Saturday 16 November 2013

الفاظ کے کاپی رائٹ کا مسئلہ اور جدید دنیا کی تیسری آنکھ


دنیا اب ایک عالمی گاؤں کی صورت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔لاکھوں کروڑوں انسان اس وقت سائبر ورلڈ میں اپنی زبان اور اپنے لہجے میں بات کرتے ہوئے نظر آتے آتے ہیں۔ابتدا میں مشرق کی فرسودہ قوموں کو ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے انگریزوں کی یہ عالمی سازش پوری دنیا میں ان کے زبان کی تبلیغ اور ترقی کے لیے رچی گئی ہے مگر وقت کے گزرتے گزرتے ماہر لسانیات کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ لیفٹ ٹو رائٹ کی طرح رائٹ ٹو لیفٹ لکھی جانے والی زبانوں کے ارتقا میں بھی اس ’سازش ‘کا بڑا اہم رول ہے۔اردو کے حق میں بھی یہ معاملہ فال نیک رہا۔پچھلے دنوں جب انور سن رائے صاحب سے میری بات ہورہی تھی تو انہوں نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اردو ریڈرز کو بھی انٹرنیٹ پر کتابیں پڑھنے کی عادت ڈلوانے میں فیس بک کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اجمل کمال جیسے اردو کے بڑے ادیب، ناشر ، مترجم اور مدیر نے بھی فیس بک پر اپنے ایک کمنٹ میں کہا تھا کہ ’آج‘ کو آن لائن کردینا اردو والوں کے حق میں نہ صرف بہتر ہے بلکہ آنے والے عہد کے لیے فائدے مند بھی ہے، انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ عہد میں آج کو کاغذپر لانے کی ضرورت ہی انہیں محسوس نہ ہو اور وہ صرف اس کا آن لائن ایڈیشن شائع کریں۔خود انور سن رائے اس طرح کے پہلے شخص (میری نظر میں)ہیں جو کہ ریختہ کو بہت جلد اپنی ترجمہ کردہ ایسی کتابیں دے رہے ہیں جو کہ کبھی بھی پبلش نہیں ہوئی ہیں اور پہلی بار ان کا آن لائن ایڈیشن ہی شائع ہورہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کتابوں کو آن لائن کرنا اور ان کو قارئین کے سامنے لے کر آنا کیا مصنفین اور ناشرین کے حق میں مضر ہے یا ان کے حق میں ہے۔بدلتے وقت میں یہ سوچ رفتہ رفتہ اردوکے ماہرین کے یہاں بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ اردو زبان کے ارتقا میں فیس بک جیسی ویب سائٹ کا بہت اہم رول ہے۔فیس بک ایک ایسی جگہ ہے جہاں عالمی سطح کے پروگراموں کی تفصیلات، شعرا اور ادبا کی تخلیقات ، ان کے تنقیدی و تحقیقی مضامین اور دوسرے کئی ایسے ترجمے بھی شائع ہوتے رہتے ہیں جنہیں پڑھ کر لوگ ان پر کمنٹ کرتے ہیں اور وہ کمنٹس ایک اچھے خاصے آن لائن مذاکرے کا رخ اختیار کرلیتے ہیں۔فاسٹ فوڈ کے عہد میں آپ اس کمنٹ کلچر کو چاہے جتنا کوس لیں مگر کسی بھی اخبار، رسالے یا جریدے میں چھپنے کے بعد مہینے بھر کے انتظار کے بعد آپ کو شاید ادارے کی جانب سے چھ سات ایسے خطوط ملتے ہوں جن میں آپ کی تخلیق پر اچھی بری رائے موجود ہو۔پھر آپ اس کا جواب لکھیں اور وہ مہینے بھر بعد تب شائع ہو، جب ادارے کا مدیر اس کو شائع کرنا ضروری سمجھتا ہو۔فیس بک نے ایسی تمام بندشوں کو ختم کردیا۔فیس بک پر ہی حاشیہ جیسے فورم بھی قائم کیے گئے جن کے ذریعے ہر نئی نظم پر خوب بحث و مباحث ہوئے اور ان میں ساقی فاروقی،علی محمد فرشی، محمد حمید شاہد،نصیر احمد ناصر، اشعر نجمی، ظفر سید ، نسیم سید، ناصر عباس نیر، انوار فطرت، ابرار احمد، زاہد امروز، واجد علی سید اور معید رشیدی جیسے کئی اہم اور سنجیدہ افراد نے شرکت کی۔ان مذاکروں کو سینکڑوں افراد نے پڑھا اور پسند کیا،بعد ازاں یہ مذاکرے اثبات، نقاط اور تفہیم جیسے رسائل میں شائع بھی ہوئے۔اردو داں طبقے نے فیس بک کا جتنی گرم جوشی سے استقبال کیا ہے اس کو یقیناًاردو کی ارتقائی شکل ہی سمجھنا چاہیے،اس معاملے میں ترقی کاضامن انپیج کا وہ ورجن بھی ہے جس میں متن کو یونیکوڈ میں کنورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کا متن براہ راست انٹرنیٹ پر پیسٹ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح جمیل نوری نستعلیق اور کئی دوسرے اہم فونٹس کو اپنے کمپیوٹر میں انسٹال کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جانے لگی۔پہلے پہل ونڈوز میں اردو کو الگ سے انسٹال کرنے کی ضرورت ہوتی تھی مگر بعد ازاں زبان کی مقبولیت اور اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد کے پیش نظر ونڈوز نے اردو کو انبلٹ کردیا۔اب ایسے میں سوال یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں ریختہ جیسی ویب سائٹ اگر کتابوں کو آن لائن کرکے انہیں دنیا بھر کے اردو قارئین کو فراہم کرانا چاہتی ہے تو کیا یہ سوچ غلط ہے، کیا اس سے مصنفین اور ناشرین کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پرانی کتابوں کی بات تو ایک طرف رہی کہ انیس سو ساٹھ سے پہلے کی کتابیں کاپی رائٹ ایکٹ زمرے سے باہر ہیں اورآج کے دور میں جہاں دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں ڈیجٹل انقلاب آرہا ہے اور رفتہ رفتہ تمام کتابوں کو بڑی بڑی اردو لائبریریاں ڈیجیٹل صورت میں محفوظ کررہی ہیں تو اس کا مقصد صرف یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کتابوں کو ضائع کرنے سے بچالیا جائے اور وہ کتابیں کسی دھول کھائے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔کسی بھی زبان کی ترقی اس کی لفظی میراث پر نظر ثانی کرتے رہنے اور ان کے ذریعے اپنے مستقبل کو بہتر بناتے رہنے کی کوشش سے جڑی ہوئی ہے۔ریختہ جیسی کمپنی جو انجمن ترقی اردو ہند، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، آج کی کتابیں اور غالب انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کی مطبوعات کو آن لائن کرنے کا جتن کررہی ہے، کیا اتنا بھی نہیں جانتی کہ کتاب کو ہاتھ میں لے کر سردی کی دھوپ میں ٹہلتے ہوئے پڑھنے کا رومانس کیا ہوتا ہے اور اسے آن لائن کردینے سے مصنف کو کسی طور پر نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔کیا ان معاملات پر ان آوازوں نے پورے طور پر غور کرلیا ہے جو لفظ کو ہر جگہ چلا چلا کر بیچنے کے حق میں ہیں۔لفظ کسی پھیری والے کے ٹوکرے میں رکھے ہوئے بیر نہیں ہوتے جنہیں آواز لگا کر فروخت کیا جائے۔لفظ اپنی شناخت اپنے آپ ہوتے ہیں، وہ اس تصویر کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے سمجھنے والے کو اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کردے۔لفظ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔قیمت ہوتی ہے تو اس احساس کی جو لفظ کو ذہن و دل میں منتقل کرنے کے بعد وجود میں آتا ہے۔تخلیق کے کاروبار میں ملوث افراد آخر کیوں فیس بک پر اپنی تخلیقات لگا کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیگ کرنے کے حق میں رہتے ہیں ، اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اس تخلیقی عمل کا ردعمل کیسا ہو ضروردیکھا جائے۔لفظ ٹکڑوں میں لوگوں کے سامنے آئیں یا کتابی صورت میں ان کی اپنی انفرادیت پر کوئی سوال قائم ہوہی نہیں سکتا۔ساقی فاروقی کی جان محمد خان۔۔۔سفر آسان نہیں نظم ان کے کسی بھی مجموعے سے نکال کر کسی بھی مجموعے میں شامل کردی جائے، سور پر لکھی گئی ان کی مشہورزمانہ نظم کو ان کی کلیات سے نکال کر باقیات میں رکھ دیا جائے تو کیا اس کی اہمیت پر کوئی فرق آئے گا۔نظم ہو یا فقرہ ،شعر ہو سطر اس کی ہےئت ایک بوند کی سی ہے،وہ بوند جس کے بغیر سمندر ادھورا ہے، جو سمندر میں ضم ہوکر بھی اپنی شناخت نہیں کھوسکتی۔اردو کے ادبی سمندر میں بھی ایسی کئی بوندیں موجود ہیں۔آج ہمارے یہاں بیشتر شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے تعارف اور شناخت تک کے معاملے میں فیس بک اور ریختہ جیسی ویب سائٹس اہم کردار اداکررہی ہیں۔فیس بک پر لگایا جانے والا کسی کتاب کا اشتہار ہو یا ریختہ پر اپلوڈ کی جانے والی کوئی کتاب، اس سے مصنف یا ناشر کو نقصان نہیں پہنچتا، البتہ فائدہ ضرور حاصل ہوسکتا ہے۔اول تو اسے اپنی کتاب عالمی سطح پر دس جگہ پہنچانی نہیں پڑتی۔دوم فاصلے کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔شاعر، ادیب ،مترجم،یا ناقد کو پبلک ڈومین میں آنے کا موقع ملتا ہے، اس کی کتاب پر خبروں اور باتوں کے لیے عالمی سطح پر ایک گراؤنڈ تیار ہوتا ہے۔ریختہ نے خود ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید لکھنے والوں کی کتابوں کو آن لائن کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ریختہ نے ابھی تک تقریباً ہزار سے زائد کتابیں اسکین کرلی ہیں اور سات سو کتب کو آن لائن کردیا ہے۔اس معاملے میں گوگل کی پورے طور پر تقلید نہیں کی گئی ہے کیونکہ ریختہ جدید کتب کے معاملے میں مصنفین اور ناشرین سے اجازت لے کر ہی انہیں اپلوڈ کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہے جبکہ گوگل بکس پراجیکٹ میں اس کی بہ نسبت بغیر اجازت ہی کتابوں کو آن لائن کردیا جاتا ہے۔گوگل نے اس معاملے میں کچھ درجہ بندی کردی ہے، چنانچہ وہ بالکل تازہ کتابوں کو پورے طور پر آن لائن نہ کرکے ان کا کچھ حصہ لوگوں کے سامنے لے آتا ہے۔اوردوسرے زمروں میں موجود کتابوں کو پورے طور پرآن لائن کردیتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ وہ یہ کام مفادہ عامہ کے لیے کررہا ہے اس لیے اس پراجیکٹ کے لیے کسی بھی شخص سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔چنانچہ آتھرز گلڈ نے اس کے خلاف کیس دائر کیا، یہ کیس سن دو ہزار پانچ میں دائر کیا گیا تھا۔اور ایک تازہ خبر کے مطابق گوگل نے کتابوں کو اسکیننگ کرنے کے ایک بہت بڑے پراجیکٹ کے خلاف آتھرز گلڈ کی جانب سے دائر کیے گئے کیس کو جیت لیا ہے۔اس کیس کے آخر میں جج نے گوگل بکس کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اس پورے پراجیکٹ کو رائٹرز اور آتھرز کے لیے بھی مفید قراد دیا ہے۔اس مقدمے کے جج ڈینی چن کے مطابق گوگل بکس اسکیننگ پراجیکٹ کسی بھی طور پر کاپی رائٹ ایکٹ کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کتابوں کی فروخت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔
بلومبرگ نیوز کے مطابق گوگل بکس کے ذریعے کتابوں کو ڈیجٹائز کرکے یونیکوڈ میں ان کی فہرست سازی کروائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو مصنفین کے کاموں کو تلاش کرنے میں آسانی ہو۔چنانچہ ریاست متحدہ ہائے امریکہ کے ڈسٹرکٹ جج چن کا کہنا ہے کہ یہ کام خاص طور پر لائبریریوں کے لیے اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے لاکھوں کتابوں کو بڑی آسانی کے ساتھ تلاش کیا جاسکتا ہے۔چن کا بھی ماننا ہے کہ آن لائن بک سورس کسی بھی طرح کتاب کا متبادل نہیں ہوسکتاالبتہ اس کے ذریعے لوگ کتابوں کے بارے میں جانیں گے اور ان کی اہمیت میں اور اضافہ ہوگااور کتاب کی ریڈر شپ پر بھی اچھا خاصہ اثر پڑے 
گا۔چونکہ گوگل کتابوں کی اسکینڈ کاپی کو فروخت نہیں کرتا اس لیے اس پراجیکٹ کے ذریعے کتاب کے ناشر اور مصنف دونوں کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ کتاب عالمی سطح پر لوگوں کے سامنے آسکے گی۔
یہ قانون حالانکہ امریکہ میں پاس ہوا ہے، مگر اس کا اثر عالمی سطح پر ہونا چاہیے۔وقت کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اہمیت اور ان کے پڑھنے والوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔مادیت نے لوگوں کی مصروفیات میں اس قدر اضافہ کردیا ہے کہ کسی خالی آدمی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ کسی کتاب کے حصول کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہرتک کا بھی سفر کرسکے۔اسی لیے کتابوں کو آن لائن کرنے والی کمپنیز وجود میں آئی ہیں۔ریختہ نے خود اس معاملے میں اتنی اصول پسندی سے کام لیا ہے کہ وہ
۰کتابوں کو آن لائن کرنے کے لیے مصنفین سے اجازت طلب کرتی ہے۔
۰انہیں ڈاؤنلوڈ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
۰انہیں کاپی کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
۰کتاب کی تفصیلات فراہم کراتی ہے تاکہ دنیا میں کوئی بھی شخص آسانی کے ساتھ اس کی ہارڈ کاپی منگواسکے۔
۰کتاب دینے والے شخص کا جلی حروف میں شکریہ ادا کرتی ہے۔
۰کتابوں کو سرچ ایبل کرنے کے ساتھ ساتھ مواد کو تلاش کرنے کے لیے ٹیگنگ کے ذریعے اسکالرز کے لیے آسان بناتی ہے۔
آج پوری دنیا میں کتابوں کو آن لائن پیش کرنے کی اس کوشش میں کہیں نہ کہیں مصنفین اور ناشرین کو برابر کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کے رویے میں اضافہ ہورہا ہے۔زبانوں کی ترقی کہیں نہ کہیں کتابوں کی اس رونمائی میں پوشیدہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی پبلشر کے کاروبار اور مصنف کی پی آرشپ کو بڑھانے کا عمل انجام دیا جارہا ہے۔اس رویے سے کٹنے کا مطلب خود کو آگے بڑھتے ہوئے وقت سے پیچھے روکے رکھنا ہے۔ہاں اس رویے میں کمپنیز کی جانب سے اتنی ایمانداری بھی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کو مصنف یا ناشر کی اجازت کے بغیر نہ تو فروخت کریں اور نہ اس کو ڈاؤنلوڈ کرنے یا لوگوں میں مفت تقسیم کرنے کے رویے کو فروغ دیں۔اگر ان سب باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کتابوں کو آن لائن کرنے کا عمل جاری رہے تو اس سے میرے خیال میں زبان و ادب دونوں کا بھلا ہوگا۔

مضمون نگار: تصنیف حیدر

www.rekhta.org/ebooks

No comments:

Post a Comment