Monday 16 December 2013

سعادت حسن کے بعد کا قصہ



کتاب: سعادت حسن منٹو: جادوئی حقیقت نگاری اور آج کا افسانہ
مصنف: محمد حمید شاہد
ناشر: شہرزاد پبلی کیشنز
ملنے کا پتہ: بی۔155، بلاک 5، گلشن اقبال، کراچی
ای میل: info@scheherzade.com

یہ کہانی 1955کے بعد کی ہے، مگر فی الحال مجھے اس پوری کہانی سے غرض نہیں کہ سعادت حسن کیسے مرگیا؟ مجھے تو غرض اس بات سے ہے کہ منٹو کیسے زندہ رہ گیا۔اور یہی بات آج میں محمد حمید شاہد کی منٹو تنقید کے حوالے سے تازہ شائع ہونے والی کتاب ’’سعادت حسن منٹو: جادوئی حقیقت نگاری آج کا افسانہ‘‘ پڑھنے کے بعد چھیڑ رہا ہوں۔اس کتاب کا تقریباً نصف حصہ دراصل اس چھیڑ سے عبارت ہے، جس کی بنیاد مدیر اثبات اشعر نجمی نے رکھی ہے۔ہوا یوں کہ اشعر نجمی الٹی کھوپڑی کے آدمی ہیں، یہ الٹی کھوپڑی منفی معنوں میں نہیں، بلکہ مثبت معنوں میں ہے۔سعادت حسن منٹو کی پیدائش کو جب دو ہزار بارہ میں سو سال کا عرصہ مکمل ہوا تو ان کی صدی منانے کا بھوت کئی لوگوں پر سوار ہوا۔صدی ودی تو خیر کیا ہی منائی گئی، منٹو کے نام پر وہی اوندھے سیدھے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ہمارے سیمیناروں کا مقدر ہیں اور جنہیں مشاعروں کی شاعری سے زیادہ اور کسی چیز سے نسبت نہیں دی جاسکتی۔اس دوران میری اشعر نجمی سے بات ہوئی تھی، اس گفتگو کے دوران ہی مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ ’منٹو کی عظمت‘ پر سوال قائم کرنا چاہتے ہیں۔یہ سوال وہی سوال ہے جو خود منٹو کی خواہش ہوا کرتا تھا، جس نظر سے منٹو لوگوں کو دیکھا کرتا تھا، اشعر نجمی منٹو کو دیکھ رہے تھے، مجھے ان کی آنکھ کا یہ طریقہ کار پسند آیا۔انہوں نے اس کے لیے کچھ سوالات تیار کیے اور اردو کے نامور اور نئی نسل کے ادیبوں کو بھی بھیجے، کچھ نے جواب دیے، کچھ نے انہیں اشعر صاحب کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔انہی سوالوں کے جواب میں اشعر نجمی کے نام اردو کے اہم، بڑے اور منفرد نقاد شمس الرحمن فاروقی نے ایک مکتوب لکھا، اس مکتوب میں بہت سی ایسی نزاعی باتیں تھیں، جن پر ہنگامہ مچنا لازمی تھا۔ہنگامہ سڑکوں پر نہیں، ذہنوں میں۔میں نے خود فاروقی صاحب کے اس مکتوب کو دو تین بار پڑھا ہے اور پڑھنے کے بعد میں چاہتا تھا کہ ان کا تفصیلی جواب دیا جائے، لیکن فکشن کے تعلق سے اول تو میرا مطالعہ اتنا زیادہ نہیں ہے، اور دوسرے فاروقی صاحب کو کسی بات کا جواب دینے کے لیے کم از کم ان تمام معاملات و علمیات کا تجربہ لازمی ہے، جن پر وہ بحث کررہے ہیں، لیکن کچھ باتیں کاٹ رہی تھیں، خاص طورپر منٹو کے فن کے تعلق سے فاروقی صاحب کی وہ معروضیت جو مجھے غزل کے دیوانے کے تعلق سے کنہی صاحب کے پوچھے گئے سوال کی طرح معلوم ہوتی تھی کہ ’مجنوں ہی ہے تو اسے صحرا کا رخ کرنے کی کیا ضرورت ہے، پاگل کے لیے تنہائی و شور کا فرق کیا معنی رکھتا ہے، وہ تو بھیڑ میں بھی خود کلامی کرتا نظر آتا ہے۔‘ دراصل فن کے تعلق سے لاجیکل نقطۂ نظر کس حد تک ٹھیک ہے اور کس حد تک نہیں، اس کا فیصلہ کسی بھی ناقد کے لیے ضروری ہے۔میں نے جتنا منٹو کو پڑھا تھا، فاروقی صاحب کو پڑھنے کے بعد وہ پھیکا معلوم ہونے لگا، یقین جانیے اگر اسی خطوط پر میں میر کا مطالعہ شروع کردوں تو وہ بھی مایوس ہی کریں گے۔مگر ان سب باتوں کو دلیل کے ساتھ بیان کرنے کے لیے جس علم کی ضرورت تھی، وہ ابھی میرے پاس نہیں ہے۔سو، میں نے کہا کہ جب محمد حمید شاہد صاحب کی کتاب’ سعادت حسن منٹو :جادوئی حقیقت نگاری آج کا افسانہ،میں نے پڑھی تو جی خوش ہوا۔اس کتاب میں محمد حمید شاہد نے بہت ہی معتدل رویے کو روا رکھتے ہوئے فاروقی صاحب کے منٹو پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیا ہے، اور انہیں قائل بھی کیا ہے۔حالانکہ مزہ تو لیوسا اور یوسا والی بحث کو بھی پڑھتے ہوئے آیا، میر اور منٹو کے مقابلے پر جو دماغ میں گرم ہوائیں چلنے لگی تھیں، انہیں شاہد صاحب نے اپنے مدلل رویے سے کسی قدر روزن فراہم کیے ہیں۔
