Monday 23 June 2014

تنقید کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں


صاحبو بلکہ بادشاہو! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ تنقید کی لت ہمیں کتنی پرانی ہے۔ آئے روز ہماری تنقیدیں نئے نئے شگوفے بلکہ بُوٹے کھلاتی ہی رہتی ہیں۔جس روز ہم کسی کی تنقید نہ کریں ایسا لگتا ہے کہ ’ جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی‘۔بلکہ بعضے دفعہ تو تنقید نہ کرکے ہمیں قائم و دائم چُورن تک کھانا پڑا اس کے بعد معجونِ مقویِ معدہ و بڑی آنت الگ۔حتیٰ کہ ہم نے تہیہ کر لیا کہ تنقید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے کہ یہ وہ اسمِ اعظم ( الٰہ آبادی) ہے کہ جو ہمارے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔پس جس روز دو چار تنقیدیں نہ ہو جائیں ہمیں چین نہیں آتا ۔لیکن ہمارے ساتھ دِقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی طرح نقاد نہیں لگتے، نہ ہمارے بال جھڑے ہیں، نہ بد قسمتی سے عینک لگی ہے اور نہ ہی ہاتھوں میں رعشہ ہے۔رعشہ تو بہرحال ہم خود پیدا کر سکتے ہیں کہ ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، کہ دائیں ہاتھ سے ہم دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔رعشہ تو دو چار روز کی مشق سے آجائے گا، لیکن ان کم بخت بالوں کا کیا کیا جائے؟ ایک یارِ پچپن(۵۵) سے ا سکا حل پُوچھا جو خود تو نقاد نہیں تاہم نقادی کے گُر سکھاتے ہیں۔بولے کہ بال گرانے اور سفید کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم ہر شب سونے سے قبل اپنے سر پر خالص دیسی نمک ملا کرو،اس کے ساتھ ہی انہوں نے دیسی نمک کی پہچان، فوائد اور استعمال پر ایک بلیغ تقریر بھی فرمائی اور نصیحت کرتے ہوئے کہا ’’بہتر ہے سودا سلف لاتے ہوئے نمک کا ڈھیلہ یا پیکٹ سر پر اٹھالیا کرو، انشا اللہ افاقہ ہوگا‘‘۔
اس روز سے ایک طویل عرصہ تک نمک ڈھونے کی مشق بہم پہنچائی لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی بلکہ بعضے دفعہ تو اس’’ شوقِ گیسوئے سفیداں‘‘ کے چکر میں باورچی خانے کے لئے اضافی نمک بھی ڈھویا، لیکن بدبختی نے ساتھ نہ چھوڑا۔نمک ڈھوتے گئے اور ہر صبح آئینہ دیکھتے گئے کہ سفید بال اب نکلے کہ تب اور ’’آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لیکے رہ گئے‘‘۔اب حلی�ۂ نقادگاں بنانے سے زیادہ ہم نے اپنی تنقید پر توجہ مرکوز کی ،خود کو یہ سوچ کر ڈھارس بندھائی کہ ضروری نہیں ہر شخص شکل وہ وہی نظر آئے جو اس کا پیشہ ہے۔( اس کے لئے ہمارے پاس بے شمار مثالیں ہیں لیکن بوجہِ خوفِ خلق نہیں پیش کر رہے)۔بہر کیف!حلیہ پر خاک ڈالی اور تنقید کے عزم بالجزم کو ازسرِ نو تازیان�ۂ شوق و شمار کند�ۂ شخصیات و فنون ہائے لطیفہ.................اوہ معاف کیجئے گا تنقید لکھتے اور کرتے ہوئے ہماری زبان گاڑھی ہو کر فارسیا گئی ہے۔ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ تنقید کے عزم کو تھپتھپایا اور تنقید جاری رکھی۔اب یہ کہ ادھر ہم گھر سے نکلے تو تنقیدیں شروع۔گلی محلے میں صفائی نہیں تو وزیرِ صحت و تندرست�ئ کابینہ پر تنقید۔سڑک پر ٹریفک کا اژدہام دیکھا تو وزیرِ ٹرانسپورٹ و سپلائیز برائے حکومت پر تنقید۔پائپ لائین سے پانی رِستا دیکھا تو وزیرِ محکم�ۂ سپلائی آباں پر تنقید۔حتیٰ کہ جب تنقید کے لئے کوئی وزیرِ با تدبیر باقی نہ بچا تو سب وزیروں کے وزیر یعنی اعلیٰ وزیر کو یہ کہہ کر ہدفِ تنقید بنایا کہ اُونگھ رہا ہے۔اور جھٹ سے یہ محاوہ جڑ دیا کہ‘‘ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجارہا تھا‘‘حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ نیرو کے پاس بانسری تو اپنی تھی ہمارے پاس وہ بھی نہیں ہے۔پس اے عزیزو! اسی طرح قدم قدم پہ تنقیدیں بپا ہونے لگیں۔حتیٰ کہ ایک روز ہم نے ایک باپردہ خاتون کو روک کر یہ تنقید کر ڈالی کہ’’ اے گُل بدنِ شہرِ خوش ادا! باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن اس دور میں جب ہر طرف ملبوسات اور بدن ہائے نازک کی نمود و نمائش ہائے جائز و ناجائز عوتِ مژگانِ ہر خاص و عام حصولِ سند و قبولیت پذیر ہے۔آپ کا خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے کا یہ ڈریس اپ چہ معنی دارد؟‘‘۔
صاحبو اور بادشاہو! اس روز سے تنقید پر سے ہمارا دل کھٹا ہوا کہ اُس خاتونِ ضخیم و معرکتہ الآرا نے ادائے شانِ بے نیازی سے چلمن ہٹائی اور بڑے کرخت لہجے میں گویا ہوئیں:
’’کیا کہا؟ خاتون ہوگا تیرا باپ‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے بھاگنے کی مہلت بھی نہ دی یعنی ان کا ہاتھ اور میرا گریبان۔خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں، بلکہ مِن و عَن آسر زرکاوی کے زمان�ۂ عہدِ شباب و کباب ہائے سندھ و لندن و پیریس طرز کی دوعدد پھڑکاؤ مونچھیں، بلکہ گلدستہ ہائے مونچھ رکھتی تھیں، کڑک کر بولیں......’’اے تو کیا بولا! خاتون الرشید..............میری وائف کو تو کیسے جانتا؟‘‘پس صاحبو اور بادشاہو!میں سڑک کے دوسرے کنارے پڑا تھا اور وہ خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں،چلمن گرائے خراماں خراماں دوسری سمت رواں تھیں۔ایک ضعیف الملا عمر ٹائپ کے نوجوان نے ازراہِ رشک و ہمدردی ہمیں قریب کے شفا خانے تک پہنچایا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں،کی بیگم کا نام خاتون تھا اور خود ان کا رشید۔اور صاحب الرشید درپردہ ہائے برقع�ۂ سیاہ و چلمنِ تابدار، افیون کی امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔پس اس خاتون الرشید کے چکر میں کئی روز تک ہدایات و نسخہ ہائے دوائے ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ مالش بھی کرواتے رہے۔ہم نے ان خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں،کے طرزِ عملِ غیر صالح سے نصیحت باندھی اور تہیہ کر لیا کہ تنقید نہ کریں گے۔گو کہ اس میں،تنقید میں،فائدے بہت تھے۔ایک تو لوگ بلا وجہ خائف رہتے تھے۔جاہل اس لئے بات نہیں کرتے تھے کہ میاں بڑا عالم ہے، بچ کے رہو۔ اور عالم یہ سمجھتے تھے کہ نقاد ہے نہ جانے کب اور کہاں..............خیر نقاد ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی بات پر چاہے وہ بجا ہو یا بے جا اڑے رہ سکتے ہیں۔اڑے رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ کوئی بھی طوفانِ باطل آپ کو ہلا نہیں سکتا۔بہر کیف! تنقید سے توبہ کی اور لسانیات پر توجہ مرکوز کی، بلاشبہ تنقید کے بعد لسانیات میں کافی اسکوپ ہے۔اس میں بھی آپ آئے روز نئے نئے گل بوٹے کھلا سکتے ہیں اور ایک زبان کا رشتہ دوسری زبان سے جوڑ کر اپنے آپ کو لسانی تحقیق کا جدِ امجد حیدر آبادی کہلا سکتے ہیں۔ہم نے بھی اپنے نام کے ساتھ ماہرِ لسانیات و مطالعات ولحیات الاموات، الشرح بالقبور النشور لکھوا کرلسانیات پر لیکچر دینے کی ریہرسل شروع کر دی۔ریہرسل کے لئے ہم نے میر انیسؔ کی طرح قدِ آدم آئینہ اپنی خواب گاہ ہائے خرگوش میں نصب کروایا اور لیکچرز کی پریکٹس بالفعل شروع کر دی۔اب ہم اردو کا رشتہ قدیم سنسکرت اور آریائی زبانوں سے جوڑ رہے ہیں اور جونہی یہ جوڑ جڑ جائے گا قارئینِ کرام آپ کو مطلع کیا جائے گا۔کیونکہ ہم نے سنسکرت کو قومی سطح پر قومیانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے اس لئے اردوئے کربلائے معلی کے ساتھ اس کی رشتہ داری انشاء اللہ سود مند ثابت ہوگی۔اُمید ہے کہ اس کے بعد ہمیں شری دیوی پدما، مسز پدما بھوشن لعل،یا گیان پیٹھ سنگھ رخِ زیباؔ جیساکوئی اعزاز مل جائے گا۔اب حکومت کوہمیں باضابطہ طور ماہرِ لسانیات کے طور قبولنا چاہیے ورنہ اس کے اثرات شیئر مارکیٹ پر ہرگز اچھے نہ ہوں گے۔
************
skkarrar@gmail.com

