یونانی مورخ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ یونان کے شہر کیومی سے کچھ لوگ قدیم زمانے میں نقلِ مکانی کرکے ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر جابسے تھے۔ اُن لوگوں میں ایک مفلس شخص میناپولوس تھا، جس کی اکلوتی بیٹی کا نام کریتھائیس تھا۔ وہ ابھی بہت چھوٹی سی تھی کہ اُس کا باپ مرگیا۔ میناپولوس نے مرتے وقت اپنی بیٹی کو کلیناکس نامی شخص کی سپرد داری میں دے دیا تھا، لیکن کلیناکس نے ایمانداری سے کام نہ لیا اور اُس لڑکی سے ہم صحبت ہوا۔ پھر بدنامی کے ڈر سے کریتھائیس کو ایک قافلے کے ہمراہ سمرنا بھیج دیا۔ اُس وقت وہ حاملہ تھی۔
سمرنا میں کریتھائیس کا ایک بیٹا پیدا ہوا، جس نے ہومر کے نام سے شہرت پائی۔ دریائے میلس کے کنارے ہومر نے جنم لیا تھا، اس لیے اُس کا نام میلے سیگنس رکھا گیا اور وہ بے باپ کا مشہور ہوا۔
دریائے میلس کے کنارے فیمیوس نامی ایک شاعر اور موسیقار کا مدرسہ تھا۔ فیمیوس نے ہومر کی ماں پرترس کھاتے ہوئے پہلے تو اسے گھریلو کام کاج کے لیے ملازمہ رکھا اور پھر اس کی اچھی عادات سے متاثر ہوکر اُس سے شادی کرلی۔ یوں ننھے ہومر کی فطری شاعرانہ صلاحیتوں کو ایک معلّم کی راہنمائی مل گئی۔
فیمیوس نے مرتے وقت ہومر کو اپنا وارث مقرر کیا۔ ہومر نے چند برس تک فیمیوس کے مدرسے کو بڑی کامیابی کے ساتھ چلایا، یہاں تک کہ ہومر کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ انھی دنوں میں ایک دولت مند سیّاح مینس کا وہاں سے گزر ہوا۔ مینس کو ہومر نے پہلی ہی ملاقات میں اتنا متاثر کیا کہ وہ ہومر کو سفر پر اپنے ہمراہ لے جانے پر بضد ہوا۔ مینس نے ہومر کو سفر کے فوائد بتائے اور اس کی شاعرانہ صلاحیتوں کے لیے سفر کو ضروری قرار دیا۔ یوں ہومر اُس مالدار سیّاح کے ساتھ نگری نگری گھوما۔
ہومر کی نظر شروع دن سے کمزور تھی۔ اُس سفر کے دوران اُس کی بینائی بہت متاثر ہوئی اور ’اتھیکا‘ (یونان) نامی شہر تک آتے آتے ہومر اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اُس نے یولیسس کا قصہ پہلی بار اُسی شہر میں سنا تھا جسے بعد میں اس نے اپنے رزمیہ ’اوڈیسی‘ کی بنیاد بنایا۔ اتھیکا سے وہ سمرنا کی طرف پلٹا اور رات دن محنت کرکے رموزِ شعر پر قدرت حاصل کی۔
اب وہ اندھا تھا اور اُس کا کوئی ذریعۂ معاش نہ تھا۔ آخر مفلسی سے تنگ آکر ہومر اپنے آبائی شہر ’کیومی‘ آگیا جہاں ایک زرہ ساز نے اسے اپنے گھر میں رہنے کو جگہ دی۔ اب وہ اپنی نظمیں بڑے بوڑھوں کی محفلوں میں سناتا اور انعام پاتا تھا۔ اُس زمانے میں کیومی کی ’شہر کونسل‘ میں ہومر کے مستقل ذریعۂ معاش کا سوال پیش ہوا۔ کونسل کے بیشتر ممبران کا یہ موقف تھا کہ ہومر کا وظیفہ مقرر کیا جائے تاکہ وہ کیومی میں رہ کر اپنی شاعری کے ذریعے اس شہر کو دنیا بھر میں معروف کردے۔ لیکن یکلخت ایک بدباطن شخص نے زور دے کر کہا کہ ’’صاحبو، اگر کونسل اس طرح اندھوں کی پرورش کا ذمہ لینے لگے گی تو وہ دن دور نہیں جب یہاں ناکارہ لوگوں کی بھیڑ لگ جائے گی۔‘‘ الغرض شہر کونسل نے وظیفہ دینے سے معذوری کا اظہار کردیا۔
ہومر دل برداشتہ ہوکر وہاں سے چل دیا اور ٹھوکریں کھاتا فوکیبا نامی شہر میں جاپہنچا، جہاں تھسٹورائڈٹس نامی ایک شہرت کے بھوکے شخص نے اِس شرط پر اُس کا روزینہ مقرر کردیا کہ ہومر جو کچھ تخلیق کرے گا وہ تھسٹورائڈٹس کے نام سے مشہور کیا جائے گا۔ ہومر نے مجبوراً یہ کام بھی کیا۔ ایک وقت آیا جب تھسٹورائڈٹس نے اشعار کا کافی سرمایہ جمع کرلینے کے بعد ہومر کو گھر سے نکال باہر کیا۔ اب ہومر اس شہر کو بھی چھوڑکر چل دیا۔
اریتھری نامی مقام پر اُس کی ملاقات ایک گلہ بان سے ہوئی، جو اُسے اپنے آقا کے پاس لے گیا۔ گلہ بان کے آقا نے ہومر کی لیاقت سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کی تربیت کا کام اُسے سونپ دیا۔ ایک بار پھر وہ بطور معلم کے مشہور ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اریتھری کے مقام پر قیام کے دوران اُس نے شادی بھی کی، جس سے اُس کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