کتاب کا انتساب ہی منٹو کی سوگندھی کے نام ہے، یعنی یہیں سے کتاب لکھنے والے نے اشارہ دے دیا ہے کہ اس کے جذبات بھی کہانی کی اسی بے عزتی سے مشتعل ہواٹھے ہیں ،جس کو آج تک اپنے لیے باعث عز و فخر سمجھتے رہے تھے۔اس ہتک کو قبول کرنے سے حمید شاہد نے انکار کردیا ہے، انکار اس لیے کیونکہ وہ خود بھی ایک افسانہ نگار ہیں، بلکہ اچھے اور اہم افسانہ نگار ہیں، افسانہ نگار تو خود فاروقی صاحب بھی ہیں، مگر فاروقی اور حمید شاہد صاحبان کی کہانیوں میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا کہانی کی پرانی اور نئی تہذیب کے درمیان ہے، جتنا مہذب اور شائستہ کہانی اور باغی اور ہلچل پیداکرتی ہوئی کہانی کے درمیان ہے۔ان دونوں ناقدین کے درمیان منٹو صاحب کے کچھ ’’پھندنے‘‘ ہیں، جنہیں پھلانگنا نہ فاروقی صاحب کے بس کی بات ہے اور شاہد صاحب کے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ شاہد صاحب اور فاروقی صاحب دونوں ہی منٹو سے محبت کرتے ہیں، مگر فاروقی صاحب کی محبت،شفقت یا پھر پدرانہ شفقت میں تبدیل ہوجاتی ہے، وہ کئی جگہ منٹو کی غلطیوں اور جلدی افسانہ لکھنے کی عادت یا ضرورت پر نالاں رہتے ہیں،افسانے کے انجام سے غیر مطمئین معلوم ہوتے ہیں اور فکشن کے حوالے سے منٹو کو کئی جگہ کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ایسی میٹھی تنقید ہے ، انہوں نے تو مضمون نگار منٹو کو افسانہ نگار منٹو پر زیادہ فوقیت دے دی ہے۔بات صرف وہی ہے کہ جس سمت زمانہ چلے، اسے چیر کر دوسری طرف دوڑنے کی خواہش مجتہدین میں اکثر پائی جاتی ہے، مگر یہ عادت جب نیت میں شامل ہوجائے تو مسئلہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔میں بھی اگر اس معاملے میں تھوڑا سا معروضی نقطۂ نظر اپناؤں تو غالب میاں سے پوچھ سکتا ہوں کہ اگر آپ کو وبائے عام میں مرنا پسند نہیں تو اس کی تو وضاحت کیجیے کہ وبائے خاص کس بلا کا نام ہے؟پھر ریختوں کو پڑھنے کے لیے میر صاحب نے اپنے بعد یہ گلیوں کی شرط کی عائد کردی تھی؟فن کار کا مسئلہ کیا ہے، اسے فن کار سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے؟چنانچہ شاہد صاحب لکھتے ہیں
’’ افسانے کا کام ایک متھ قائم کرنا ہے ؛ حقیقت میں ویسا ہوتا ہے یا نہیں ، یہ اس کا مسئلہ ہے نہ منصب ۔ بس ہونا یہ چاہیے کہ پڑھتے ہوئے اِس پر اعتبار آئے ۔’’(ص 66)
بلکہ میری رائے میں تو اعتبار آنے نہ آنے سے بھی تخلیق کار کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔نہ آنے والوں کو تو موپاساں کے مشہور زمانہ افسانے ’نیکلس‘ پر بھی پورے طور پر ایمان لانے میں ہچکچاہٹ ہے تو کیا کریں، ان کے اطمینان کے لیے افسانے کے انجام کو بدل دیں، میراجی کی نظموں پر کتنے لوگ ہیں جو اعتبار کریں گے، کتنے لوگ اس جنون، وحشت، اکیلے پن اور نفسیاتی کمزوری کو حق بجانب قرار دیں گے۔یہ سب تو ہر انسان کا بے حد نجی معاملہ ہے، اور بہت کچھ اس کے اپنے عملی یا ذہنی تجربے پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس چیز کا یقین کرتا ہے اور کس کا نہیں۔پھر ناقد کے اپنے تجربات کا تخلیق کار سے ایسے مس ہونا تو بہت خطرناک ہے، مجھے تو ڈر ہے کہ جو لوگ خود افسانہ نہیں لکھتے وہ تو منٹو کو واقعی فاروقی صاحب کی تحریر پڑھ کر بدھو سمجھ بیٹھیں ہونگے۔خیر ، ایسا ہونے کا امکان اب کم ہے کیونکہ حمید شاہد صاحب نے بہت حد تک ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے جو فاروقی صاحب نے رائج کردی تھیں۔جس طرح میر صاحب کے ہر شعر سے ان کی زندگی یا اعمال قبیحہ یا حسنہ کو مربوط کرکے دیکھنا ایک ادبی بددیانتی ہے، اسی طرح منٹو کے ہر انجام کو سست یا غلط سمجھ لینے کے پیچھے اسے منٹو کی افسانہ فروخت کرنے والی ذہنیت سے تعبیر کرنا ظلم ہے۔افسانہ منٹو کا میدان تھا، اور وہ میدان جس میں آدمی کامیاب ہو، وہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا معاملہ بھی ہوتا ہے اور مسئلہ بھی۔ان باتوں کو حمید شاہد صاحب نے کس کس طور بیان کیا ہے یہ تو کتاب پڑھنے پر سمجھ میں آتا ہے مگر منٹو تنقید کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ فاروقی صاحب نے ادھر ادھر کی تحریروں سے استفادہ کرکے منٹو کے بارے میں جو غلط آرا قائم کی تھیں، ان کے جواب میں حمید شاہد کی یہ کتاب منٹو کے قاری کی خود اعتمادی کو بحال کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔میں اس کتاب سے کچھ اہم جملے نقل کردیتا ہوں۔باقی پوری کتاب پڑھنا تو آپ کی ذمہ داری ہے۔

اب یہ عالم ہے کہ وقت کے قدموں تلے روندے گئے’نئے افسانے‘ اور اُس کے ہانپتے کانپتے جملہ پس ماندگان پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منھ کو آتا ہے اور منٹو کو دیکھتے ہیں تو ہمت بندھتی ہے۔

منٹو کو سنجیدگی سے پڑھے جانے کا مناسب وقت آگیا ہے

درد و غم جمع کرنا اور دیوان کرنے کے لیے اُنہیں سینت سینت کر رَکھتے چلے جانے کا نام میر ہے تواِن دُکھوں کو سہنے اور دردوں کو جھلینے والے کے اندر سے نیلا تھوتھا ہو جانے والے اِنسان کوبرآمد کرنے والے کا نام منٹو ہے ۔

اور ہاں اس کتاب کے باقی مضامین بھی اچھے ہیں، جو کہ منٹو تنقید پر روشنی ڈالنے، کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے اکسانے پر مامور کیے گئے ہیں۔

تبصرہ نگار: تصنیف حیدر

منٹو کے تعلق سے شمیم حنفی صاحب کی ایک اہم کتاب منٹو حقیقت سے افسانے تک ریختہ پر پڑھیں
http://rekhta.org/ebook/mantuu_haqiiqat_se_afsaane_tak_shamiim_hanfii

2 comments:

  1. https://www.facebook.com/sayyed.tasneef/posts/10202677548275860

    ReplyDelete
  2. بھائی اس کتاب میں جادوئی حقیقت نگاری سے کیا مراد ہے؟؟ کیا جناب حمید صاحب کا تھیسس یہ ہے کہ نئی ادبی تھیوری جادوئی حقیقت نگاری,میجیکل رئیلازم,منٹو کے افسانے کی روح ہے؟؟؟ اگر ایسا ہے تو کیا منٹو حقیقت پسند نہیں تھا؟؟ اور اگر وہ حقیقت پسند تھا تو جادوئی حقیقت نگار بھی تھا؟؟؟ اپ کا تبصرہ اسلوب کی سطح پر بہت خوب ہے جس کا دائرہ اشعر نجمی کی ذہنی خوبی,حمید شاہد کی بطور نثر نگار بڑائی, شمس الرحمن فاروقی صاحب کا برگد نما خاکہ,اور خود منٹو سے اپ کی محبت ہے,اس عمل میں کتاب کے مندرجات کا اجمالی جائزہ کہیں کھو گیا,جیسے بقول منٹو " میں فروعی باتوں میں الجھ گیا اور میرا نزدیک زندگی ہی فروعی شے ہے" مگر تصنیف کا اسلوب زندہ اور جاندار ہے,,,,,,باقی اردو میں عام روایت ہے کہ گرم گرم تنقیدی اصطلاح پر کتاب کا نام رکھ دیا جائے,,جیسے ایک یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں وسط نوے میں " اردو ناول میں عورت کا تصور " پر کام ہوا اور بیس برس بعد تانیثیت کے غوغے میں وہ مقالہ "اردو ناول میں تانیثیت" کے عنوان سے شائع کرا دیا گیا اور اس سارے معاملے میں تانیثیت گئی تیل لینے,,,,, ا,

    ReplyDelete