ریختہ پر موجود تنقیدی کتب پڑھنے کے لیے کلک کریں

Tuesday 17 June 2014

ملاقات شاہِ خرستان سے



عزیزو! صاحبو! اور بادشاہو.....وہ جگالی کر رہا تھا۔
اس روز غلطی سے ہمارا پاؤں اُس کی دُم پہ جا پڑاتھا۔ گدھے نے ہمیں گھور کر دیکھا اور کان جھٹک کر دوبارہ جگالی میں مصروف ہوگیا۔ہم نے بھی کھسک لینے میں ہی عافیت جانی کہ جانے کب دولتی جھاڑ دے لیکن دوسرے روز پھر جب ایسا ہی ہوا یعنی چلتے چلتے ہمارا پاؤں اس کی دُم پہ جا پڑ ا تو گدھا یک لخت چاروں ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔ ہمیں لگا جیسے ابھی اُچھل کر دو لتی جھاڑے گا اور پھر ہمیں دبوچ لے گا لیکن اس نے خالصتاً لکھنوی انداز میں ایک ٹانگ سے کورنش بجا لایا اور نہایت شستہ وشائستہ زبان میں گویا ہوا:’’آداب عرض کرتا ہوں حضور!‘‘
صاحبو! آپ جب کسی گدھے کو باتیں کرتے سنیں، اور اسے خالص لکھنوی انداز میں’’ آداب عرض‘‘ کرتے ہوئے پائیں، تو جو آپ کی ہوگی وہی ہماری ہوئی،یعنی کیفیت، ہرچندپاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی،تاہم نے بڑی مشکل سے اسے، زمین کو، دوبارہ پاؤں کے نیچے دبالیا اور لگے سوچنے کے یہ کیا ہو رہا ہے؟اس سے قبل ہم نے صرف آنجہانی کرشن چندر کے گدھے کو باتیں کرتے سنا تھا جو پہلے بارہ بنکی کے رامو دھوبی کے ہاں کام کرتا تھا اور بعدازاں سوامی جواہر لعل نہرو کو اس سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا تھا۔
ہم نے اسے، گدھے کے گویا ہونے کو، سماعت اور بصارت کا دھوکہ جانا اور ذرا تیکھے انداز میں اسے گھورا اور اپنے عصا سے دھمکاتے ہوئے کہا:’’گدھے.........پیچھے ہٹو!!‘‘
گدھے نے یہ سن کر استہزایہ ہنہناہٹ بھری جیسے قہقہہ لگا رہا ہو ۔پھر گویا ہوا:’’حضور! آگئے نا آپ اپنی اوقات پر۔ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا نام خرخر شریفیؔ ہے۔مجھے گدھا کہلانے میں کوئی عار نہیں انسان البتہ کوئی کہے تو دولتیوں سے اس کا حلیہ بگاڑ دوں‘‘
’’لیکن تم کیسے گدھے ہو؟‘‘ بولنا کہاں سے سیکھا تم نے؟‘‘
’’حضور! گویائی کے جملہ حقوق محض آپ انسانوں کے نام مخصوص نہیں۔ یہ تو عطائے خداوندی ہے جسے چاہے نواز دے۔ویسے آپ انسان بھی عجیب مخلوق ہیں۔حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کرنے اور پھر حضرتِ آدم کی نجی غلطی سے جنت بدر ہونے اور بعدازاں زمین پر آباد ہو کر ساری مخلوق کا ناطقہ بند کرنے کے نظریے کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور چچا ڈارونؔ کے نظری�ۂ ارتقا پر بھی یقین رکھتے ہیں، حالانکہ یہ دو متضاد نظریات ہیں۔ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ڈارونؔ کے نظریۂ ارتقا کے تحت کیا یہ ممکن نہیں کہ اکیسویں صدی تک آتے آتے گدھے بھی بولنے لگ جائیں؟‘‘۔یہ کہہ کر گدھے نے نہایت چبھتی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھا۔ہم جھینپ گئے اور بغلیں جھانکنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن معلوم ہوا کہ ایک بغل میں چھتری اور دوسری میں استاد فیروز دیناؔ کا دیوان تھاما ہوا ہے۔لہذا بغلیں جھانکنے کے ارادہ کو ملتوی کیا اور لگے سوچنے کہ یہ گدھا تو جان کو آگیا۔لیکن ہم نے اپنی روایتی اَنا کو بروئے کار لایا جو ہم ہمیشہ ایسے موقعوں پر لاتے ہیں ا ور طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا:’’اے گدھے!ڈارونؔ کی تھیوری پیش کرکے تم ہم پر اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا چاہتے ہو‘‘۔
گدھے نے نہایت اطمینان سے اپنی دُم کو ایک عدد بوسہ دیا، کان کھجائے اور بولا:’’مجھے علمیت کے اظہار کا کوئی شوق نہیں۔سب جانتے ہیں میں کیا ہوں۔یہ شوق آپ کو مبارک۔ویسے آپ کی اطلاع اور اصلاحِ زبان کے لئے دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ خرِ ناچیز کو خرخر شریفی ؔ کہتے ہیں۔ لکھنؤ میں پیدا ہوا بعدازاں ’چٹ پٹ یونیورسٹی آف پولیٹی‘ سے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی اسناد حاصل کیں۔نامساعد حالات نے ہجرت پر مجبور کر دیا۔سردست میں یہاں ایک معروف ٹھیکدارکے ہاں ملازم ہوں جوان دنوں سیاسی میدان میں قسمت آزمائی میں مصروف ہیں۔تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں محض ڈارونؔ کا نظریہ سے ہی واقف نہیں بلکہ دنیا بھر کے انقلابوں کی تاریخ،مختلف سیاسی نظریات اور عالمی تاریخ،ادب اور تنقید سے گہری واقفیت رکھتا ہوں۔نظریاتی طور میں خرشلسٹ ہوں‘‘۔
’’خرشلسٹ....................؟‘‘ ہم نے قدرے حیران ہو کر پوچھا:’’ یہ کیا ہے میاں خر خر شریفیؔ ‘‘
’’ یہ گدھوں کے حقوق کے لئے وضع کردہ عالمی نظریہ ہے جس کے تحت گدھوں کی ایک آزاد و خودمختار ریاست کا قیام جس میں خرشلسٹ نظام ہوگا اور’حقوقِ خر‘ سمیت عالمی سطح پر گدھوں کے ساتھ ہونے والے امتیاز کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔میں اس مجوزہ ریاست کا نامزد بادشاہ ہوں۔ریاست خرستان!‘‘
عزیزو! ہم نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی ہمیں گدھے سے باتیں کرتے دیکھ کر غلطی فہمی کا شکار تو نہیں ہو رہا۔کہتے ہیں غلط فہمی کی وبا بڑی جلد پھیلتی ہے اور ویسے بھی ہمارے دشمن بہت ہیں اسلئے احتیاط لازم ہے لہذا آپ بھی جب کسی گدھے کو باتیں کرتے ہوئے پائیں تو اسے، احتیاط کو،، ملحوظ رکھیں۔اس میں دو اور چار ٹانگوں والے گدھوں کا کوئی استثنیٰ نہیں۔
گدھے کی اس عالمانہ گفتگو سے ہماری تو گھگی بندھ گئی تھی تاہم ہم نے کھانس کر حلقوم تر کیا ،کہ گدھا ہمیں جیّد جاہل تصور نہ کر لے اور ہمارے متعلق غلط فہمیاں نہ پھیلاتا پھرے ،ہم نے ذرا بارعب انداز اختیار کرتے ہوئے کہا:’’خرخر شریفی! تم بھی کسی عام مخلوق سے مخاطب نہیں ہو۔ اول تو ہم اشرف المخلوقات میں سے ہیں۔دوم اردو زبان کے نہایت بے لوث خادم،مصنف ، مفکراور ماہنامہ’’برقِ ناگہاں‘‘ کے مدیر ہیں، انسانوں سے بات کرنے سے پہلے اپنی اوقات ملاحظہ کرو، منطق، فلسفہ شعرو حکمت، ریاضی اور نجوم پر ہماری دس کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور بارہویں قینچی میں ہے‘‘
گدھا چند لمحے ہمیں یوں دیکھتا رہا جیسے ہمارے علم و دانش پہ خاموش ہنسی ہنس رہا ہو پھر بولا:’’پتہ نہیں یہ تم انسانوں نے اپنے ساتھ اشرف المخلوقات کا دُم چھلہ کیوں لگا رکھا ہے۔کبھی سوچا ہے کہ آخر تم میں اشرافیت کون سے ہے؟۔خداوند اِ کریم نے جس انسان کو اشرف المخلوقات کہا تھا وہ تو جنابِ آدم اور ان کا فرزندِ خوش بخت ہابیلؔ تھا جسے اس کے اپنے بھائی قابیل نے تہہِ تیغ کر دیا اور آج تک یہ روایت جاری ہے۔قتل، خونریزی،دھوکہ دہی،فریب،بغض، عناد، نفرت کیا یہ اشرافیت ہے؟نسل، قومیت، کلیسا۔محمود و ایاز کا فرق، گنگو تیلی اور راجا بھوج کا امتیاز۔جمہوریت کا ڈھول پیٹتے ہو اور صارفیت اورعصبیت کو فروغ دیتے ہو..................۔پیچھے بھاگ رہے ہو اور اسے ترقی کہتے ہو۔انشاء اللہ ریاست خرستان کہ جس کے قیام کے امکانات روز افزوں روشن ہوتے جا رہے ہیں،کو قائم ہو لینے دو۔ پھر دیکھنا حقیقی فلاحی ریاست کیا ہوتی ہے۔ اور کیا کہا تم نے مدی ہو تم؟یہ دبدبہ کسی اور کو دکھانا۔ میں جانتا ہوں کہ فی زمانہ مدیر وہی بن سکتا ہے جو اوّل تو سرمایہ دار ہو یا بالکل سر مایہ دار نہ ہو۔مدیر بننے کی تیسری کوئی صورت نہیں۔ ویسے سرمایہ دار میں سے سر نکال باہر کیا اور صرف مایہ دار رہ جائے تب بھی آپ مدیر بن سکتے ہیں۔لہذا یہ کوئی قابلِ عزت بات ہر گز نہیں۔طب، ریاضی، فلسفہ،منطق اور شعرو ادب میں تم میرا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ گوکہ میری ابھی تک کوئی کتاب نہیں چھپی تاہم ارادہ ہے کہ انشاء اللہ ریاست خرستان کے قیام کے ساتھ ہی اپنی تمام مطبوعات کو چاند پر چپکاؤں گا تاکہ رات پڑتے ہی سب مخلوقات بلا معاوضہ و بلا امتیاز ان کا مطالعہ کر سکیں۔ویسے تمہارے اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اردو شاعری میں مجھے ظفر بے حد پسند ہے...........!!‘‘
’’کون ظفر؟ ‘‘ہم قدر متعجب ہوئے:’’ظفر سموسے والا‘‘
’’اماں یارتم ظفر کو نہیں جانتے‘‘اس نے ہمیں گھورتے ہوئے کہا’’ اردو کا بہت بڑا شاعر ہے۔ بلکہ بعضے کا خیال تو یہ ہے کہ شاعر ہی وہی ہے فی زمانہ۔تم نے اس کی ’’رطب و یابس‘‘ نہیں پڑھی۔اگر نہیں پڑھی تو میرا ماننا ہلے کہ تم سراسر جاہل ہو۔ آہا کیا کہہ گیا ہے ظالم۔شعر سنو:
چھوٹے ٹھاہ بھئی موٹے ٹھاہ
کاروں کوٹھیوں والے ٹھاہ
یہ سن کر پہلے تو ہمارا جی چاہا کہ اُسے، خر خر شریفی کو،اپنے عصا سے پیٹ کر واپس دریا پار بھگا دیں۔ آخر گدھا ہی تو ہے، کیا ہوا اگر انسانوں جیسا نام رکھا لیا ہے، تاریخ،فلسفہ، سائنس، ریاضی اور عروض و بیان پر قدرت رکھتا ہے۔ لیکن آخر ہے تو گدھا ہی۔لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش رہے کہ علمیت میں بہر حال ہم سے آگے ہے لہذا کیا ضروری ہے اس دل جلے کو چھیڑ کر خواہ مخواہ ایک طویل بحث میں الجھا جائے۔یہی سوچ کر ظفرکے شعر پر بے حد داد دی اور خر خر شریفی کے آگے ہم نے بھی کورنش بجا لایا اور رخصت کی اجازت چاہی لیکن اس کا سلسل�ۂ کلام بدستور جا رہا:
’’ تم کیا جانو اس شاعری کو میاں!یہ اصل شاعری ہے۔شاعر اس میں بیک وقت سوشلسٹ، صارفیت، جنگجوئیت،اشتراکیت، سمیت دیگر نظریات سمونے میں کامیاب رہا ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب شاعر قتل و خوں کے لئے باضابطہ تمہید باندھتا تھا اور خنجر ، تیغ، وغیرہ کی باتیں کرکے اپنا اور دوسروں کا وقت خراب کرتا تھا۔اب جدید اور ترقی یافتہ دور میں خنجر آزمائی کا وقت کس کے پاس۔لہذا شاعر سیدھے سادے انداز میں’’ ٹھاہ‘‘ کرکے اپنا اور دوسروں کا وقت بھی بچاتا ہے اور تکنیکی ترقی کی فضیلت بھی بیان کرتا ہے جس کے باعث محض ایک ’’ ٹھاہ‘‘ میں ہی اشرف المخلوقات کو ڈھیر کیا جا سکتا ہے‘‘
’’بس بس..........!‘‘اب ہم میں کھڑے ہونے کی سکت بھی باقی نہیں رہی تھی اس لئے ہم نے اس بلیغ گدھے کو ٹوکتے ہوئے کہا:’’ہمیں اس طویل بحث میں الجھانے کی کوشش مت کرو.....آخر تم گدھے ہو اور گدھے ہی رہو گے۔ہمارے ساتھ ایسی باتیں کر لیں سو کرلیں کسی اور انسان سے مت کرنا نہیں تو پیٹ پیٹ کر دوبارہ لکھنؤ بھاگنے پر مجبور کر دے گا‘‘
گدھا اس بات پر پہلے ہمیں نہایت خشمگیں نظروں سے دیکھتا رہا پھر قہقہہ بلند کرتے ہوئے بولا:’’ایسی باتیں ہا ہا......ہنچو ہنچو ہا ہا ہا...............ہم گدھے ایسی باتیں سب سے نہیں کرتے۔یہ اعزاز توہم محض انہیں بخشتے ہیں جن میں ہمیں گدھے پن کا شائبہ ہو اور یہ اُمید ہو کہ انہیں’گدھایا‘‘ جا سکتا ہے۔ ورنہ انسان بھی کوئی منہ لگانے کی چیز ہے۔ باسی اور مری ہوئی گھاس کے موافق.................میاں چلو!اب اپنا راستہ ناپو۔ ہمارے قیلولہ کا وقت ہو چلا ہے‘‘
lll
skkarrar@gmail.com

کالم نگار: شیخ خالد کرار

اردو کی اچھی کتابیں پڑھنے کے لیے کلک کریں:

Monday 9 June 2014

غزل بہانہ کروں



آہا عزیزو! ایک روز ہم غزل گنگنا رہے تھے اور اس کے معنی پہ غور کر رہے تھے۔ غزل کے معنی تو آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ’عورتوں کے متعلق باتیں کرنا‘اور غزل کہنے( فی زمانہ گھڑنے) والے کو شاعر کہتے ہیں۔ اللہ اللہ ! کیا معنی ہوئے ہیں غزل کے۔ یعنی عورتوں کے متعلق باتیں کئے جاؤ اور دھڑلے سے کئے جاؤ۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔اللہ معاف کرے ! ہمارے پیرو مُرشد کو معلوم نہ ہونے پائے۔ خدا جانے اس صدمے کا ان پر کیا اثر ہو؟یعنی حد ہے بھئی! یہ شاعر لوگ اتنے کایاں ہیں کہ بہو بیٹیوں کی باتیں برسرِ عام کرتے پھریں اور کوئی خبر تک نہ لے۔میاں قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں سب۔ اللہ معاف کرے۔استغر اللہ! ٹھیک ہی کہا تھا افلاطون نے کہ اس کی مثالی ریاست میں شاعروں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔اسی لئے ہم افلاطون کی بے حد عزت کرتے ہیں۔ افلاطون بہو بیٹیوں کی عزت کرنا جانتا تھا اور شاعروں کے اس وطیرے سے بھی غالباً آگاہ تھا۔
شاعر بھی کیا ہوئے ہیں ا ور ہیں۔ یعنی ایک جانِ ناتواں اور اس قدر بکھیڑے۔پہلے تو ایک خیالی دنیا آباد کرنی، اُس میں چرند پرند، انسان، حیوان، نباتات و جمادات پیدا کرنے اور دُودھ اور شہد کی نہریں بہانیں،گُل و بلبل کے نغمے ،آبشاروں کا ترنم اور پھولوں کا تبسم ۔پھر ایک رقیبِ رُوسیاہ کو دعوت دینی کہ میاں تم بھی آؤ۔ اس قدر خوبصورت جگہ اتنی محنت سے بنا کر بجائے اس کے کہ اس میں ہنسی خوشی رہے شاعر ایک عدد پری زاد کو باغ میں بٹھا کر اس کی پرستش اور رقیب سے حسد شروع کر دیتا ہے اور پھر اس کے ہجرو فراق میں وہ نغمے الاپتا ہے کہ الاماں! بھئی! بڑے دل گُردے کا کام ہے ہم تو باز آئے۔
اب دیکھئے ایک شاعر ہوئے ہیں ، حق مغفرت کرے۔انہوں نے تو علیٰ الاعلان کہہ دیا کہ’ کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اُسے؍ غزل بہانہ کرو اور گنگناؤں اسے‘۔توبہ ہے بھئی!تو گویا غزل کی آڑ میں آپ گیت بھی گاتے پھرتے ہیں۔ یہ تو دوہراجرم ہے۔ مثالی ریاست میں گویوں کا کیا کام؟ مزید بر�آں ہمارے بزرگوں کا بھی یہی حکم ہے کہ موسیقی سے پرہیز کرو۔ ہاں نُور جہاں، کندن لال سہگل اور بیگم اختر اور عزیز میاں کو گاہ بہ گاہ سننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ خاص کر عزیز میاں قوال کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ انہیں نہار منہ سننے سے دماغ کی گرمی جاتی رہتی ہے اور قالب رواں رہتا ہے۔
شاعر بھی کیا ہوئے ہیں اور اور کیا کہہ گئے ہیں،۔کبھی کبھی تو ہم انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں اور بعد میں انگشتِ شہادت دیکھتے ہیں جس پر ہمارے ہی دانتوں کے نشان ہوتے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ اس قدر لاغر جسم، ڈھانچہ نما وجود اور شاعر کا یہ حوصلہ۔ایک شاعر تو بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ میاں شیخ دیکھو ہماری تر دامنی پہ مت جاؤ، ہم اگر دامن نچوڑ دیں تو فرشتے آآر کر وضو کریں۔گویا یہ ایک طرح سے چیلنج تھا فرشتوں کے لئے،چاہیے تو یہ تھا کہ فرشتوں کی سلامتی کونسل اس حوالے سے کوئی اقدام کرتی اور شاعر اور شاعروں کے ہوش ٹھکانے لائے جاتے لیکن ہنوز ایسا نہیں ہوا۔بھئی یہ بھی کوئی بات ہے کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔اوّل تو اس نُوری مخلوق کو وضو کی ضرورت اور فرصت ہی کیا ہے۔ دوم اگر ضرورت پڑ بھی جائے تو شاعر کا دامن نچڑوانے کی کیا تُک ہے۔کیا حوضِ کوثر کم ہے؟؟فرشتوں کی اس حرکت، یعنی شعراء اور بطور خاص شاعر مذکور کے خلاف کاروائی نہ کرنے سے ہمیں زبردست مایوسی ہوئی۔ تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ ہو نہ ہو فرشتے شعراء سے خائف رہتے ہوں گے جبھی تو کسی فرشتے نہ کسی شاعرکی آج تک خبرنہ لی۔ایک بار اس یقین سے حوصلہ پا کر ہم پورا دن دامن نچوڑتے رہے اور اُفق کی طرف دیکھتے رہے کہ اب کوئی فرشتہ آئے کہ تب۔لیکن پورا دن دامن نچوڑنے کے بعد ہمارایقین کہ فرشتے شعراء سے خائف رہتے ہیں، یقینِ کامل میں تبدیل ہو گیا۔اس روز ہمیں بے انتہا خوشی ہوئی کہ چلو کوئی تو ہے جس سے فرشتوں جیسی مخلوق بھی خائف ہے۔آنجہانی کرشن چندر سے روایت ہے کہ شاعر سے پولیس اور چور دونوں خائف رہتے ہیں۔حالانکہ یہ دونوں اپنی صفات کے اعتبار سے کسی دوسرے بالکل نہیں ڈرتے لیکن شاعر نظر آجائے تو چور سامان چھوڑ کر اور حوالدار لٹھ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ایک بار ہم اپنے ایک دوست سے ملاقات کی غرض سے پولیس تھانہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اندر زبردست سراسیمگی ہے۔بعداز تحقیق معلوم ہوا کہ ہمیں پھاٹک سے اندر آتے دیکھ لیا گیا ہے اور دیکھنے والوں میں ہم سے خار رکھنے والے بھی شامل تھے۔یقیناًانہوں نے تھانیدار سے ہماری چغلی کھائی ہوگی کہ ہم شاعر ہیں۔حالانکہ ہم تو کسی پایہ کے شاعر بھی نہیں۔بہر حال اس روز ہم نے نہایت اطمینان سے پورے پولیس تھانہ کی چہل قدمی کی اور بڑی افسردہ دلی سے گھر لوٹ آئے۔
ہاں توعزیزو! جیسا کہ ہم نے عرض گزاری کہ عام آدمی اگر کوئی بڑا دعویٰ کرے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہمارے استاد اگر یہ کہیں کہ رات بھر جاگ گر انہوں نے آسمان کے تارے گنے اور کُل ستاسی کروڑ بانوے ہزار نوسو ستر ہوئے ہیں۔ تو لوگ ان پر ہنسیں گے اور اگر کسی سیاسی جماعت کا کوئی کارکن یہ کہے کہ وہ عنقریب وزیراعظم بننے والا ہے تو لوگ اور بھی ہنسیں گے کہ بَڑ ہانک رہا ہے۔لیکن شاعر اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو اسے تعلیٰ کہہ کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں اور خوب خوب تالیاں پٹتی ہیں۔ مثلاً کوئی شاعر کہہ گئے ہیں کہ بھئی ’ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ مت جاؤ؍ ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں‘۔بھلا ان تاجوں کا کیا جو عجائب گھروں میں پڑے پڑے خراب ہو رہے ہیں اور آپ ہیں کہ ٹوپیاں مانگ مانگ کر اور سی سی کر گزارہ کر رہے ہیں۔ یعنی صبح ہوئی اور بقول مرزا نوشہ گھر سے کان قلم پر رکھ کر نکلنے سے قبل جمال و جلال کی اماں سے کہا’’ نیک بخت! ذرا جانا تو،مکرر ارشاد میاں کے گھر سے ایک ٹوپی اُدھار لے آنا آج مشاعرہ پڑھنا ہے‘‘۔اب اس کو، عجائب خانے میں رکھی ٹوپیوں کو، بَڑ کی جگہ تعلیٰ کہیں گے۔ چونکہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ شاعر بڑے کایاں ہوتے ہیں انہوں نے بَڑ کو صفت میں شامل کرکے اس کا نام تعلیٰ ڈال دیا تاکہ کوئی شریف زادہ ان کی طرف آنکھ میلی کر کے نہ دیکھ سکے۔
شاعروں کے نام اور تخلص بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں ۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اودھ بلاؤ کے بعد دنیا کی یہ واحد مخلوق ہے جس کے نام و تخلص شخصیت سے بالکل میل نہیں کھاتے جیسے شاکرؔ بخیلی،ببنؔ کریلہ پوری،مشربؔ طاغوتی،دردؔ خوش آبادی،غمؔ شہریاری، شیخوؔ شیخ چلی وغیر جیسے بیشمار تخلص مستعمل ہیں۔خود ہمارا بھی ارادہ ہے کہ انشاء اللہ بڑے ہو کر غزل گھڑنے کی مشق بہم پہنچائیں گے اور جب اس ہنر میں خوب مشتاق ہو جائیں گے تو اپنا ایک منفرد نام و تخلص مشتاقؔ آدم بیزاری رکھ کر شعر کہیں گے کیونکہ فی زمانہ شعر کہنا چنداں مشکل نہیں۔بس آپ اردو کا کوئی پرانا اخبار اٹھا لیجئے اور اس کے مضانین کو کاٹ کر غزل کے پیرایہ میں لکھتے جائیے۔آپ اس کے لئے نیا اخبار بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن سرقہ کے الزام کا خطرہ ہے۔لہذا مناسب یہی ہے کہ اخبار پرانا ہو اور اس میں کہیں نہ کہیں کسی مضمون میں فارسی کا استعمال بھی ہوا ہو۔اگر ایران سے فارسی اخبارات کی ایک کھیپ منگوا لی جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔اس سے لوگوں، خاص کر شعراء اور نقادوں پر رعب بنا رہے گا کہ فارسی پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔اگر آپ چاہیں تو اپنے نام کے ساتھ جدید، مابعد جدید، انتہائی جدید، اور پسِ ما بعد جدید یااسی طرح کی تراکیب بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے آپا کا رعب دگنا ہو جائے گا اور انشا اللہ چاروں طرف آپ کا طوطی بولنے لگے گا اور جب خوب بول جائے تو آپ طوطی کو چپ بھی کرا سکتے ہیں۔بس یہ خیال رہے کہ کوئی قاری لاکھ سر مارے آپ کے اشعار سے معنی بر آمد نہ ہو سکیں۔شعر جس قدر مشکل ہو اور معنی جس قدر کم ہوں، شاعر اس قدر کامیاب اور عمدہ تصور کیا جائے گا۔اس کے لئے فقط ایک شعر کی مثال کافی ہے جوخود ہماری عمدہ شعر گوئی کا نمونہ بھی ہے ملاحظہ کیجئے انشاء اللہ شعری افاقہ ضرور ہوگا۔
تشکیک و لایعنیتِ بیش وکمِ حیات ہے
حیات ہے، بساط ہے، مری میں بھی سوات ہے
skkarrar@gmail.com

کالم نگار: شیخ خالد کرار

خالد کرار کی غزلیں ریختہ پر پڑھنے کے لیے کلک کریں

Sunday 1 June 2014

ہومر کے لافانی رزمیے


مرزا حامد بیگ ایک اہم قلم کار ہیں، افسانے پر ان کی تنقید اور اس صنف کے تعلق سے ان کی گہری دلچسپی نے انہیں اردو ادب میں ایک نمایاں مقام دلوایا ہے۔ان کی تحریر صاف، سادہ اور سلیس ہے۔پڑھنے والے کو وہ کسی الجھن یا ذہنی پریشانی میں مبتلا کیے بغیر اپنے مشکل خیالات بھی بیان کرنے پر قادر ہیں۔ان کا زیر نظر مضمون ’ہومر‘کی شخصیت، اس کے رزمیوں کی پراسرار تاریخ اور ہلکے سے تحقیقی نوعیت کا ہے۔مضمون دلچسپ ہے اور علم میں اضافے کا سبب بھی۔چنانچہ اسے یہاں پیش کرنے کا بنیادی مقصد ایک رواں تحریر کے ذریعے ایسے شاعر کی روداد بھی پیش کرنا ہے، جس کو ن م راشد نے اندھے کباڑی سے تعبیر کیا تھا۔امید ہے کہ یہ مضمون آپ کو پسند آئے گا۔مضمون ’اردو ادب ‘ کے ایک شمارے سے لیا گیا ہے،جو کہ انجمن ترقی اردو ہند کے زیراہتمام ہر تین مہینے میں شائع ہونے والا ایک ادبی مجلہ ہے اور اس کے تمام شمارے آپ عنقریب ریختہ پر پڑھ سکیں گے۔
ریختہ


ہومر کون تھا؟ کب پیدا ہوا اور کب وفات پائی؟ کہاں کا رہنے والا تھا، اور اس نے کس طرح زندگی کی؟ نیز یہ کہ اس کا جملہ تخلیقی سرمایہ کس قدر ہے؟
اِن سوالات کے جواب میں وثوق سے بات کرنا ممکن نہیں۔ ان سوالات پر صدیوں کی گرد بیٹھی ہوئی ہے۔ خود یونانیوں کو اپنے ملک الشعرا ہومر سے متعلق کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ ابھی تک تو یہی طے نہیں ہوپایا کہ ہومر نام کا کوئی شاعر تھا بھی یا نہیں۔ اس لیے بھی کہ ’ہومروس‘ یونانی زبان میں اندھے کو کہا جاتا ہے۔
کیا ہومر واقعی اندھا تھا؟ اِس سوال کا جواب بھی تحقیق طلب ہے۔
یونانی زبان میں ہومر کی آٹھ سوانح عمریاں ملتی ہیں جو اُس وقت لکھی گئی تھیں جب یونان کے لوگ صرف کہانی سے ہی نہیں، کہانی کہنے والے سے بھی دل چسپی لینے لگے تھے۔ زیادہ تر سوانح عمریوں میں ہومر کو ایک اندھا غریب گویّا بتایا گیا ہے، جو اپنا پیٹ پالنے کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرا۔ یوں تاحال ہومر کی ذات سے متعلق جتنی تحقیق ہوئی ہے وہ متضاد اور مختلف باتیں سامنے لاتی ہے۔
پہلی صدی عیسوی کا یونانی مورخ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ ہومر حضرت مسیح ؑ کی پیدائش سے ساڑھے آٹھ سو برس پہلے کا آدمی ہے، جب کہ دیگر مورخ گیارہویں صدی پیشتر مسیح ؑ کے زمانے کو ہومر کا عہد قرار دیتے ہیں۔ ہومر کی جاے پیدائش سے متعلق بھی اختلاف ہے۔ چناں چہ ایک یونانی شاعر نے طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سات مردہ شہر ہومر کی جاے پیدائش ہونے کے دعویدار ہیں، جہاں زندہ ہومر بھیک مانگتا پھرا تھا۔‘‘
ہومر کی کچھ سوانح عمریوں میں ہومر کو دریائے میلس کا بیٹا بتایا گیا ہے جو سمرنا شہر کے نیچے بہتا تھا اور ہومر کی ماں ایک دریائی پری (NYMPH) بتائی گئی ہے جس کا نام کریتھائیس تھا۔
یونانی مورخ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ یونان کے شہر کیومی سے کچھ لوگ قدیم زمانے میں نقلِ مکانی کرکے ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر جابسے تھے۔ اُن لوگوں میں ایک مفلس شخص میناپولوس تھا، جس کی اکلوتی بیٹی کا نام کریتھائیس تھا۔ وہ ابھی بہت چھوٹی سی تھی کہ اُس کا باپ مرگیا۔ میناپولوس نے مرتے وقت اپنی بیٹی کو کلیناکس نامی شخص کی سپرد داری میں دے دیا تھا، لیکن کلیناکس نے ایمانداری سے کام نہ لیا اور اُس لڑکی سے ہم صحبت ہوا۔ پھر بدنامی کے ڈر سے کریتھائیس کو ایک قافلے کے ہمراہ سمرنا بھیج دیا۔ اُس وقت وہ حاملہ تھی۔
سمرنا میں کریتھائیس کا ایک بیٹا پیدا ہوا، جس نے ہومر کے نام سے شہرت پائی۔ دریائے میلس کے کنارے ہومر نے جنم لیا تھا، اس لیے اُس کا نام میلے سیگنس رکھا گیا اور وہ بے باپ کا مشہور ہوا۔
دریائے میلس کے کنارے فیمیوس نامی ایک شاعر اور موسیقار کا مدرسہ تھا۔ فیمیوس نے ہومر کی ماں پرترس کھاتے ہوئے پہلے تو اسے گھریلو کام کاج کے لیے ملازمہ رکھا اور پھر اس کی اچھی عادات سے متاثر ہوکر اُس سے شادی کرلی۔ یوں ننھے ہومر کی فطری شاعرانہ صلاحیتوں کو ایک معلّم کی راہنمائی مل گئی۔
فیمیوس نے مرتے وقت ہومر کو اپنا وارث مقرر کیا۔ ہومر نے چند برس تک فیمیوس کے مدرسے کو بڑی کامیابی کے ساتھ چلایا، یہاں تک کہ ہومر کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ انھی دنوں میں ایک دولت مند سیّاح مینس کا وہاں سے گزر ہوا۔ مینس کو ہومر نے پہلی ہی ملاقات میں اتنا متاثر کیا کہ وہ ہومر کو سفر پر اپنے ہمراہ لے جانے پر بضد ہوا۔ مینس نے ہومر کو سفر کے فوائد بتائے اور اس کی شاعرانہ صلاحیتوں کے لیے سفر کو ضروری قرار دیا۔ یوں ہومر اُس مالدار سیّاح کے ساتھ نگری نگری گھوما۔
ہومر کی نظر شروع دن سے کمزور تھی۔ اُس سفر کے دوران اُس کی بینائی بہت متاثر ہوئی اور ’اتھیکا‘ (یونان) نامی شہر تک آتے آتے ہومر اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اُس نے یولیسس کا قصہ پہلی بار اُسی شہر میں سنا تھا جسے بعد میں اس نے اپنے رزمیہ ’اوڈیسی‘ کی بنیاد بنایا۔ اتھیکا سے وہ سمرنا کی طرف پلٹا اور رات دن محنت کرکے رموزِ شعر پر قدرت حاصل کی۔
اب وہ اندھا تھا اور اُس کا کوئی ذریعۂ معاش نہ تھا۔ آخر مفلسی سے تنگ آکر ہومر اپنے آبائی شہر ’کیومی‘ آگیا جہاں ایک زرہ ساز نے اسے اپنے گھر میں رہنے کو جگہ دی۔ اب وہ اپنی نظمیں بڑے بوڑھوں کی محفلوں میں سناتا اور انعام پاتا تھا۔ اُس زمانے میں کیومی کی ’شہر کونسل‘ میں ہومر کے مستقل ذریعۂ معاش کا سوال پیش ہوا۔ کونسل کے بیشتر ممبران کا یہ موقف تھا کہ ہومر کا وظیفہ مقرر کیا جائے تاکہ وہ کیومی میں رہ کر اپنی شاعری کے ذریعے اس شہر کو دنیا بھر میں معروف کردے۔ لیکن یکلخت ایک بدباطن شخص نے زور دے کر کہا کہ ’’صاحبو، اگر کونسل اس طرح اندھوں کی پرورش کا ذمہ لینے لگے گی تو وہ دن دور نہیں جب یہاں ناکارہ لوگوں کی بھیڑ لگ جائے گی۔‘‘ الغرض شہر کونسل نے وظیفہ دینے سے معذوری کا اظہار کردیا۔
ہومر دل برداشتہ ہوکر وہاں سے چل دیا اور ٹھوکریں کھاتا فوکیبا نامی شہر میں جاپہنچا، جہاں تھسٹورائڈٹس نامی ایک شہرت کے بھوکے شخص نے اِس شرط پر اُس کا روزینہ مقرر کردیا کہ ہومر جو کچھ تخلیق کرے گا وہ تھسٹورائڈٹس کے نام سے مشہور کیا جائے گا۔ ہومر نے مجبوراً یہ کام بھی کیا۔ ایک وقت آیا جب تھسٹورائڈٹس نے اشعار کا کافی سرمایہ جمع کرلینے کے بعد ہومر کو گھر سے نکال باہر کیا۔ اب ہومر اس شہر کو بھی چھوڑکر چل دیا۔
اریتھری نامی مقام پر اُس کی ملاقات ایک گلہ بان سے ہوئی، جو اُسے اپنے آقا کے پاس لے گیا۔ گلہ بان کے آقا نے ہومر کی لیاقت سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کی تربیت کا کام اُسے سونپ دیا۔ ایک بار پھر وہ بطور معلم کے مشہور ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اریتھری کے مقام پر قیام کے دوران اُس نے شادی بھی کی، جس سے اُس کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
اب اس کی اگلی منزل ایتھنز تھی۔ وہ ایک بڑے شہر سے اپنی آواز ساری دنیا تک پہنچانا چاہتا تھا۔ ایتھنز جاتے ہوئے ساموس کے جزیرے میں اس کی بہت قدر افزائی ہوئی اور انعامات سے نوازا گیا۔ موسمِ بہار میں وہ ایتھنز پہنچنے سے پہلے جزیرہ یوس میں سخت بیمار ہوگیا اور یہیں وفات پائی۔ ایتھنز، جزیرہ یوس اور ارکیڈیا کے چرواہے اُس کی تُربت پر آج بھی مستقل حاضری دیتے ہیں۔
مشہور یونانی فلاسفر ارسطو سے منسوب ایک کتاب میں ہومر سے متعلق ایک روایت درج ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ ارکیڈیا کے سمندر کے کنارے ماہی گیروں کی آبادی میں گیا اور سوال کیا کہ:
’’اے ارکیڈیا کے ماہی گیرو! کیا تمھارے پاس کچھ ہے؟‘‘
اِس کے جواب میں انھوں نے ایک پہیلی کہی:
’’جو کچھ ہم نے پکڑا تھا، سو پیچھے چھوٹ گیا۔ جو ہم نے نہیں پکڑا، وہی ہمارے پاس ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ ہومر اس پہیلی کو نہ بوجھ سکا اور اسی غم میں مرگیا۔ شبلی نعمانی نے اپنے سفرنامہ ’سفرنامۂ روم، مصر و شام‘ میں لکھا ہے کہ ہومر کی قبر سمرنا میں ہے۔
166
ہومر سے بہت سی نظمیں منسوب ہیں، لیکن وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تمام نظمیں ہومر کی ہیں بھی یا نہیں۔ اِس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس کی بہت سی نظمیں گم ہوگئیں، جن میں سے ایک مزاحیہ رزمیہ مارجیٹس کا ذکر ارسطو نے کیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہومر کی تمام تر شہرت اُس کی دو طویل نظموں (رزمیوں) ’اوڈیسی‘ اور ’ایلیڈ‘ کے سبب ہے۔
رزمیہ ’ایلیڈ‘ میں ٹرائے کی جنگ کا بیان ہے جو اہلِ یونان اور ٹرائے شہر والوں کے مابین ہوئی۔ اس دس سالہ جنگ میں طرفین کے بڑے نامی دلیر مارے گئے۔ اس لڑائی کا اصل سبب کیا تھا؟ دس برس تک اس کی کیا صورت رہی اور آخرکار اس کا خاتمہ کیوں کر ہوا؟ اِن سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ’ایلیڈ‘ کے ساتھ دوسری کتابوں سے بھی مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ جن لوگوں کے سامنے ہومر نے ان قصوں کو گاکر سنایا ہوگا وہ یقیناًاس جنگ کی اصل حقیقت سے واقف ہوں گے یا کم از کم ۵۵۰ قبلِ مسیح میں ایتھنز کے لوگ اس واقعے سے بخوبی آگاہ رہے ہوں گے۔
’ایلیڈ‘ میں ٹرائے کی جس جنگ کو ہومر نے اپنا موضوع بنایا ہے اس کے بارے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ۱۲۰۰ قبلِ مسیح کا قصہ ہے۔ یہ جنگ ہوئی ضرور تھی گو اصل واقعات اور وجوہ وہ نہ ہوں جو ہومر نے بیان کی ہیں۔ البتہ ہومر کی راہنمائی سے جرمنی کے ایک ماہر آثارِ قدیمہ نے ۱۸۶۸ء میں ٹرائے شہر کو کھود نکالا۔
دوسری نظم (رزمیہ) ’اوڈیسی‘ کا قصہ اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب شہر ٹرائے کو تباہ ہوئے بیس برس گزر چکے تھے۔ یوں ’اوڈیسی‘ کا تعلق تاریخ سے نہیں ہومر کے تخیل سے ہے۔ اس نظم میں یولیسس نامی ایک اولوالعزم بادشاہ کا ذکرِ خاص ہے جو ٹرائے کی جنگ میں شریک تھا۔ اس نظم میں بتایا گیا ہے کہ گھر کی طرف واپسی کے دوران کس طرح طوفان نے اُس کے بحری بیڑے کو کہیں سے کہیں پہنچادیا اور وہ کس طرح دربدر پھرتا آخرکار اپنے وطن پہنچا۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے زبان و بیان میں خاصا فرق پایا جاتا ہے اس لیے اس بات پر بھی ہمیشہ سے بحث ہوتی آئی ہے کہ یہ دونوں نظمیں (رزمیے) ہومر کی تخلیقات ہیں بھی یا نہیں۔
قدیم وقتوں سے ایک نظریہ یہ بھی رہا ہے کہ ’اوڈیسی‘ کسی عورت کی تصنیف ہے۔ آج کل اس نظریے کے سب سے بڑے حامی مشہور انگریزی شاعر اور محقق رابرٹ گریوز ہیں۔ رابرٹ گریوز نے اپنی دو کتابوں \'دی گریک متھس\" اور \'\'ہومرز اڈوٹر\" میں کچھ دلائل بھی پیش کیے ہیں لیکن ان کے خیالات کو بھی حتمی سمجھنا غلط ہوگا، اس لیے کہ اب تو اُن دلائل کے رد میں بھی کئی مضامین لکھے جاچکے ہیں۔
(۲)
بارہ سو سال قبل مسیح میں اہلِ یونان اور اہلِ ٹرائے کے مابین ہونے والی خوں ریز جنگ ’اوڈیسی‘ کا پس منظر ہے۔ اس جنگ کی تفصیل ہومر نے اپنے مشہور رزمیہ ’ایلیڈ‘ میں بیان کی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ ’ٹرائے‘ ایشیائے کوچک میں ایک عظیم الشان سلطنت تھی، جس کا بادشاہ پریام ایک جاں باز مرد تھا۔ پریام کے چھوٹے بیٹے پارس نے سپارٹا (یونان) کے سردار مینیلاؤس کی حسین و جمیل بیوی ہیلن کو مع مال و اسباب کے اغوا کرلیا۔ اس پر مینیلاؤس نے یونان کے تمام سرداروں کو جمع کرکے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے میں مدد چاہی۔ جس کے نتیجے میں یونان کے بڑے بڑے جنگجو سرداروں نے اپنے اپنے لشکر کے ساتھ بحری بیڑے کے ذریعے ٹرائے پر چڑھائی کی۔ اس مہم میں اٹیکا (یونان) کا عظیم جنگجو سردار اوڈسیوس (یولیسس) بھی شریک ہوا اور ٹرائے کی جنگ میں عظیم جنگی ہیرو ایجکس اور اکلیس کے شانہ بشانہ کارہائے نمایاں انجام دیے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد جو یونانی سردار زندہ بچے وہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس ہولیے، مگر اوڈسیوس دیوتاؤں کی ناراضگی کے سبب طویل مدت تک مارا مارا پھرتا رہا۔ ’اوڈیسی‘ میں اُس کی اِس طویل مسافرت کا احوال بیان کیا گیا ہے۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ اہلِ یونان کے لیے بائبل کا درجہ رکھتی ہیں۔ قدیم ایتھنزمیں ہر چار سال بعد ایک بڑا میلہ لگتا تھا، جس میں بادشاہِ وقت ان دونوں رزمیوں کو اسٹیج کرواتے تھے۔ ہومر اُس یونانی تہذیب کا ریکارڈ کیپر ہے، جو ۱۲۳۰ قبل مسیح میں صفحۂ ہستی سے نابود ہوگئی۔ ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ یونانی شاعری کے قدیم ترین نمونوں میں سے ہیں، جن کے زمانۂ تحریر کا تعین نہایت درجہ مشکل ہے۔
اِن دونوں رزمیوں کو قدیم محققین نے ایک ہزار قبل مسیح کی تخلیقات بتایا ہے جب کہ جدید ترین تحقیق ان دونوں رزمیوں کو ۸۰۰ قبل مسیح کی تخلیق بتاتی ہے۔ جدید ماہرینِ لسانیات نے ہومر کی زبان، صرف و نحو اور روزمرہ پر تحقیق کرکے اُس کے حقیقی عہد کی نشان دہی کرنا چاہی تو پتا چلا کہ ہومر نے اپنے زمانے کی زبان لکھی ہی نہیں۔ اُس نے مختلف علاقوں کا بیان کرتے ہوئے مختلف زمانوں کی یونانی زبان کو برتا۔ اِس طرح اس کے اصل عہد تک پہنچنا دشوار ہے۔ جہاں تک روزمرہ استعمال کی چیزوں، رسوم و رواج اور اسلحہ کے بیان کا تعلق ہے تو اس سے بھی محققین کو کوئی خاص مدد نہیں ملتی۔ اس لیے کہ ہومر نے اپنے عہد سے پیچھے ہٹ کر تقریباً چار سو برس پہلے کے واقعات اور کرداروں کو اپنے قصے کے لیے چُنا۔ ٹرائے کی جنگ ۱۲۰۰ قبل مسیح کا قصہ ہے، جس کا بیان ’ایلیڈ‘ میں ہوا جب کہ ’اوڈیسی‘ میں ٹرائے کی جنگ کے بیس برس بعد کے زمانے کو پیش کیا گیا ہے۔
مستند تواریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ ۵۵۰ قبل مسیح میں یونان مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور اس پر مختلف حکمرانوں کی حکومت تھی۔ ایتھنز کا حاکم پئستراتوس تھا، جس نے ’پان آتھینسی‘ نامی ایک قومی تیوہار کو رواج دیا۔ اس تیوہار میں خواص و عوام کا ایک بڑا جلوس ایتھنی دیوی کے مندر تک پیدل چل کر جاتا تھا اور وہاں ہومر کے منظوم قصے/ رزمیے کو سُریلی آوازوں میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ اُن دنوں ہومر کے منظوم قصے مختلف نظموں کی صورت میں ملتے تھے۔ لیکن گاکر سنانے والے اُن قصوں کی باہمی ترتیب اور ربط کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ شاہ پئستراتوس کے حکمِ خاص پر ۵۵۰ قبل مسیح میں ہومر کی نظموں کا ایک سرکاری متن قلم بند کیا گیا۔ یوں ہومر کا کلام ضائع ہونے سے بچ گیا۔
۱۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ ہومر کی دو طویل نظموں یعنی ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کو کتب خانہ اسکندریہ کے ناظم ارستارخوس نے نامور تاریخ دانوں اور محققین کی مدد سے مرتّب کیا۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے تراجم دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ اردو میں ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا اولین تعارف پنجاب ریلیجئس بک سوسائٹی، انارکلی، لاہور (پاکستان) نے ۱۹۲۲ء میں ’الیڈ و اُڈسے‘ کے نام سے خلاصے کی صورت میں پیش کیا تھا۔ جب کہ اردو میں ’اوڈیسی‘ کا پہلا اور تاحال آخری مطبوعہ ترجمہ محمد سلیم الرحمن نے ’جہاں گرد کی واپسی‘ کے نام سے نثر میں کیا ہے، جسے مکتبۂ جدید، لاہور (پاکستان) نے ۱۹۶۴ء میں شائع کیا۔ یاد رہے کہ ’اوڈیسی‘ کا ایک ترجمہ ڈاکٹر اطہر پرویز نے بھی کیا تھا جو تاحال کتابی صورت میں شائع نہیں ہوسکا۔۱؂ ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا کوئی مخصوص سیاسی اور سماجی پس منظر نہیں ہے۔ دو رزمیوں کی صورت لکھے گئے اِس منظوم قصے میں ۸۰۰ تا ۱۰۰۰ قبل مسیح کے یونانی مطلق العنان بادشاہوں کے اہلِ ٹرائے پر غلبہ پانے کے بعد واپسی کا سفر بیان کیا گیا ہے۔
’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا مرکزی کردار اوڈسیوس غلطی سے سمندر کے دیوتا کے بیٹے کی بینائی زائل کردیتا ہے، جس کے سبب اسے طرح طرح کی مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ اس منظوم قصے/ رزمیہ میں ہومر نے خصوصیت کے ساتھ جواں ہمت اوڈسیوس کی محبت، دوستی اور وطن پرستی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ جب کہ عالمِ بالا پر دیوتاؤں کو انسانی مقدر کے فیصلے کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔
اوڈسیوس سورماؤں کے دور کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ انسانی حافظے میں سب سے قدیم یادیں اُسی نیم تاریخی دور (سورماؤں کا دور) سے متعلق محفوظ ہیں، جب انسان نے تاریخ لکھنا شروع نہیں کی تھی۔ اُس وقت انسان اپنی ہی طرح کے (لیکن طاقتور اور باکمال انسانوں کو) ’دیوتا‘ یا ’دیوتاؤں کا اوتار‘ سمجھتا تھا۔ اوڈسیوس مردانہ وجاہت کا پیکر، تدبر کا نمونہ اور تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاح اور قصہ گو بھی ہے۔ وہ دیوتاؤں کا تابع فرمان، دوستوں کا دوست، ظالموں کا دشمن، بیوی بچوں سے محبت کرنے والا، وطن پرست انسان ہے۔ ہومر نے اوڈسیوس کے حوالے سے فانی انسان کی جدوجہد اور تہذیبی ورثے کی تلاش کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ اس منظوم قصے/ رزمیہ میں ہومر نے سفر کو وسیلۂ ظفر قرار دیا ہے۔ ہومر نے اوڈسیوس کے سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے ہمیں اس دنیا کی حقیقتوں سے متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ تخیل اور رومان کی دنیاؤں کی سیر بھی کروائی ہے۔ یوں ہم ایک سے زائد تہذیبوں اور رسوم و رواج سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔
مجموعی اعتبار سے اٹیکا کی ملکہ (یعنی اوڈسیوس کی بیوی پینے لوپیا) اور اس کے عُشّاق کے حوالے سے قدیم یونان کی سیاسی اور سماجی رسومات سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں عالمِ بالا پر زیوس دیوتا کے دربار کی ’دیوتا کونسل‘ سے متعلق بھی معلومات ہاتھ آتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ دیویاں اور دیوتا کس قدر ضدی، خود سر اور کمزور کردار کے حامل ہیں۔ ’اوڈیسی‘ میں ہومر نے ہمیں سائکون اور سائی کلوپس اقوام کی طرزِ معاشرت کے ساتھ ساتھ راس مالیا، جزیرہ لاموس، سورج دیوتا کے مثلث نما خیالی جزیرے، جزیرہ اوگی گیا اور جزیرہ فیاکیا کے علاوہ پاتال سے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہومر نے اُس وقت کی معلومہ دنیا اور دوسرے جہان میں روحوں کی حالت سے متعارف کروانے کے ساتھ جزا اور سزا کے تصور پر بھی خیال آرائی کی ہے۔
ہومر کی شاعری سے ہم لوگ ناواقف سہی، تاہم اس کے نام سے ضرور واقف ہیں جب کہ یورپ میں ہومر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بلاشبہ اُسے یورپ کے نظم نگار شعرا کا استاد کہا جاسکتا ہے۔ قدیم یونان میں مشہور قانون داں لائی کرگس اور سولون اس کی نظموں کے ٹکڑے گویّوں سے فرمائش کرکے سنا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عظیم یونانی فلاسفر ارسطو نے اپنے شاگردِ عزیز سکندر اعظم کے لیے ہومر کی ان دو نظموں کے مستند نسخے ایک جلد میں تیار کروائے تھے۔ سکندر اعظم اُس کتاب کو جڑاؤ جزدان میں لپیٹ کر اپنے تکیے کے نیچے رکھتا تھا۔
ہومر کی یہ نظمیں نہ صرف نظم کی شاعری میں اعلا مقام کی حامل ہیں بلکہ یونان کی قدیم تاریخ اور نسب ناموں کا مخزن سمجھی جاتی ہیں۔ جس طرح ایران کے شاعر حافظ کے دیوان سے ہمارے ہاں لوگ فال نکالتے ہیں اُسی طرح ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ میں سے اہلِ یونان فال نکال کر قسمت کا احوال جاننے کی کوشش کرتے تھے۔
یونان اور سارے یورپ کے شاعر ہومر کی رنگیں بیا نی پر سر دُھنتے تھے اور فلاسفر اس کی شاعری میں سے فلسفیانہ مسائل تلاش کرتے تھے۔ یورپ کے مذہبی محقق اور شارحین خاص طور پر صوفی مسلک کے لوگوں نے ہومر کے بیان کردہ قصوں کو روحانی وارداتیں سمجھ کر اُن کی تشریح میں کئی سو کتب لکھیں۔
ہمارے ہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ہومر کے نام سے واقف ہیں، اگرچہ اس کی شاعری بہت کم لوگوں کی نظر سے گزری ہے۔ فارسی شاعر فردوسی اور سنسکرت شاعر والمیک کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں فارسی اور سنسکرت کے ہومر ہیں۔ یوں ہم اپنے شاعروں کی اہمیت بڑھاتے ہیں۔ الغرض جس قدر شہرت اور مقبولیت ہومر کو حاصل ہوئی ہے شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے حصے میں آئی ہو۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شاعر ساری دنیا کا ملک الشعرا کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف ہومر ہے۔
ہومر نے اپنے رزمیہ کے کرداروں کے ذریعے یونان کے عظیم سورماؤں کا تعارف اس طرح کروایا ہے کہ جن لوگوں نے بھی اُس کے اشعار پڑھے، اُن کے دل میں اکلیس ، ہیکٹر اور اوڈسیوس بننے کی اولوالعزمانہ خواہش پیدا ہوئی۔
ڈاکٹر اطہر پرویز لکھتے ہیں:
’’جہاں تک ادب کا تعلق ہے، یونانی ادب کی دو بڑی خصوصیات ہیں، سچائی اور سادگی۔ ایسا نہیں ہے کہ یونانیوں نے دوسروں کے مقابلے میں کم اصنام تراشے ہیں، کم جھوٹ بولا ہے، بلکہ شاید اوروں سے زیادہ ہی۔ لیکن چوں کہ سخن سے خوگر تھے اس لیے اُن کے اصنام میں، اُن کے جھوٹ میں، زندگی کی بڑی سچائیاں ہیں۔ انھوں نے دنیا کو اس طرح دیکھنے کی کوشش کی ہے جیسی کہ وہ ہے۔ اس میں ان کے فلسفے اور سائنس دونوں نے مدد کی۔ ان کے شاعروں نے دنیا دیکھی اور انسانوں کو سمجھا اور برتا۔ کیوں کہ وہ انسانی زندگی کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے یہاں بچوں کی سی اثر پذیری ہے، لیکن ان کے ذہن کے دریچے بڑوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ ۲؂
یوں محبت، دوستی، وطن پرستی اور اپنے آپ کو کسی عظیم مقصد کے لیے وقف کردینے میں جو حسن اور صداقت ہے وہ ہومر کے غیر فانی کرداروں میں پوری طرح بے نقاب ہوگئی ہے۔ یقینی بات ہے کہ اِن عظیم اور محبوب کرداروں کے ساتھ قاری کی رفاقت کا جو احساس پیدا ہوتا ہے اُس سے اُن کے جذبات میں نفاست اور وسعت آجاتی ہے۔ البتہ تمام کرداروں کو ہم اخلاقی سطح پر قابلِ تقلید نمونے نہیں کہہ سکتے۔
ہومر نے اپنے عصر کی بُرائیوں خصوصاً دیوتاؤں کی بے جا پرستش کی مذمت کی ہے۔ اس نے دیوتاؤں کے گِھناونے کردار پیش کرکے انسان کو ’نیم دیوتا‘ یا ’دیوتا‘ کے درجے سے بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں ہومر کو قدیم عہد کے دیگر شعرا پر اس حوالے سے فوقیت دی جاسکتی ہے کہ اس نے انسانی فطرت سے پھوٹنے والے خیالات و احساسات کو خوبی سے پیش کیا ہے۔
ہومر عظیم شاعرانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ گہرے تنقیدی شعور کا مالک بھی تھا۔ ’ایلیڈ‘ ، ’اوڈیسی‘ اور ’مارجیٹس‘ میں پائے جانے والے تنقیدی افکار دنیا بھر کی تنقید کے اولین نمونے کہے جاسکتے ہیں، جن پر بعد کے ناقدین نے اضافے کیے۔ مثال کے طور پر :
(۱) ہومر شاعری کو الہامی قوت قرار دیتا ہے اور اسے دیوتاؤں سے منسوب کرتا ہے۔
(۲) اس کے نزدیک شاعری کا مقصد ’مسرت‘ فراہم کرنا ہے۔
(۳) ہومر کی نظموں سے فریبِ نظر کے عنصر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
(۴) ہومر کے مطابق تخلیقی عمل وسیلیکی تسخیر کرتا ہے۔
(۵) ہومر کے خیال میں شاعر اور موسیقار، شعر کی دیوی کے چہیتے ہیں۔ انھیں بصارت سے محروم کرکے شعر کی دیوی سُریلے نغمات بخش دیتی ہے۔
ہومر کے شعری نظریے اور شاعری کے اثر کے تحت یونان میں مختلف اصنافِ سخن نے فروغ پایا۔ خصوصاً گیت کی صنف پیدا ہوئی، جس کی کوکھ سے اوڈ (Ode) نے جنم لیا اور ’کورس گیت‘ وجود میںآئے۔
ہومر کے تخیل اور فکر نے یونان اور اُس کے بعد پورے یورپ میں علوم و فنون کے میدانوں کو متاثر کیا۔ یوں یورپ نے وہ کارنامے انجام دیے جو آج انسانیت کی معراج ہیں۔ خاص طور پر نشاۃِ ثانیہ کے زمانے میں یونانی ادب اور یونانی فلسفیوں کے نظریات کا یورپ نے براہِ راست اثر قبول کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تُرکوں نے یونانیوں کو شکست دی اور اس کے نتیجے میں یونانی یورپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اُس زمانے میں شیکسپیئر کے ایک ہم عصر شاعر چیپ مین نے ہومر کو ترجمہ کے ذریعے یورپ سے متعارف کروادیا۔ اُس دور میں یونانی رزمیوں خصوصاً ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کا اثر یورپی ڈراموں اور داستانوں میں بہت نمایاں ہے۔ اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یورپی ادب میں جس قدر حوالے یونانی اساطیر کے ملتے ہیں وہ سب کے سب ہومر کی شاعری سے مستعار ہیں۔
یورپی اور امریکی ادب پر ہومر کے براہِ راست اثرات کی چند مثالیں دیکھیے:
(۱) انگریزی شاعری کے جدِامجد چاسر کی مشہور نظم \'Troilus and Cresede\' ہومر کی نظم ’ایلیڈ‘ سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔
(۲) ٹینی سن کی اہم ترین نظم ’یولی سس‘ کا بنیادی خیال ’اوڈیسی‘ سے ماخوذ ہے۔ خصوصاً ’لوٹس‘ کے پھول کھانے والے کردار تو ہیں ہی ہومر کی اختراع۔
(۳) کیٹس نے ایک سانیٹ چیپ مین والے ترجمے کو پڑھ کر لکھی۔ اُس سانیٹ پر کیٹس نے ہومر اور چیپ مین کا حوالہ بھی دیا ہے۔
(۴) جیمز جوائس کے ناول ’یولی سس‘ کا بنیادی خیال ’اوڈیسی‘ سے ماخوذ ہے۔
(۵) ہنری جیمز (امریکہ) نے ۱۸۹۵ء تا ۱۹۰۰ء ہومر کے اثرات کے تحت تحیّر آمیز کہانیاں لکھیں۔
(۶) ہرمن میلول کاناول ’موبی ڈک‘ سمندروں کی مہم جوئی سے متعلق ہے۔ ’موبی ڈک‘ میں انسان کا ویل مچھلی سے مقابلہ کرنا، ہمت اور ضبط سے مایوسی اور محرومی پر غلبہ پانا اوڈسیوس کے سمندری سفر کی یاد تازہ کردیتا ہے۔
(۷) نوبل انعام یافتہ ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے (امریکہ) نے اپنی مشہور زمانہ ناول ’بوڑھا اور سمندر‘ میں اوڈسیوس اور غضبناک سمندر کی علامت استعمال کی ہے۔ ایک موقع پر بوڑھا اپنی جوانی کے ہیرو کا ذکر کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ہیرو بیس بال کھیلتا تھا لیکن اس کی ایڑی خراب ہوگئی۔ یہ ’ناکارہ ایڑی‘ کی علامت بھی ہومر سے مستعار ہے۔ ہومر کا جنگی ہیرو اکلیس جب ہیکٹر کو قتل کردینے کے بعد اس کی لاش کو اپنی رتھ سے باندھ کر ٹرائے کے گرد فاتحانہ چکر لگاتا ہے تو اپالو کا بیٹا پیرس، اکلیس کے دشمنوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ’’اکلیس کی ایڑی پر تیر مارو، وہ ناکارہ ہوجائے گا۔‘‘
اسی طرح ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ میں سمندر، تقدیر کی علامت ہے۔ ’بوڑھا اور سمندر‘ از ہیمنگوے میں بھی یہ علامت انھی معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔
(۸) یورپ اور امریکہ کے ادب میں ’ٹروجن ہارس‘ (لکڑی کا گھوڑا) کی علامت (بحوالہ ایلیڈ) ہومر کی اختراع ہے۔ اوڈسیوس، ٹرائے کے قلعے کو فتح ہی ٹروجن ہارس کے ذریعے کرتا ہے۔
(۹) یورپ اور امریکہ کے ادب میں ’ٹروجن ہارس‘ سے متعلق کئی محاورے ملتے ہیں۔ ’بظاہر کچھ اور درحقیقت کچھ‘ کے معنوں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔
(۱۰) ہومر کی ’اوڈیسی‘ کا ایک آنکھ والا آدم خور دیو عالمی ادب میں ایک زندہ کردار بن گیا۔ خود اردو کی بیشتر داستانوں اور حکایتوں میں ایک آنکھ والا دیو ملتا ہے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ ہومر نے آکیائی تہذیب کو سربلند کرنے کی خاطر یہ کردار تراشا۔۳؂
(۱۱) ’اوڈیسی‘ میں سرسے کا ایک خیالی جزیرہ ہومر کی تخلیق ہے۔ آج کے یورپی ادب میں ’سرسے کا جزیرہ‘ ایک علامت کے طورپر ملتا ہے۔
(۱۲) انسان کو ’ناانسان‘ میں بدلنے پر قادر بدی کی طاقت کی علامت عالمی ادب میں پائی جاتی ہے جو درحقیقت ’اوڈیسی‘ کی کرکی جادوگرنی سے ماخوذ ہے۔
(۱۳) اوڈسیوس کی بیوی پینے لوپیا کا انتظار عالمی ادب میں خاوند کے ساتھ وفاشعاری کی ایک علامت بن چکا ہے۔
(۱۴) اسپین کے داستان طراز سروانتس کا ’ڈان کیخوتے‘ مرکزی کردار کی سطح پر اوڈسیوس سے خاصی مشابہت رکھتا ہے۔
(۱۵) یورپ اور امریکہ میں ’اوڈیسی‘ کے خیال کو بنیاد بناکر بچوں اور بڑوں کے لیے لاتعداد فیچر فلمیں بنیں، جن میں سے ویسکس لندن فلمز کی فلم \'\'دی ووڈن ہورس\" (۱۹۵۰ء)، ہالی وڈ، امریکہ کی فلم \'\'ہیلن آف ٹرائے\" (۱۹۵۶ء) اور M.G.M. امریکہ کی فلم \'۲۰۰۰۱،اے اسپیس اوڈیسی\" (۱۹۶۸ء) خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
(۱۶) ہومر کے رزمیہ ’ایلیڈ‘ میں سات الفاظ کی تکرار ہوئی ہے: THUMOS، PHRENES، NOOS، PSYCHI، KARDIE، KER اور ETOR۔ ان الفاظ میں سے پہلے چار الفاظ کا مفہوم ’روح‘ ہے (جب کہ \'Noos\' اور نفس کی صوتی مماثلت بھی قابلِ غور ہے) اور باقی تین یعنی KARDIE، KER اور ETOR کا مفہوم ’دل‘ ہے۔ گویا ’ایلیڈ‘ میں روح اور جسم کی وہ ثنویت پہلی بار اجاگر ہوئی جو بعد ازاں مغربی فلسفے کا بنیادی تنازعہ قرار پائی۔
جولین جینز نے روح اور جسم کی اس ثنویت کے ظہور کے واقعے کو دیوتاؤں کی دنیا کے مقابلے میں انسانوں کی دنیا کے ظہور کا عظیم واقعہ قرار دیا ہے۔ یعنی ’ایلیڈ‘ میں انسان کی قدیم Bicameral Mind کے ٹوٹنے اور شعور (Conscious- ness) کے وجود میں آنے کامنظر بآسانی دیکھا جاسکتا ہے، نیز گزشتہ اڑھائی ہزار برس کے مغربی افکار پر روح اور جسم کی اس ثنویت کا مطالعہ خاص طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔
اب آئیے مشرقی/ ہندوستانی ادبیات کی طرف:
(۱۷) ہومر کی ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے ساتھ ’مہابھارت‘ اور ’رامائن‘ کا تقابلی جائزہ خصوصی توجہ کا طلب گار ہے مثال کے طور پر اوڈیسس ’ایلیڈ‘ کا اہم ترین جنگجو بھی ہے اور ’اوڈیسی‘ کا مرکزی کردار بھی، یعنی ایک ہی کردار دونوں رزمیوں کو ایک بنیادی تار کی طرح پروتا ہے بالکل اسی طرح رامائن کی کہانی اختصار کے ساتھ ’مہابھارت‘ میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح Perses کا کردار ارجن سے مشابہ ہے اور Hesoid کی طرح کرشن مہاراج، ارجن کو دنیا جہان کے معاملات سے متعلق اُپدیش دیتے ہیں۔ چوں کہ کرشن مہاراج دیوتا ہیں اس لیے اس بات کے امکان کو مسترد کرنا مشکل ہے کہ Hesoid کی حیثیت بھی ہومر کے ہاں کم و بیش ایک دیوتا کی سی ہے یا کم از کم دیوتاؤں کی اُس آواز کی سی ہے جو اُس زمانے کے حساس افراد کو اپنے بطون سے سنائی دیتی تھی۔ اسی طرح ہیلن آف ٹرائے، جس کا اغوا ہومر کے ان دو عظیم رزمیوں کی تخلیق کا سبب بنا، سیتا سے مشابہ ہے۔ ہیلن کو پارس نے اغوا کرلیا اور سیتا کو راون نے۔ ہیلن کی بازیابی کے لیے ٹرائے کی جنگ لڑی گئی اور سیتا کے لیے لنکا پر چڑھائی کی گئی۔ اوڈسیوس کی بیوی پینیلوپیا کی وفا شعاری سیتا کی مثالی وفاشعاری سے مماثل ہے، اسی طرح اوڈسیوس کی مہم جوئی، رام کے خود اختیاری بن باس سے ملتی جلتی ہے۔ لاموس اور سرسے کے جزائر لنکا کے جزیرے سے مشابہ ہیں جب کہ سائکون اور یک چشم سائی کلوپس قوم سے ہنومان دیوتا اور اس کی بندر قوم کی طرف خیال جاتا ہے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ خیر اور شر میں سے چناؤ کرتے وقت سائی کلوپس شر کا چناؤ کرتے ہیں اور ہنومان خیر کا۔ بہت ممکن ہے کہ ہندوستانی رزمیوں، بالخصوص رامائن پر ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کے اثرات مرتسم ہوئے ہوں۔ یہ قیاس اس لیے بھی کیا جاسکتا ہے کہ چوتھی صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے ہندوستان پر حملہ کیا اور کافرستان وغیرہ کے بعض مقامات پر مستقل رہائش بھی اختیار کی، جس کے نتیجے کے طور پر گندھارا آرٹ کو فروغ ملا۔ یوں اگر آرٹ کی سطح پر ہم نے یونانی اثرات قبول کیے تو ادب کی سطح پر اُن اثرات سے یکسر انکار ممکن نہیں۔
دوسری طرف ’اوڈیسی‘، ’ایلیڈ‘ کے بہت بعد کی تخلیق ہے (یہاں تک کہ اسلوب میں بھی صاف فرق کیا جاسکتا ہے) کہیں ایسا تو نہیں کہ ’رامائن‘ نے ’اوڈیسی‘ پر اثرات مرتسم کیے ہوں؟
(۱۸) اردو ادب میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ’فسانۂ آزاد‘ کا ہیرو آزاد براہِ راست تو نہیں البتہ سروانتس کے ’ڈان کیخوتے‘ کے زیرِ اثر بالواسطہ ہومر کے اوڈسیوس سے مشابہ ہے۔
(۱۹) جعفر طاہر کے اردو کنٹوز مشمولہ ’ہفت کشور‘ پر ہومر کی ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کی کہانی کے اثرات بہت واضح ہیں۔
(۲۰) ہماری داستانوں میں کرکی جادوگرنی اور ایک آنکھ والے دیو سے مشابہت رکھنے والے کردار بہت بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ اسی طرح ہماری داستانوں میں سفر کو وسیلۂ ظفر قرار دینا اور نیک مقصد کے حصول کی خاطر صبر اور ہمت کا مظاہرہ کرنا، نیز ایتھنی دیوی کی طرح مددگار کرداروں کی موجودگی کو ہم ہومر کا براہِ راست اثر تو نہیں کہہ سکتے البتہ دیگر زبانوں خصوصاً فارسی اور عربی کی معرفت ہومر کے یہ اثرات اردو ادب نے بھی قبول کیے ہیں۔ ان مثالوں کو دیکھتے ہوئے کلاسیک کی خواہ کوئی بھی تعریف کی جائے، ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ اُس پر پورا اُترتی ہیں۔ بقول ارنسٹ اوہوزر: ’’صدیاں بیت گئیں، یار لوگ اب تک اوڈیسیوس کی راہوں کو کُریدنے میں مصروف ہیں اور آج کا سیّاح اپنے گائیڈ کی زبانی سائی کلوپس اور سائیرس چٹانوں کا ذکر سن کر صدیوں پیچھے دفن ماضی میں کھو جاتا ہے۔‘‘
حواشی و حوالہ جات:
۱۔ ڈاکٹر اطہر پرویز کے اس ترجمے کا دیباچہ بعنوان ’ہومر کی اوڈیسی کے بارے میں‘ اور ترجمے سے چند اوراق مجلہ ’دائرے‘ علی گڑھ، شمارہ:۲ میں شائع ہوچکے ہیں۔
۲۔ بہ حوالہ ’ہومر کی اوڈیسی کے بارے میں‘ مطبوعہ ’دائرے‘ علی گڑھ، شمارہ:۲۔
۳۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے: ’یونان کا عہدِ جاہلیت اور دیومالا کا ارتقا‘ از رحمان مُذنب، مطبوعہ: سہ ماہی ’اقبال‘ لاہور، بابت اکتوبر ۱۹۶۴ء و اپریل ۱۹۶۵ء۔
qqq
باقی صفحہ ۱۶۲ سے آگے
ریگستانوں میں قطب شمالی یا قطب جنوبی سی برف باری نہیں دکھائی جاسکتی۔ تاہم اگر فکشن کی داخلی منطق اس کا جواز فراہم کرتی ہے تو یہ دیگر بات ہے۔ یہ داخلی منطق بھی واضح اور قابلِ قبول ہونی چاہیے۔ التوائے عدمِ یقین کا بالرضا ہونا اس کی لازمی شرط ہے۔
’’لاہور کا ایک واقعہ‘‘ کا ناقد بالکنایہ التوائے عدمِ یقین پر راضی نہیں۔ حالاں کہ انحراف کی داخلی منطق متن میں واضح طور پر موجود ہے۔ وہ اس لیے راضی نہیں کہ وہ انحراف کو فروعی نہیں اصلی سمجھتا ہے۔ اقبالؔ کا لاہور سے تعلق، سیلف اسٹارٹنگ موٹر کاروں کا ۱۹۳۷ء میں وجود، لاہور میں خانہ بدوش جرائم پیشوں کی موجودگی وغیرہ کی نوعیت اصلی ہے۔ کار کا مخصوص برانڈ، سڑک کا قطعی نام، اقبالؔ کی بیٹھی ہوئی آواز وغیرہ تو فروعی معاملات ہیں۔ انحراف کی نوعیت بھی فروعی ہے۔ مضحکہ خیز بدوضع یہ غیر معمولی نہیں لیکن اصل مصنف کی دوربینی نے ان پر اٹھنے والے سوالات کا اندازہ کرلیا تھا۔ اس لیے اس نے ناقد بالکنایہ کو متن میں داخل کردیا تاکہ التوائے عدمِ یقین مناسب حدود سے تجاوز نہ کرے۔ کہیں نہ کہیں مصنف بالکنایہ پر پابندی لازمی ہے۔ التوائے عدمِ یقین تو ضیافتِ طبع و تفریح کا اجازت نامہ ہے تخلیقیت کا ہمہ گیر اصول نہیں۔
آخر میں ایک بات کا ذکر بہت ضروری ہے۔ ایک کمی ہے جو بے حد کھٹکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک جگہ واحد متکلم راوی کہتا ہے:
’’وہ میرے انداز، لب و لہجہ اور میری حواس باختگی سے شاید سمجھ ہی گئیں کہ میں کوئی چور اُچکّا نہیں۔‘‘
واحد متکلم راوی اپنے ذاتی انداز، لب و لہجے اور حواس باختگی سے کسی دوسرے کردار کی ذہنی رو کا ادراک نہیں کرسکتا۔ وہ عالم کل نہیں اور شاید کا تحفظ بھی اسے حاصل نہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بھی واحد متکلم راوی ’’شاید‘‘ کی آڑ میں عالم کل بن سکتا ہے، یہ ممکن نہیں۔

مرزا حامد بیگ کی کتابیں پڑھنے کے لیے ریختہ کے سرچ باکس میں ان کی کتابوں کا نام ٹائپ کریں، آپ ریخٹہ کے ویڈیو سیکشن میں ان کا انٹرویو بھی سن سکتے ہیں۔