اب اس کی اگلی منزل ایتھنز تھی۔ وہ ایک بڑے شہر سے اپنی آواز ساری دنیا تک پہنچانا چاہتا تھا۔ ایتھنز جاتے ہوئے ساموس کے جزیرے میں اس کی بہت قدر افزائی ہوئی اور انعامات سے نوازا گیا۔ موسمِ بہار میں وہ ایتھنز پہنچنے سے پہلے جزیرہ یوس میں سخت بیمار ہوگیا اور یہیں وفات پائی۔ ایتھنز، جزیرہ یوس اور ارکیڈیا کے چرواہے اُس کی تُربت پر آج بھی مستقل حاضری دیتے ہیں۔
مشہور یونانی فلاسفر ارسطو سے منسوب ایک کتاب میں ہومر سے متعلق ایک روایت درج ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ ارکیڈیا کے سمندر کے کنارے ماہی گیروں کی آبادی میں گیا اور سوال کیا کہ:
’’اے ارکیڈیا کے ماہی گیرو! کیا تمھارے پاس کچھ ہے؟‘‘
اِس کے جواب میں انھوں نے ایک پہیلی کہی:
’’جو کچھ ہم نے پکڑا تھا، سو پیچھے چھوٹ گیا۔ جو ہم نے نہیں پکڑا، وہی ہمارے پاس ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ ہومر اس پہیلی کو نہ بوجھ سکا اور اسی غم میں مرگیا۔ شبلی نعمانی نے اپنے سفرنامہ ’سفرنامۂ روم، مصر و شام‘ میں لکھا ہے کہ ہومر کی قبر سمرنا میں ہے۔
166
ہومر سے بہت سی نظمیں منسوب ہیں، لیکن وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تمام نظمیں ہومر کی ہیں بھی یا نہیں۔ اِس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس کی بہت سی نظمیں گم ہوگئیں، جن میں سے ایک مزاحیہ رزمیہ مارجیٹس کا ذکر ارسطو نے کیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہومر کی تمام تر شہرت اُس کی دو طویل نظموں (رزمیوں) ’اوڈیسی‘ اور ’ایلیڈ‘ کے سبب ہے۔
رزمیہ ’ایلیڈ‘ میں ٹرائے کی جنگ کا بیان ہے جو اہلِ یونان اور ٹرائے شہر والوں کے مابین ہوئی۔ اس دس سالہ جنگ میں طرفین کے بڑے نامی دلیر مارے گئے۔ اس لڑائی کا اصل سبب کیا تھا؟ دس برس تک اس کی کیا صورت رہی اور آخرکار اس کا خاتمہ کیوں کر ہوا؟ اِن سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ’ایلیڈ‘ کے ساتھ دوسری کتابوں سے بھی مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ جن لوگوں کے سامنے ہومر نے ان قصوں کو گاکر سنایا ہوگا وہ یقیناًاس جنگ کی اصل حقیقت سے واقف ہوں گے یا کم از کم ۵۵۰ قبلِ مسیح میں ایتھنز کے لوگ اس واقعے سے بخوبی آگاہ رہے ہوں گے۔
’ایلیڈ‘ میں ٹرائے کی جس جنگ کو ہومر نے اپنا موضوع بنایا ہے اس کے بارے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ۱۲۰۰ قبلِ مسیح کا قصہ ہے۔ یہ جنگ ہوئی ضرور تھی گو اصل واقعات اور وجوہ وہ نہ ہوں جو ہومر نے بیان کی ہیں۔ البتہ ہومر کی راہنمائی سے جرمنی کے ایک ماہر آثارِ قدیمہ نے ۱۸۶۸ء میں ٹرائے شہر کو کھود نکالا۔
دوسری نظم (رزمیہ) ’اوڈیسی‘ کا قصہ اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب شہر ٹرائے کو تباہ ہوئے بیس برس گزر چکے تھے۔ یوں ’اوڈیسی‘ کا تعلق تاریخ سے نہیں ہومر کے تخیل سے ہے۔ اس نظم میں یولیسس نامی ایک اولوالعزم بادشاہ کا ذکرِ خاص ہے جو ٹرائے کی جنگ میں شریک تھا۔ اس نظم میں بتایا گیا ہے کہ گھر کی طرف واپسی کے دوران کس طرح طوفان نے اُس کے بحری بیڑے کو کہیں سے کہیں پہنچادیا اور وہ کس طرح دربدر پھرتا آخرکار اپنے وطن پہنچا۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے زبان و بیان میں خاصا فرق پایا جاتا ہے اس لیے اس بات پر بھی ہمیشہ سے بحث ہوتی آئی ہے کہ یہ دونوں نظمیں (رزمیے) ہومر کی تخلیقات ہیں بھی یا نہیں۔
قدیم وقتوں سے ایک نظریہ یہ بھی رہا ہے کہ ’اوڈیسی‘ کسی عورت کی تصنیف ہے۔ آج کل اس نظریے کے سب سے بڑے حامی مشہور انگریزی شاعر اور محقق رابرٹ گریوز ہیں۔ رابرٹ گریوز نے اپنی دو کتابوں \'دی گریک متھس\" اور \'\'ہومرز اڈوٹر\" میں کچھ دلائل بھی پیش کیے ہیں لیکن ان کے خیالات کو بھی حتمی سمجھنا غلط ہوگا، اس لیے کہ اب تو اُن دلائل کے رد میں بھی کئی مضامین لکھے جاچکے ہیں۔
(۲)
بارہ سو سال قبل مسیح میں اہلِ یونان اور اہلِ ٹرائے کے مابین ہونے والی خوں ریز جنگ ’اوڈیسی‘ کا پس منظر ہے۔ اس جنگ کی تفصیل ہومر نے اپنے مشہور رزمیہ ’ایلیڈ‘ میں بیان کی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ ’ٹرائے‘ ایشیائے کوچک میں ایک عظیم الشان سلطنت تھی، جس کا بادشاہ پریام ایک جاں باز مرد تھا۔ پریام کے چھوٹے بیٹے پارس نے سپارٹا (یونان) کے سردار مینیلاؤس کی حسین و جمیل بیوی ہیلن کو مع مال و اسباب کے اغوا کرلیا۔ اس پر مینیلاؤس نے یونان کے تمام سرداروں کو جمع کرکے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے میں مدد چاہی۔ جس کے نتیجے میں یونان کے بڑے بڑے جنگجو سرداروں نے اپنے اپنے لشکر کے ساتھ بحری بیڑے کے ذریعے ٹرائے پر چڑھائی کی۔ اس مہم میں اٹیکا (یونان) کا عظیم جنگجو سردار اوڈسیوس (یولیسس) بھی شریک ہوا اور ٹرائے کی جنگ میں عظیم جنگی ہیرو ایجکس اور اکلیس کے شانہ بشانہ کارہائے نمایاں انجام دیے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد جو یونانی سردار زندہ بچے وہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس ہولیے، مگر اوڈسیوس دیوتاؤں کی ناراضگی کے سبب طویل مدت تک مارا مارا پھرتا رہا۔ ’اوڈیسی‘ میں اُس کی اِس طویل مسافرت کا احوال بیان کیا گیا ہے۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ اہلِ یونان کے لیے بائبل کا درجہ رکھتی ہیں۔ قدیم ایتھنزمیں ہر چار سال بعد ایک بڑا میلہ لگتا تھا، جس میں بادشاہِ وقت ان دونوں رزمیوں کو اسٹیج کرواتے تھے۔ ہومر اُس یونانی تہذیب کا ریکارڈ کیپر ہے، جو ۱۲۳۰ قبل مسیح میں صفحۂ ہستی سے نابود ہوگئی۔ ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ یونانی شاعری کے قدیم ترین نمونوں میں سے ہیں، جن کے زمانۂ تحریر کا تعین نہایت درجہ مشکل ہے۔
اِن دونوں رزمیوں کو قدیم محققین نے ایک ہزار قبل مسیح کی تخلیقات بتایا ہے جب کہ جدید ترین تحقیق ان دونوں رزمیوں کو ۸۰۰ قبل مسیح کی تخلیق بتاتی ہے۔ جدید ماہرینِ لسانیات نے ہومر کی زبان، صرف و نحو اور روزمرہ پر تحقیق کرکے اُس کے حقیقی عہد کی نشان دہی کرنا چاہی تو پتا چلا کہ ہومر نے اپنے زمانے کی زبان لکھی ہی نہیں۔ اُس نے مختلف علاقوں کا بیان کرتے ہوئے مختلف زمانوں کی یونانی زبان کو برتا۔ اِس طرح اس کے اصل عہد تک پہنچنا دشوار ہے۔ جہاں تک روزمرہ استعمال کی چیزوں، رسوم و رواج اور اسلحہ کے بیان کا تعلق ہے تو اس سے بھی محققین کو کوئی خاص مدد نہیں ملتی۔ اس لیے کہ ہومر نے اپنے عہد سے پیچھے ہٹ کر تقریباً چار سو برس پہلے کے واقعات اور کرداروں کو اپنے قصے کے لیے چُنا۔ ٹرائے کی جنگ ۱۲۰۰ قبل مسیح کا قصہ ہے، جس کا بیان ’ایلیڈ‘ میں ہوا جب کہ ’اوڈیسی‘ میں ٹرائے کی جنگ کے بیس برس بعد کے زمانے کو پیش کیا گیا ہے۔
مستند تواریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ ۵۵۰ قبل مسیح میں یونان مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور اس پر مختلف حکمرانوں کی حکومت تھی۔ ایتھنز کا حاکم پئستراتوس تھا، جس نے ’پان آتھینسی‘ نامی ایک قومی تیوہار کو رواج دیا۔ اس تیوہار میں خواص و عوام کا ایک بڑا جلوس ایتھنی دیوی کے مندر تک پیدل چل کر جاتا تھا اور وہاں ہومر کے منظوم قصے/ رزمیے کو سُریلی آوازوں میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ اُن دنوں ہومر کے منظوم قصے مختلف نظموں کی صورت میں ملتے تھے۔ لیکن گاکر سنانے والے اُن قصوں کی باہمی ترتیب اور ربط کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ شاہ پئستراتوس کے حکمِ خاص پر ۵۵۰ قبل مسیح میں ہومر کی نظموں کا ایک سرکاری متن قلم بند کیا گیا۔ یوں ہومر کا کلام ضائع ہونے سے بچ گیا۔
۱۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ ہومر کی دو طویل نظموں یعنی ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کو کتب خانہ اسکندریہ کے ناظم ارستارخوس نے نامور تاریخ دانوں اور محققین کی مدد سے مرتّب کیا۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے تراجم دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ اردو میں ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا اولین تعارف پنجاب ریلیجئس بک سوسائٹی، انارکلی، لاہور (پاکستان) نے ۱۹۲۲ء میں ’الیڈ و اُڈسے‘ کے نام سے خلاصے کی صورت میں پیش کیا تھا۔ جب کہ اردو میں ’اوڈیسی‘ کا پہلا اور تاحال آخری مطبوعہ ترجمہ محمد سلیم الرحمن نے ’جہاں گرد کی واپسی‘ کے نام سے نثر میں کیا ہے، جسے مکتبۂ جدید، لاہور (پاکستان) نے ۱۹۶۴ء میں شائع کیا۔ یاد رہے کہ ’اوڈیسی‘ کا ایک ترجمہ ڈاکٹر اطہر پرویز نے بھی کیا تھا جو تاحال کتابی صورت میں شائع نہیں ہوسکا۔۱؂ ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا کوئی مخصوص سیاسی اور سماجی پس منظر نہیں ہے۔ دو رزمیوں کی صورت لکھے گئے اِس منظوم قصے میں ۸۰۰ تا ۱۰۰۰ قبل مسیح کے یونانی مطلق العنان بادشاہوں کے اہلِ ٹرائے پر غلبہ پانے کے بعد واپسی کا سفر بیان کیا گیا ہے۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا مرکزی کردار اوڈسیوس غلطی سے سمندر کے دیوتا کے بیٹے کی بینائی زائل کردیتا ہے، جس کے سبب اسے طرح طرح کی مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ اس منظوم قصے/ رزمیہ میں ہومر نے خصوصیت کے ساتھ جواں ہمت اوڈسیوس کی محبت، دوستی اور وطن پرستی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ جب کہ عالمِ بالا پر دیوتاؤں کو انسانی مقدر کے فیصلے کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔
اوڈسیوس سورماؤں کے دور کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ انسانی حافظے میں سب سے قدیم یادیں اُسی نیم تاریخی دور (سورماؤں کا دور) سے متعلق محفوظ ہیں، جب انسان نے تاریخ لکھنا شروع نہیں کی تھی۔ اُس وقت انسان اپنی ہی طرح کے (لیکن طاقتور اور باکمال انسانوں کو) ’دیوتا‘ یا ’دیوتاؤں کا اوتار‘ سمجھتا تھا۔ اوڈسیوس مردانہ وجاہت کا پیکر، تدبر کا نمونہ اور تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاح اور قصہ گو بھی ہے۔ وہ دیوتاؤں کا تابع فرمان، دوستوں کا دوست، ظالموں کا دشمن، بیوی بچوں سے محبت کرنے والا، وطن پرست انسان ہے۔ ہومر نے اوڈسیوس کے حوالے سے فانی انسان کی جدوجہد اور تہذیبی ورثے کی تلاش کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ اس منظوم قصے/ رزمیہ میں ہومر نے سفر کو وسیلۂ ظفر قرار دیا ہے۔ ہومر نے اوڈسیوس کے سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے ہمیں اس دنیا کی حقیقتوں سے متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ تخیل اور رومان کی دنیاؤں کی سیر بھی کروائی ہے۔ یوں ہم ایک سے زائد تہذیبوں اور رسوم و رواج سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔
مجموعی اعتبار سے اٹیکا کی ملکہ (یعنی اوڈسیوس کی بیوی پینے لوپیا) اور اس کے عُشّاق کے حوالے سے قدیم یونان کی سیاسی اور سماجی رسومات سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں عالمِ بالا پر زیوس دیوتا کے دربار کی ’دیوتا کونسل‘ سے متعلق بھی معلومات ہاتھ آتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ دیویاں اور دیوتا کس قدر ضدی، خود سر اور کمزور کردار کے حامل ہیں۔ ’اوڈیسی‘ میں ہومر نے ہمیں سائکون اور سائی کلوپس اقوام کی طرزِ معاشرت کے ساتھ ساتھ راس مالیا، جزیرہ لاموس، سورج دیوتا کے مثلث نما خیالی جزیرے، جزیرہ اوگی گیا اور جزیرہ فیاکیا کے علاوہ پاتال سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہومر نے اُس وقت کی معلومہ دنیا اور دوسرے جہان میں روحوں کی حالت سے متعارف کروانے کے ساتھ جزا اور سزا کے تصور پر بھی خیال آرائی کی ہے۔
ہومر کی شاعری سے ہم لوگ ناواقف سہی، تاہم اس کے نام سے ضرور واقف ہیں جب کہ یورپ میں ہومر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بلاشبہ اُسے یورپ کے نظم نگار شعرا کا استاد کہا جاسکتا ہے۔ قدیم یونان میں مشہور قانون داں لائی کرگس اور سولون اس کی نظموں کے ٹکڑے گویّوں سے فرمائش کرکے سنا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عظیم یونانی فلاسفر ارسطو نے اپنے شاگردِ عزیز سکندر اعظم کے لیے ہومر کی ان دو نظموں کے مستند نسخے ایک جلد میں تیار کروائے تھے۔ سکندر اعظم اُس کتاب کو جڑاؤ جزدان میں لپیٹ کر اپنے تکیے کے نیچے رکھتا تھا۔
