Thursday 23 January 2014

ریختہ بردار: الیاس ملک


ریختہ نے تین سال پہلے جس سفر کی ابتدا کی تھی، اس کے دوران کئی ایسے مشفق اور مخلص احباب ملے، جنہوں نے اس اہم سفر کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے تعاون کا ہر طرح یقین دلایا۔ایسے لوگوں میں شاعر بھی تھے، افسانہ نگار بھی اور تنقید نگار بھی۔مگر اس سفر کے راستے میں آنے والے پتھروں کو کسی بھی طرح دور کرنے کے لیے کچھ ایسے لوگوں کو بھی میں نے دیکھا، جن کو نہ تو شاعری کا دعویٰ تھا اور نہ افسانہ نگاری کا۔جو ادب کو پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے، کہیں کچھ سطریں ادھر ادھر سے لوٹ گھوم کر ان کے خانۂ دماغ میں کتنا ہی شور مچائیں مگر ان کی ذہنی تربیت میں ادب کو ہمیشہ مطالعے کا دوسرا نام قرار دیا جاتا تھا۔ایسے لوگ جو خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، جن کے یہاں لفظوں سے آشنائی کا ہنر پانی کے حسن کی طرح صیقل ہوتا رہتا ہے۔میں ایسے ہی ایک آدمی کو جانتا ہوں۔شاید فیس بک پر موجود میرے بہت سے احباب بھی ان سے واقف ہونگے۔میری مراد الیاس ملک صاحب سے ہے۔الیاس صاحب، جن سے بہت دنوں طویل گفتگو نہیں ہوئی۔جن کے اندر وضعداری، خوش مزاجی اور حقانیت کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے ریختہ کی خاطر بہت کچھ کیا ہے، یوں تو وہ برصغیر سے کوسوں دور لندن کے کسی رہائشی علاقے میں رہتے ہیں۔راتوں کو غالباً دیر تک جاگتے ہیں اور بلیک ٹائی سوٹ میں ملبوس ان کی کچھ تصاویر ہم سب کو دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔الیاس ملک وہ واحد آدمی ہیں، جن کی کوششوں سے سب سے پہلے ریختہ پر ساقی فاروقی صاحب کاکلیات اپلوڈ کیا جاسکا۔مجھے یاد ہے، میں اوکھلا ہیڈ پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ مجھے ایک فون آیا، بات کی معلوم ہوا کہ الیاس ملک صاحب بات کررہے ہیں، انہوں نے بات کرتے کرتے مجھ سے کہا :
’’ لیجیے! ساقی صاحب سے بات کرلیجیے!‘‘
ساقی فاروقی، جن کی شاعری کی بدمعاشیت سے میں اکثر وبیشتر کبھی ’صحرا کی آواز ‘ اور کبھی’رادار‘ کے ذریعے مل چکا تھا، آج مجھ سے محو گفتگو تھے، میں نے واقعی بہت خوشی محسوس کی۔ساقی صاحب نے مجھ سے بات کی شروعات اسی جملے سے کی!
’کیوں میاں تصنیف! کیا آپ بھی ویسے ہی بدمعاش ہیں، جیسے کہ ہمارے الیاس ہیں!‘
بعد میں معلوم ہوا کہ بدمعاش، ساقی صاحب کا تکیہ کلام ہے، مگر الیاس صاحب کی بدمعاشی ریختہ کے بہت کام آئی۔ریختہ کے پہلے اجلاس میں جب کوئی بھی ایسی جدید کتاب ریختہ پر موجود نہیں تھی، جس کی وجہ سے ہم جدید ادب کی نمائندگی کرنے میں کامیاب ہوں۔ساقی صاحب کا کلیات، الیاس صاحب کی کوششوں سے ریختہ پر اپلوڈ کردیا گیا۔الیاس ملک ،اچھا خاصا لمبا سفر کرکے صرف اسی کام کے لیے ساقی صاحب کے پاس گئے تھے۔میں ادب کے لیے ان کے ایسے زبردست کمٹنٹ سے بہت متاثر ہوا۔خیر، جب ریختہ نے ای کتاب گوشہ کا اپنی رسم اجرا میں اعلان کیا تو ان محض گیارہ کتابوں میں کچھ اہم قدیم کتابوں کے ساتھ ساقی فاروقی صاحب کا کلیات’سرخ گلاب اور بدرمنیر‘ بھی موجود تھی۔اس کے بعد الیاس صاحب کی ہی کوششوں کی بدولت ہم نے ساقی صاحب کی دوسری کتاب’ہدایت نامہ شاعر‘ بھی اپلوڈ کی۔میں نہ ساقی صاحب سے ملا ہوں اور نہ مجھے ایسی کوئی امید ہے کہ ان سے میری کبھی ملاقات ہوسکے گی، مگر الیاس صاحب کی بدولت میں نے ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کو بہت کچھ سمجھا بھی ہے اور جانا بھی۔الیاس صاحب نے ایک بار اپنی گفتگو میں بتایا کہ ساقی صاحب نے کس طرح اپنی مشہور نظم’ایک سور سے‘ لکھی ہے۔وہ کیسے اپنے گھر سے نکل کر پارک میں ٹہلتے سوروں کو دیکھا کرتے، اور ان کی ذات ،ان کی دیکھ بھال کرتے لوگوں اور ان کے نتھنوں سے گھن کھانے والی مشرقی قوم کے معاملات کا جائزہ لیتے، ان کے بیان میں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے میں خود ساقی صاحب کے ساتھ چہل قدمی کرنے کے لیے نکلتا ہوں۔ان کی نظم کے ساتھ ایسی شرکت بغیر الیاس صاحب کی ایسی معلومات افزاگفتگو کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔لندن جانے سے پہلے وہ اور ان کے دو اوردوست محمد یامین اور زکریا شاذ صاحب کیسے ساقی صاحب کی شاعری پر تبادلۂ خیال کرتے تھے اور کس طرح ان لوگوں کو اس اہم شاعر سے ملنے کا اشتیاق تھا، آج بھی وہ للک الیاس صاحب کے لہجے میں عود کرآتی ہے، جب وہ اس دن کا ذکر کرتے ہیں، جب وہ پہلی بار ساقی فاروقی سے ملے تھے۔الیاس صاحب نے اور بھی بہت کچھ بتایا ہے مجھے، مگر زیادہ تر باتیں دھیان کی ڈھلان سے پھسل جاتی ہیں۔میں ہوں بھی تھوڑا سا لاپروا آدمی۔
ریختہ پر ان کی خاص توجہ کا سلسلہ طویل ہے مگر بس اتنا سمجھ لیجیے کہ ظفراقبال کا شعری کلیات ’اب تک‘ ان کے اور علی زریون کے سبب آپ سب تک پہنچ سکا ہے۔اور جلد ہی چراغ حسن حسرت کا شعری کلیات اور دوسری اہم کتابیں بھی آن لائن ہوسکیں گی۔
ان میں اور مجھ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں، وہ سماج کی بے قاعدہ پابندیوں سے ذرا سے آزاد ہیں، تھوڑے سے بذلہ سنج بھی ہیں۔بات ذرا رک رک کر کرتے ہیں مگر اطمینان اور سکون گفتگو کے خوبصورت جھروکے سے اس دوران تاکتے رہتے ہیں۔آدمی اپنی زندگی میں کچھ لوگوں کی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے، میں بھی الیاس صاحب سے متاثر ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ وہ کبھی انڈیا آئیں اور ہم سردی کے کسی دھوپ بھرے دن میں کسی دالان میں بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہیں۔ان باتوں میں شاعری کی ہلکی پھلکی بحثیں ہوں، ان کی دو چار لکھی ہوئی نظموں پر میرے مختصر تبصرے ہوں اور ہماری ہنسی کی بڑھتی گھٹتی آوازیں ہوں،جن کے کچھ حصے وہ اپنے سرد خطے کی طرف لے جائیں اور باقی گونجیں میں اپنی سماعت میں سجا بنا کر رکھ لوں۔
ریختہ ایک کام نہیں کررہا ہے، بلکہ ایک تاریخ بنا رہا ہے، میری یہ تحریر اس اہم خدمت میں الیاس ملک صاحب کے تعاون کو ایک چھوٹا سا خراج تحسین ہے، ایک اعتراف نامہ ہے، تاکہ جب وقت اس اجلے کام کو تاریخ کی دھند میں چھپانے کی کوشش کرنے لگے، میری یہ سطریں کسی نگاہ کی رسی تھام کر دھویں کے دوسرے کنارے تک پہنچ جائیں اور ان ریختہ سے جڑے ان لوگوں کے کارنامے فراموش نہ ہوسکیں جو ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ الیاس ملک ہی تھے جو شروع شروع میں مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ’تصنیف صاحب۱ فکر نہ کریں! ابھی اس کام میں آپ خود دیکھیں گے کہ کیسے کیسے ادیب شریک ہوتے جائیں گے!‘ اور ان کے کلمات حق ثابت ہوئے۔ہمیں اپنے پہلے سال کے سفر میں ہی اردو ادب کے بیشتر اہم لکھنے والوں کی خدمات حاصل ہوئیں۔بہترین رسالے ریختہ پر بہم کیے جاسکے اور اہم ناشرین نے اپنی خدمات سے ریختہ کو بہرہ ور ہونے کا موقع دیا۔میں اور پوری ریختہ ٹیم ان کی محبتوں،عنایتوں اور خلوص کے لیے بے حد شکر گزار ہے۔

مضمون نگار: تصنیف حیدر

ساقی فاروقی کا شعری کلیات پڑھیے
http://rekhta.org/ebooks/surkh-gulaab-aur-badr-e-muniir-saqi-faruqi-uncategorized

ظفر اقبال کا شعری کلیات پڑھیے
http://rekhta.org/ebooks/ab-tak-volume-1-zafar-iqbal-uncategorized
http://rekhta.org/ebooks/ab-tak-volume-2-zafar-iqbal-uncategorized
http://rekhta.org/ebooks/ab-tak-volume-3-zafar-iqbal-uncategorized
http://rekhta.org/ebooks/ab-tak-volume-4-zafar-iqbal-uncategorized

Monday 13 January 2014

وقت کی قید سے ثروت زہرا کی آواز


میں کوئی تنقیدی مضمون لکھنے نہیں بیٹھا ہوں، یہ صرف میرے کچھ منتشر تاثرات ہیں ، اس کتاب کے متعلق ابھی کچھ عرصہ پہلے لوگوں کے ہاتھوں میں آئی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ شاعر کی اصلیت اگر معلوم کرنی ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ نظم کیسی لکھتا ہے۔میرے ہاتھوں میں اس وقت ثروت زہرا کی کتاب’ وقت کی قید سے‘ موجود ہے۔میں ویسے بھی محبت سے دی گئی کتابوں پر ایک نظر ضرور ڈالتا ہوں، اور بعض اوقات ایک نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ کتاب پڑھنی بھی چاہیے یا نہیں۔یہ کتاب دراصل ثروت زہرا کی نظموں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ثروت زہرا کی کچھ تخلیقات اس سے پہلے بھی میں نے پڑھی ہیں۔ان کے یہاں تخلیقت کی حقیقی روشنیاں بے پناہ موجود ہیں۔میں جس شاعر کے یہاں بے کلی، بے چینی اور سماج کی تپتی ہوئی پتیلی میں ابلتا ہوا محسوس کرتا ہوں، اسے سچا سمجھتا ہوں۔کیونکہ جو تخلیق کار اس تپن کے سبب چیختا نہیں، چٹختا نہیں، وہ فیک ہے، جعلی ہے۔ہمارے یہاں شاعری کے معاملے میں شاعرات کو ان کی لپ اسٹک پاؤڈر تھوڑا بہت چمکانے کی کوشش ضرور کرتی ہے، یقیناًمیں اکثر سوچتا ہوں کہ بیشتر خوبصورت عورتیں اچھی تخلیقات کیوں نہیں لکھتیں۔دراصل اس کے پیچھے منافقت اور جھوٹی تعریف کی وہ گھٹیا سیاست موجود ہوتی ہے جو انہیں شاعری کا محرک تو بنا سکتی ہے، شاعرہ نہیں بنا سکتی۔دوسری طرف عورت کے حقوق کا نعرہ لگاتی اور دندناتی ہوئی وہ شاعرات ہیں ، جن کے پاس ’عورت ذات‘ پر ہونے والے مظالم کا رونا رونے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ثروت زہرا نہ اس طرف والوں میں ہیں، نہ اس طرف والوں میں۔نسائی حسیت اور مردانہ حسیت دراصل دھوکے بازیاں ہیں۔حسیت تو ہر جاندار کا جزو ہے، اور بقا کی جنگوں میں حسیت کی انفرادیت کوئی معنی نہیں رکھتی، ہمارا ہر مسئلہ کسی نہ کسی طور پر آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہے، چاہے وہ بھڑوں کے مصنوعی چھتے ہوں، بھیڑیوں کے بدن سے نچتا ہوا گدلا اون ہو، چاول کی فصل میں کیڑا لگنے سے ہونے والی تباہی ہو،دلدل میں پھنسا ہوا کوئی بچھڑا ہو، پردے کے اندر بچے کو دودھ پلاتی ہوئی کوئی عورت ہو یا جنون میں دیوار سے سرمارتا کوئی آدمی، اب یہ مسائل کسی خاص حسیت سے تعلق نہیں رکھتے، ان سب کا تعلق ہماری ذات سے ہے،ہمارے سرواوئل سے ہے، ہم دھیرے دھیرے سمجھتے جارہے ہیں کہ جنم آنکھیں کھلی رکھنے اور ہاتھ تھامنے کا نام ہے، ان دونوں معاملات میں آواز اور عمل دونوں ہی بہت ضروری ہیں، اسی لیے اچھی شاعری ان دونوں معاملات کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اس سرد خاموش رات میں پھیلے ہوئے ایک بسیط سناٹے کی مانند جس پر ننگے پاؤں چلتے رہنا بھی اپنی مرضی کے خلاف بتائے جانے والی زندگی کے خلاف ایک زبردست مورچہ ہے، صرف فنکارہی مزے سے سیر کرسکتا ہے۔ثروت زہرا اسی طرح کی شاعرہ ہیں۔ان کی نظموں میں اپنی خود اختیاری کا بھرپور احساس بھی موجود ہے اور پاؤں میں پڑی ہوئی بیڑیوں کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھنے کا حوصلہ بھی۔ہماری زندگیاں فلیٹوں میں بند کرفیو کے دوران سڑکوں پر گشت کرنے والے سپاہی کو دیکھتی رہتی ہیں، ہمارے لفظ ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس میں بیٹھے کسی مریض کے رشتے دار کی طرح الجھن میں مبتلا ہیں، مگر ہم زندہ ہیں۔یہ کام فرشتوں کے بس کا نہیں ہے، حوریں تو اس زندگی کے خیال کی حدت سے ہی پگھل جائیں گی، یہ تو آدم و حوا کی بیٹی ہے جو ایسے میں بھی خوبصورت نظر آرہی ہے۔اس کا حزن بھی حسن ہے، اس کا ملال بھی جمال ہے۔ثروت زہرا نے بھی اسی دکھ سے، اسی کرب سے محبت کرکے جو آوازیں لگائی ہیں وہ دراصل’ وقت کی قیدسے‘ آرہی ہیں۔ثروت زہرا ایک اچھی شاعرہ ہیں، ایک زبردست فنکا رہیں۔ان کے یہاں لفظ کی جادوئی صفت اس خوف زدہ اور خون میں لتھڑے ہوئے سماج میں پلتی زندگی کی آئنہ دار ہے۔جس کا کام ہی ایک سچے ادیب کی طرح اس سے منہ موڑنا وتیرہ نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ ان میں بھی ذائقے کے ایک اضافی حسن کو تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہے۔شاعری کا باب طلسم بیان کے اس ’کھل جاسم سم‘ کا مرہون ہے جس میں بقول یوسفی صرف اسے کہہ دینے سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کے لیے علی بابا کا خاص لہجہ بھی درکار ہے اور بے کار محض شاعرات کو پروموٹ کرنے والے جان لیں کہ یہ لہجہ ثروت زہرا کے پاس ہے۔

ریخٹہ پر ثروت زہرا کی کتابیں جلد ہی پیش کی جائیں گی۔ فی الحال ان کا انداز بیان دیکھنے کے لیے ہمارے ویڈیو سیکشن کو دیکھا جاسکتا ہے۔
http://rekhta.org/UrduPoetryVideos

Wednesday 8 January 2014

ریختہ : ایک سال کی روداد، اگلے سال کی تیاری


ظفر اقبال کا ایک شعر ہے
سالہاسال سے خاموش تھے گہرے پانی
اب نظر آئے ہیں آواز کے آثار مجھے
ریختہ کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، مگر اردو دنیا اس ایک سال کے عرصے میں ترقی کی ایک ایسی منزل سر کرچکی ہے، جس کا امکان شاید کسی کو نہیں تھا، آج سے تقریباً تین سال پہلے ریختہ جیسی ویب سائٹ بنانے کا خیال سنجیو صراف کو آیا اور انہوں نے اردو شاعری کو ہندی اور انگریزی داں طبقے تک اس کے اصل متن کے ساتھ پہنچانے کے لیے کوشش شروع کردی۔ترقی دراصل ایک خیال کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔ترقیاں اچانک ہی شروع ہوتی ہیں،ان کو زینہ بنانے کی ضرورت ہو نہ ہو، اڑنے کا سلیقہ ضرور آتا ہے۔ریختہ کی اس ایک سال میں پذیرائی خوب ہوئی۔اردو دنیا کے ماہرین نے اسے زبان کے حق میں فال نیک سمجھا اور بہت سے لوگوں نے اس کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا۔تعریف اور شک کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔کئی لوگوں کے دل میں یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ اتنا بڑا کام، اس سلیقے سے کرنے کے لیے آخر ایک ایسے شخص کو خیال کیوں آیا ، جو کہ بنیادی طور پر ایک صنعت کار ہے۔اس ایک سال میں ریختہ کی نگاہ اپنے چاروں جانب رہی ہے۔اس کی سچے دل سے ہونے والی پذیرائی کی طرف بھی ،اور اس پر لگنے والے الزامات کی طرف بھی۔کئی لوگوں نے ریختہ کو ایک بے کار محض ویب سائٹ اس لیے بھی کہا کیونکہ اس میں اردو کا متن یونی کوڈ میں فراہم نہیں کیا گیا تھااوراسے صرف و محض امیج کی حد تک قید رکھا گیا تھا۔اس طبقے کا ماننا تھا کہ امیج کی صورت میں متن پیش کرنے کی وجہ سے ویب پیج زیادہ دیر میں لوڈ ہوتا ہے اور موبائل پر ایسی ویب سائٹ کو پڑھ پانا یا ان سے استفادہ کرپانا، بہت مشکل کام ہے۔اور جب ریختہ نے ان کی خواہش کے مطابق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی، تو ایک صاحب نے کسی سیمینار کے دوران ریختہ کی تکنیکی خرابیوں کے ساتھ ساتھ اس کے ای۔کتاب گوشے کو بھی مجمع میں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ریختہ نے ان تمام الزامات پر نظر ثانی کی، مگر اس کا موقف اپنی جگہ درست تھا، لوگوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ کتابیں ڈاؤنلوڈ کرنے کی سہولت کیوں نہیں دی جارہی ہے۔میں ریختہ کے ایک سال مکمل ہونے پر ان سوالوں کے جوابات دینے کی اپنی سی کوشش کررہا ہوں۔یہ جوابات میں کسی کے شکوک و شبہات رفع کرنے کے لیے نہیں دے رہا ہوں۔بلکہ تکنیکی طور پر جو لوگ کچھ بنیادی باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، ان کو ریختہ کی اس پالیسی کے کچھ فائدے بتانا میرا مقصد ہے۔