اور پھر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا
یعنی ہم نے پھر ایک خواب دیکھا اور وہ سچ ثابت ہوا۔گو کہ خواب دیکھنے کی ہمیں قبلہ پیر و مُرشد کی جانب سے سخت ممانعت تھی لیکن حیف کہ ہم باوجود کوشش اسے، خواب کو، آنے سے نہیں روک پائے۔ہمارے پیر و مُرشد حضرت علامہ بالشرارت متقی کراماتی مضافاتی اور اشرف المخلوقاتی نے ہمارا ہاتھ،داہنا،دیکھ کر فرما دیا تھا کہ تم خواب مت دیکھنا،کہ اس سے نتائجِ بد کا اندیشہ ہے۔ ہم ذرا پریشان ہوئے کہ بقول مرزا نوشہ اب ہم خواب میں بھی بوسہ لینے سے رہے، اور عرض کیا کہ اے حضرت! اس میں، خواب نہ دیکھنے میں، کیا مصلحت ہے، بارے تفصیلی بیان ہو جاوے۔اس پہ قبلہ پیرو مُرشد کامل وعاقل و بالغ نے پہلے تو اس گستاخانہ رویے پر سرزنش کی اور بعدازسرزنش فرمایا کہ دیکھو تمہارا مشتری کا ستارہ زہرہ کے زیر اثر ہے، اور وہ مریخ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے، مریخ کا سایہ میونسپلٹی کے زیر قبضہ ہے، دریں اثناء عطارد ان سب پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے، جب تک یہ اسے ٹکٹی باندھے دیکھتا رہے گا اس کا اثر تمہارے روزہ مرہ پر رہے گا۔بطور خاص تمہاری’ خوابی دُنیا ‘ متزلزل رہے گی۔لہذا تمہارے لئے مشورہ بلکہ حکمِ مُرشدِ مرادات یہ ہے کہ تم تا حکمِ ثانی خوابوں سے بچے رہو، یعنی انہیں، خوابوں کو، دیکھنے سے گریز کرو۔بصورتِ دیگر تمہیں سب خواب بلیک اینڈ وائٹ نظر آئیں گے اور تاثیر و تعبیر دونوں میں بد ہوں گے۔یہ کہہ کہ ہمارے قبلہ پیرو مرشد نے اس زور سے ہمارا ہاتھ جھٹکا کہ ہمیں اپنے کاندھے کی ہڈی کھسکنے کی آواز صاف سنائی دی۔ہمارے منہ سے بیساختہ آہ نکلی لیکن مرشدِ کامل کے کان پر جوں تک نہ رینگی(جوں کا نہ رینگنا بھی ایک کرامت شمار کی جائے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ موصوف کو پانی سے کس قدر پرہیز ہے)۔پیر ومرشد بدستور چلم کے کش لگاتے رہے۔ایک خادم جو اس دوران چلم میں جانے کیا ڈالے جارہا تھا جس کے زیرِ اثر ان کا جلال دیدنی تھا۔ہمارا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ کوئی ایسا لوبان ہے جس سے قوم و ملت کا غم جاتا رہے، واللہ اعلم بالصواب۔ہم نے ہڈی کھسکنے کی آواز کو اپنے مرشدِ کامل وعاقل و بالغ کی کرامت سمجھا اور ایسا کوئی خیالِ بد اپنے دل میں نہ آنے دیا کہ یہ موصوف کی جسمانی طاقت کا کمال ہے کہ جو پچہتر کے پیٹے میں ہونے کے باوجود ہمارے ایسے جوان الملا عمر ٹائپ کو اتنی آسانی سے جھٹک دیا۔دریں اثنا کش لگاتے اور شامی کباب کھاتے رہے۔یکایک انہوں نے تالی بجائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خادم دست بستہ حاضر ہوا، موصوف نے ان کے، خادم کے، کان میں کچھ فرمایا جس کے اثر سے اس کی، خادم کی، آنکھیں سرخ اور سر کے بال کھڑے ہو گئے ۔ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ماجرا کیا ہے کہ خادمِ خاص کا ہاتھ ہمارے کالر پر تھاجس کے نتیجے میں ہم دروازے کے باہر۔پس اس روز سے ہم نے خواب دیکھنا ترک کر دیا۔ ویسے بھی حضرت پیر و مرشد صاحب کو خواب دیکھنے، کتابیں پڑھنے اور کھوج پرکھ کرنے والوں کی حالتَ زار دیکھ کر سخت صدمہ پہنچتا ہے۔کہتے ہیں کہ موصوف علم حاصل کرنے کے لئے چین جانے کی تاکید کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ وہاں جا کر پڑھنے مت بیٹھ جانا۔جو کچھ ہم نے سمجھایا بجھایا ہے وہی اصل ہے باقی سب نقل۔
پس اے عزیزو! حضرت کی مشترہ زہرہ عطارد اور مریخ کی گتھی ہمارے پلے نہ پڑنی تھی نہ پڑی۔لیکن ہم نے خوا ب نہ دیکھنے کا عزم بالجزم کر لیا اور پختہ نیت باندھ لی کہ حضرت کے حکم سے ایک انچ اِدھر نہ اُدھر کھسکیں گے۔اس کے لئے، خواب نہ دیکھنے کے لئے، ہم نے زبردست مشق بہم پہنچائی اور دنوں بلکہ ہفتوں تک نیند کی شری دیوی کا منہ نہیں دیکھا۔یہ ہمارے عزم و ہمت کا ہی کمال تھا کہ جو ں ہی ہماری پلکیں بھاری ہونے لگتیں ہم جھٹ سے ایک زوردار طمانچہ اپنے گال پہ جڑ دیتے بلکہ بعضے دفعہ تو ہم نے گاندھی جی کا مقولہ سچ ثابت کرنے کے لئے بعد از طمانچہ فی الفور خود کو دوسرا گال بھی پیش کر دیا اور ایسا کرکے ہم اپنا سا منہ لیکے رہ گئے کہ آخر ہاتھ اپنا تھا،گال اپنا، نیند اپنی تھی خواب اپنے۔چند روز تک تو یہ معمول رہا تاہم بعدازاں یہ دِقت آئی کہ اپنے ہی گال پہ طمانچے کی طاقت نہ رہی۔’ضعف میں طعنۂ اغیار‘ کا شکوہ بھی جاتا رہا۔حتیٰ کہ ہمیں بھی حضرت کی طرح اس ،طمانچہ کے لئے،ایک عدد خادمِ خاص رکھنا پڑا۔پس جونہی ہماری پلکیں بوجھل ہونے لگتیں،خادمِ طمانچہ زوردار انداز میں ایک دائیں اور دوسرا بائیں گال پر جڑ دیتے۔اس سے کچھ روز تو افاقہ رہاحتیٰ کہ پہلے ہفتے کی تنخواہ لینے کے بعد خادمِ طمانچہ بھی تائب ہو گئے اور ہمیں ایک ہونہار طمانچہ بردار سے محروم ہونا پڑا۔ بعد از تحقیق ان کے،طمانچہ بردار کے، متعلق معلوم ہوا کہ موصوف ایک سیاسی جماعت سے وابستہ تھے اور انہیں پارٹیاں بدلنے کی خاص مہارت ہے۔پس اے بادشاہو! ہم نے خود اپنی سی کوششیں جاری رکھیں لیکن حیف کہ ہم ناکام ہوئے اور نیند نے ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔بعضے دفعہ تو ایسا ہو اکہ نیند کی شری دیوی تشریف لائیں تو ہم نے دست بستہ دیوی جی کو پرنام کیا اور عرض کیا کہ دیکھئے محترمہ آپ تشریف لائیں، دیدہ و دل فرشِ راہ۔ لیکن معاف کیجئے ہم پہلے بتائے دیتے ہیں کہ ہم ہر گز ہرگز کوئی خواب نہ دیکھیں گے۔پہلے پہل تو یہ تدبیر کارگر رہی بعدازاں گاہ بہ گاہ خواب آنے لگے۔ایک دن ہم نے، خود ہم نے، خواب میں دیکھا کہ ہم، خود ہم، اپنے ایک ہمسائے کے ہاں دعوت میں شریک ہیں۔کچھ روز بعد معلوم پڑا ہاں دعوت ہی تھی۔یعنی ان کی،ہمسائے کی،دختر نیک اختر از خود والدین کا بوجھ کم کرتے ہوئے ایک چھابڑی والے سے بلاتکلف منکوحہ ہو گئیں اور بعدازاں شوہرِ نامدار سمیت والدین کی خیر و عافیت دریافت کرنے پہنچیں۔اس موقعہ پر بڑی پُر لطف ضیافت ہوئی۔ہم نے تو نہیں کھائی تاہم جنہوں نے کھائی انہیں دوبارہ کھانے کی للک ہے۔اللہ اللہ ! اسے کہتے ہیں جدت۔ایک اور خواب ہم نے دیکھا یعنی ہمارے یارِ طرحدار و ناہنجار حضرت اسکندریارزعفرانی کی ترقی ہوئی ہے۔جاگتے ہی نہار منہ ان کے گھر پہنچے کہ مبارک باد پیش کریں اور ان سے، یار زعفرانی سے، چائے پانے کا سابقہ حساب بھی چکتا کریں لیکن معلوم پڑاکہ زعفرانی کو تو مسلسل غیر حاضریوں پر معطل کر دیا گیا ہے۔اپنا سا منہ لیکر واپس لوٹے لیکن ایسے کچھ واقعات کے مشتہر ہونے سے نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے پاک و صاف کردار پہ حاسدوں نے خوب خوب کیچڑ اچھالا۔کم بخت ان دنوں بارشیں بھی بہت ہو رہی تھیں اس لئے جس کے ہاتھ میں جتنا آیا، کیچڑ، اس نے ہماری ذات پہ دے مارا۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارا کردار آئینہ کی طرح ہے جس کی قلعی کھل چکی ہے۔
عزیزو! خواب تو آخر خواب ہیں۔یہ ’’ خواب مرتے نہیں‘‘ کہ مصداق جونہی موقعہ ملے جھٹ سے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر پیر و مرشد کی پیش گوئی کے عین مطابق بلیک اینڈ وائٹ اور تاثیر و تعبیر میں بد ثابت ہوتے ہیں۔ابھی کچھ ماہ پہلے ہم نے ایک خواب دیکھا کہ ہمیں جاپان کا وزیر اعظم بنا دیا گیاہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں، جاپان میں، زبردست زلزلہ آیا، ہمارے ان دوستوں نے جنہیں ہم اپنا یہ خواب سنا چکے تھے ہمیں خوب لعن طعن کی کہ بھئی تمہارے باعث یہ سب تباہی ہوئی ہے۔ہم خواب دیکھتے رہے اور دوستوں کو سناتے رہے ۔پس نتیجہ یہ ہوا کہ یاروں نے ہمیں منحوسِ خوابی قرار دیکر ہلمارا ناطقہ بند کر دیا جو ہنوز بند ہے۔دیکھئے کب کھلتا ہے۔
اب ہم نے عہد کر لیا ہے کہ خواب دیکھیں تو کسی کو سنائیں گے نہیں۔اب یہی دیکھئے کہ کل ہم نے ، خود ہم نے،خواب دیکھا کہ ہم، خود ہم، خواب دیکھ رہے ہیں۔ آگے کا احوال ہماری ایک پرانی نظم کے ایک بند میں ملاحظہ فرمائیں:
’’کوئی ایسے عالم میں
میری بند پلکوں پر
اپنے ہاتھ رکھتا ہے
اک شناسا خوشبو سے
اک کھنک کے جادو سے‘‘
.............قارئین! یہ بات ہم نے آپ کو اپنا سمجھ کر بتائی ہے۔لللہ اسے ہماری بیگم سے مت کہیے گا۔
skkarrar@gmail.com
یعنی ہم نے پھر ایک خواب دیکھا اور وہ سچ ثابت ہوا۔گو کہ خواب دیکھنے کی ہمیں قبلہ پیر و مُرشد کی جانب سے سخت ممانعت تھی لیکن حیف کہ ہم باوجود کوشش اسے، خواب کو، آنے سے نہیں روک پائے۔ہمارے پیر و مُرشد حضرت علامہ بالشرارت متقی کراماتی مضافاتی اور اشرف المخلوقاتی نے ہمارا ہاتھ،داہنا،دیکھ کر فرما دیا تھا کہ تم خواب مت دیکھنا،کہ اس سے نتائجِ بد کا اندیشہ ہے۔ ہم ذرا پریشان ہوئے کہ بقول مرزا نوشہ اب ہم خواب میں بھی بوسہ لینے سے رہے، اور عرض کیا کہ اے حضرت! اس میں، خواب نہ دیکھنے میں، کیا مصلحت ہے، بارے تفصیلی بیان ہو جاوے۔اس پہ قبلہ پیرو مُرشد کامل وعاقل و بالغ نے پہلے تو اس گستاخانہ رویے پر سرزنش کی اور بعدازسرزنش فرمایا کہ دیکھو تمہارا مشتری کا ستارہ زہرہ کے زیر اثر ہے، اور وہ مریخ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے، مریخ کا سایہ میونسپلٹی کے زیر قبضہ ہے، دریں اثناء عطارد ان سب پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے، جب تک یہ اسے ٹکٹی باندھے دیکھتا رہے گا اس کا اثر تمہارے روزہ مرہ پر رہے گا۔بطور خاص تمہاری’ خوابی دُنیا ‘ متزلزل رہے گی۔لہذا تمہارے لئے مشورہ بلکہ حکمِ مُرشدِ مرادات یہ ہے کہ تم تا حکمِ ثانی خوابوں سے بچے رہو، یعنی انہیں، خوابوں کو، دیکھنے سے گریز کرو۔بصورتِ دیگر تمہیں سب خواب بلیک اینڈ وائٹ نظر آئیں گے اور تاثیر و تعبیر دونوں میں بد ہوں گے۔یہ کہہ کہ ہمارے قبلہ پیرو مرشد نے اس زور سے ہمارا ہاتھ جھٹکا کہ ہمیں اپنے کاندھے کی ہڈی کھسکنے کی آواز صاف سنائی دی۔ہمارے منہ سے بیساختہ آہ نکلی لیکن مرشدِ کامل کے کان پر جوں تک نہ رینگی(جوں کا نہ رینگنا بھی ایک کرامت شمار کی جائے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ موصوف کو پانی سے کس قدر پرہیز ہے)۔پیر ومرشد بدستور چلم کے کش لگاتے رہے۔ایک خادم جو اس دوران چلم میں جانے کیا ڈالے جارہا تھا جس کے زیرِ اثر ان کا جلال دیدنی تھا۔ہمارا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ کوئی ایسا لوبان ہے جس سے قوم و ملت کا غم جاتا رہے، واللہ اعلم بالصواب۔ہم نے ہڈی کھسکنے کی آواز کو اپنے مرشدِ کامل وعاقل و بالغ کی کرامت سمجھا اور ایسا کوئی خیالِ بد اپنے دل میں نہ آنے دیا کہ یہ موصوف کی جسمانی طاقت کا کمال ہے کہ جو پچہتر کے پیٹے میں ہونے کے باوجود ہمارے ایسے جوان الملا عمر ٹائپ کو اتنی آسانی سے جھٹک دیا۔دریں اثنا کش لگاتے اور شامی کباب کھاتے رہے۔یکایک انہوں نے تالی بجائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خادم دست بستہ حاضر ہوا، موصوف نے ان کے، خادم کے، کان میں کچھ فرمایا جس کے اثر سے اس کی، خادم کی، آنکھیں سرخ اور سر کے بال کھڑے ہو گئے ۔ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ماجرا کیا ہے کہ خادمِ خاص کا ہاتھ ہمارے کالر پر تھاجس کے نتیجے میں ہم دروازے کے باہر۔پس اس روز سے ہم نے خواب دیکھنا ترک کر دیا۔ ویسے بھی حضرت پیر و مرشد صاحب کو خواب دیکھنے، کتابیں پڑھنے اور کھوج پرکھ کرنے والوں کی حالتَ زار دیکھ کر سخت صدمہ پہنچتا ہے۔کہتے ہیں کہ موصوف علم حاصل کرنے کے لئے چین جانے کی تاکید کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ وہاں جا کر پڑھنے مت بیٹھ جانا۔جو کچھ ہم نے سمجھایا بجھایا ہے وہی اصل ہے باقی سب نقل۔
پس اے عزیزو! حضرت کی مشترہ زہرہ عطارد اور مریخ کی گتھی ہمارے پلے نہ پڑنی تھی نہ پڑی۔لیکن ہم نے خوا ب نہ دیکھنے کا عزم بالجزم کر لیا اور پختہ نیت باندھ لی کہ حضرت کے حکم سے ایک انچ اِدھر نہ اُدھر کھسکیں گے۔اس کے لئے، خواب نہ دیکھنے کے لئے، ہم نے زبردست مشق بہم پہنچائی اور دنوں بلکہ ہفتوں تک نیند کی شری دیوی کا منہ نہیں دیکھا۔یہ ہمارے عزم و ہمت کا ہی کمال تھا کہ جو ں ہی ہماری پلکیں بھاری ہونے لگتیں ہم جھٹ سے ایک زوردار طمانچہ اپنے گال پہ جڑ دیتے بلکہ بعضے دفعہ تو ہم نے گاندھی جی کا مقولہ سچ ثابت کرنے کے لئے بعد از طمانچہ فی الفور خود کو دوسرا گال بھی پیش کر دیا اور ایسا کرکے ہم اپنا سا منہ لیکے رہ گئے کہ آخر ہاتھ اپنا تھا،گال اپنا، نیند اپنی تھی خواب اپنے۔چند روز تک تو یہ معمول رہا تاہم بعدازاں یہ دِقت آئی کہ اپنے ہی گال پہ طمانچے کی طاقت نہ رہی۔’ضعف میں طعنۂ اغیار‘ کا شکوہ بھی جاتا رہا۔حتیٰ کہ ہمیں بھی حضرت کی طرح اس ،طمانچہ کے لئے،ایک عدد خادمِ خاص رکھنا پڑا۔پس جونہی ہماری پلکیں بوجھل ہونے لگتیں،خادمِ طمانچہ زوردار انداز میں ایک دائیں اور دوسرا بائیں گال پر جڑ دیتے۔اس سے کچھ روز تو افاقہ رہاحتیٰ کہ پہلے ہفتے کی تنخواہ لینے کے بعد خادمِ طمانچہ بھی تائب ہو گئے اور ہمیں ایک ہونہار طمانچہ بردار سے محروم ہونا پڑا۔ بعد از تحقیق ان کے،طمانچہ بردار کے، متعلق معلوم ہوا کہ موصوف ایک سیاسی جماعت سے وابستہ تھے اور انہیں پارٹیاں بدلنے کی خاص مہارت ہے۔پس اے بادشاہو! ہم نے خود اپنی سی کوششیں جاری رکھیں لیکن حیف کہ ہم ناکام ہوئے اور نیند نے ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔بعضے دفعہ تو ایسا ہو اکہ نیند کی شری دیوی تشریف لائیں تو ہم نے دست بستہ دیوی جی کو پرنام کیا اور عرض کیا کہ دیکھئے محترمہ آپ تشریف لائیں، دیدہ و دل فرشِ راہ۔ لیکن معاف کیجئے ہم پہلے بتائے دیتے ہیں کہ ہم ہر گز ہرگز کوئی خواب نہ دیکھیں گے۔پہلے پہل تو یہ تدبیر کارگر رہی بعدازاں گاہ بہ گاہ خواب آنے لگے۔ایک دن ہم نے، خود ہم نے، خواب میں دیکھا کہ ہم، خود ہم، اپنے ایک ہمسائے کے ہاں دعوت میں شریک ہیں۔کچھ روز بعد معلوم پڑا ہاں دعوت ہی تھی۔یعنی ان کی،ہمسائے کی،دختر نیک اختر از خود والدین کا بوجھ کم کرتے ہوئے ایک چھابڑی والے سے بلاتکلف منکوحہ ہو گئیں اور بعدازاں شوہرِ نامدار سمیت والدین کی خیر و عافیت دریافت کرنے پہنچیں۔اس موقعہ پر بڑی پُر لطف ضیافت ہوئی۔ہم نے تو نہیں کھائی تاہم جنہوں نے کھائی انہیں دوبارہ کھانے کی للک ہے۔اللہ اللہ ! اسے کہتے ہیں جدت۔ایک اور خواب ہم نے دیکھا یعنی ہمارے یارِ طرحدار و ناہنجار حضرت اسکندریارزعفرانی کی ترقی ہوئی ہے۔جاگتے ہی نہار منہ ان کے گھر پہنچے کہ مبارک باد پیش کریں اور ان سے، یار زعفرانی سے، چائے پانے کا سابقہ حساب بھی چکتا کریں لیکن معلوم پڑاکہ زعفرانی کو تو مسلسل غیر حاضریوں پر معطل کر دیا گیا ہے۔اپنا سا منہ لیکر واپس لوٹے لیکن ایسے کچھ واقعات کے مشتہر ہونے سے نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے پاک و صاف کردار پہ حاسدوں نے خوب خوب کیچڑ اچھالا۔کم بخت ان دنوں بارشیں بھی بہت ہو رہی تھیں اس لئے جس کے ہاتھ میں جتنا آیا، کیچڑ، اس نے ہماری ذات پہ دے مارا۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارا کردار آئینہ کی طرح ہے جس کی قلعی کھل چکی ہے۔
عزیزو! خواب تو آخر خواب ہیں۔یہ ’’ خواب مرتے نہیں‘‘ کہ مصداق جونہی موقعہ ملے جھٹ سے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر پیر و مرشد کی پیش گوئی کے عین مطابق بلیک اینڈ وائٹ اور تاثیر و تعبیر میں بد ثابت ہوتے ہیں۔ابھی کچھ ماہ پہلے ہم نے ایک خواب دیکھا کہ ہمیں جاپان کا وزیر اعظم بنا دیا گیاہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں، جاپان میں، زبردست زلزلہ آیا، ہمارے ان دوستوں نے جنہیں ہم اپنا یہ خواب سنا چکے تھے ہمیں خوب لعن طعن کی کہ بھئی تمہارے باعث یہ سب تباہی ہوئی ہے۔ہم خواب دیکھتے رہے اور دوستوں کو سناتے رہے ۔پس نتیجہ یہ ہوا کہ یاروں نے ہمیں منحوسِ خوابی قرار دیکر ہلمارا ناطقہ بند کر دیا جو ہنوز بند ہے۔دیکھئے کب کھلتا ہے۔
اب ہم نے عہد کر لیا ہے کہ خواب دیکھیں تو کسی کو سنائیں گے نہیں۔اب یہی دیکھئے کہ کل ہم نے ، خود ہم نے،خواب دیکھا کہ ہم، خود ہم، خواب دیکھ رہے ہیں۔ آگے کا احوال ہماری ایک پرانی نظم کے ایک بند میں ملاحظہ فرمائیں:
’’کوئی ایسے عالم میں
میری بند پلکوں پر
اپنے ہاتھ رکھتا ہے
اک شناسا خوشبو سے
اک کھنک کے جادو سے‘‘
.............قارئین! یہ بات ہم نے آپ کو اپنا سمجھ کر بتائی ہے۔لللہ اسے ہماری بیگم سے مت کہیے گا۔
skkarrar@gmail.com
اس کالم کو خالد کرار نے لکھا ہے۔
خواب پر بہترین اشعار پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
No comments:
Post a Comment