ہومر کی یہ نظمیں نہ صرف نظم کی شاعری میں اعلا مقام کی حامل ہیں بلکہ یونان کی قدیم تاریخ اور نسب ناموں کا مخزن سمجھی جاتی ہیں۔ جس طرح ایران کے شاعر حافظ کے دیوان سے ہمارے ہاں لوگ فال نکالتے ہیں اُسی طرح ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ میں سے اہلِ یونان فال نکال کر قسمت کا احوال جاننے کی کوشش کرتے تھے۔
یونان اور سارے یورپ کے شاعر ہومر کی رنگیں بیا نی پر سر دُھنتے تھے اور فلاسفر اس کی شاعری میں سے فلسفیانہ مسائل تلاش کرتے تھے۔ یورپ کے مذہبی محقق اور شارحین خاص طور پر صوفی مسلک کے لوگوں نے ہومر کے بیان کردہ قصوں کو روحانی وارداتیں سمجھ کر اُن کی تشریح میں کئی سو کتب لکھیں۔
ہمارے ہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ہومر کے نام سے واقف ہیں، اگرچہ اس کی شاعری بہت کم لوگوں کی نظر سے گزری ہے۔ فارسی شاعر فردوسی اور سنسکرت شاعر والمیک کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں فارسی اور سنسکرت کے ہومر ہیں۔ یوں ہم اپنے شاعروں کی اہمیت بڑھاتے ہیں۔ الغرض جس قدر شہرت اور مقبولیت ہومر کو حاصل ہوئی ہے شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے حصے میں آئی ہو۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شاعر ساری دنیا کا ملک الشعرا کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف ہومر ہے۔
ہومر نے اپنے رزمیہ کے کرداروں کے ذریعے یونان کے عظیم سورماؤں کا تعارف اس طرح کروایا ہے کہ جن لوگوں نے بھی اُس کے اشعار پڑھے، اُن کے دل میں اکلیس ، ہیکٹر اور اوڈسیوس بننے کی اولوالعزمانہ خواہش پیدا ہوئی۔
ڈاکٹر اطہر پرویز لکھتے ہیں:
’’جہاں تک ادب کا تعلق ہے، یونانی ادب کی دو بڑی خصوصیات ہیں، سچائی اور سادگی۔ ایسا نہیں ہے کہ یونانیوں نے دوسروں کے مقابلے میں کم اصنام تراشے ہیں، کم جھوٹ بولا ہے، بلکہ شاید اوروں سے زیادہ ہی۔ لیکن چوں کہ سخن سے خوگر تھے اس لیے اُن کے اصنام میں، اُن کے جھوٹ میں، زندگی کی بڑی سچائیاں ہیں۔ انھوں نے دنیا کو اس طرح دیکھنے کی کوشش کی ہے جیسی کہ وہ ہے۔ اس میں ان کے فلسفے اور سائنس دونوں نے مدد کی۔ ان کے شاعروں نے دنیا دیکھی اور انسانوں کو سمجھا اور برتا۔ کیوں کہ وہ انسانی زندگی کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے یہاں بچوں کی سی اثر پذیری ہے، لیکن ان کے ذہن کے دریچے بڑوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ ۲؂
یوں محبت، دوستی، وطن پرستی اور اپنے آپ کو کسی عظیم مقصد کے لیے وقف کردینے میں جو حسن اور صداقت ہے وہ ہومر کے غیر فانی کرداروں میں پوری طرح بے نقاب ہوگئی ہے۔ یقینی بات ہے کہ اِن عظیم اور محبوب کرداروں کے ساتھ قاری کی رفاقت کا جو احساس پیدا ہوتا ہے اُس سے اُن کے جذبات میں نفاست اور وسعت آجاتی ہے۔ البتہ تمام کرداروں کو ہم اخلاقی سطح پر قابلِ تقلید نمونے نہیں کہہ سکتے۔
ہومر نے اپنے عصر کی بُرائیوں خصوصاً دیوتاؤں کی بے جا پرستش کی مذمت کی ہے۔ اس نے دیوتاؤں کے گِھناونے کردار پیش کرکے انسان کو ’نیم دیوتا‘ یا ’دیوتا‘ کے درجے سے بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں ہومر کو قدیم عہد کے دیگر شعرا پر اس حوالے سے فوقیت دی جاسکتی ہے کہ اس نے انسانی فطرت سے پھوٹنے والے خیالات و احساسات کو خوبی سے پیش کیا ہے۔
ہومر عظیم شاعرانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ گہرے تنقیدی شعور کا مالک بھی تھا۔ ’ایلیڈ‘ ، ’اوڈیسی‘ اور ’مارجیٹس‘ میں پائے جانے والے تنقیدی افکار دنیا بھر کی تنقید کے اولین نمونے کہے جاسکتے ہیں، جن پر بعد کے ناقدین نے اضافے کیے۔ مثال کے طور پر :
(۱) ہومر شاعری کو الہامی قوت قرار دیتا ہے اور اسے دیوتاؤں سے منسوب کرتا ہے۔
(۲) اس کے نزدیک شاعری کا مقصد ’مسرت‘ فراہم کرنا ہے۔
(۳) ہومر کی نظموں سے فریبِ نظر کے عنصر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
(۴) ہومر کے مطابق تخلیقی عمل وسیلیکی تسخیر کرتا ہے۔
(۵) ہومر کے خیال میں شاعر اور موسیقار، شعر کی دیوی کے چہیتے ہیں۔ انھیں بصارت سے محروم کرکے شعر کی دیوی سُریلے نغمات بخش دیتی ہے۔
ہومر کے شعری نظریے اور شاعری کے اثر کے تحت یونان میں مختلف اصنافِ سخن نے فروغ پایا۔ خصوصاً گیت کی صنف پیدا ہوئی، جس کی کوکھ سے اوڈ (Ode) نے جنم لیا اور ’کورس گیت‘ وجود میںآئے۔
ہومر کے تخیل اور فکر نے یونان اور اُس کے بعد پورے یورپ میں علوم و فنون کے میدانوں کو متاثر کیا۔ یوں یورپ نے وہ کارنامے انجام دیے جو آج انسانیت کی معراج ہیں۔ خاص طور پر نشاۃِ ثانیہ کے زمانے میں یونانی ادب اور یونانی فلسفیوں کے نظریات کا یورپ نے براہِ راست اثر قبول کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تُرکوں نے یونانیوں کو شکست دی اور اس کے نتیجے میں یونانی یورپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اُس زمانے میں شیکسپیئر کے ایک ہم عصر شاعر چیپ مین نے ہومر کو ترجمہ کے ذریعے یورپ سے متعارف کروادیا۔ اُس دور میں یونانی رزمیوں خصوصاً ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا اثر یورپی ڈراموں اور داستانوں میں بہت نمایاں ہے۔ اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یورپی ادب میں جس قدر حوالے یونانی اساطیر کے ملتے ہیں وہ سب کے سب ہومر کی شاعری سے مستعار ہیں۔
یورپی اور امریکی ادب پر ہومر کے براہِ راست اثرات کی چند مثالیں دیکھیے:
(۱) انگریزی شاعری کے جدِامجد چاسر کی مشہور نظم \'Troilus and Cresede\' ہومر کی نظم ’ایلیڈ‘ سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔
(۲) ٹینی سن کی اہم ترین نظم ’یولی سس‘ کا بنیادی خیال ’اوڈیسی‘ سے ماخوذ ہے۔ خصوصاً ’لوٹس‘ کے پھول کھانے والے کردار تو ہیں ہی ہومر کی اختراع۔
(۳) کیٹس نے ایک سانیٹ چیپ مین والے ترجمے کو پڑھ کر لکھی۔ اُس سانیٹ پر کیٹس نے ہومر اور چیپ مین کا حوالہ بھی دیا ہے۔
(۴) جیمز جوائس کے ناول ’یولی سس‘ کا بنیادی خیال ’اوڈیسی‘ سے ماخوذ ہے۔
(۵) ہنری جیمز (امریکہ) نے ۱۸۹۵ء تا ۱۹۰۰ء ہومر کے اثرات کے تحت تحیّر آمیز کہانیاں لکھیں۔
(۶) ہرمن میلول کاناول ’موبی ڈک‘ سمندروں کی مہم جوئی سے متعلق ہے۔ ’موبی ڈک‘ میں انسان کا ویل مچھلی سے مقابلہ کرنا، ہمت اور ضبط سے مایوسی اور محرومی پر غلبہ پانا اوڈسیوس کے سمندری سفر کی یاد تازہ کردیتا ہے۔
(۷) نوبل انعام یافتہ ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے (امریکہ) نے اپنی مشہور زمانہ ناول ’بوڑھا اور سمندر‘ میں اوڈسیوس اور غضبناک سمندر کی علامت استعمال کی ہے۔ ایک موقع پر بوڑھا اپنی جوانی کے ہیرو کا ذکر کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ہیرو بیس بال کھیلتا تھا لیکن اس کی ایڑی خراب ہوگئی۔ یہ ’ناکارہ ایڑی‘ کی علامت بھی ہومر سے مستعار ہے۔ ہومر کا جنگی ہیرو اکلیس جب ہیکٹر کو قتل کردینے کے بعد اس کی لاش کو اپنی رتھ سے باندھ کر ٹرائے کے گرد فاتحانہ چکر لگاتا ہے تو اپالو کا بیٹا پیرس، اکلیس کے دشمنوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ’’اکلیس کی ایڑی پر تیر مارو، وہ ناکارہ ہوجائے گا۔‘‘
اسی طرح ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ میں سمندر، تقدیر کی علامت ہے۔ ’بوڑھا اور سمندر‘ از ہیمنگوے میں بھی یہ علامت انھی معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔
(۸) یورپ اور امریکہ کے ادب میں ’ٹروجن ہارس‘ (لکڑی کا گھوڑا) کی علامت (بحوالہ ایلیڈ) ہومر کی اختراع ہے۔ اوڈسیوس، ٹرائے کے قلعے کو فتح ہی ٹروجن ہارس کے ذریعے کرتا ہے۔
(۹) یورپ اور امریکہ کے ادب میں ’ٹروجن ہارس‘ سے متعلق کئی محاورے ملتے ہیں۔ ’بظاہر کچھ اور درحقیقت کچھ‘ کے معنوں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔
(۱۰) ہومر کی ’اوڈیسی‘ کا ایک آنکھ والا آدم خور دیو عالمی ادب میں ایک زندہ کردار بن گیا۔ خود اردو کی بیشتر داستانوں اور حکایتوں میں ایک آنکھ والا دیو ملتا ہے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ ہومر نے آکیائی تہذیب کو سربلند کرنے کی خاطر یہ کردار تراشا۔۳؂
(۱۱) ’اوڈیسی‘ میں سرسے کا ایک خیالی جزیرہ ہومر کی تخلیق ہے۔ آج کے یورپی ادب میں ’سرسے کا جزیرہ‘ ایک علامت کے طورپر ملتا ہے۔
(۱۲) انسان کو ’ناانسان‘ میں بدلنے پر قادر بدی کی طاقت کی علامت عالمی ادب میں پائی جاتی ہے جو درحقیقت ’اوڈیسی‘ کی کرکی جادوگرنی سے ماخوذ ہے۔
(۱۳) اوڈسیوس کی بیوی پینے لوپیا کا انتظار عالمی ادب میں خاوند کے ساتھ وفاشعاری کی ایک علامت بن چکا ہے۔
(۱۴) اسپین کے داستان طراز سروانتس کا ’ڈان کیخوتے‘ مرکزی کردار کی سطح پر اوڈسیوس سے خاصی مشابہت رکھتا ہے۔
(۱۵) یورپ اور امریکہ میں ’اوڈیسی‘ کے خیال کو بنیاد بناکر بچوں اور بڑوں کے لیے لاتعداد فیچر فلمیں بنیں، جن میں سے ویسکس لندن فلمز کی فلم \'\'دی ووڈن ہورس\" (۱۹۵۰ء)، ہالی وڈ، امریکہ کی فلم \'\'ہیلن آف ٹرائے\" (۱۹۵۶ء) اور M.G.M. امریکہ کی فلم \'۲۰۰۰۱،اے اسپیس اوڈیسی\" (۱۹۶۸ء) خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
(۱۶) ہومر کے رزمیہ ’ایلیڈ‘ میں سات الفاظ کی تکرار ہوئی ہے: THUMOS، PHRENES، NOOS، PSYCHI، KARDIE، KER اور ETOR۔ ان الفاظ میں سے پہلے چار الفاظ کا مفہوم ’روح‘ ہے (جب کہ \'Noos\' اور نفس کی صوتی مماثلت بھی قابلِ غور ہے) اور باقی تین یعنی KARDIE، KER اور ETOR کا مفہوم ’دل‘ ہے۔ گویا ’ایلیڈ‘ میں روح اور جسم کی وہ ثنویت پہلی بار اجاگر ہوئی جو بعد ازاں مغربی فلسفے کا بنیادی تنازعہ قرار پائی۔
جولین جینز نے روح اور جسم کی اس ثنویت کے ظہور کے واقعے کو دیوتاؤں کی دنیا کے مقابلے میں انسانوں کی دنیا کے ظہور کا عظیم واقعہ قرار دیا ہے۔ یعنی ’ایلیڈ‘ میں انسان کی قدیم Bicameral Mind کے ٹوٹنے اور شعور (Conscious- ness) کے وجود میں آنے کامنظر بآسانی دیکھا جاسکتا ہے، نیز گزشتہ اڑھائی ہزار برس کے مغربی افکار پر روح اور جسم کی اس ثنویت کا مطالعہ خاص طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔
اب آئیے مشرقی/ ہندوستانی ادبیات کی طرف:
(۱۷) ہومر کی ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے ساتھ ’مہابھارت‘ اور ’رامائن‘ کا تقابلی جائزہ خصوصی توجہ کا طلب گار ہے مثال کے طور پر اوڈیسس ’ایلیڈ‘ کا اہم ترین جنگجو بھی ہے اور ’اوڈیسی‘ کا مرکزی کردار بھی، یعنی ایک ہی کردار دونوں رزمیوں کو ایک بنیادی تار کی طرح پروتا ہے بالکل اسی طرح رامائن کی کہانی اختصار کے ساتھ ’مہابھارت‘ میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح Perses کا کردار ارجن سے مشابہ ہے اور Hesoid کی طرح کرشن مہاراج، ارجن کو دنیا جہان کے معاملات سے متعلق اُپدیش دیتے ہیں۔ چوں کہ کرشن مہاراج دیوتا ہیں اس لیے اس بات کے امکان کو مسترد کرنا مشکل ہے کہ Hesoid کی حیثیت بھی ہومر کے ہاں کم و بیش ایک دیوتا کی سی ہے یا کم از کم دیوتاؤں کی اُس آواز کی سی ہے جو اُس زمانے کے حساس افراد کو اپنے بطون سے سنائی دیتی تھی۔ اسی طرح ہیلن آف ٹرائے، جس کا اغوا ہومر کے ان دو عظیم رزمیوں کی تخلیق کا سبب بنا، سیتا سے مشابہ ہے۔ ہیلن کو پارس نے اغوا کرلیا اور سیتا کو راون نے۔ ہیلن کی بازیابی کے لیے ٹرائے کی جنگ لڑی گئی اور سیتا کے لیے لنکا پر چڑھائی کی گئی۔ اوڈسیوس کی بیوی پینیلوپیا کی وفا شعاری سیتا کی مثالی وفاشعاری سے مماثل ہے، اسی طرح اوڈسیوس کی مہم جوئی، رام کے خود اختیاری بن باس سے ملتی جلتی ہے۔ لاموس اور سرسے کے جزائر لنکا کے جزیرے سے مشابہ ہیں جب کہ سائکون اور یک چشم سائی کلوپس قوم سے ہنومان دیوتا اور اس کی بندر قوم کی طرف خیال جاتا ہے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ خیر اور شر میں سے چناؤ کرتے وقت سائی کلوپس شر کا چناؤ کرتے ہیں اور ہنومان خیر کا۔ بہت ممکن ہے کہ ہندوستانی رزمیوں، بالخصوص رامائن پر ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے اثرات مرتسم ہوئے ہوں۔ یہ قیاس اس لیے بھی کیا جاسکتا ہے کہ چوتھی صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے ہندوستان پر حملہ کیا اور کافرستان وغیرہ کے بعض مقامات پر مستقل رہائش بھی اختیار کی، جس کے نتیجے کے طور پر گندھارا آرٹ کو فروغ ملا۔ یوں اگر آرٹ کی سطح پر ہم نے یونانی اثرات قبول کیے تو ادب کی سطح پر اُن اثرات سے یکسر انکار ممکن نہیں۔
دوسری طرف ’اوڈیسی‘، ’ایلیڈ‘ کے بہت بعد کی تخلیق ہے (یہاں تک کہ اسلوب میں بھی صاف فرق کیا جاسکتا ہے) کہیں ایسا تو نہیں کہ ’رامائن‘ نے ’اوڈیسی‘ پر اثرات مرتسم کیے ہوں؟
(۱۸) اردو ادب میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ’فسانۂ آزاد‘ کا ہیرو آزاد براہِ راست تو نہیں البتہ سروانتس کے ’ڈان کیخوتے‘ کے زیرِ اثر بالواسطہ ہومر کے اوڈسیوس سے مشابہ ہے۔
(۱۹) جعفر طاہر کے اردو کنٹوز مشمولہ ’ہفت کشور‘ پر ہومر کی ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کی کہانی کے اثرات بہت واضح ہیں۔
(۲۰) ہماری داستانوں میں کرکی جادوگرنی اور ایک آنکھ والے دیو سے مشابہت رکھنے والے کردار بہت بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ اسی طرح ہماری داستانوں میں سفر کو وسیلۂ ظفر قرار دینا اور نیک مقصد کے حصول کی خاطر صبر اور ہمت کا مظاہرہ کرنا، نیز ایتھنی دیوی کی طرح مددگار کرداروں کی موجودگی کو ہم ہومر کا براہِ راست اثر تو نہیں کہہ سکتے البتہ دیگر زبانوں خصوصاً فارسی اور عربی کی معرفت ہومر کے یہ اثرات اردو ادب نے بھی قبول کیے ہیں۔ ان مثالوں کو دیکھتے ہوئے کلاسیک کی خواہ کوئی بھی تعریف کی جائے، ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ اُس پر پورا اُترتی ہیں۔ بقول ارنسٹ اوہوزر: ’’صدیاں بیت گئیں، یار لوگ اب تک اوڈیسیوس کی راہوں کو کُریدنے میں مصروف ہیں اور آج کا سیّاح اپنے گائیڈ کی زبانی سائی کلوپس اور سائیرس چٹانوں کا ذکر سن کر صدیوں پیچھے دفن ماضی میں کھو جاتا ہے۔‘‘
حواشی و حوالہ جات:
۱۔ ڈاکٹر اطہر پرویز کے اس ترجمے کا دیباچہ بعنوان ’ہومر کی اوڈیسی کے بارے میں‘ اور ترجمے سے چند اوراق مجلہ ’دائرے‘ علی گڑھ، شمارہ:۲ میں شائع ہوچکے ہیں۔
۲۔ بہ حوالہ ’ہومر کی اوڈیسی کے بارے میں‘ مطبوعہ ’دائرے‘ علی گڑھ، شمارہ:۲۔
۳۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے: ’یونان کا عہدِ جاہلیت اور دیومالا کا ارتقا‘ از رحمان مُذنب، مطبوعہ: سہ ماہی ’اقبال‘ لاہور، بابت اکتوبر ۱۹۶۴ء و اپریل ۱۹۶۵ء۔
qqq
باقی صفحہ ۱۶۲ سے آگے
ریگستانوں میں قطب شمالی یا قطب جنوبی سی برف باری نہیں دکھائی جاسکتی۔ تاہم اگر فکشن کی داخلی منطق اس کا جواز فراہم کرتی ہے تو یہ دیگر بات ہے۔ یہ داخلی منطق بھی واضح اور قابلِ قبول ہونی چاہیے۔ التوائے عدمِ یقین کا بالرضا ہونا اس کی لازمی شرط ہے۔
’’لاہور کا ایک واقعہ‘‘ کا ناقد بالکنایہ التوائے عدمِ یقین پر راضی نہیں۔ حالاں کہ انحراف کی داخلی منطق متن میں واضح طور پر موجود ہے۔ وہ اس لیے راضی نہیں کہ وہ انحراف کو فروعی نہیں اصلی سمجھتا ہے۔ اقبالؔ کا لاہور سے تعلق، سیلف اسٹارٹنگ موٹر کاروں کا ۱۹۳۷ء میں وجود، لاہور میں خانہ بدوش جرائم پیشوں کی موجودگی وغیرہ کی نوعیت اصلی ہے۔ کار کا مخصوص برانڈ، سڑک کا قطعی نام، اقبالؔ کی بیٹھی ہوئی آواز وغیرہ تو فروعی معاملات ہیں۔ انحراف کی نوعیت بھی فروعی ہے۔ مضحکہ خیز بدوضع یہ غیر معمولی نہیں لیکن اصل مصنف کی دوربینی نے ان پر اٹھنے والے سوالات کا اندازہ کرلیا تھا۔ اس لیے اس نے ناقد بالکنایہ کو متن میں داخل کردیا تاکہ التوائے عدمِ یقین مناسب حدود سے تجاوز نہ کرے۔ کہیں نہ کہیں مصنف بالکنایہ پر پابندی لازمی ہے۔ التوائے عدمِ یقین تو ضیافتِ طبع و تفریح کا اجازت نامہ ہے تخلیقیت کا ہمہ گیر اصول نہیں۔
آخر میں ایک بات کا ذکر بہت ضروری ہے۔ ایک کمی ہے جو بے حد کھٹکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک جگہ واحد متکلم راوی کہتا ہے:
’’وہ میرے انداز، لب و لہجہ اور میری حواس باختگی سے شاید سمجھ ہی گئیں کہ میں کوئی چور اُچکّا نہیں۔‘‘
واحد متکلم راوی اپنے ذاتی انداز، لب و لہجے اور حواس باختگی سے کسی دوسرے کردار کی ذہنی رو کا ادراک نہیں کرسکتا۔ وہ عالم کل نہیں اور شاید کا تحفظ بھی اسے حاصل نہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بھی واحد متکلم راوی ’’شاید‘‘ کی آڑ میں عالم کل بن سکتا ہے، یہ ممکن نہیں۔

مرزا حامد بیگ کی کتابیں پڑھنے کے لیے ریختہ کے سرچ باکس میں ان کی کتابوں کا نام ٹائپ کریں، آپ ریخٹہ کے ویڈیو سیکشن میں ان کا انٹرویو بھی سن سکتے ہیں۔


4 comments: