(1)
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ نیند ہے اور ہم
ہیں۔ یعنی نیند کے لئے ہمیں اور ہمارے لئے نیند کو بنایا گیا ہے، لہذا اشیائے خورد
و نوش کے علاوہ جو شئے ہمیں از حد مرغوب ہے وہ نیند۔ ہم کھاتے ہیں ، سوتے ہیں ور
جب تھک جاتے ہیں، کھانے اور سونے سے، پھر سوتے ہیں۔ابھی حال ہی میں ایکمعالج نے
ہمارا قلب،(باطن نہیں) دیکھ کر فرمایا کہ ہمیں صبح و شام بیس منٹ تک چہل کرقدمی
کرنے کی از حد ضرورت ہے، پس اس روز سے ہم ارادہ باندھ لیا کہ ہم چہل قدمی کریں
گے۔تاہم چہل قدمی کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ یہ کم بخت نیند میں ہو نہیں سکتی۔لہذا
نیہم نے نیت باندھ رکھی ہے کہ چہل قدمی کریں گے اور ضرور کریں گے، اب کب کریں گے
اس کے متعلق ہمیں معلوم نہ پڑاتو دوسروں کو کیسے؟
سو کہنے کی غرض و غایت یہ ہے کہ ایک روز علی
الصبح ساڑھے گیارہ بج جب ہم ، خودہم، سو رہے تھے کہ اچانک ہم ، خود ہم، جاگ
اٹھے۔ہڑبڑائے اور کیا دیکھتے ہیں کہ بستر پہ دراز ہیں۔خیر جلد ی جلدی معلوم کرنے
کی کوشش کی کہ جاگے کیوں ہے؟ بعداز سوچ بچار معلوم ہوا کہ ہمارا موبائل بج رہا ہے
بلکہ اس کی لَے بج رہی ہے۔اس کم بخت موبائل میں خرابی یہ ہے کہ اس میں نام اور
نمبر چھپائے نہیں چھپتے ورنہ ہم اسے ، فون کی آمد کو،کسی یار ِ طرحدار و ناہنجار
کی شرارت سمجھ کر نظر انداز کر دیتے اور دوبارہ سو جاتے۔پہلے یہی سوچا کہ دوبارہ
سو ہی جائیں ، آخر موبائل ہی تو ہے، کوئی کوہ ِ نور ہیرا تو نہیں، کیوں اس کے لئے
اپنی نیند خراب کی جاوے لیکن دیکھا کہ لندن سے ایک عزیز کا فون ہے پس پھر سوچا تاج
ِ برطانیہ کا مسئلہ ہے، ہمیں ویسے بھی تخت و تاج سے ایک خاص علاقہ ہے اور بادشاہت
سے روحانی تعلق ِ خاطر۔ اور فی زمانہ بادشاہتیں ہی کل کتنی بچی ہیں، لے دے کہ محض
چار پانچ ہی تو ہیں سوائے ہمارے عرب بادشاہوں کے جنہیں ہم اس لئے عزیز ہیں کہ انہیں
بھی ہماری طرح نیند سے روحانی تعلق ہے۔یہی کچھ سوچا اور فون اٹھا لیا۔پہلے انہوں
نے ہماری خیریت دریافت کی بعدازاں ہم نے اُن کی۔پہلے انہوں نے ہماری بے پناہ یاد
کا ذکر کیا بعدازاں ہم نے بھی کہا رات ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ آپ کی یاد
دل میں کھوئی ہوئی سی آئی اس طرح کہ جیسے کسی ویران اور گنجان علاقہ میں اچانک
بہار آجائے جس طرح ہمارے فلموں میں گیتوں کے دوران دفعتاً ہیرو اور ہیروئین کے
چاروں طرف رنگ برنگے لباس والی خواتین وارد ہو جاتی ہیں۔پہلے انہوں نے نا مساعد
حالات اوردنیا کی بے ثباتی کا رونا رویا بعدازاں ہم نے اپنا غم واندوہ بیان کیا
اور قوم و ملت کے درر اور اردو زبان کی خدمت میں روز افزوں نحیف و لاغر ہو جانے کے
متعلق کہا۔جب ہم ایک دوسرے کا حال احوال بیان کرکے خوب سیر ہو چکے تو ہم نے دریافت
کیا کہ میاں یہ شور کیسا؟ بھانت بھانت کی بولیاں؟قہقہے اور ہنسی کیسی؟جواب میں
بولے کہ ’’ میں اس وقت لندن کے ہائیڈ پارک میں ہوں‘‘
پس عزیزو! یہیں سے ہماری پریشانیوں کا آغاز
ہوا۔ ہمیں یاد آیا کہ یہ لندن کا ایک معروف اور تاریخی پارک ہے۔جس کی انفرادیت یہ
ہے کہ اس میں ایک اسپیکرز کارنر،یعنی بولنے اور خوب بولنے کا گوشہ مختص ہے جہاں جو
بھی منہ میں زبان رکھتا ہے اپنے مند پسند موضوع پر اظہار ِ خیال کرکے اپنے دل کی
بھڑاس نکال سکتا ہے اور بھڑاس نکالنے کے تو آپ کو معلوم ہے کس قدر فائدے ہیں۔ہم
ہائیڈ پارک میں گئے تو نہیں البتہ اس کے متعلق خوب خوب معلومات رکھتے ہیں، خواب
میں البتہ اس کی چہل قدمی کی ہے،اسے یوں سمجھا جائے کہ ہم لندن نہیں گئے ہاں ہائیڈ
پارک ضرور جا چکے ہیں۔اُردو کے تمام بڑے ادیب و شاعر یہاں کی سیر کر چکے ہیں جن
میں انشاؔ جی،فیضؔ، قدرت اللہ شہاب،اشفاق احمد وغیرہ۔ اور فی زمانہ تو ہمارے کئی
ادیب وہیں،لندن میں، ہی مقیم ہیں اور ہر روز ہائیڈ پارک جاتے ہیں ۔اب صرف ہم ہی اس
کی سیر سے محروم ہیں،اس بارے اردو الوں کو کچھ سوچنا چاہیے۔اگر کوئی بھی اکادمی،
انجمن یا ادارہ ہمیں لندن لے جانا چاہے تو ہمیں چنداں اعتراض نہ ہوگا۔گوہمیں صرف
سفر سے سخت حذر ہے خاص کر ہوائی۔ لیکن اردو کی خدمت کے جذبے کے تحت ہم یہ بھی
گوارا کرنے کو تیار ہیں لیکن قارئین کرام ! یہ بات ہم نے صرف اور صرف آپ سے کہی
ہے آپ بھی کسی سے کہیے گا نہیں ورنہ عوام الناس میں یہ تاثر جائے گا کہ اردوکی
خدمت کے نام پر ہم خدانخواستہ سیر سپاٹے کا شوق رکھتے ہیں۔ہاں اگر خاموشی سے اردو کے
کارکنان ِ قضا و قدر تک یہ بات پہنچا دی جائے تو کوئی مضائفہ نہیں۔
ہائیڈ پارک غالباً اٹھارہویں صدر میں بنایا
گیا تھا اور اسی صدی میں موئے فرنگیوں نے اس میں آزادی ٔ اظہار کے نام پر اسپیکرز
کارنر کا آغاز کر دیا۔فرنگیوں کی یہ چال بڑی کامیاب رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
اس پارک میں جو چاہے آزادی ٔ اظہار کے گھوڑے کو دوڑا سکتا ہے۔بعضے سننے والے اسے
نظر انداز کر جاتے ہیں اور بعضے انہماک سے سن لیتے ہیں۔بس معاملہ دل کی بھڑاس کا
ہی ہے،اس کے، بھڑاس کے، نکلنے کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں۔سب سے
بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اس کے ، بھڑاس کے، نکلنے سے تیرو تلوار چلانے یا نکلنے کے
امکانات ختم ہو جاتے ہیں اور یہی اس کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ
لندن میں کہیں تیر و بھالے نہیں چلتے، نہ کہیں بھاگ دوڑ، نہ گالی
گلوچ،۔پولیس فارغ بیٹھی رہتی ہے اور منشی صاحب تھانے میں میز پہ سر رکھے جماہیاں
لیتے رہتے ہیں، کوئی شور وشر نہیں۔کوئی نعرے بازی نہیں۔پتھرائو اور سنگ باری تو
بالکل نہیں۔توبہ ہے بھئی! ہم ایسے ملک میں ایک دن نہ رہ سکیں۔پتہ نہیں یہ فرنگی کس
مٹی سے بنے ہیں۔ یہ احوال ہم نے سن رکھا ہے اصل کیا ہے یہ تو وہاں جا کر ہی معلوم
پڑے گا،اس لئے اردو کے بہترین مفاد، اور قوم کی فلاح و بہبود کے لئے ہمارا لندن
جانا بے حد ضروری ہے تاکہ ہم دیکھیں اور عبرت حاصل کریں اور بعدازاں ایک سفرنامہ
لکھیں جس سے اردو زبان کو تقویت حاصل ہو۔اگر ایسا انتظام ہو جائے تو وہاں کی کسی
اکادمی سے بات کرکے ہمارے لیکچر وکچر کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے سکہ
رائج الوقت کے سوا کوئی معاوضہ ہم پہ حرام۔دوچار ایسی تقریبات اردو زبان کے لئے
فائدہ مند ہوں گی۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ ہم تو فقیر منش ہیں،ہمیں دولت شہرت اور
سیر سپاٹے کا کوئی شوق نہیں، ہمارے متعلق مرزا نوشہ کہہ چکے کہ’’ نہ ستائش کہ تمنا
نہ صلہ کی پرواہ‘‘۔لہذا اہمارے اس نصف کالم کو اہل اردو ایسے کسی دعوت نامہ کے
قبول ہونے کی رسید تصور کریں۔
اس کالم کو خالد کرار نے تحریر کیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے ویب سائٹ