اول بات تو یہ ہے کہ ریختہ نے نوری نستعلیق فونٹ کو امیج میں کنورٹ کرکے اس لیے بھی اپلوڈ کیا ہے، کیونکہ تصویری صورت میں ہونے کی وجہ سے یہ ہر جگہ پر ایک جیسا خوبصورت اور دلکش نظر آتا ہے۔اب ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس جگہ نوری نستعلیق فونٹ ڈاؤنلوڈ نہیں کیا جائے گا،وہاں ریختہ کا متن عربی حروف ٹائپ نظر آئے گا۔اس مشکل سے بچانے کے لیے اور ڈاؤنلوڈنگ اور انسٹالنگ کے لمبے چکرسے اپنے قاری کو آزاد رکھنے کے لیے یہ کام انجام دیا گیا۔پھر کاپی کرنے کی سہولت نہ دینے کے پیچھے دراصل ریختہ کا ایک بنیادی حق ہے، جسے محفوظ رکھنے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ریختہ کسی فرد واحد کا کام نہیں ہے۔اس کے لیے ایک پورا اسٹاف کام کررہا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح کسی بڑے ادارے میں موجود افراد کام کیا کرتے ہیں۔ان افراد کی معاشی اور جذباتی وابستگی ریختہ کے ساتھ لازمی ہے۔اگر ریختہ اس تمام تر متن کو کاپی ایبل بنادے تو کیا ممکن نہیں ہے کہ ایک مہینے کی محنت سے کوئی شخص جو ایک ویب ڈزائنر اور آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی سوفٹ وےئر انجینیر کی مدد سے ایسی ہی کوئی دوسری ویب سائٹ نہیں بنالے گا۔ریختہ کے کمپوزرز، اسکینرز ،ایڈیٹرز، پروف ریڈرزاور کلام کا انتخاب کرنے والے تمام تر لوگوں کی محنت پر کیا یہ تین شخص کیا بڑی آسانی سے پوری طرح اپنا تسلط قائم نہیں کرسکتے۔اب رہی دوسری بات کتابوں کی ڈاؤنلوڈنگ کی، تو تف ہے ان دماغوں پر، جو یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح کا لٹریچر ریختہ نے ایک سال کی محنت سے آن لائن جمع کردیا ہے۔اس میں اسے کیسی کیسی مشکلات پیش آئی ہونگی، ظاہر ہے کہ ریختہ کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہے، جسے اس طرح کی خدمات انجام دینے کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے کوئی خاص گرانٹ وغیرہ مل رہی ہو۔اس سرمائے کا استعمال اگر کسی بھی طرح سے لٹریچر کو آن لائن کرنے کے لیے کیا جارہا ہے ، اور وہ بھی مفت میں اچھی کتابیں عوام کے سامنے لا کر رکھ دی جارہی ہیں تو صرف ایک انٹرنیٹ کنکشن کے استعمال پر یوں جھنجھلانا کیا کوئی کار عقلمنداں ہے؟ کیا لوگوں کو نہیں سوچنا چاہیے کہ ریختہ لوگوں کے گھرو ں میں موجود کتابوں کے بھاری بھرکم شیلف کو انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرکے، مواد سرچ کرنے کی جو سہولت دے رہا ہے وہ ان کا وقت کس قدر بچا سکتا ہے۔کسی بھی کتاب کو اپلوڈ کرنے کے لیے ایک خاص پروسز کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر کوئی کتاب کسی جدید مصنف کی ہے تو اس سے یا اسے شائع کرنے والے ادارے سے سب سے پہلے اس کا تحریری اجازت نامہ طلب کرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد اس کتاب کو اسکیننگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے، اسکین ہونے کے بعد کتاب کو ریڈیبل بنانے کے لیے اس کو ایڈٹ کیا جاتا ہے۔اس کے بعد کتاب کی فہرست کو ٹائپ کیا جاتا ہے، پھر اسے ٹول کے ذریعے ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جاتا ہے۔پھر مصنف کو یا ادارے کو سب سے پہلے اس بات کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ہمارا مقصد لوگوں کو کتابوں کی موجودگی کے بارے میں بتانا ہے، ریسرچ کرنے والے طلبا کو ان کا مطلوبہ مواد بہم کرانا ہے، اس لیے ہم آن لائن پڑھنے کی تو سہولت دے رہے ہیں، انہیں ڈاؤنلوڈ کرنے کی سہولت نہیں دے رہے، اور اگر ہم مستقبل میں ای۔کامر س کا شعبہ قائم کرتے ہیں تو اس میں ڈاؤنلوڈ کی جانے والی ہر کاپی کی ایک قیمت رکھی جائے گی اور اس کا ایک خاص شےئر کتاب اپلوڈ کرنے کی اجازت دینے والے ادارے یا مصنف کو دیا جائے گا۔یہ تو تھی جدید کتابوں کی بات، اب رہی ان پرانی کتابوں کی بات جو کہ کاپی رائٹ کے حقوق سے باہر ہیں، ان پر بھی ایک اسکینر، ایک ایڈیٹر، ایک فہرست ساز اور ایک اپلوڈر کی محنت لگتی ہے۔اب ان چار لوگوں کا حق محنت انہیں کوئی بھی کمپنی کس صور ت میں دے سکتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ کتابیں ڈاؤنلوڈ کرنے کو دے دی جائیں تو کوئی بھی شخص بہ آسانی بغیر فہرست کے انہیں آرکائیو ڈاٹ او آرجی یا کسی اور بڑی کتابوں کی ویب سائٹ پر آسانی سے اپلوڈ کرسکتا ہے ،تو سوال یہ ہے کہ ان چار، پانچ لوگوں کی محنت تو رائگاں چلی گئی، پھر تو لوگ جو کتاب جہاں سے چاہیں گے ،آسانی سے انہیں وہ کتاب کوئی شخص دستیاب کرادے گا، پھر ریختہ کی اہمیت، انفرادیت اور افادیت ہی کیا رہ جائے گی۔
ریختہ نے ایک سال کے عرصے میں آٹھ ہزار غزلو ں کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔اس کے علاوہ تقریباًہزار نظمیں اور ایک ہزار کی ہی تعداد میں کتابیں بھی بہم کرادی گئی ہیں۔ان کتابوں میں ادب اور ادبی سیاق کو سمجھنے میں کارگر ہونے والی تمام تر کتابوں کو شامل رکھا گیا ہے۔ریختہ کا تعلق صرف و محض ادب سے ہے، مگر کوئی ایسی تاریخ کی کتاب جو ادب کا حوالہ بنتی ہے، کوئی ایسی مذہب کی کتاب جو ادب کا سیاق سمجھاتی ہے یا کوئی ایسی سماجیات و معاشیات کی کتاب جس سے ادب کے کسی بھی گوشے پر روشنی پڑنے کا امکان ہے،ریختہ کے ای بک سیکشن میں جگہ پا سکتی ہے۔اس سال ریختہ کے ای بک گوشے میں جہاں ایک طرف اجمل کمال ، عمر میمن، یاسر جواداور ارجمند آرا جیسے اہم ناموں کے تراجم اپلوڈ کیے گئے، وہیں تنقید کے شعبے میں مولانا الطاف حسین حالی، کلیم الدین احمد، آل احمد سرور، شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی وغیرہ کی کتابیں بھی عوام کے سامنے لائی گئیں۔شاعری کے گوشے میں ہم نے بہت سے اہم شاعروں کی کلیات اور مجموعے پیش کیے۔جن میں قائم چاند پوری،جعفر زٹلی، قلندر علی بخش جرات،نسیم لکھنوی،باقر علی چرکین، جگر مرادآبادی،علامہ اقبال، مجید امجد، جون ایلیا، ناصر کاظمی،سارا شگفتہ،اخترالایمان، ظفر اقبال، فہمیدہ ریاض، کشور ناہیداور نصیر احمد ناصر وغیرہ جیسے اہم نام شامل ہیں۔مقدمہ ابن خلدون جیسی بسیط اور فکر انگیز کتاب کے ساتھ ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد کی حیات سرمد جیسی دبلی پتلی لیکن اہم کتاب بھی اس سال ریختہ کا حصہ بنی۔ساتھ ہی ساتھ خامہ بگوش کے قلم سے جیسی مشفق خواجہ کے کالموں کا مجموعہ بھی ریختہ کی زینت بنا۔
شاعری کے ذیل میں مجھے خود بہت سے اچھے شاعروں کو پڑھنے کا موقع ملا۔جن کے میں نے اب تک صرف نام سنے تھے اور انہیں ٹھیک سے پڑھا نہیں تھا۔ایسے ناموں میں ریختہ پر موجود ریاض لطیف، اطہر نفیس، ثروت حسین، صغیر ملال، آشفتہ چنگیزی، رئیس فروغ اور جلیل عالی جیسے کئی اور بھی شعراشامل ہیں۔نوجوان نسل میں معید رشیدی کی دو تنقیدی کتابیں ، امیر امام کا شعری مجموعہ ، علی اکبر ناطق کے دو شعری مجموعے اور زاہد امروز کی پابلو نیروداکی نظموں کے تراجم پر مبنی کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔
اس سال ریختہ کا حلیہ تبدیل ہونے جارہا ہے۔کیونکہ بہت سے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ اردو شاعری کی یہ اہم ویب سائٹ دراصل سمندر ہے۔جس میں کسی ایک گہر بے بہا کی تلاش بہت ہی مشکل ہے۔اس لیے ریختہ نے اپنے اندر بہت سی گنجائشیں پیدا کرلی ہیں۔ریختہ اب کے ایک ایسے سرچ انجن کے ساتھ آپ کے سامنے آئے گی جس میں آپ تمام تر چیزیں، یعنی کلام، خاکے، ای بکس سب کچھ رومن، دیوناگری یا اردو رسم الخط میں ٹائپ کرکے تلاش کرسکیں گے۔اس سال ریختہ میر تقی میر کے چھ دیوان کی مکمل غزلوں،مناقب، مرثیوں،مثنویات، رباعیات اور قطعات کے ساتھ آپ کے سامنے آنے والی ہے، ساتھ ہی ساتھ غالب کا تمام متداول اور غیر متداول کلام اور سعادت حسن منٹو کی تمام تر کہانیوں کو بھی آپ کے لیے پیش کرنے جارہی ہے۔میر کے تمام کلام کے لیے ہم قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ساتھ ساتھ اس کے مدونین احمد محفوظ ،شمس الرحمن فاروقی اور ظل عباس عباسی کے ممنون ہیں ، اس کے علاوہ منٹو کی کلیات کا جو متن ہمارے یہاں پیش کیا جارہا ہے ، وہ پاکستان کے شہر لاہور میں رہائش پذیر امجد طفیل صاحب کی کلیات منٹو سے ماخوذ ہے۔ان کے اس تعاون اور اجازت کے لیے ہم ان کے بھی تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔
اردو شاعری پڑھنے والوں اور اس سے حظ حاصل کرنے والوں کو عروض کی بھی اگر تھوڑی بہت شد بد ہوجائے تو کیا ہی لطف رہے۔اس خیال کے تحت ریختہ نے اپنے یوم جشن تاسیس کے موقع پر عروض کے لکچر کی ایک سیریز کا آغاز کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔جس میں بھارت کے شہر نوئیڈا میں مقیم ماہر عروض بھٹناگر شاداب نے آسان زبان میں عروض کی الگ الگ بحروں پر لکچر دیے ہیں، جس میں عروض کا ایک مکمل کورس تیار کروادیا گیا ہے۔اس کی مدد سے کوئی بھی شخص بہ آسانی شاعری نہ سہی لیکن عروض کو ضرورسیکھ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے۔
آخر میں ریختہ کے چاہنے والوں کو دو ہزار چودہ میں ہونے والے کچھ اہم کاموں کے بارے میں بتاتا چلوں
۰ گوپی چند نارنگ کی ساٹھ کتابیں آن لائن کردی جائیں گی، جن میں ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات بھی شامل ہے۔
۰اردو ای۔لرننگ کورس شروع کیا جائے گا
۰منٹو کاپورا لٹریچر جس میں کہانیاں، خطوط، مضامین، ڈرامے اورناول وغیرہ شامل ہیں۔آن لائن کردیے جائیں گے۔
۰میر انیس ، مرزادبیر،جوش ملیح آبادی وغیرہ کے مراثی اردو،دیوناگری اور رومن میں اپلوڈ کیے جائیں گے۔

مضمون نگار:  تصنیف حیدر

www.rekhta.org

Saturday 4 January 2014

میرا جی کی چند سطریں


میراجی کی غیر مطبوعہ نظموں پر مشتمل کلام میراجی کے بھائی نے لاہور کے کسی دوکاندار کے ہاتھوں ردی میں بیچ دیا تھا ۔۔۔’دس فروری 1948کو میں لاہور پہنچا اور تادم تحریر لاہور میں اس کوشش میں ہوں کہ کسی طرح اس ردی کا کھوج لگ سکے، جس کے لیے میراجی اکثر روئے ہیں اور میری یہ کوشش بالکل رائگاں نہیں گئی۔آخر ایک پرزہ مزنگ کے ایک دوکاندار کے ہاں سے مجھے مل ہی گیا۔مزنگ لاہور کے اس مقدس محلے کا نام ہے جہاں میراجی رہتے تھے۔میرا خیال ہے کہ یہ کاغذ کا پرزہ اس ڈھائی تین برس کی محنت کی کچھ کم قیمت نہیں ہے۔اس کاغذ کا اوپر کا ایک کونہ پھٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے دیوناگری رسم الخط میں ’’اوم‘‘ کی علامت صرف آدھی پڑھی جاتی ہے اور پہلی سطر کے شروع کے تقریباً دو تین لفظ بھی اڑ گئے ہیں۔نثر کا یہ ٹکڑا یہاں سے صاف پڑھا جاسکتا ہے۔
اخلاق احمد دہلوی(1950)

’’۔۔۔۔۔۔۔چپکے سے جاکر تیرے پہنے ہوئے کپڑے جو تو نے ابھی ابھی اتارے چرا لاؤں، جو تونے ابھی ابھی اتارے ہوں چرالاؤں اور اپنے گھر کی خلوت میں انہیں دیکھ دیکھ کر، انہیں اپنے سینے سے لپٹا لپٹا کر، ان سے اپنے گالوں کو سہلا کر تسکین حاصل کروں۔ان میں رچی ہوئی تیرے جسم کی خوشبو مجھے لاکھوں شرابوں سے کہیں بڑھ کر مست کرسکتی ہے اور تیرے جسم کی ساخت سے جو سلوٹیں ان میں پیدا ہوجاتی ہیں ان کے مقابل سمندر کی لہریں، گھٹاؤں کی گدراہٹ کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔خوبصورت لڑکی!میرے خیالات ایک مرکز پر جمع ہوکر دن بدن دل کی بے قراری زیادہ کیے دیتے ہیں۔وہی سادہ آرزوئیں تیرے دل میں بھی ہوں گی کہ تو بھی جوان ہے اور میں دل پسند۔۔۔۔۔اے نازنین! اپنے اور میرے دونوں جسموں کو ملا کر اس ابدی راستے پر خراماں ہو جو اس قدر پریشان فطری کے باوجود ذہن و روحِ انسانی کا واحد مقصد ہے۔اگر بیرونی بندھن نہیں توڑ سکتی تو اندرونی رکاوٹیں ہی دور کردے کہ باقی کام میرا ہے۔

میرا جی پر شعور کے پہلے شمارے میں اچھی تحریریں ملاحظہ فرمائیے۔
http://rekhta.org/ebook/Shaoor_1_