Monday 16 December 2013

سعادت حسن کے بعد کا قصہ



کتاب: سعادت حسن منٹو: جادوئی حقیقت نگاری اور آج کا افسانہ
مصنف: محمد حمید شاہد
ناشر: شہرزاد پبلی کیشنز
ملنے کا پتہ: بی۔155، بلاک 5، گلشن اقبال، کراچی
ای میل: info@scheherzade.com

یہ کہانی 1955کے بعد کی ہے، مگر فی الحال مجھے اس پوری کہانی سے غرض نہیں کہ سعادت حسن کیسے مرگیا؟ مجھے تو غرض اس بات سے ہے کہ منٹو کیسے زندہ رہ گیا۔اور یہی بات آج میں محمد حمید شاہد کی منٹو تنقید کے حوالے سے تازہ شائع ہونے والی کتاب ’’سعادت حسن منٹو: جادوئی حقیقت نگاری آج کا افسانہ‘‘ پڑھنے کے بعد چھیڑ رہا ہوں۔اس کتاب کا تقریباً نصف حصہ دراصل اس چھیڑ سے عبارت ہے، جس کی بنیاد مدیر اثبات اشعر نجمی نے رکھی ہے۔ہوا یوں کہ اشعر نجمی الٹی کھوپڑی کے آدمی ہیں، یہ الٹی کھوپڑی منفی معنوں میں نہیں، بلکہ مثبت معنوں میں ہے۔سعادت حسن منٹو کی پیدائش کو جب دو ہزار بارہ میں سو سال کا عرصہ مکمل ہوا تو ان کی صدی منانے کا بھوت کئی لوگوں پر سوار ہوا۔صدی ودی تو خیر کیا ہی منائی گئی، منٹو کے نام پر وہی اوندھے سیدھے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ہمارے سیمیناروں کا مقدر ہیں اور جنہیں مشاعروں کی شاعری سے زیادہ اور کسی چیز سے نسبت نہیں دی جاسکتی۔اس دوران میری اشعر نجمی سے بات ہوئی تھی، اس گفتگو کے دوران ہی مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ ’منٹو کی عظمت‘ پر سوال قائم کرنا چاہتے ہیں۔یہ سوال وہی سوال ہے جو خود منٹو کی خواہش ہوا کرتا تھا، جس نظر سے منٹو لوگوں کو دیکھا کرتا تھا، اشعر نجمی منٹو کو دیکھ رہے تھے، مجھے ان کی آنکھ کا یہ طریقہ کار پسند آیا۔انہوں نے اس کے لیے کچھ سوالات تیار کیے اور اردو کے نامور اور نئی نسل کے ادیبوں کو بھی بھیجے، کچھ نے جواب دیے، کچھ نے انہیں اشعر صاحب کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔انہی سوالوں کے جواب میں اشعر نجمی کے نام اردو کے اہم، بڑے اور منفرد نقاد شمس الرحمن فاروقی نے ایک مکتوب لکھا، اس مکتوب میں بہت سی ایسی نزاعی باتیں تھیں، جن پر ہنگامہ مچنا لازمی تھا۔ہنگامہ سڑکوں پر نہیں، ذہنوں میں۔میں نے خود فاروقی صاحب کے اس مکتوب کو دو تین بار پڑھا ہے اور پڑھنے کے بعد میں چاہتا تھا کہ ان کا تفصیلی جواب دیا جائے، لیکن فکشن کے تعلق سے اول تو میرا مطالعہ اتنا زیادہ نہیں ہے، اور دوسرے فاروقی صاحب کو کسی بات کا جواب دینے کے لیے کم از کم ان تمام معاملات و علمیات کا تجربہ لازمی ہے، جن پر وہ بحث کررہے ہیں، لیکن کچھ باتیں کاٹ رہی تھیں، خاص طورپر منٹو کے فن کے تعلق سے فاروقی صاحب کی وہ معروضیت جو مجھے غزل کے دیوانے کے تعلق سے کنہی صاحب کے پوچھے گئے سوال کی طرح معلوم ہوتی تھی کہ ’مجنوں ہی ہے تو اسے صحرا کا رخ کرنے کی کیا ضرورت ہے، پاگل کے لیے تنہائی و شور کا فرق کیا معنی رکھتا ہے، وہ تو بھیڑ میں بھی خود کلامی کرتا نظر آتا ہے۔‘ دراصل فن کے تعلق سے لاجیکل نقطۂ نظر کس حد تک ٹھیک ہے اور کس حد تک نہیں، اس کا فیصلہ کسی بھی ناقد کے لیے ضروری ہے۔میں نے جتنا منٹو کو پڑھا تھا، فاروقی صاحب کو پڑھنے کے بعد وہ پھیکا معلوم ہونے لگا، یقین جانیے اگر اسی خطوط پر میں میر کا مطالعہ شروع کردوں تو وہ بھی مایوس ہی کریں گے۔مگر ان سب باتوں کو دلیل کے ساتھ بیان کرنے کے لیے جس علم کی ضرورت تھی، وہ ابھی میرے پاس نہیں ہے۔سو، میں نے کہا کہ جب محمد حمید شاہد صاحب کی کتاب’ سعادت حسن منٹو :جادوئی حقیقت نگاری آج کا افسانہ،میں نے پڑھی تو جی خوش ہوا۔اس کتاب میں محمد حمید شاہد نے بہت ہی معتدل رویے کو روا رکھتے ہوئے فاروقی صاحب کے منٹو پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیا ہے، اور انہیں قائل بھی کیا ہے۔حالانکہ مزہ تو لیوسا اور یوسا والی بحث کو بھی پڑھتے ہوئے آیا، میر اور منٹو کے مقابلے پر جو دماغ میں گرم ہوائیں چلنے لگی تھیں، انہیں شاہد صاحب نے اپنے مدلل رویے سے کسی قدر روزن فراہم کیے ہیں۔
کتاب کا انتساب ہی منٹو کی سوگندھی کے نام ہے، یعنی یہیں سے کتاب لکھنے والے نے اشارہ دے دیا ہے کہ اس کے جذبات بھی کہانی کی اسی بے عزتی سے مشتعل ہواٹھے ہیں ،جس کو آج تک اپنے لیے باعث عز و فخر سمجھتے رہے تھے۔اس ہتک کو قبول کرنے سے حمید شاہد نے انکار کردیا ہے، انکار اس لیے کیونکہ وہ خود بھی ایک افسانہ نگار ہیں، بلکہ اچھے اور اہم افسانہ نگار ہیں، افسانہ نگار تو خود فاروقی صاحب بھی ہیں، مگر فاروقی اور حمید شاہد صاحبان کی کہانیوں میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا کہانی کی پرانی اور نئی تہذیب کے درمیان ہے، جتنا مہذب اور شائستہ کہانی اور باغی اور ہلچل پیداکرتی ہوئی کہانی کے درمیان ہے۔ان دونوں ناقدین کے درمیان منٹو صاحب کے کچھ ’’پھندنے‘‘ ہیں، جنہیں پھلانگنا نہ فاروقی صاحب کے بس کی بات ہے اور شاہد صاحب کے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ شاہد صاحب اور فاروقی صاحب دونوں ہی منٹو سے محبت کرتے ہیں، مگر فاروقی صاحب کی محبت،شفقت یا پھر پدرانہ شفقت میں تبدیل ہوجاتی ہے، وہ کئی جگہ منٹو کی غلطیوں اور جلدی افسانہ لکھنے کی عادت یا ضرورت پر نالاں رہتے ہیں،افسانے کے انجام سے غیر مطمئین معلوم ہوتے ہیں اور فکشن کے حوالے سے منٹو کو کئی جگہ کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ایسی میٹھی تنقید ہے ، انہوں نے تو مضمون نگار منٹو کو افسانہ نگار منٹو پر زیادہ فوقیت دے دی ہے۔بات صرف وہی ہے کہ جس سمت زمانہ چلے، اسے چیر کر دوسری طرف دوڑنے کی خواہش مجتہدین میں اکثر پائی جاتی ہے، مگر یہ عادت جب نیت میں شامل ہوجائے تو مسئلہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔میں بھی اگر اس معاملے میں تھوڑا سا معروضی نقطۂ نظر اپناؤں تو غالب میاں سے پوچھ سکتا ہوں کہ اگر آپ کو وبائے عام میں مرنا پسند نہیں تو اس کی تو وضاحت کیجیے کہ وبائے خاص کس بلا کا نام ہے؟پھر ریختوں کو پڑھنے کے لیے میر صاحب نے اپنے بعد یہ گلیوں کی شرط کی عائد کردی تھی؟فن کار کا مسئلہ کیا ہے، اسے فن کار سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے؟چنانچہ شاہد صاحب لکھتے ہیں
’’ افسانے کا کام ایک متھ قائم کرنا ہے ؛ حقیقت میں ویسا ہوتا ہے یا نہیں ، یہ اس کا مسئلہ ہے نہ منصب ۔ بس ہونا یہ چاہیے کہ پڑھتے ہوئے اِس پر اعتبار آئے ۔’’(ص 66)
بلکہ میری رائے میں تو اعتبار آنے نہ آنے سے بھی تخلیق کار کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔نہ آنے والوں کو تو موپاساں کے مشہور زمانہ افسانے ’نیکلس‘ پر بھی پورے طور پر ایمان لانے میں ہچکچاہٹ ہے تو کیا کریں، ان کے اطمینان کے لیے افسانے کے انجام کو بدل دیں، میراجی کی نظموں پر کتنے لوگ ہیں جو اعتبار کریں گے، کتنے لوگ اس جنون، وحشت، اکیلے پن اور نفسیاتی کمزوری کو حق بجانب قرار دیں گے۔یہ سب تو ہر انسان کا بے حد نجی معاملہ ہے، اور بہت کچھ اس کے اپنے عملی یا ذہنی تجربے پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس چیز کا یقین کرتا ہے اور کس کا نہیں۔پھر ناقد کے اپنے تجربات کا تخلیق کار سے ایسے مس ہونا تو بہت خطرناک ہے، مجھے تو ڈر ہے کہ جو لوگ خود افسانہ نہیں لکھتے وہ تو منٹو کو واقعی فاروقی صاحب کی تحریر پڑھ کر بدھو سمجھ بیٹھیں ہونگے۔خیر ، ایسا ہونے کا امکان اب کم ہے کیونکہ حمید شاہد صاحب نے بہت حد تک ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے جو فاروقی صاحب نے رائج کردی تھیں۔جس طرح میر صاحب کے ہر شعر سے ان کی زندگی یا اعمال قبیحہ یا حسنہ کو مربوط کرکے دیکھنا ایک ادبی بددیانتی ہے، اسی طرح منٹو کے ہر انجام کو سست یا غلط سمجھ لینے کے پیچھے اسے منٹو کی افسانہ فروخت کرنے والی ذہنیت سے تعبیر کرنا ظلم ہے۔افسانہ منٹو کا میدان تھا، اور وہ میدان جس میں آدمی کامیاب ہو، وہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا معاملہ بھی ہوتا ہے اور مسئلہ بھی۔ان باتوں کو حمید شاہد صاحب نے کس کس طور بیان کیا ہے یہ تو کتاب پڑھنے پر سمجھ میں آتا ہے مگر منٹو تنقید کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ فاروقی صاحب نے ادھر ادھر کی تحریروں سے استفادہ کرکے منٹو کے بارے میں جو غلط آرا قائم کی تھیں، ان کے جواب میں حمید شاہد کی یہ کتاب منٹو کے قاری کی خود اعتمادی کو بحال کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔میں اس کتاب سے کچھ اہم جملے نقل کردیتا ہوں۔باقی پوری کتاب پڑھنا تو آپ کی ذمہ داری ہے۔

اب یہ عالم ہے کہ وقت کے قدموں تلے روندے گئے’نئے افسانے‘ اور اُس کے ہانپتے کانپتے جملہ پس ماندگان پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منھ کو آتا ہے اور منٹو کو دیکھتے ہیں تو ہمت بندھتی ہے۔

منٹو کو سنجیدگی سے پڑھے جانے کا مناسب وقت آگیا ہے

درد و غم جمع کرنا اور دیوان کرنے کے لیے اُنہیں سینت سینت کر رَکھتے چلے جانے کا نام میر ہے تواِن دُکھوں کو سہنے اور دردوں کو جھلینے والے کے اندر سے نیلا تھوتھا ہو جانے والے اِنسان کوبرآمد کرنے والے کا نام منٹو ہے ۔

اور ہاں اس کتاب کے باقی مضامین بھی اچھے ہیں، جو کہ منٹو تنقید پر روشنی ڈالنے، کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے اکسانے پر مامور کیے گئے ہیں۔

تبصرہ نگار: تصنیف حیدر

منٹو کے تعلق سے شمیم حنفی صاحب کی ایک اہم کتاب منٹو حقیقت سے افسانے تک ریختہ پر پڑھیں
http://rekhta.org/ebook/mantuu_haqiiqat_se_afsaane_tak_shamiim_hanfii

Saturday 14 December 2013

جدیدیت یا ظفر اقبالیت


’’جس ادب کی تخلیق میں دماغ استعمال نہ ہو، برساتی کھمبیوں کی طرح ہے جن سے زمین تو ڈھک جاتی ہے مگر غذا حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘
------------حسن عسکری

شعر کی تخلیق کو عوامی فائدے سے تو ویسے کیا ہی نسبت ہے، فن کاری سراسر ایک خودغرضی کا معاملہ ہے، کوئی بھی فنکار دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہو، کسی بھی فن سے اس کا تعلق ہو، اس سے بڑا خود غرض کوئی نہیں ہوتا، مگر یہ خودغرضی ویسی ہی ہے جیسی کہ عشق میں ہوا کرتی ہے، خود کو کسی غرض کے لیے فنا کردینے والی یہ ہوس ہی شاعری بھی ہے، مصوری بھی ، موسیقی بھی ہے اور رقص بھی۔میں اس مضمون میں ان چند باتوں پر غور کرنا چاہتا ہوں جو غزل کے فن کے تعلق سے ہیں اور جدید غزل کے امام ظفر اقبال کے حوالے سے ہیں۔دریائے لطافت والے انشا اللہ خاں سے شاید ہی اب کوئی اتفاق رکھتا ہو کہ غزل کے مضامین کا تعلق صرف و محض عشقیہ معاملات سے ہے، اور اس کے باہر کی موزوں گوئی ہرگز غزل نہیں، چاہے یار لوگ جدیدیت کے نام پر کسی بھی طرح کے تجربات کی دیواریں پھلانگتے پھریں۔
ہمارے یہاں ایک بات پر اکثر مرثیہ خوانی ہوتی ہے کہ اردو ادب میں شاہکار تخلیقات کم ہیں۔اصل میں ہمارے پورے ادب پر نظر ڈالنے سے ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ شاعری کی دنیا میں جس افراط سے ہمارے شاعروں نے غزل کہی ہے اس سے زیادہ کسی اور صنف میں زورآزمائی نہیں کی گئی ہے۔غزل ہماری روایت کا حصہ ہے اور اس روایت میں ہم نے وقت کے ساتھ کبھی تھوڑی کبھی زیادہ تبدیلیاں کی ہیں۔نظم کی اول تو تاریخ ہی کتنی پرانی ہے، یہی کوئی ڈیڑھ سو ، دو سو برس۔اس میں بھی پہلے پہل وہ بے چاری پابند نظمیں ہیں جن کو قافیہ اور ردیف، ٹیپ کے مصرعے اور آہنگ و روانی کی پابندی لے ڈوبی۔بہت بعد میں کچھ سرپھروں نے آزاد نظم کہی، آزاد نظم کی کچھ قسمیں دھیرے دھیرے نمودار ہوئیں اور پھر آئی نثری نظم۔یہ بھی تو راشد اور میراجی کے بعد کی بات ہے نا۔پھر نثری نظم میں ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں شاعر دھوکا کھاتا بھی ہے اور دھوکا دیتا بھی ہے۔اردو شاعری میں آزاد نظم واحد ایسی صنف سخن ہے، جس میں کچھ تیر مارا جاسکتا ہے۔جیسا کہ میراجی ،راشد، مجید امجد اور کئی دوسروں نے کوشش کی ہے۔شاہکارتخلیق ایک تسلسل چاہتی ہے، وہ طوالت کی متقاضی ہوتی ہے، ہمارا شاعر اکثر درمیان میں ہی ہانپ جاتا ہے،طوالت کے لیے تسلسل کی ضرورت ہو نہ ہو مگر بات کے مکمل ابلاغ کی حاجت ضرور ہوتی ہے۔غزل شاہکار ہوہی نہیں سکتی۔بلکہ یہ صنف ایسی ہے جو کسی شاہکار کے لیے بنی ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک بڑی صنف کا حصہ ہے، قصیدے کا۔مثنویوں میں بھی غزلیں ملتی ہیں، خود فرودسی نے شاہنامے میں غزلیں کہی ہیں۔یعنی کہ غزل ایک ضمنی صنف ہے جو کسی بڑے تخلیق پارے میں دل بہلانے کے لیے اول اول استعمال کی جاتی تھی۔اسے بس آپ کسی بڑی صنف کے ایک جز سے تعبیر کرسکتے ہیں۔پھر ایسا ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کو لوگوں نے الگ سے پڑھنا اور لکھنا شروع کردیا۔ایران میں تخلص کی رسم ایجاد ہوئی اور شاعروں نے اپنے دستخط کے ساتھ غزل کو عشق و عاشقی کے لیے مختص صنف قرار دیا۔اس روایت کا تعلق بھی دراصل اسی ضمنی صنف کے خمیر سے ہے جو مثنوی میں قافیے کی پابندی سے تھوڑی دیر کے لیے آزادی برتنے کے لیے اور بادشاہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ملاتے دو منٹ رک کر سانس لینے اور ایک رومانی فضا قائم کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی۔ویسے تو دنیا کی کوئی بھی شعری صنف ہو، اس کا کوئی مصرع یا کوئی شعر اپنے سیاق سے باہر نکل کر بھی کبھی کبھی دوسرے سیاق خلق کرلیتا ہے، ہمارے میر حسن ، مرزا شوق وغیرہ کی مشہور مثنویات کے ساتھ کیا ایسا نہیں ہواکہ ان کی مثنویوں کے کچھ اشعار نے ضرب المثل کی سی حیثیت حاصل کرلی۔مگر یہ محض ایک اتفاقی امر ہے۔خیر ہم غزل کی بات کررہے تھے کہ اس میں شاہکار تخلیق کے عناصر موجود نہیں ہیں۔اس کی وجہ تو میں نے بیان کردی ہے۔خود مرثیہ ہمارے یہاں اپنی ہےئت سے ایسا مجبور ہے کہ اس میں آٹھ آٹھ اجزائے ترکیبی ہونے کے باوجود شاہکار کہنا ممکن نہیں ہے تو غزل بے چاری کس کھیت کی مولی ہے۔اس کا تو ہر شعر ایک علیحدہ چہرہ ہے، ایک الگ بات ہے۔اور کوئی بات ضرب المثل بن سکتی ہے، محاورہ خلق کرسکتی ہے۔مگر شاہکار ادب کے زمرے میں شامل نہیں ہوسکتی اور پھر غزل کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے۔ہم اس کا کینڈا نہیں بدل سکتے۔اس کی صورت ، اس کے خدوخال کو تھوڑا بہت تبدیل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔اب آپ اس بات کو کتنا بھی نزاعی سمجھ بیٹھیں مگر اردو شاعروں کے مزاج میں جو غزلیت ہے اسی کی وجہ سے وہ طویل اصناف کے ڈھرے پر جاہی نہیں سکتے اور درمیان میں ہانپ جانا ان کی مجبوری ہے۔اسی وجہ سے اردو کی طویل شعری اصناف میں بھی آج تک کوئی ایسی تخلیق موجود نہیں ہے جسے شاہکار کہا جاسکے۔میں اردو شاعری پر لعن طعن نہیں کررہا ہوں، کلیم الدین احمد کی طرح یہ بھی نہیں کہوں گا کہ میرتقی میر یا میر درد وغیرہ اگر نظم کے شاعر ہوتے تو کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیتے۔اصل میں اس مزاج کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔اب ہمارے یہاں آزاد نظم یا نثری نظم کو بھی ایک صدی کا دور مکمل ہونے پر آیا ہے، مگر ہم اس میں بھی کون سا ایسا شاہکار ادب تخلیق کرسکے ہیں۔
غزل جیسی صنف کا تعلق ایک خاص قسم کے مزے سے ہے،ہاں شاید وہی کیفیت والا معاملہ۔پڑھیے اور لطف لیجیے، سردھنیے کہ دو مصرعوں میں شاعر نے کیسی خدا لگتی کہی ہے، کیسا زبانی تجربہ کیا ہے، زندگی کے کیسے اچھوتے تجربے کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر کچھ بھی ہو، چونکہ یہ صنف دوجملوں کے پٹوں میں قید ہے اس لیے یہ اشاروں میں بات کرنے پر مجبور ہے۔اب تو یہ مزاج غزل کہنے والوں کا مقدر ہوچکا ہے۔میں خود شاعری کرتا ہوں، اس لیے جانتا ہوں کہ شعر کہتے وقت کوئی شاعر نہیں سوچتا کہ اسے کوئی بہت بڑی بات کہہ دینی ہے، اسے تو بس فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنی بات کو دوسروں کی کہی گئی بات سے الگ طور پر بیان کروں، اتنا الگ کہ سامنے والے کی سماعت اسے سن کر چونک پڑے کہ یہ بات اس صورت میں بھی کہی جاسکتی تھی،ذرا سا ڈھنگ بدلوں اور لوگوں کو دنگ کردوں۔یہ جو رویہ غزل میں آیا ہے، یہ جدیدیت کا عطا رکردہ ہے۔وہ جدیدیت جس کی اساس وجودیت ہے۔اتنا احسان تو ماننا ہی پڑتا ہے کہ اس تحریک کے زیر اثر ہمارے شاعروں نے بات کو کہنے کا اپنا ڈھنگ تراشا اور غزل کو نئے اسالیب حاصل ہوئے۔مگر یہ نئے اسالیب کتنے نئے ہیں، ان کی پول تو بس کچھ ایک شاعروں کو پڑھ کر کھل جاتی ہے۔دھیان سے دیکھیے ، مجموعی طور پر مطالعہ کرنے پر کیا نہیں لگتا کہ جدیدیت کے پہاڑ پر ایک شخص کھڑا نئی راہوں کی جانب اشارہ کررہا ہے اور تمام اچھے برے شاعر ان راہوں کی طرف پرانی روایت کے میدان سے گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔وضاحت کیے دیتا ہوں، محمد علوی، عادل منصوری، منچندا بانی ، احمد مشتاق یا ایسے ہی کئی جدید شاعر تجربے کی ایک یکسانیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ان سب کو تمام و کمال پڑھ جائیے معلوم ہوگا کہ نئی بات ہے، مگر کبھی عادل منصوری کے کسی شعر کو محمد علوی سے اگر کوئی منسوب کربھی دے تو لوگ کون سا فرق کرپائیں گے۔اکثر لوگ جدید شاعروں کے مشہور اور باغیانہ اشعار کو غلط ناموں سے پڑھتے بھی ہیں اور کوئی احتجاج بھی نہیں کرتا، بس جسے معلوم ہوا ، اس نے تصحیح کردی، وجہ یہ ہے کہ جدیدیت کے آہنگ بھی بہت حد تک ایک ہی شیشے سے ٹکراتے رہے ہیں۔خود کلامی، مایوسی، مشین، کربلا، تنہائی، مرغے، بچے، سنپولیے اور عورت جدیدیت کے مضامین بہت حد تک سمٹے سمٹائے ہیں اور ان میں پرانے پر کچھ اضافے کے نام پر الٹ پلٹ کر وہی کھٹے میٹھے بیر کھلائے گئے ہیں جن کی گٹھلیاں بھی اب کڑوا چکی ہیں۔ہر شاعر کے یہاں سے پندرہ بیس اچھے شعر نکل بھی آئے تو کیا بڑی بات ہوئی مگر انقلاب اور جدیدیت کے نام پر ایک ہی دھارے میں بہنے والی اس شاعری کا مستقبل کیا تھا، سو لوگ لوٹ گھوم کر پھر انہی عشق کے مضامین پر واپس آنے لگے۔اور ادھر جو جدید ترین غزل ہے، اس نے تو حد ہی کردی ہے کہ دشت و صحرا اور ہجر و وصال کے قصے میں پھر ایسی رندھی ہوئی نظر آتی ہے کہ بعضے اس دور کو باز کلاسیکی دور سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔لیکن بہرحال جدیدیت نے ایک راستہ دکھایا۔اندھیرے میں انہی بکٹوں پر منہ مارنے والی قوم کو مشعل لے کر کہا کہ ان دروں سے باہر کا راستہ نکلتا ہے۔اس غار کے باہر بھی ایک بڑی دنیا ہے۔بیان کے نئے راستے بھی ہیں، اب یہ تو شاعروں کے اپنے پوٹینشل کی بات ہے کہ وہ کیا کرسکتے تھے اور کیا نہیں۔نئے سے کون خوش نہیں ہوتا، جو آدمی شاعری کی تھوڑی بہت بھی شد بد رکھتا ہے اور ادب کا ذرا سا بھی ذوق اس میں پایا جاتا ہے وہ نئے پن سے نہال ہواٹھتا ہے مگر یہ نیا پن جب پرانا سا لگنے لگے تو کیا علاج کیا جائے۔کون سی جڑی بوٹی کا عرق اس کی نسوں میں اتارا جائے کہ اسے پھر کوئی راستہ مل سکے۔نئے شاعروں میں یہ جڑی بوٹی سوائے ظفر اقبال کے اور کسی کے پاس نہیں ہے۔وہ ایک واحد ایسا شاعر ہے، جس نے تیزی سے لہجے کے لباس تبدیل کیے ہیں، ایک ہی غزل میں چار شعروں کو الگ الگ سمتوں سے نمودار کیا ہے۔ظفر اقبال اردو زبان کا وہ جدیدشاعر ہے، جس کے بغیر جدیدیت کا تصور ہمیشہ ناقص اور نامکمل رہے گا۔اس کی وجہ اس کی بسیار گوئی نہیں،اس کی بسیار تجربہ پسندی ہے، وہ خود کو اچھا کرنے کی خاطر خود کو خراب کرنا بھی جانتا ہے۔راستے بدلنے کے لیے کبھی کبھار راستے بنانے بھی پڑتے ہیں، ان کے لیے خاردار جھاڑیوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے، زندگی کے لیے کبھی کبھی موت کے دہانے پر آکر کھڑا ہونا پڑتا ہے، میں نے سنا ہے، شاید کہیں پڑھا بھی ہو کہ ظفر اقبال نے خود کہا ہے کہ وہ ایک ایسا فنکار ہے، جو کسی بھی وقت اپنا پچھلا کہا سب کچھ منسوخ کرسکتا ہے، تو ادبی معاملات میں میں اسے ایک سراسر جذباتی بیان سمجھتا ہوں، وجہ یہ ہے کہ رد و تنسیخ کا فیصلہ وقت کرتا ہے، فن کار اس معاملے میں بالکل بے دست و پا ہے، کافکا نے تو اپنی کہانیاں جلانے کے لیے کہہ دیا تھا، غالب خود اپنے کلام کا بیشتر حصہ چھپائے چھپائے پھررہا تھا، مگر ان خرابوں سے بھی خزانے دریافت کیے گئے ہیں اور ایک طرف وہ لوگ بھی ہیں جو زربفتی فلیپ پر سنہری روشنائی سے ناقدین کی آرا تحریر کرواتے ہیں،مگر لوگ ان کو پڑھنا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔مجھے ابہام و اشکال سے بحث نہیں ہے، ورنہ کہتا کہ منٹو کا افسانہ پھندنے افسانے کی دنیا کا ایک انقلابی چہرہ ہے جس میں کم از کم پچھلوں سے بیزاری اور نئے سے لپٹنے کی کوئی خواہش تو نظر آتی ہے۔اسی طرح ظفر اقبال بھی اردو شاعری کا وہی پھندنے والا شاعر ہے جس کے یہاں فن کی تشکیل اپنی ہی تردید سے ممکن ہے، کیونکہ شاعری کوئی ٹھہری ہوئی شے نہیں ہے۔اس میں پھیلتے رہنا اور بدلتے رہنا بہت اہم ہے۔پانی کی طرح اپنے کنارے بڑھاتی ہوئی جرات ہی شاعری ہے۔تجربے کے بغیر اس کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔لوگ اسلوب اسلوب چلاتے ہیں، لیکن اسلوب کیا ہے اسے سمجھنے کی کسی بھی طرح کوشش نہیں کرتے۔اسلوب ہر دو سطح پر کام کرتا ہے۔اس میں ایک تو قدرت اور ماحول اور مطالعے کا عطا کردہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ ہوتا ہے جو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔اس پیدا کرنے کے عمل میں جو دقتیں ہم اٹھاتے ہیں، جو گھاؤ ہمیں لگتے ہیں، وہ ہی نئے تجربوں کی کھیپ تیار کرتے ہیں۔فن کار ایک سطح پر جاکر ہر چیز سے غیر مطمئین رہنے لگتا ہے، اسے سب کچھ پہلے سے کہا ہوا اور سنا ہوا لگتا ہے۔اسی مقام پر وہ خود کو الٹنے پلٹنے کے عمل سے نبرد آزما ہوجاتا ہے، ایسے میں اس کے آگے لفظ کی تذکیرو تانیث، تلفظ، تقدیم و تاخیریا اختراعیت کوئی مسئلہ نہیں رہ جاتی۔یہ جدیدیت کا مسئلہ نہیں، غزلیت کا معاملہ نہیں، یہ ہنر کی شریعت میں سراسر ایک جائز امر ہے۔حسن و قبح سے ظاہری علاقہ رکھنے والے نہیں سمجھیں گے کہ اسلوب کی سطح پر، آہنگ کی نہج پر اور لفظ کے میدان میں ایسے تجربے کرنے سے ہی بیان کے نئے راستے کھلتے ہیں۔زیادہ شاعری کرنا ہر آدمی کے بس کی بات کہاں ہے، اس معاملے میں تو اردو کے میر جی، مصحفی اور انشا وغیرہ بہت آگے آگے تھے۔ان لوگوں نے شعر کو زندگی کے مختلف تجربات سے جوڑنے کی کوشش کی، اچھے ، برے شعر کہے مگر سطحیت سے خود کو بچائے رکھا۔اچھا یہ بھی ایک معاملہ ہے کہ ہمارے جو بسیار گو شعرا ہیں ان کے خراب شعروں کو سطحی سمجھ لینا کسی بے وقوفی سے کم نہیں ہے۔شعر اچھا بھی ہوسکتا ہے، برا بھی ہوسکتا ہے، برا اس معنی میں کہ سننے والے کو اس کی ترتیب الفاظ ، خشک معنویت یا اور کسی پہلو پر اعتراض ہو، مگر سطحی شعر اور خراب شعر میں واضح فرق یہ ہے کہ خراب شعر ، ایک تربیت یافتہ سامع یا قاری کے معیار پر پورا نہیں اتر پاتا، اس میں کسی جگہ سے کوئی کمی سننے یا پڑھنے والے کو کھٹکتی ہے اور شعر کے اچھے یا ٹھیک ٹھاک ہونے کی کوئی گنجائش موجود ہوتی ہے، اچھا بعض اوقات خراب شعر اس رو سے کچھ ناقدین کے نزدیک اچھا بھی ہوسکتا ہے جن کو اس میں تجریدیت یا تجربہ کاری کی جھٹپٹاہٹ نظر آجائے مگر سطحی شعر، دراصل غیر شعر ہوتا ہے ،جس میں کسی بھی جذباتی بات کو اول فول طریقے سے بیان کردیا گیا ہو، جس میں بحر، وزن، قافیے، ردیف کا خیال نہ کیا گیا ہو، کوئی ایسی بات نہ ہو جو ذہن کو چونکائے یا اپنی جانب منعطف کرسکے۔اردو کے جدید ادبی مطالعے میں ہم ظفر اقبال کے ذریعے ہی سمجھ پائے ہیں کہ شعر کی ساخت خواہ کتنی ہی غیر تکنیکی دکھائی دے مگر اس کو شعر بنانے کا عمل بے حد تکنیکی ہے۔فن کے تقاضے ہوا میں نہیں پورے ہوتے۔مضمون ایسی کسی بلا کا نام نہیں جسے ہم نے ذہن کی آنچ پر پگھلائے بغیر ہی مصرعوں کے سانچے میں ڈھال دیا ہو۔شعر اپنے عدم میں پہلے سے موجود ضرور ہوتا ہے، بالکل اسی آواز کی طرح جو اپنے آخری پیکر میں ڈھلنے سے پہلے صرف ایک بے نام ہوا ہوتی ہے۔جسے انسان اپنے ہونٹ، زبان اور دوسرے معاون اجزا کے سہارے آواز بنادیتا ہے۔اسی طرح شعر پہلے محض ایک خیال ہوتا ہے، لفظوں کا خرج و دخل اس خیال کے مصرعے میں پیوست ہونے سے پہلے کا عمل ہے۔یہ عمل کچھ ویسا ہی ہے جیسے کوئی بڑھئی کسی الماری کی زینت بننے والی دراز کو اس میں بہ آسانی دھکیلنے اور کھینچنے کے لائق بناتا ہے۔یہ تو وہ فنی مشقت ہے جس سے ہر جینوین تخلیق کار ذہن گزرتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی شعر کے تعلق سے اور کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔کبھی غالب نے کہا تھا کہ شعر انسان کی معنوی اولاد کی ہی طرح ہوتے ہیں تو وہ اس کے انتخاب میں اس قدر محتاط رویہ کیسے اپنا سکتا ہے جیسا کہ خود غالب نے اپنی شاعری کا انتخاب کرتے وقت اپنایا تھا۔انتخاب کے وقت معنوی اولاد کا یہ قتل کیسے جائز ہوجاتا ہے۔شعر، اچھا ہے یا برا، اس کا اندازہ سب سے پہلے لکھنے والے کو ہوتا ہے، کیونکہ وہی اس کا پہلا محتسب بھی ہوتا ہے اور پہلا ناقد بھی۔اب یہ بات بالکل الگ ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کی انفرادی تنقید کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔یہاں میں عسکری صاحب والی بات کو پھر سے دوہراؤں گا کہ تخلیق کا معاملہ صرف دل سے نہیں ہے، دماغ سے بھی ہے۔جذباتیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شاعری صرف واردات قلبی کا نام ہے۔جو لوگ ایسا سمجھتے ہوں، انہیں احمد فراز کی شاعری مبارک ہو، میں تو ظفر اقبال کی جانب کھڑا ہوں۔جس نے تقریباً نصف صدی کے اپنے سفر میں سینکڑوں راستے غزل کے لیے تیار کردیے ہیں۔اب ایسا کام اور ایسا بڑا کام بغیر دماغ کے استعمال کے کیسے ممکن ہے۔ایسا شاعر واقعی جدید ہے جو نئے ادب کے ساتھ ساتھ نئی جمالیات بھی خلق کروانا جانتا ہے۔نظم والے بے شک اس بے چارے غزل کے شاعر کو چھوٹا سمجھیں مگر اسلوب اور تجربے کی سطح پر اس کی طرح کوئی چھوٹا موٹا کارنامہ تو کرکے دکھائیں۔
اب ہم اتنے تو بالغ ہوہی گئے ہیں کہ ہر نئے لہجے کو جدیدیت سے تعبیر نہیں کربیٹھتے ، اتنا شعور بھی آگیا ہے کہ شاعری بکرے کے زور لگانے سے عبارت نہیں ہے۔اس کے لیے تو بہرحال آدمی ہی کو زور لگانا پڑے گا۔خیراپنی بات ظفر اقبال کے ان چند شعروں کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔
یہ جو رواں ہیں چار سو اتنے دھوئیں کے آدمی
کس لیے چوب سبز کو آگ سے آشنا کروں

نہیں مرنے میں بھی درکار تعاون مجھ کو
چھت سے اپنی ہی نظر آؤں گا جھولا ہوا میں

موت کے ساتھ ہوئی ہے مری شادی سو ظفرؔ
عمر کے آخری لمحات میں دولہا ہوا میں

ترا چڑھا ہوا دریا سمجھ میں آتا ہے
ترے خموش کنارے نہیں سمجھتا ہوں

خدا کو مان کہ تجھ لب کو چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا

دشمنی کا ہی رہ گیا سروکار
ورنہ کس کا مفاد ہے مجھ میں
---
مضمون نگار: تصنیف حیدر

ظفر اقبال کی سو سے زائد غزلیں پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے