Thursday 24 October 2013

راگ رنگ کی ایک رات

دہلی میں یوں تو بے شمار موسیقار تھے مگر گانے والوں میں مظفر خاں، چاند خاں اور رمضان خاں۔ سارنگی نوازوں میں ممن خاں اور بندو خاں۔ ستار بجانے والوں میں برکت اللہ خاں۔ تال کے سازوں میں اللہ دیے خاں پکھاوجی اور نتھو خاں طبلہ نواز پورے ہندوستان میں منفرد سمجھے جاتے تھے۔ ان سب فنکاروں کا تعلق دیسی ریاستوں سے تھا، کیوں کہ دلّی کی بادشاہی ختم ہوجانے کے بعد فرنگیوں نے اہلِ ہنر کی قدر نہ کی۔ روزی کے مارے سارے فنکاروں کو ریاستوں ہی میں آسرا ملا۔ شاہی زمانے میں ان کی بڑی بڑی جاگیریں تھیں جو ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں تلپٹ ہوگئیں۔ یہ تو اب آخر میں فنکار ناقدری کی وجہ سے گرتے گرتے اتنے پست ہوگئے تھے کہ ان میں سے اکثر کو نان شبینہ بھی میسر نہ ہوتی تھی ورنہ محمد شاہ بادشاہ دہلی کے زمانے میں نعمت خاں (سدارنگ) کی یہ کیفیت تھی کہ وہ سوائے بادشاہ کے کسی اور کے ہاں گانے نہیں جاتا تھا۔ خود اس کے گھر میں روزانہ محفل ہوتی تھی بلکہ موسیقی کا دربار سجتا تھا۔ دربارِ اکبری کے رتن میاں تان سین نے تو وہ عروج پایا کہ ان کا نام ضرب المثل بن گیا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے درباری گایک تان رس خاں کو گاؤں گراؤں انعام میں ملے ہوئے تھے۔ دلّی میں چتلی قبر سے آگے دائیں ہاتھ کو گلی تان رس خاں اب بھی موجود ہے جس میں تان رس خاں کی عظیم الشان حویلی آج بھی اپنی عظمتِ رفتہ پر کھڑی آنسو بہا رہی ہے۔
۱۹۴۷ء کے وسط میں جب چھرے گھونپے جارہے تھے اور شام کے چھ بجے سے صبح کے چھ بجے تک کرفیو لگ رہا تھا، دلّی کے دو چار منچلوں کو سوجھی کہ ایک ایسا جلسہ تان رس خاں کی حویلی میں ہوجائے جس میں تمام اہلِ کمال اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر شریک ہوں۔ دلّی کے ایک رئیس زادے تھے جنھوں نے اس فن میں اتنا درک حاصل کرلیا تھا کہ تمام کام کرنے والوں نے انھیں گنی مان لیا تھا۔ خوش اخلاق آدمی تھے اس لیے ان کی ڈیوڑھی گانے بجانے والوں کا مرکز بن گئی تھی۔ انھی کی کوششوں سے ان لوگوں کے اختلافات بہت کچھ دور ہوگئے تھے اور ان میں یکجہتی پیدا ہوگئی تھی۔ یا تو ایک کو ایک کھائے جارہا تھا یا یہ صورت ہوگئی کہ شیر بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے تھے۔ انھی رئیس زادے کی یہ تجویز تھی اور یہی صاحب سب کو نیوتا دیتے پھرے، اور ایک شام کو کوئی دو سو نامی گرامی گایک اور بجایک چھ بجے سے پہلے پہلے تان رس خاں کی حویلی میں جمع ہوگئے۔ صدر دالان میں دری چاندنی کا فرش لگا ہوا تھا۔ دو چار بڑے بوڑھے مہمانوں کی پذیرائی کرکے انھیں حسبِ مراتب بٹھاتے گئے، پس دالان اور پیش دالان دونوں بھر گئے۔ صحن میں دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔ پخت و پز کے نگراں استاد عمری رکاب دار تھے جو دور دور براتوں میں کھانا پکانے کے لیے بلائے جاتے تھے۔ یہ دلّی کے اسی علاقے کے رہنے والے تھے اس لیے انھوں نے اپنی خدمات مفت پیش کی تھیں۔ چھ بجے کے بعد نہ تو کوئی اندر آسکتا تھا اور نہ اندر سے باہر ہی کوئی جاسکتا تھا۔ لہٰذا دروازے بند کردیے گئے تھے۔ جلسہ شروع ہوا۔ پان سگریٹ، حقہ اور برف کے پانی سے تواضع ہوتی رہی۔ بھائی چارے کا وہ زور تھا کہ کوئی شخص دوسرے کو بھائی کا سابقہ یا لاحقہ لگائے بغیر مخاطب نہ کرتا تھا۔ اس جلسے کا تفصیلی بیان باعثِ طوالت ہوگا اس لیے اختصار کے ساتھ عرض کرتا ہوں:
کھانے سے پہلے سازوں کا پروگرام ہوا۔ ہونہار نوجوانوں نے اپنے اپنے گھروں کا باج طبلے پر سنایا۔ کسی نے قاعدہ کھولا۔ کسی نے ریلا پھینکا۔ کسی نے گت اور پرن سنائے۔ کسی نے پتلی اور چوپلی کا حساب پیش کیا۔ اس کے بعد طے ہوا کہ کھانے سے فارغ ہولیا جائے۔ دونوں دالانوں میں دسترخوان بچھ گئے، دہرا کھان چنا گیا۔ زردہ بریانی، قورمہ اور شیرمال۔ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا۔
کھانے کے بعد آخر میں استادوں کی باری آئی۔ تبرّکاً انھوں نے بھی علم سینہ کا مظاہرہ کیا۔ محفل میں کوڑھ ایک بھی نہیں تھا اس لیے سب کو خوب خوب اور باموقع داد ملی۔
آخر میں استاد گامی خاں جوڑی لے کر بیٹھے۔ انھوں نے محسوس کرلیا کہ حاضرین تین گھنٹے تک طبلہ سنتے سنتے اکتا چکے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے باج کے ساتھ اس کا بیان شروع کردیا۔ استاد گامی خاں کا رشتہ کئی پشت اوپر استاد مکھو خاں سے جاملتا تھا۔ یہ مکھو خاں وہ تھے جو خواجہ میردرد کی ماہانہ محفلوں میں پکھاوج اور طبلہ بجایا کرتے تھے۔ لال قلعے کے اکثر شہزادے ان کے شاگرد تھے۔ استاد گامی خاں نے دلّی کا خاص باج سنایا جسے ڈبیا کا باج کہتے ہیں۔ پورب اور اجراڑ کے باج سے اس کا فرق بتایا، پھر اپنے پرکھوں کی گتیں سنائیں۔ جب مکھوخاں کا طبلہ سنانے پر آئے تو ان سے منسوب ایک عجیب و غریب واقعہ بھی سنایا:
’’دادا مکھو شہزادوں کو تعلیم دینے لال قلعہ روزانہ بعد مغرب جایا کرتے تھے۔ ایک دن صاحب عالم کی ڈیوڑھی پر پہنچے تو دربان نے کہا، ’’استاد توقف فرمائیے۔ صاحب عالم اپنے اگن کی چہکار سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ میں اطلاع کیے دیتا ہوں‘‘۔ دادا جی مونڈھے پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد طلبی ہوئی۔ صاحب عالم دالان میں فروکش تھے۔ دادا جی سات سلام کرتے آگے بڑھے، اگن کا پنجرا دالان کی بیچ کی محراب میں لٹکا ہوا تھا۔ نگاہ رو برو ہونے کی وجہ سے دادا جی نے دیکھا نہیں۔ آدمی تھے اونچے پورے قد کے۔ دالان میں جو داخل ہوئے تو شامتِ اعمال ان کا سر اگن کے پنجرے سے ٹکراگیا۔ لومیاں اگن نے بولنا بند کردیا۔ صاحب عالم کی تیوری پر بل پڑگئے۔ دادا جی کے ہوش اڑ گئے۔ ہاتھ جوڑکر بولے، ’’خطا معاف، خانہ زاد نے دیکھا نہیں‘‘۔ صاحب عالم نے برہمی سے کہا، ’’استاد تمھاری ٹکر سے جانور بھڑک کر خاموش ہوگیا۔ اب یہ نہیں بولے گا‘‘۔ دادا جی نے عرض کیا، ’’حضور کے اقبال سے بولے گا‘‘۔ مگر اگن نے چپ سادھ لی۔ صاحب عالم نے کہا، ’’استاد اگر اگن نہ بولا تو آج تمھاری خیر نہیں‘‘۔
دادا جی کے پیروں تلے کی زمین نکل گئی کہ خبر نہیں صاحب عالم ناراضگی میں کیا کر گزریں۔ ہوش و حواس قائم کرکے بولے، ’’حضور کے اقبال سے ضرور بولے گا‘‘۔ یہ کہہ کر سامنے سے طبلے کی جوڑی اٹھائی اور محراب میں پنجرے کے نیچے بیٹھ کر ایک گت بجانی شروع کی۔ اللہ کی شان، چند منٹ کے بعد اگن نے چہکنا شروع کردیا اور جوں جوں گت کی لے بڑھتی جاتی تھی اگن کی چہکار تیز ہوتی جاتی تھی۔ صاحب عالم کی باچھیں کھل گئیں اور بولے، ’’سبحان اللہ! استاد آج جیسا طبلہ ہم نے سنا، نہ کسی نے سنا اور نہ کوئی سنے گا‘‘۔ یہ کہہ کر آواز دی، ’’ارے کوئی ہے؟‘‘خدام دوڑ پڑے۔ فرمایا، ’’استاد کے ہاتھ کچل دو‘‘۔ حکم حاکم مرگ مفاجات۔ دادا جی کے ہاتھ کچل کر بھرتہ کردیے گئے۔
دادا جی قلعے سے افتاں و خیزاں اپنے گھر آئے۔ کس سے داد فریاد کرتے؟ زبردست مارے اور رونے نہ دے۔ اسی عالمِ بے چارگی میں ڈولی میں پڑکر اپنے پیر و مرشد داتا ملن شاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے کیفیت سنی اور حال دیکھا تو ان کی آنکھوں سے جلال ٹپکنے لگا۔ اسی حالتِ جذب میں دادا جی کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور بولے، ’’جا تو اچھا ہوجائے گا‘‘۔ ان کی دعا اور اللہ کے فضل سے دادا جی کے ہاتھ کچھ عرصہ میں بالکل ٹھیک ہوگئے‘‘۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد استاد گامی خاں نے کہا، ’’میرے بزرگوں سے گت سینہ بہ سینہ مجھے پہنچی ہے۔ آج یہاں سبھی گنی موجود ہیں، وہ گت سناتا ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر استاد نے گت شروع کی۔ پہلے آہستہ، پھر رفتہ رفتہ لے بڑھتی گئی اور سچ مچ یہ معلوم ہونے لگا جیسے چڑیاں چہچہارہی ہیں۔ سب نے کہا، ’’سبحان اللہ ماشاء اللہ! بے شک یہ وہی گت ہوسکتی ہے‘‘۔ رئیس زادہ نے کہا:
بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں
طوالت کے خیال سے ا س جلسے کی تفصیل کو چھوڑتا ہوں۔ صرف ایک واقعہ ایسا اور ہے جس کا بیان خالی از دل چسپی نہ ہوگا۔
استاد بندو خاں سارنگی نواز بھی یکتائے روزگار تھے۔ انھوں نے اپنے لیے بانس کی ایک سارنگی بنائی تھی۔ یہ سارنگی جتنی چھوٹی تھی اتنی ہی اس کی آواز بڑی تھی۔ تار اور طربیں ملاکر استاد بولے، ’’آج میں بھی آپ حضرات کو ایک عجوبہ سناؤں گا‘‘۔ سب متوجہ ہوگئے، بولے، ’’آپ لوگوں نے دیپک راگ کا نام تو بہت سنا ہوگا۔ مگر کسی کو گاتے بجاتے نہیں سنا ہوگا۔ میں آپ کو آج دیپک راگ سناؤں گا‘‘۔ استاد چاند خاں (جو موسیقی کے عالم بھی ہیں اور استاد بندو خاں کے ماموں زاد بھائی اور خلیفہ بھی ہیں) تڑپ کر بول اٹھے، ’’نہیں بھائی صاحب دیپک نہ بجائیے۔ کچھ اور بجا لیجیے‘‘ بندو خاں نے مسکراکر کہا، ’’چاند خاں، ڈرو مت دیپک سے آگ نہیں لگے‘‘۔ چاند خاں صاحب نے کہا، ’’بھائی سنتے تو یہی چلے آئے ہیں کہ دیپک سے بجھے ہوئے چراغ جل اٹھتے ہیں اور آگ لگ جاتی ہے۔ آگ لگ جانا کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔ اس لیے یہ راگ متروک ہوچکا ہے۔ ہم اگر دیپک کی اس روایت کو نہ بھی مانیں تب بھی یہ تو مانتے ہیں کہ دیپک منحوس راگ ہے۔ اس کے گانے بجانے سے ضرور کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے‘‘۔ بندو خاں صاحب نے کہا، ’’چاند خاں، تم تو پنڈت ہو۔ کتابیں پڑھ پڑھ کر عجیب عجیب باتیں سناتے ہو‘‘۔ دو بڑے استادوں میں اختلاف کو بڑھتے دیکھ کر رئیس زادے نے کہا، آپ دونوں حضرات صحیح فرما رہے ہیں۔ مگر ہمارے اعمال و افعال اس درجہ غلط ہوگئے ہیں کہ دعا میں بھی اثر نہیں رہا۔ دراصل دیپک شام کا ایک راگ ہے جو چراغ جلے گا یا بجایا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے اس کا نام دیپک یا چراغ رکھا گیا۔ دیپک سے چراغ نہیں جلتے بلکہ چراغ جلتے ہیں تو دیپک گایا بجایا جاتا ہے۔ اب رہ گیا سعد و نحس کا معاملہ تو بعض وہمی باتیں بھی سچ ہوجایا کرتی ہیں‘‘۔
یہ بات سب کی سمجھ میں آگئی مگر چاند خاں صاحب دیپک کو منحوس ہی بتاتے رہے۔ بندو خاں صاحب نے کہا، ’’اچھا سن تو لو آئندہ نہیں بجائیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے دیپک شروع کردیا۔ راگ میں کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی، سیدھا سادا راگ تھا۔ خان صاحب نے خوب جی لگاکر بجایا مگر جب تک بجاتے رہے خواہ مخواہ طبیعت مکدر رہی۔ شاید وہم اپنا کام کرگیا۔ انھوں نے اپنی سارنگی رکھی ہی تھی کہ صبح کی اذانیں ہونے لگیں۔ دلوں کا تکدر دور ہوا۔
موذن مرحبا بر وقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
اذانیں ختم ہوئیں تو پھر سب ہنسنے بولنے لگے۔ چائے کا آخری دور چلا اور سب کی زبان پر یہی تھا کہ ایسا جلسہ دلّی میں کبھی بھی حاضرین کے ہوش میں نہیں ہوا۔ چھ بجے جب کرفیو ختم ہوا تو صحبتِ شب برخاست ہوئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو سدھارے۔
دلّی میں فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں دلّی میں آگ لگنی شروع ہوئی۔ مسلمان مارے جارہے تھے اور ان کے گھر لُٹ رہے تھے۔ قرول باغ ختم ہوا۔ سبزی منڈی ختم ہوئی۔ پہاڑ گنج ختم ہوا۔ آدھا شہر جل چکا تھا۔ شہر کے کئی لاکھ مسلمان پرانے قلعے اور ہمایوں کے مقبرے میں جاپڑے تھے۔ پرانی دلّی میں بھیروں ناچ رہا تھا۔ ہم سب بھی جان بچاکر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ گئے۔ بندو خاں صاحب بھی لاہور پہنچے اور ایک سال کے بعد کراچی آگئے۔ انھیں کوئی جگہ رہنے کی یہاں ڈھنگ کی نہیں ملی۔ ہارکر لالو کھیت کے ویرانے میں پڑ رہے۔ نہایت عسرت و تنگ دستی میں آخری عمر بسر کی۔ چاند خاں صاحب دلّی ہی میں رہ گئے۔ اب بھی وہیں ہیں۔ سالہا سال کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں دلّی کا وہ آخری جلسہ یاد دلایا۔ خاں صاحب فقیر منش اور رقیق القلب آدمی ہیں، آبدیدہ ہوگئے۔ بولے، ’’بھائی صاحب آپ نے دیکھ لی دیپک کی نحوست! دلّی کو لوکا لگ گیا۔ وہ دلّی ہی میں ہیں مگر ہمارے دلوں میں فراق کی آگ لگی ہوئی ہے۔ یہ آگ آنسوؤں سے بھی نہیں بجھتی۔ ایک ایک کو آنکھیں ڈھونڈتی ہیں اور نظریں مایوس پلٹتی ہیں‘‘۔
اور میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا واقعی ۱۹۴۷ء میں جو دہلی بھسم ہوگئی تو بقول چاند خاں صاحب کے راگ کی آگ میں جلی تھی؟ یا یہ محض ایک سوئے اتفاق تھا، دلّی کی قسمت ہی میں یہ لکھا ہے کہ جلتی ملتی رہے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
...............................................

مضمون نگار: شاہد احمد دہلوی


خواجہ محمد شفیع کی ایک مشہور کتاب 'دلی کا سنبھالا' ملاحظہ فرمائیے 

http://rekhta.org/ebook/dillii_kaa_sambhaalaa_KHvaajaa_mohammad_shafii

فکشن کا گورکھ دھندا

عمر کہانیاں لکھنے میں صرف کی ہے۔ اس کے متعلق باتیں تو کرسکتا ہوں جو غلط بھی ہوسکتی ہیں، صحیح بھی ہوسکتی ہیں۔ اس ذیل میں موٹی سی بات تو یہی ہے کہ ہماری افسانوی روایت یا کہہ لیجیے کہ ہمارے اردو فکشن کا آج، کل سے ناتا توڑکر اپنی گاڑی چلا رہا ہے۔ آج برحق، مگر جب اتنا سفر کرلیا ہے تو پیچھے مُڑکر یہ بھی تو دیکھ لینا چاہیے کہ کل کیا تھا۔ اس سفر میں پایا ہی پایا ہے یا کچھ کھویا بھی ہے۔ کل اب تو بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سمجھ لیجیے کہ ۱۸۵۷ء سے پرے۔ اس پُر آشوب برس نے ہماری تاریخ میں ایک بڑی دراڑڈال دی تھی، پھر ادبی روایت میں بھی دراڑ پڑنی ہی تھی۔ اسے مزید گہرا کیا ہمارے مصلحین کے نوزائیدہ ادبی شعور نے۔ اور وہ ایسا تند و تیز ادبی شعور تھا کہ پوری کلاسیکی روایت ہی کو حرفِ غلط بتارہا تھا۔ مولانا حالی مرنجان مرنج قسم کے بھلے مانس، مگر جوش میں ساری شعری روایت کو شعر و قصائد کا ناپاک دفتر بتاکر ٹھکانے لگانے کے درپے نظر آتے تھے۔ ایک آواز اٹھی کہ یہ آتشؔ و مصحفیؔ کیا بیچتے ہیں، ان کے کلام کو بھاڑ میں جھونکو۔ اس باغیانہ یلغار کو شعری روایت نے تو سہار لیا اور غزل ایسی سخت جان نکلی کہ آگے آنے والے دشمنوں کے بھی وار اس نے خالی دیے۔ مگر بیچاری داستانی روایت اس میں پس گئی۔ توجدید نظم، نظم معریٰ، نظم آزاد، نثری نظم، ایسے سارے باغیانہ تجربوں کے باوجود شاعری کی روایت میں ماضی و حال کا رشتہ کسی نہ کسی صورت کسی نہ کسی سطح پر برقرار رہا۔
اس کے برخلاف قصہ کہانی کی دنیا میں پہلے تخریب تمام ہوئی، پھر نئی تعمیر کا کاروبار شروع ہوا۔ اور وہ اس طرح ہوا کہ فکشن کی دو اصناف مغرب سے برآمد کی گئیں۔ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ ان اصناف کے کیا آداب ہیں اور پھر ان میں ٹوں ٹاں شروع ہوا۔ یعنی ا ب ت کے سبق سے کام شروع ہوا۔ اور اس میں شک نہیں کہ اب ت کا سبق ہمیں جلدی ہی یاد ہوگیا۔ وہ تو یہ کہیے کہ ڈپٹی نذیر احمد کو جو وعظ و پند کا چسکا تھا، اس نے کھنڈت ڈال دی، ورنہ ناول کی عمارت بڑی شان سے کھڑی ہوئی تھی۔ پھر مختصر افسانے کی عمارت کھڑی کرنے کی ذمہ داری پریم چند نے سنبھالی۔ یہ عمارت اس شان سے کھڑی ہوئی کہ ناول کی نئی تعمیر بھی پس منظر میں چلی گئی۔ مجھے یہ کہہ کر مت ٹوکیے کہ ناول تو ڈپٹی نذیر احمد سے پہلے ہی لکھا جاچکا تھا اور پہلا مختصر افسانہ بھی پریم چند نے نہیں بلکہ فلاں فلاں نے لکھا تھا۔ یہ محققوں کے چونچلے ہیں۔ اور وہ بھی سچے ہیں کہ اگر وہ یہ نہ کریں تو ان کی تحقیق کا کاروبار کیسے چلے۔ ارے بابا، اگر تم نے کھودکر پریم چند سے پہلے کا لکھا ہوا کوئی مختصر افسانہ برآمد کر بھی لیا تو اس سے کیا فرق پڑا۔ مختصر افسانے کی روایت تو پریم چند کے افسانوں سے قائم ہوئی۔ ناول کے سلسلے میں یہی حیثیت نذیر احمد کو حاصل ہوئی۔ تو چلیے اردو میں فکشن کی نئی روایت کا ڈول پڑ گیا۔ باقی رہی داستانی روایت، تو اس کا آغاز داستان گوئی سے ہوا اور خاتمہ سروتے اور چھالیا پر ہوا۔ میر باقر علی داستان گو کے ہاتھ میں آخر آخر میں ایک سروتا رہ گیا تھا اور جو کمال انھوں نے داستان سنانے میں دکھایا تھا وہی چھالیاں کترنے میں دکھایا۔ گلی گلی چھالیاں بیچتے پھرتے تھے۔ کوئی پوچھتا کہ میر صاحب یہ کیا شغل اپنایا ہے، جواب دیتے کہ دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول گئے ہیں، وہ سکھا رہا ہوں۔ یہ کیسے کہتے کہ دلّی والوں نے داستان کے آداب کو تو فراموش کردیا، کم از کم پان کے آداب کو تو فراموش نہ کریں۔
خیر، وہ زمانہ رفت گزشت ہوا۔ بغاوتوں کے کتنے ابال اٹھے اور ٹھنڈے پڑ گئے۔ اب تو ذرا مڑکر دیکھ لیں کہ وہ کیا روایت تھی جو گُم ہوگئی۔ اور نئی روایت برحق، مگر اسے بھی دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں اس کی تعمیر میں کوئی خرابی کی صورت تو مضمر نہیں تھی۔ بغاوتیں تو ادب میں خیر ہونی ہی چاہییں۔ عمل اور ردِّعمل کا سلسلہ رُک جائے تو پھر راوی ادب کے نام جمود لکھتا ہے۔ردوقبول دونوں ہی ادبی روایت کی ضرورتیں اور ادب کی بقا اور فروغ کی ضامن ہیں۔ مگر ہر بغاوت اور ہر نئی ادبی تحریک انتہا پسندی کی روش ساتھ لے کر آتی ہے۔ اس عمل کے بعد طبیعتوں کو اعتدال پر بھی تو آنا چاہیے اور تب مڑکر ایک نظر پیچھے ڈال لینی چاہیے۔
تو داستان کو کس بنیاد پر رد کیا گیا تھا؟ شاید بنیادی استدلال تو یہی تھا کہ ان قصوں میں ایسی ایسی باتیں ہوتی ہیں جنھیں عقل قبول نہیں کرتی۔ یہ اعتراض تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ ہمارے مصلحین کا Rationalism کے تصور سے نیا نیا تعارف ہوا تھا۔ زندگی کے معاملات کو جانچنے پرکھنے کا حتمی پیمانہ اب عقل ٹھہری تھی۔ داستانوں کی تو پوری دنیا ہی خلافِ عقل اور مافوق الفطرت نظر آتی تھی، تو اسے تو رد ہونا ہی تھا۔ اور حقیقت نگاری کا اسلوب ہمارے لیے کتنا نیا اور کتنا پُرکشش تھا۔ مغرب میں انیسویں صدی کے فکشن نے اسی اسلوب کو اپناکر کیسے کیسے شاہکار پیدا کیے تھے۔ اس چکاچوند میں ہماری نئی افسانوی روایت نے آنکھ کھولی اور وہاں سے بساط بھر روشنی لے کر اپنا دیا جلایا۔ مگر بیسویں صدی لگ چکی تھی اور ادھر مغرب میں فکشن نے ایک نیا گل کھلایا۔ حقیقت نگاری کو جو انیسویں صدی کے فکشن کا طرۂ امتیاز تھی، طاق میں رکھا اور نئی حقیقتوں کی آگاہی کے ساتھ کسی اور ہی رستے پر چل کھڑی ہوئی، ایسے اوبڑ کھابڑ رستے پر کہ واقعات کا منطقی ربط، کہانی کا تسلسل، ماضی و حال کی خانہ بندی، خارجی اور داخلی کی تقسیم، ایسے سب بنے بنائے سلسلے الٹ پلٹ ہوگئے اور ناول و افسانہ گورکھ دھندا بن گئے۔ مگر اب یہ گورکھ دھندا ہی انسانی حقیقت سے آگاہی کا امین تھا اور نئے فکشن کا طرۂ امتیاز۔ اُڑتی اُڑتی یہ خبر ہماری دنیائے افسانہ میں بھی پہنچ گئی۔ اور اب ہمارے ایمان میں کہ عقل پرستی اور حقیقت نگاری سے عبارت تھا، خلل پڑنے لگا۔ ترقی پسندوں کو داد دینی چاہیے کہ وہ اپنے ایمان میں پکے نکلے۔ قدم تو ان کے بھی ڈگمگائے تھے مگر انھیں، سب سے بڑھ کر سجاد ظہیر کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔ انھوں نے ایسے سارے فکشن پر زوال پرستی اور رجعت پسندی کی مہر لگاکر اس پر تین حرف بھیجے اور اپنے ایمان کی کشتی کو اس بھنور سے سلامتی کے ساتھ نکال کر لے گئے۔ مگر کچھ افسانہ نگاروں نے اسی گورکھ دھندے کو فکشن کی معراج جانا۔ ان میں سب سے بڑھ کر محمد حسن عسکری تھے جنھوں نے ایک وقت میں اپنے شروع کے زمانے میں یہ بیڑا اٹھایا کہ یہ اردو والے اور یہ اردو کے پروفیسر لوگ جوائس اور اس کے ’یولیسس‘ کو کیا سمجھیں گے، میں انھیں سمجھاتا ہوں۔
لیجیے اس حوالے پر مجھے ایک ذاتی واقعہ یاد آگیا۔ میں نیا نیا اپنی تعلیم سے فارغ ہوا تھا اور نیا نیا عسکری صاحب سے تعارف ہوا تھا۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے یہاں جو نوجوان نیا نیا بی. اے، ایم. اے کرکے نکلتا ہے اور نصاب کے علاوہ بھی ڈھائی تین انگریزی کی کتابیں، کچھ شعر و افسانہ، کچھ تنقیدی کتب، کچھ نیم فلسفیانہ مباحث پڑھ لیتا ہے، وہ بس افلاطون بن جاتاہے۔ اپنی اوقات کا پتا تو آگے جاکر چلتا ہے۔ بعض کو آخر عمر تک یہ پتا نہیں چلتا اور افلاطونیت ان کی نگارشات کا طرہ بنی رہتی ہے۔ہاں تو میں عسکری صاحب سے اپنے نئے نئے تعلق کا ذکر کررہا تھا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے خلاف کمربستہ تھے۔ میں نے ان پریہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ کرشن چندر کتنا بڑا افسانہ نگار ہے۔ یہ کہ کرشن کا افسانہ اردو افسانے کی معراج ہے۔ عسکری صاحب نے نہایت خاموشی سے میری پوری تقریر سنی۔ مگر اگلے دن جب ملے تو ایک کتاب ہاتھ میں پکڑا دی۔ کہا کہ پہلے یہ جِلد پڑھ لو، اگلی جلدیں بعد میں دوں گا۔ میں نے وضاحت چاہی تو کہا کہ یہ بیسویں صدی کے بڑے ناول نگار ٹامس مان کا ناول ہے۔ اس سے تمھیں پتا چلے گا کہ ناول اور افسانہ کیا ہوتا ہے۔ مگر جب کتاب کو کھول کر دیکھا تو حیران کہ ارے یہ تو وہی پرانا قصہ ہے۔ وہی یوسف زلیخا، وہی برادرانِ یوسف، وہی حضرت یعقوب کا گریہ۔ یا اللہ یہ بیسویں صدی کا نیا فکشن ہے۔ پھر میں نے اپنے طور پر ٹامس مان کے افسانوں، ناولوں میں تاک جھانک کی۔ Magic Mountain تو خیر ہوا، مگر یہ Holy Sinners کس قسم کا ناول ہے۔ یہ ناول ہے یا داستان لکھنے کی کوشش ہے۔ اوریہ Transposed Heads ارے تو یہ تو بیتال پچیسی سے اچکی ہوئی چنگاری ہے۔ جادو کے پہاڑ کے مقابل میں یہ پرانے جادو کا پہاڑ۔ پتا چلا کہ بیسویں صدی کے فکشن کے لیے پرانے قصے کہانیاں، انجیل، توریت کے قصے، یونانی دیومالا، ان سے سیراب ہونے والی رزمیائیں ناٹک، سب پھر سے بامعنی بن گئے ہیں۔ اور ہم ان کے اس فکشن پر فریفتہ ہیں۔ مولانا حالیؔ زندہ ہوتے تو سر پیٹ لیتے۔ انھی عقل کے پتلوں نے جن پر انھوں نے تکیہ کیاتھا، ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
اچھا اس سب کے بعد جنوبی امریکہ کے فکشن میں ایک نیا شگوفہ پھوٹا۔ اس کا اصطلاحی نام ہے۔۔۔۔ میجک ریلیزم۔ سبحان اللہ! حقیقت نگاری کی اصطلاح میں کیا خوب پھندنا ٹانکا ہے۔ حقیقت نگاری کے ماننے والوں کے حساب سے تو اسے بدعت کہنا چاہیے۔
خیر، بیسویں صدی کے فکشن کے اس سارے گورکھ دھندے کو دیکھ کر میں حیران ہوتا ہوں کہ آخر ہم نے کس خوشی میں اپنے گورکھ دھندے سے انکار کیا تھا۔ ارے کیا اس میدان میں ہم کچھ پتلا موتتے ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میجک ریلزم کیا شے ہے، مگر اتنا جانتا ہوں کہ اپنی ’الف لیلہ‘ اپنی جگہ پر بہت بڑا جادو ہے۔ اور اس سے ہٹ کر بھی ایک بڑا جادو ہے، اور فکشن کے اگلے پچھلے گورکھ دھندوں سے بڑھ کر گورکھ دھندا ہے۔۔۔ وہ ہے ’کتھا سرت ساگر‘۔ آپ کہیں گے کہ تم تو اردو کی داستانی روایت کی بات کررہے تھے، یہ ’کتھا سرت ساگر‘ کہاں سے آگئی۔ نہیں، میں اس روایت سے باہر نہیں گیا ہوں۔ دیکھیے، روایت کا معاملہ یہ ہے کہ آپ اسے جتنا چاہے سکیڑتے چلے جائیں اور جتنا چاہے اس میں وسعت اور کشادگی پیدا کرلیں، یہ آپ کی وسعتِ نظر پر موقوف ہے۔ اور میرے ساتھ ہوا یوں کہ داستانوں کی دنیا میں سفر کرتے کرتے عربی، عجمی رنگ ہی کے بیچ ایک اور رنگ جھلکتا نظر آیا۔ تھوڑا چکرایا کہ عربی عجمی رنگ کی داستانیں، قصے، حکایتیں تو ہوئیں، مگر یہ کس رنگ کی کہانیاں ہیں۔ یہ تو ہندی رنگ لگتا ہے۔ کہیں پراچین کال سے آئی ہوئی کہانیاں، اور یہ عربی عجمی داستانوں میں گھلی ملی بھی نظر آرہی ہیں۔ اور ان کا اپنا ایک جادو ہے جو عربی عجمی جادو سے الگ اپنا جادو جگا رہا ہے۔ تو میں نے اردو کی داستانی روایت ہی کے واسطے سے انھیں جانا۔ ہاں، یہ مرحلہ آگے چل کر پیش آیا کہ انگریزی ترجموں کی مدد سے ان کہانیوں کے سرچشموں تک پہنچنے کی کوشش کی اور وہاں پہنچا تو حیران کہ یا مولا یہ کون سا جہاں ہے: ع
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
اور یہ کس ڈھب کا بھید بھاؤ ہے۔ رنگ رنگ کی مخلوقات، چرند، پرند، درندے، سانپ سنپولیے‘۔ پنچھی ایک سے بڑھ کر ایک، راج ہنس، مور، طوطے، مینا، کاگا، شاما اور ان کے بیچ آدمی، راجہ، رانی، راجکماریاں، رشی منی، سادھو سنت، مگر کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کون اصل میں کیا ہے۔ بہ ظاہر ہنس ہنسنی، اور اچانک دیکھو تو لوٹ پوٹ کر آدم زاد بن گئے۔ پتا چلا کہ اصل میں تو راجہ رانی تھے۔ کسی رشی نے شاپ دیا تو ہنس ہنسنی بن گئے۔ یا کسی نے پاپ کیا تو آدمی کا جنم چھوڑ بلی بن گیا یا بکری۔ جون تو خیر داستانوں میں بھی بدلتی ہے۔ کمبخت ساحرائیں اپنے نامراد عاشقوں کو پڑھ پھونک کر دم کے دم میں ہرن بناکر مقید کرلیتی ہیں۔ مگر یہاں تو جنموں کا ایسا چکر ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ بس اسی چکر میں کہانی سے کہانی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ الجھی ڈور کو سلجھایا جاسکتا ہے مگر یہاں کہانیاں اس طرح آپس میں الجھی ہوئی ہیں کہ سلجھنے میں نہیں آتیں۔ سلجھتے سلجھتے کوئی اور ہی کہانی نکل آتی ہے اور نئی گتھی پیدا کردیتی ہے۔ ہر کہانی اپنے ساتھ ایک نیا بھید لے کر آتی ہے۔ یہاں ہر درخت، ہرپھول، ہر پھل اپنی جگہ ایک بھید ہے۔ ممکن ہے یہ خوش رنگ پھل جب شاخ سے گرے تو گرتے ہی پھٹ جائے اور اس کے بیچ سے ایک سندر ناری نکل کر سامنے آکھڑی ہو۔ یہ ہے بھید بھاؤ سے بھری کتھا کہانی کی دنیا۔
ہاں اسی سے جڑا ہوا اور اس سے تھوڑا الگ کتھاؤں کا ایک اور سلسلہ ہے۔ جاتک کتھاؤں کی مالا۔ ایک مہاتما اپنے جنم گناتا چلا جارہا ہے۔ ہر جنم اپنی جگہ پر ایک کہانی ہے۔ نہ جنم ختم ہونے میں آرہے ہیں نہ کہانیوں کا سلسلہ رُک رہا ہے۔ اور دنیا کی کتنی مخلوقات ہیں جن کے پیکر میں اس نے جنم لیا ہے۔
کتھا کہانیوں کے اس سارے گورکھ دھندے کو میں اپنی داستانی روایت سے الگ کیسے تصور کروں۔ ان میں سے کتنی کہانیاں تو انھیں داستانوں کے بیچ اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں۔ کچھ نے اس طرح سے قالب بدلا ہے کہ اچھا خاصا عجمی رنگ ان میں پیدا ہوگیا ہے جیسے پنچ تنتر کی کہانیاں۔ اور پھر ان میں سے کتنی کہانیاں یا ان سے ملتی جلتی میں نے اپنی نانی اماں سے سنی ہیں۔ اور ہاں، ہماری داستانی روایت اولاً تو سماعی روایت تھی۔ اور اگر وہ سماعی روایت تھی تو دلّی اور لکھنؤ کے داستان گو اپنی جگہ، مگر میری نانی اماں بھی کوئی چھوٹی داستان گو نہیں تھیں۔ وہ بھی رات کو جب کہانی شروع کرتی تھیں تو پچھلا پہر آجاتا تھا اور کہانی ختم نہیں ہوتی تھی۔ پھر اسے اگلی رات کے لیے ملتوی کیا جاتا تھا۔
قصہ کہانیوں، کتھاؤں کے یہ سارے سلسلے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حقیقت کو صرف اتنا مت جانو جتنی وہ نظر آتی ہے: ع
چاند کو چاند سے ادھر دیکھو
حقیقت نگاری جس حقیقت پر اصرار کرتی ہے وہ ادھوری ہے۔ اس کے ماورا بھی کچھ ہے۔ وہ کیا ہے۔ بس اس سوال ہی سے تو بھید بھاؤ کی دنیا جنم لیتی ہے اور عقل پیچھے ٹاپتی رہ جاتی ہے۔
اس تصور ہی سے تو ان داستانوں اور ان کتھاؤں میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے اور تحیر کی فضا جنم لیتی ہے۔ اور یوں یہ کہانیاں ایک گہری معنویت کی حامل بنتی ہیں۔
تو یہ تھی وہ رنگارنگ افسانوی روایت جسے ہمارے مصلحین نے جوشِ اصلاح میں رد کیا۔ اس قطعی انداز میں رد کیا کہ جب ہمارے کہانی کار کہانی لکھنے بیٹھے تو ان کے سامنے خالی موپساں کاا فسانہ تھا اور اللہ کا نام تھا۔ تو جو افسانوی عمارت تعمیر ہوئی وہ بالکل ہی نئی تھی۔ روایت سے اس کا رشتہ القط تھا۔ تو جو افسانوی روایت جس کے سہارے ہم لکھ رہے ہیں، اس کی عمر ہی کیا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔ شاعری کی نئی روایت نے تو اقبالؔ پیدا کیا۔ اس روایت کو دو بڑے سہارے حاصل تھے۔ ایک تو اپنی کلاسیکی روایت، اس روایت کو پیچھے سے ایک اور بڑی روایت سہارا دے رہی تھی، فارسی شاعری کی روایت۔ نئی افسانوی روایت کو ایسا کوئی بڑا سہارا حاصل نہیں ہے۔ غریب اپنے ہی بوتے پر کھڑی ہے۔ سو جتنا اس سے برآمد ہوا اسے غنیمت جانیے۔
مگر اب پچھلی روایت کے قبول کرنے میں اور اس سے ٹوٹا رشتہ بحال کرنے میں کیا قباحت ہے۔ اب تو اس کے جائز ہونے کی سند وہاں سے بھی مل سکتی ہے جہاں کی سند ہمارے لیے سب سے بڑھ کر مستند ہے۔ میں نے ابھی ذکر کیا نا کہ بیسویں صدی کے مغربی فکشن نے انیسویں صدی کے تعصبات سے انحراف کرکے وہ سارے کھیل کھیلے ہیں جن کی بنا پر ہماری داستانی روایت کو رد کیا گیا۔ ہماری نئی تنقید میں تو آگہی آگئی ہے مگر افسانہ نگاروں تک شاید ابھی یہ خبر نہیں پہنچی ہے۔ ویسے سوچیے کہ اگر ہم اس ٹوٹے رشتے کو 
بحال کرپائیں تو ہماری افسانوی روایت میں کتنی وسعت آجائے۔ یوں سمجھیے کہ اس روایت میں قصہ کہانی کے تین بڑے دھارے گھلے ملے نظر آئیں گے، ایک وہ جو عرب و عجم سے آیا، دوسرا وہ جو قدیم ہند کی کتھا کہانی کی روایت سے پھوٹا اور اس روایت میں آملا۔ تیسرا وہ جو مغربی فکشن سے بہتا آیا اور ہمارے افسانوی شعور پر چھا گیا۔
یہ تین دھارے جو اپنا اپنا تہذیبی مزاج رکھتے ہیں اور اپنے جلو میں افکار و تصورات کی رنگا رنگ دولت لاتے ہیں، یہاں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک تنوع بھی پیدا کرتے ہیں اور اس روایت کو ایک وسیع القلبی، ایک لبرل مزاج بھی عطا کرتے ہیں۔ اور اگر ہم اپنی شعری روایت کے لبرل مزاج کو پیش نظر رکھیں تو پھر یہ ہماری ادبی روایت کا مجموعی مزاج ٹھہرتا ہے۔
انفرادی جوہر اپنی جگہ، مطالعہ و مشاہدے کی اہمیت اپنی جگہ، مگر پیچھے کوئی بڑا تخلیقی سرمایہ بھی تو ہونا چاہیے یا کہہ لیجیے کہ ایک بڑی روایت کی کمک۔ اس کمک کے موجود ہوتے ہوئے آخر ہم اسے کیوں فراموش کریں۔

مضمون نگار: انتظار حسین

انتظار حسین صاحب کی کتاب ریختہ پر ملاحظہ فرمائیے
چراغوں کا دھواں
http://rekhta.org/ebook/charaaGon_kaa_dhuaan_Intizaar_Husain

Friday 18 October 2013

بلراج مینرا کے ایک پیش لفظ کی گونج


(بلراج مینرا ایک اچھے ادیب اور افسانہ نگار تھے۔مگر ان کا امدیرانہ ذہن بھی کمال کا تھا، انہوں نے اپنی زندگی میں شعور، مینرا جنرل اور سرخ و سیاہ نام کے جریدے اپنے زیر ادارت شائع کیے۔ان تمام پرچوں کے ذریعے ان کا خاص متحرک ذہن اس کام پر زور دیتا تھا کہ جدیدیت کے نام پر اول فول بکنے والوں کو اس لکیر سے باہر نکال کر جینوین فنکاروں کی تلاش کی جائے۔انہوں نے اسے نہ صرف ایک کام سمجھا بلکہ وقت کی اہم ضرورت اوراپنی اہم ذمہ داری گردانا، سرخ وسیاہ کا غالباً ایک ہی شمارہ ان کی زندگی میں شائع ہوا، اس کے بعد اگر کوئی اور شمارہ مینرا نے نکالا ہے تو مجھے اس کاعلم نہیں، تاہم اس ایک شمارے کے پیش لفظ میں جسے مینرا نے کلراسکیم کانام دیا تھا، ادب اور آرٹ کے تئیں اپنا اور اپنے ہم خیال ادیبوں کا نظریہ واضح کیا ہے اس پیش لفظ کو پڑھنے کے بعد مینرا اور سہ ماہی سرخ و سیاہ سے جڑے ادیبوں کی ذہنیت کو نزدیک سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔یہ شمارہ جولائی 1983 میں شائع ہوا اور اس کے ابتدائی صفحے پر افتتاحی اور رسمی شمارہ بھی لکھا ہوا ہے۔اس پہلے اور غالباً آخری شمارے کے ناشر و طابع اور مدیر خود بلراج مینرا تھے، جبکہ معاونین کے ذیل میں عبدالمغنی اور رشمی کے نام درج ہیں، خطاط کے طور جمال گیاوی اور طباعت کے آگے لبرٹی آرٹ پریس ، پٹودی ہاؤس ، دریا گنج،نئی دلی لکھا ہوا ہے۔اس شمارے میں موجود قلم کاروں کے نام اعجاز احمد، عین رشید، عتیق اللہ، باقر مہدی، ساگر سرحدی، شمیم حنفی اوراقبال مجید ہیں۔آخری صفحے پر منٹو کے حوالے سے اوما واسودیو کا دی ٹائمز آف انڈیا کے کسی شمارے میں شائع یہ اقتباس درج کیا گیا ہے۔
Who would not want to read Manra's Manto?
And if youd dont know Urdu, even to learn it to be able do so!
Cultural close-up: The Times of India: Uma Vasudev
یہ پرچہ جلد ہی ریختہ ویب سائٹ پر موجود ہوگا۔امید ہے کہ آپ اس پیش لفظ کو پڑھیں گے، پسند کریں اور ہاں جیسا کہ مینرا نے کہا، کچھ سوچیں گے بھی!)

تصنیف حیدر

کلر اسکیم
کہتے ہیں جدت اور بغاوت ہم معنی الفاظ ہیں۔۔۔!
جدید اردو ادب کے دائرے میں اس ہم معنویت کے کیا معنی ہوتے ہیں۔۔۔؟
سمجھانا ذرا مشکل ہے،ہاں خود سمجھنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے، یہی سہی۔۔۔!

ورثے میں ملی ہوئی زندگی کے چوکھٹے سے نکل کر جینے کی کوشش بغاوت ہے،اور جب یہ کوشش ذہنی رویے میں ڈھل جاتی ہے تو تخلیقی اظہار میں جدیدیت کا آہنگ بن جاتی ہے۔تڑپ کر بیکراں ہوجانے کی خواہش نئی نہیں ہے! تاریخ کے ہر دور میں روایات اور مانی ہوئی قدریں (جو اپنی نوعیت میں سماجی ہوتی ہیں)اس خواہش کا راستہ روکتی ہیں اور جدلیاتی تصادم کا پیش خیمہ بلکہ ایک ناگزیر تقاضہ بن جاتی ہیں۔۔۔

شروع ہوگئیں نا وہی گھسی پٹی اصطلاحی باتیں !
اچھا یوں نہیں،یوں باتیں کرتے ہیں۔

اگر زندگی کے ہر دور میں یہی ہوتا آیا ہے تو پھر جدیدیت کو ہمارے عہد کا مذہب بنانے کی کوشش کیوں کی گئی؟
یہ مزاحمتی رویہ ہے، ہم اس کے چکر میں نہیں آئیں گے۔
ہم مذاکروں والی چھیڑ چھاڑ اور مارا ماری کے چکر میں نہیں پڑیں گے۔
آپ بھی چکر میں نہ پڑیے۔بس اپنی خوش فہمیوں کو اپنے پائپ میں بھر لیجیے اور دھوئیں کے مرغولے بناتے جائیے۔
________اچھا مشغلہ ہے: ادبی تخلیق اور روحانی سرشاری کا اس سے بہتر طریقہ ایجاد نہیں ہوا ہے۔۔۔!
اس طرح کی طنزیہ تیر اندازی اور چاند ماری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔! سیدھے سیدھے یہ بتائیے کہ پچھلے تیس سال میں وہ کون سی خاص بات ہوئی ہے جو اس سے پہلے کے بیس پچیس سال کی خاص بات سے مختلف ہے؟ وہ باریک لکیر کون سی ہے جو ان دو ادوار کے درمیان سرحد کا کام کرتی ہے؟
ہماری موٹی عقل میں تو یہ خاص بات کوئی کنواں نہیں ہے جس میں آپ ڈول ڈالتے جائیں اور پانی نکالتے جائیں۔۔۔اگر آپ شاعرانہ تلمیح و استعارے میں بات کرنے پر اتارو ہیں تو اس خاص بات کو ایک دریا کہہ لیجیے۔۔۔!
آپ نے حمایت میں سر ہلایا نہیں کہ آئے جال میں!
دریا کے معنی ہیں روانی: روانی صرف عرضی فاصلے ہی کو نہیں بلکہ وقت کی ناگزیریت کو بھی ثابت کرتی ہے: یہ ناگزیریت تاریخ ہے۔۔۔!

دیکھیے صاحب آپ دیر سے ادھر ادھر کی باتیں کررہے ہیں،کام کی بات کیوں نہیں کرتے؟
آپ جس چیز کو ادھر ادھر کی بات کہہ رہے ہیں، وہی مری کام کی بات ہے جناب۔۔۔!

ہر فنی تخلیقی عمل میں اس کی حیثیت طوفانی سمندر میں مضبوط پاؤں جمائے مینارۂ نور کی ہے، اور روشنی میں سمٹے لا محدود رقبے پر تخلیق اور اس کی نوعیت کا انحصار ہے۔۔۔۔پچھلے پچیس سال میں اس رقبے کی نوعیت میں تبدلی پیدا ہوئی ہے، یعنی مینارۂ نور کی روشنی میں سمٹا خارجی لامحدود رقبہ تو وہی ہے لیکن اب تخلیقی عمل خود مینار�ۂ نور کے اندر بھی ایک چکر لگالیتا ہے۔۔۔ہم سمجھتے ہیں ،یہ تخلیقی عمل میں ایک انقلابی موڑ ہے، اور یہی انقلابی موڑ اس دور کی خاص بات ہے۔

سطحی لکھنے والے اور گہرے فنکار ہر زمانے میں ہوتے ہیں، پہلے بھی تھے اب بھی ہیں۔۔۔۔کلیشے کا بازار پہلے بھی گرم تھا، اب بھی ہے۔۔۔سطحی لکھنے والے اور گہرے فنکار کا فرق یہی ہے کہ گہرا فنکار کلیشے کا طلسم توڑتا ہے اور سطحی لکھنے والا دوسروں کے بنائے ہوئے طلسم کے جال میں بھنبھناتا رہتا ہے۔

بغاوت پوز نہیں، عمل ہے۔
فنی عمل بھی عمل ہے اور چونکہ یہ اپنی نوعیت میں تخلیقی ہے اس لیے اس میں اظہار کی تہہ داریوں کا سمٹ آنا ناگزیر ہے۔۔۔!

پھر وہی مسئلہ کھڑا ہوگیانا!
صلاحیت اور عدم صلاحیت کی پہچان کامسئلہ!
کیا خوب تماشا ہے۔۔۔!

سینکڑوں ادیب و شاعر اس تماشے میں شریک ہیں۔۔۔سینکڑوں ادیب اور شاعر خود فریبیوں کے اس عظیم الشان سرکس میں (جسے گزشتہ پچاس برس ی تنقید میں ’’ترقی پسند ادب‘‘ اور ’’جدید ادب ‘‘ کہا جاتا ہے)شریک ہیں:اس نیشنل اور انٹرنیشنل میری گو راؤنڈ میں کاٹھ کے گھوڑے ہیں، ٹین کے طوطے ہیں، کاغذ کے الو ہیں، چیتھڑوں کے بندر ہیں اور حالات یا حادثات انہیں نچار ہے ہیں۔۔۔رقص کا یہ دائرہ ایک آئینہ خانے میں محصور ہے اور سب کے سب اتنے ذہین ہیں کہ اپنے متحرک عکس کو بار بار دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔


ناراض ہونے کی ضرورت نہیں! سوچنے اور سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔۔۔!

اصل بات یہ ہے کہ زیادہ تر ادیب و شاعر اس آئینہ خانے کے قیدی ہیں: کچھ پچاس سال پہلے کے آئینہ خانے میں پاؤں پسارے پڑے ہیں: کچھ پچیس سال پہلے کے آئینہ خانے میں قہقہے لگانے کے بعد گم سم پڑے ہیں۔۔۔!

کچھ ادیب و شاعر، گنتی کے چند ادیب و شاعر ایسے بھی ہیں جوان آئینہ خانوں کو توڑ رہے ہیں۔۔۔۔زندگی سے سرشار وہ چند ذہین اور مجاہد فنکار جو اسیری سے لڑرہے ہیں، کون ہیں؟ ان کی پہچان کیا ہے؟

ممکن ہے سہ ماہی سرخ و سیاہ میں ان گنتی کے چند فن کاروں کی پہچان ہم سب کو مل جائے!


سرخ و سیاہ اس دور بلاخیز کو سمجھنے کا ایک جان لیوا جتن ہے۔

جغرافیائی حد بندیوں کے سبب یوں تو سرخ و سیاہ پر ’نئی دلی ‘ کی مہر لگی ہوئی ہے، لیکن اہل نظر کے لیے یہ جریدہ کلکتہ، لاہور،طہران، بیروت، ماسکو، پیکنگ، ایل سیلوادور، برلن، لندن اور پیرس کی دوریاں سمیٹنے کی ایک مشکل ترین کوشش ہے۔

تاریخی اور فکری تسلسل کے اعتبار سے اس صدی کے بلند حوصلوں کی کہانی کی گواہی دینا سرخ و سیاہ کا ایمان ہے۔

سرخ و سیاہ کا مطالعہ کمزور، تنگ نظر اور سہل پسند لوگوں کے لیے اعصاب شکن ثابت ہوگا اور بلند ہمت اور بیدار لوگوں کے لیے فکر و عمل کے لمحات مہیا کرے گا۔

پیش لفظ: بلراج مینرا

عین رشید کی نظمیں پڑھیے ریختہ پر

Thursday 17 October 2013

مضرابیات (راجہ مہدی علی خاں کے پہلے طنزیہ اور رومانی مجموعۂ کلام ’مضراب‘ پر میراجی کا دیباچہ)


پرانی تحریریں کہیں کہیں ایسی تازہ ہیں کہ پرانی کم اور نئی زیادہ لگتی ہیں۔امسال جون کے مہینے میں یہ تحریر 69برس پرانی ہوگئی ہے۔اتنے برس میں رومانیت اور طنز دونوں کا بیڑہ اردو شاعری میں غرق ہوگیا ہے۔میرا جی کا یہ دیباچہ ادب میں طنز و مزاح نگاری، رومانیت، شعر شناسی،شاعر فہمی اور شخصیت کے مطالعے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔میرا جی کی تحریر بہت بے لاگ ہے،ایسی بے ساختہ کہ پڑھنے والے کے سینے میں سطروں کے ڈورے پٹ سن کی سلاخوں کی طرح گڑتے نہیں بلکہ ریشم کی طرح لپٹتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔اسی تحریر میں میراجی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اور بھی دیباچے لکھے ہیں،کاش ایسا کوئی نظام ہو کہ ان تمام دیباچوں اور پیش لفظ وغیرہ کو بھی جمع و تدوین کے بعد اسی شکوہ کے ساتھ شائع کیا جائے جیسا کہ شاعروں کا کلیات سجا بنا کر چھاپا جاتا ہے۔اس سے کم از کم ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے ادیب اپنے معاصر ادیبوں اور ان کی تحریروں کے بارے میں کیا سوچتے تھے؟انہیں تخلیق و تنقید کے اس خطۂ خاص میں کیا بات پسند آتی تھی اور کیا گراں گزرتی تھی اور کیوں؟ دراصل یہ کام اس لیے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے کہ جن شاعروں پر ہمارے پرانے شاعروں اور تخلیق کاروں نے خامہ فرسائی کی اب وہ خود ایک خاص سطحی ادبی رو کے دوڑ پڑنے سے ورطۂ خفا میں جاپڑے ہیں۔راجہ مہدی علی خاں اردو ادب میں طنز اور مزاح نگاری کا بلا شبہ ایک قابل قدر نام ہے۔ان کی خدمات کو اس حوالے سے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے بغیر کسی فحاشی و بدخیالی کے اچھی مزاحیہ شاعری کی ہے۔اقدار فن کو جانچنے ،پرکھنے اور سمجھنے سمجھانے کا کاروبار عصری ادب کے مطالعے سے ہی ممکن ہے،اسی سے اچھے برے کی تمیز ایک ادیب میں پیدا ہوتی ہے،ہمارے یہاں چلن یہ ہے کہ لوگ یا تو سنجیدگی اوڑھے رکھنے کے لیے معاصر شاعروں،افسانہ نگاروں اورادیبوں پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے یا پھر اقربا پروری کے سبب ان کی بری اور بے ہودہ تخلیقات کو بھی ہفت انجم ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔میرا جی کی تحریر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مہدی علی خاں کی نظموں کو کس قدر سنجیدگی سے پڑھا اور ان پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔اس دیباچے میں انہوں نے ہجو گوئی اور مزاح نگاری کے درمیان موجود فرق کو جس طرح واضح کیا ہے وہ بڑے خاصے کی چیز ہے،ساتھ ہی ساتھ اسی دیباچے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ میرا جی عروضی اعتبار سے شاعری میں نئے تجربے اور طویل بحروں میں قصہ یا حکایت بیان کرنے یا نفسیاتی الجھنوں کے رساؤ اور محسوسات کے اظہاریے سے ایک خاص قسم کا لگاؤ رکھتے تھے۔میراجی کی تحریر میں منٹو کے مضامین سے زیادہ کشش ہے،اس کی کوئی خاص وجہ تو مجھے سمجھ میں نہیں آتی مگر ہوسکتا ہے کہ میراجی ادبی قدروں کا احاطہ کرنے میں شاید منٹو سے زیادہ سنجیدہ تھے،لیکن ایک بات دونوں کے مزاج میں یکساں ہے کہ دونوں نے یہ بات کہی ہے کہ عام انسان کو زندگی کاٹنے یا گزارنے سے کام ہوتا ہے جبکہ ادیب اس پر غور کرنے اور اسے مصور کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔یہ دونوں بہت سے ناقدین کے بقول کسی خاص قسم کی مقصدیت کے قائل نہیں تھے،مگر سوال یہ ہے کہ ادب سے زندگی کی تشہیر کرنے کا مقصد پیش نظر رہنا کیا ادب میں ان کی مقصدیت پسندی کو واضح نہیں کرتا۔یہ دونوں ادیب جدید زندگی کے نکتہ چیں بھی تھے اور زندگی کے جدید نکتہ داں بھی۔
تصنیف حیدر



راجہ مہدی علی خاں کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے لیکن میرا یہ پہلا دیباچہ نہیں، اس کے باوجود میں اس وقت الجھن میں ہوں کہ شاعر کے بارے میں کچھ کہوں یا اس کے کلام کے بارے میں ۔اور یہیں سے سال پیدا ہوتا ہے کہ فن ک سمجھنا زیادہ ضرور ہے یا فن کار کو،آج کل کی الجھی ہوئی رواروی کی سطحی زندگی کے مد نظر شاید کوئی کہے کہ بنیادی فیصلہ تو یہی ہوگا کہ فن کو سمجھنا ہی کافی ہے لیکن ادب اور آرٹ کے اظہار اور ترجمانی کی تشریح کرتے ہوئے جدید نفسیات کے مبلغوں نے جس خوبی سے بعض اب تک انجانی باتوں کو سلجھایا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے فن کار کو سمجھنا بھی ضروری ہے نفسیات کو چھوڑ دیجیے تو ہوشمندانہ تنقید کا تقاضہ بھی تو یہی ہے۔تو یہ لیجیے۔
بعض حکما کا خیال ہے کہ ہر انسان کی فطرت اور ذہانت دو نمایاں پہلوؤں کی حامل ہوتی ہے،ایک عام انسان کی بات نہیں جو کھانے پینے،بیاہ کرنے اور بچوں کا باپ بننے کے بعد جوں توں زندگی کے دن پرے کرکے مر جاتا ہے۔یہ خیال ایک فن کار کے بارے میں ہے جو زندگی میں گھل مل جانے کے باوجود زندگی سے الگ رہ کر اس پر رائے زنی کرنے کا ایک ذریعہ ہے،جس کی ہستی کی نوعیت ہی اسکی شخصیت کے دو رخوں کا تقاضہ کرتی ہے۔چنانچہ اس مجموعہ کا مطالعہ بھی پہلی ہی نظر میں ظاہر کردیتا ہے کہ اس شاعر کی ذہانت کے بھی دو نمایاں پہلو ہیں۔ایک رومانی پہلو جس میں محبت اور جوانی کی میٹھی باتیں ہیں اور دوسرا حقیقت پرست جو بعض سماجی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے طنز و تضحیک کے نشتر چلاتا ہے۔لیکن فنکار کی طبیعت میں یہ دہری نشو و نما کیونکر ہوئی؟ بات یہ ہے کہ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے اس کا شعور بھی گہرا اور وسیع ہوتا رہتا ہے اور وہ اپنے بچپن کی دنیا کو مٹتے دیکھتا ہے اور اس لیے جوانی کے اثرات سے اپنی ایک نئی دنیا بسالیتا ہے،یہ دنیا محبت کی رومانی دنیا ہوتی ہے،لیکن عمر کے ساتھ ایک دن ایسا آتا ہے کہ یہ دنیا بھی مٹتی دکھائی دیتی ہے ،اس وقت انسان زندگی کے عملی پہلوسے دوچار ہوتا ہے اور ہر بات کو صحیح قسم کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے۔بچپن کی دنیا فہم و ادراک کے لحاظ سے کمتر درجے کی ہوتی ہے اور جوانی کی دنیا میں فہم و ادراک پر ابلتا ہوا جوش چھا جاتا ہے،نتیجہ یہ کہ ان دونوں زمانوں میں انسان مختلف باتوں کی اصلی قدریں نہ جاننے پاتا ہے نہ قائم کرنے پاتا ہے،سن شعور کی تیسری دنیا ہی انسان کو اس منزل تک لے جاتی ہے۔جہاں پہنچ کر ہم اچھے اور برے پر صحیح معنوں میں غور کرتے ہیں۔
راجہ مہدی علی خاں کی رومانی دنیا میں نگہت و یاسمین کا تذکرہ ہے اور نازنینیں بھی کبھی چلمن کے پیچھے سے اور کبھی چلمن اٹھا کر جھلکیاں دکھاتی ہیں۔اندھی جوانی کے جذبہ عشق و محبت کے بارے میں شاعر کا انداز نظر کیا ہے۔اسے معلوم کرنے کے لیے پہلی ہی نظم دیکھیے’’محبت اور جوانی‘‘ پہلے ہی شعر میں شاعر کا فلسفہ محبت معلوم ہوجاتا ہے۔
کس کے لیے پھرتا ہے مورکھ یوں آوارہ گلی گلی
صورتیں اور بھی ہیں دنیا میں کچھ ایسی ہی بھلی بھلی
گویا شاعر محبت اور جوانی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے،شاید آپ پوچھیں کون سی آنکھ سے؟ تو اس کا جواب ہے دائیں آنکھ سے ،کیونکہ بائیں آنکھ کو بند کرکے تو وہ ایک شرارت آمیز تبسم کے ساتھ کبھی لنگڑے سیٹھ کی یار کا نقشہ کھینچتا ہے اور کبھی یونہی آنکھ مارتے ہوئے جنت (ہاں وہی خیالی جنت)تک جا پہنچتا ہے،بلکہ جب اس کی شرارت حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ جنت کو جاتے ہوئے یا شاید وہاں سے لوٹتے ہوئے کبھی کبھی دوزخ کی سیر بھی کرلیتا ہے۔
محبت کی نظموں میں مہدی علی خاں کا تخیل اکثر و بیشتر اس نزاکت کا حامل ہے جو ہمیں چینی یا جاپانی شاعری میں ملتی ہے۔بلکہ بعض دفعہ تو کسی نظم کا اختصار بھی ان ممالک کی شعری صورتوں سے مماثلت رکھتا ہے۔’طائران صحرا‘ کے نام سے جو چھوٹی نظمیں اس مجموعے میں شامل ہیں۔ان میں پہلی ہی نظم دیکھیے’’ایک منظر‘‘ ۔اس نظم میں جن چیزوں کا بیان ہے سب عالم جمادات یا عالم نباتات سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ صحرا ہے تو ویران ،دریا ہے تو خاموش،پہاڑ ہے تو چپ چاپ اور یوں ہر شے کی نباتاتی اور جماداتی کیفیت اور بھی گہری ہوجاتی ہے۔لیکن پہلے تین مصرعوں کی تصویر میں جب آخری دو مصرعوں کے رنگ شامل ہوتیہیں تو صرف دو لفظوں ’’بیٹھا تھا‘‘سے پورے منظر میں جان پڑ جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ صرف پہاڑ ہی جیتی جاگتی کوئی چیز ہے،کوئی زندہ جسم ہے بلکہ شاید پہاڑ نہیں ہے ہمیں ہیں۔اسی حصے کی دوسری نظم۔
کس کی آنکھوں سے گرا ہے یہ سمندر۔یہ بڑا سا آنسو؟
اور ’ذرے کا احتجاج‘
اسی عالم میں میں بھی ہوں موجود
رابندر ناتھ ٹھاکر (ٹیگور)کی ایک مصرع کی چھوٹی نظموں کی یاد دلاتی ہیں۔ان سب نظموں میں جو تصویریت نمایاں ہے وہ اپنی اشاریت سمیت محبت کی بعض اور نظموں میں بھی ممتاز دکھاتی دیتی ہے۔اس کے علاوہ بے حقیقت بے جان چیزوں کو شخصی اور انفرادی رنگ دینا بھی مہدی علی خاں کی ممتاز شاعرانہ خصوصیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں احساس کی نفاست اور نرمی ایک خاص کیفیت رکھتی ہے لیکن رومانی نظمیں میرے خیال میں اس شاعر کی ذہنیت کا بنیادی عنصر نہیں ہیں کیونکہ طنز اور ہنسی کھیل سے راجا کو یا مہدی کو یا علی خاں کو ایک دلی تعلق ہے۔بلکہ یہی اس کے ذہن کی بنیادی خصوصیت بھی ہے۔جرمنی کے شاعر ہائنے کی ذہانت میں بھی انہی دو عناصر کا متضاد امتزاج تھا۔لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طنز اور تمسخر ایک ساختہ کیفیت نفسی ہے یا بے ساختہ اظہار روح؟ کیا ہنسی یا طنز سے بھی اسی طرح شاعری کی تخلیق ہوسکتی ہے جس طرح دوسری کیفیات ذہنی سے؟ مثلاً کسی پر دباؤ ڈالنا یا کسی کو بھڑکانا ایک قلبی یا روحانی کیفیت نہیں ہے بلکہ ایک ارادی عمل ہے،اس عمل سے خطابت کی تخلیق ہوسکتی ہ لیکن اس میں بنفسہ شعریت نہیں موجود ہے۔البتہ شعریت کو یہ اپنا معاون بناسکتی ہے۔طنز و تضحیک یا تمسخر کے لیے بھی یہی خصوصیات لازمی ہیں۔یعنی اس صورت میں بھی یا تو کسی پر دباؤڈالا جارہا ہوگا یا کسی کو برانگیختہ کرنے کا سامان ہوگا۔ہنسی مذاق یونہی پیدا ہوتا ہے۔ہنسی مذاق اصل میں اکیلے یا اوروں کے ساتھ مل کر ایک عملی انداز میں حظ اندوز ہونے کا نام ہے۔مذاق کے لیے ہم تصورات کو ایسے انداز میں ترتیب دیتے ہیں جس سے وہ جسمانی رد عمل پیدا ہوتا ہے جسے ہم ہنسی یا قہقہہ کہتے ہیں۔لیکن یہ انداز نظر شاعرانہ انداز نظر سے بالکل مختلف بلکہ ایک حد تک اس کا مخالف ہے،سید انشا کو ان کے ہنسی مذاق نے ایک بڑا شاعر ہونے سے محروم رکھا۔سودا محض اپنی ہجو گوئی کی وجہ سے میر تقی سے بازی نہ لے جاسکے۔بات یہ ہے کہ شاعر اپنی توجہ کو اپنی ہی ذات کی گہرائیوں پر مرکوز کرتا ہے۔اور جو باتیں اسے وہاں ملتی ہیں وہ انہیں الفاظ کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اپنے اسی لفظی نقشے سے دوسروں کو بھی غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ظرافت،طنز یا مزاح کا ماہر ہمارے پھیپھڑوں کو قہقہوں سے ورزش کراتا ہے یا کم سے کم ہمارے لبوں پر تبسم کی ایک لہر دوڑا دیتا ہے۔لیکن ہمارے دلوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا شاعر ہمارے دلوں کے ساز سے احساسات کے نغمے چھیڑ دیتا ہے،شاعرانہ طبیعت میں ایک وقار ہوتا ہے،ایک مسرت ہوتی ہے،ایک زندگی ہوتی ہے لیکن اس زندگی کی آواز قہقہے کی صورت نہیں اختیار کرتی۔ہنسنے ہنسانے والوں کی طبیعت میں ایک لا ابالی ایک والہانہ کیفیت ہوتی ہے،وہ اس قسم کے فن کار ہیں،جیسے کوئی خطیب ہو۔دونوں کو اپنے عمل کی کامیابی کے لیے شاعرانہ تصورات سے مدد لینی پڑتی ہے۔لیکن ان کے عمل کا نتیجہ شاعرانہ صورت یا ایک جذباتی کیفیت میں نہیں برآمد ہوتا بلکہ اس سے ایک عملی قسم کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور چونکہ اس طرح وہ شاعری کو ایک ذریعہ یا آلۂ کار بنالیتے ہیں انہیں شاعر نہیں کہا جاسکتا۔سودا جب کہتا ہے:
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
تو یہ شاعری ہے۔لیکن جب وہ اپنے غلام سے کہتا ہے۔
’’اے غنچے! ذرالانا تو میرا قلمدان!‘‘
تو اس وقت وہ محض ایک ہجو نگار بن کر رہ جاتا ہے۔مطلب یہ کہ ہمارے پرانے ہجو نگاروں کا طریق کار یہی تھا کہ وہ جس چیز یا شخص کی ہجو مقصود ہو ایک خطیب کی طرح اس کے عیب گنوا دیتے تھے۔لیکن رفتہ رفتہ ہمارے ادب کی دوسری اصناف کی طرح ہجو نے بھی اپنی نشو نما میں ترقی کی طرف قدم بڑھائے اس سلسلہ میں اکبر الہ آبادی ہمارا پہلا طنز نگار شاعر ہے جس نے جو کچھ لکھا۔اس میں ان نئی سماجی قدروں کی مخالفت کی جو رائج ہوکر رہیں۔مگر جس طرح یہ مخالفت کی اس کا انداز بالکل نیا تھا۔محض عیب شماری اس نے چھوڑ دی،یہ طریقہ بظاہر نکتہ چینی کا براہ راست طریقہ ہے،لیکن اسی وجہ سے اس کا اثر کم ہے اس سے سامع کے ذہن میں قاری کے لیے ہمدردی آسانی سے نہیں پیدا ہوسکتی۔اسی لیے اکبر نے یہ انداز اختیار کیا کہ وہ صرف ایک بات بیان کرکے خاموش ہوجاتے اور اس میں تصویریت سے مدد لے۔مثلاً
پہن لے سایہ مری جاں اتار کر پشواز
زمانہ با تو نہ ساز و تو بازمانہ بہ ساز
یا
میں بھی گریجویٹ ہوں تو بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آکے لیٹ
یا
میرے لیے شراب یہاں بھی حرام ہے
اس شہر میں تو کوئی مجھے جانتا نہیں
ان شعروں میں نئے لباس،مغربی تعلیم اور چھپواں گناہ کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کی مخالفت کی گئی ہے لیکن عیب نہیں گنوائے گئے، صرف ہر جگہ موضوع کو ایک تصویر کی صورت میں پیش کردیا ہے۔نتیجہ؟ وہ تبسم جو ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ہمارے لبوں پر آتا ہے۔ان باتوں کی بیخ کنی میں زیادہ خوش گوار طریق سے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔مہدی علی خاں بھی جب جنت کو خیالی کہنا چاہتا ہے تو وہ غالب کی طر یہ نہیں کہتا کہ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔بلکہ جس غیر مدلل انداز میں جاہل ملاؤں نے اس خیال کو ہمارے سامنے پیش کر رکھا ہے صرف اس کی تصویر کھینچ دیتا ہے اور ملا کو اس تصویر کے چوکھٹے ایسی مناسب جگہ اور ایسے سلیقے سے چپکا دیتا ہے کہ ہم ملاؤں کی بیخ کنی پر آمادگ کی بجائے یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ یہ تو چند بیکار قسم کے مسخرے ہیں،صرف ہماری دل لگی کا سامان،اپنی عمر پوری کرکے خود ختم ہوجائیں گے۔مرے کو مارے شاہ مدار۔اور ہم ان کی طرف ایک تبسم ایک قہقہے سے زیادہ توجہ ہی نہیں کرتے۔ظاہر ہے کہ کسی کو مٹانے کا بہترین طریقہ اس کی ہستی سے بے اعتنائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں مہدی کے اس طریقے کو پرانی ہجو نگاری کے مقابلہ میں بہتر سمجھتا ہوں۔
میرے اس خیال کی مثالیں تو آپ کو اس مجموعے میں مختلف موقعوں پر خود بخود مل سکتی ہیں۔لیکن وضاحت کے خیال سے دو چار نظموں پر سرسری نظر یہاں بھی ڈال لیتے ہیں۔مثلاً غنڈے ،قیدی اور کانے کے آنسو کو لیجیے۔
بظاہر یہ تنیوں نظمیں سپاٹ منظر ہیں۔خصوصاً کانے کے آنسو اور قیدی۔
قیدی کا قصہ ذرا پیچیدہ ہے۔لیکن طنز گہری نہیں۔اس کے مقابل میں کانے کے آنسو کا افسانہ ایک خط مستقیم ہے مگر طنز بہت زوردار ،محبت کے ایسے جذباتی موضوع کو اس چھوٹی سی نظم میں جس قدر مضحکہ خیز بنادیا گیا ہے وہ فن کار کی فنی قابلیت سے زیادہ اس کے دماغ کی کسی لہر ا کرشمہ معلوم ہوتا ہے۔’غنڈے‘ محض منظر ہے۔لیکن جیتا جاگتا چلتا پھرتا منظر۔اور یہ حرکت پہلے ہی مصرعے سے شروع ہوجاتی ہے۔
تاش کے پتے پھینکو یارو تاش کے پتے پھینکو یار
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع اور یہی حرکت آخر تک قائم رہتی ہے۔
اصل میں اس نظم کا منظر دوہرا ہے۔ایک وہ منظر جو ہم دیکھ رہے ہیں یعنی چند تاش کھیلتے ہوئے آوارہ انسان،سرراہ قہقہے لگاتے ،غپ اڑاتے اور دوسرا وہ منظر جو ان انسانوں،ان غنڈوں کو دکھائی دے رہا ہے یعنی لنگڑے سیٹھ کی محبوبہ قریب آتا ہوا پیکر۔کیفیت کے لحاظ سے ہلکی پھلکی ہونے کے باوجود یہ نظمیں فن کاری کے نقطہ نظر سے (میرا خیال ہے کہ)بہت اثر انگیز ہیں۔
ایسی ہی فنی خوبیوں کو دیکھنے کے لیے دو نظمیں اور لیجیے۔’’جنت کی سیر‘‘ اور ’’ملاقاتی‘‘ ۔’جنت کی سیر‘ کا ماحول پھیلا ہوا ہے، اس تصویر میں دائیں بائیں آگے پیچھے گرد و پیش سبھی کچھ ہیں اور جہاں دودھ کی جھیل ،آغوش حسیں ،پرکیف نظارے۔ان چیزوں سے جنت کے تصور میں وہ نرمی پیدا کی گئی ہے جو روایتی طور پر ہمارے تحت الشعور میں موجود ہے۔وہاں چورن کے پیڑ اور حلوے کے ڈھیر سے طنزیہ تاثر کو ابھارا گیا ہے۔ اور یہ ابھار اربھی نمایاں ہوجاتا ہے۔جب ہمیں پہلے ہی دو مصرعوں میں معلوم ہوجاتا ہے کہ راجہ مہدی علی خاں اور شیطان دونوں جنت کی دیوار پر چڑھ کر اونگھتے ہوئے ملا کو دیکھ رہے ہیں۔اس تصویر سے کسی حد تک اسکول کی یادآجاتی ہے اور ملا اسکول کا نامعقول مدرس اور شاعر اور شیطان دو شریر طالب علم بن جاتے ہیں۔’ملاقاتی‘ نفسی لحاظ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔جنت کے عام تصور میں روایت کی رو سے نیک بندوں کی خدمت کو حوریں اور غلمان ہونگے۔لیکن شاعر کی نظر میں مولانا (خواہ یہ مولانا ہو یا کوئی ریاکار لیڈر)نیک بندہ نہیں ہے۔ایک ناپسندیدہ فرد ہے جو اس فانی دنیا میں شیطانی افعال کا ہی مرتکب ہوتا رہا ہے اور اسی لیے شاعر اب اسے ایک خیالی جنت میں پہونچا کر شیطان کو اس کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے۔نظم کی طنز کو ’’خدمت گارپرانا‘‘ کے دو الفاظ ی اچھی طرح نمایاں کردیتے ہیں۔’چوری چوری‘ ،’آدھی رات ہے‘ اور ’کھٹ کھٹ کھٹ‘ کا صوتی تاثر۔یہ تینوں چیزیں مل کر ماحول کی تخلیق اور ترجمانی میں ہماری معاون بنتی ہیں۔
شاعر کی ایسی تمام نظمیں طنز ہیں معاشرت کے کسی نہ کسی پہلو پر،پرانے خیالوں کو نیچا دکھانے کے لیے۔ان نظموں میں فنکار نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ تعریف کا تقاضہ کرتا ہے۔
سماج پر طنز کے علاوہ مہدی کی ایسی نظمیں ایک اور زاویے سے بھی قابل غور ہیں۔ان میں اکثر مافوق الفطرت تخیل کے مطالعے دکھائی دیتے ہیں۔اور یہ چیز سب سے زیادہ ’پیٹ اور جہنم‘ میں نمایاں ہے۔اس نظم کو پڑھ کر شاید بعض لوگ ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔لیکن حقیقتاً یہ نظم ادب کی اس حد پر جاکرنظم محسوس ہوسکتی ہے جہاں ادب برائے ادب ہے۔مکروہ چیزوں میں انسان کے لیے بچپن سے ایک چھپی ہوئی دلکشی ہوتی ہے۔فرانس کے شاعر چارلس باڈلےئر نے تو اس اقلیم کا سفر کرتے ہوئے اپنا انفاردی نظرےۂ حسن قائم کرلیا تھا،یعنی بدصورتی میں حسن۔مہدی کے یہاں وہ فلسفیانہ بہانے ہیں،محض سیدھا سادا اظہار ہے شیطان،کریہہ المنظر ملا،بدصورت گڈریا،غنڈے اور پھر لنگڑا سیٹھ یہ سب مافوق الفطرت عناصر ہیں جن کو ایک خاص انداز سے پیش کرکے شاعر نے تخیل کی ایک انوکھی دنیا بسائی ہے۔
اور اب ایک آدھ ایسی بات جو شاعر کو کہنی چاہیے تھی کتاب کی پہلی ترتیب اسی انداز میں تھی جیسے آپ متن کے حصے میں پائیں گے لیکن اس دیباچہ کے بعد ایک نئی ترتیب ذہن میں آئی۔وقت اور فالتومحنت سے بچنے کے لیے اس نئی ترتیب ا ظہار فہرست میں کردیا گیا 
ہے۔فہرست میں نظمیں دوحصوں میں بنٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ایک حصے میں طنزیہ نظمیں ہیں اور ’’دوسرا رنگ‘‘ کے عنوان کے تحت رومانی نظمیں جو حقیقتاً شاعر کی ذہانت کا پہلا رنگ ہیں۔
میراجی
دہلی،4جون 1944

دیباچہ نگار: میراجی

راجہ مہدی علی خاں کی کتاب 'انداز بیاں اور' پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے

http://rekhta.org/ebook/andaaz_e_bayaan_aur_raazaa_mehdii_alii_KHaan


Monday 14 October 2013

صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت

صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی کیا معنویت ہے؟
اس سوال کی تہ میں شعری تنقید کا ایک نہایت اہم قضیہ کارفرما ہے۔ اس قضیے کے مطابق شاعری کے معنی اور معنویت میں فرق ہے۔ بعض لوگوں نے ان کے لیے بالترتیب Verbal meaning اور Significanceکی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ۱ معنی دراصل وہ بنیادی مفہوم ہے جو شعری متن کے فوری سیاق، اس کے آس پاس کے صنفی و شعریاتی منطقے کو ملحوظ رکھنے سے برآمد ہوتا ہے۔ معنی بالعموم متعین، مقرر اور محدود ہوتا ہے، مگر واضح رہے کہ معنی کا متعین اور محدود ہونا متن کے اس فوری سیاق کا مرہون ہوتا ہے جس میں متن تخلیق ہوا تھا اور جو متن کو اس کے لمحہء تخلیق و ماحول سے وابستہ رکھتا ہے۔ وگرنہ متن، سیاق کے کناروں کو توڑ کر باہر جانے کے لیے مضطرب ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شعری متن، زبان کے ایک ایسے استعمال سے عبارت ہے، جس میں زبان کی بدیعی و تلازماتی قوت کو زیادہ سے زیادہ ابھارا جا سکے۔ شعری زبان میں آہنگ و صوت سے لے کر نحویاتی و معنیاتی سطحوں تک نئے نئے رشتے ابھارنے اور معنیاتی عدم تعین کی مستقل صورتِ حال تخلیق کرنے کا غیر معمولی ملکہ ہوتا ہے۔ چناں چہ جب کسی شعری متن کا معنی متعین کیا جاتا ہے تو دراصل شعری زبان کی تلازماتی قوت پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کی کام یابی کا انحصار شعری متن کے فوری سیاق کو گرفت میں رکھنے پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شعری زبان کی تلازماتی قوت کو اگر کوئی چیز پابند کر سکتی ہے تو وہ سیاق یا تناظر ہے، وگرنہ یہ ایک مرکز گریز قوت ہے اور اس کی فطرت میں ایک ایسا اضطراب ہے جو اسے کسی ایک مقام پر رکنے نہیں دیتا اور نئے معنیاتی سلسلوں کی تخلیق پر اسے مائل رکھتا ہے۔ یہ اضطراب انسانی روح میں بھی موجود ہے اسے نئی حیرتوں کی تلاش اور محدود سے لامحدود کی طرف سفر پیما رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔ جب شعری متن اپنے سیاق سے گریز اختیار کرکے کسی دوسرے تناظر میں قدم رکھتا ہے، یعنی کسی دوسرے زمانے، کسی مختلف صورتِ حال، کسی نئی فکر، کسی نامانوس معنیاتی فضا میں اسے پڑھا جاتا اور اس کی تعبیر کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہمارے ہاتھ آتا ہے وہ متن کی معنویت ہے۔ 
بجا کہ معنویت، شعری زبان کی تلازماتی قوّت کے برسرِ عمل ہونے کا نتیجہ ہے، مگر اس قوت کی عمل آرائی کا میدان وہ عمومی ثقافتی فضا ہے، جسے ہم دنیا کو سمجھنے اور برتنے میں اکثر غیر شعوری طور پر کام میں لاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شاعری کی معنویت ایک نفسیاتی عمل نہیں، ایک ثقافتی عمل ہے۔ کوئی شعری متن یا اس کے بعض مصرعے یا الفاظ کسی قاری کے یہاں کسی نفسیاتی واقعے کا محرک بن سکتے ہیں؛ قاری، متن اور اپنی ذہنی دنیاؤں میں بعض اشتراکات دریافت کر سکتا اور ایک جذباتی کیفیت میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اس کیفیت کے زیرِ اثر ادبی متن کے مخصوص معانی قائم کر سکتا ہے، مگر انھیں متن کی معنویت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معنویت، کسی ادبی متن میں معنی سازی کی قوّت کا وہ انکشاف ہے جسے ایک ثقافتی عمل بنایا جا سکے۔ راشد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ الفاظ کے اندر رنگ بھی ہوتے ہیں اور کئی طرح کے ٹیڑھے ترچھے زاویے بھی۔‘‘ ۲ ایک شاعر کی حیثیت میں راشد الفاظ کی اس دنیا سے خوب واقف تھے جو الفاظ کے لغوی و عمومی معانی کے آگے کی دنیا ہے۔ راشد نے دانستہ معانی کے بجائے رنگوں اور زاویوں کا ذکر کیا ہے۔ الفاظ کس طور اپنے محدود، مقرر معانی کو عبور کرنے کے لیے بے تاب رہتے، نئی نئی جمالیاتی کیفیتوں اور نئے نئے فکری اطراف کے اشارہ نما ہوتے ہیں، اس کے لیے رنگ اور زاویے ہی موزوں استعارہ ہیں۔ الفاظ کے انھی رنگوں اور زاویوں میں، معنی سازی کی قوّت ہوتی ہے۔ انگریزی تنقید میں الفاظ کے رنگوں اور زاویوں کے لیے Connotations کی اصطلاح مروّج ہے۔ ٹیری ایگلیٹن نے لکھا ہے کہ Denotations کے مقابلے میں Connotations آسانی سے گرفت میں نہیں آتے۔ ۳ حقیقت یہ ہے کہ Denotations میں فقط معنی ہے اور Connotations میں معنی سازی کا ملکہ ہے معنی گرفت میں آ جاتا ہے مگر معنی سازی کی قوت پر دست رس محال ہے اور اس قوّت کے ثقافتی تناظر میں اظہار کا دوسرا نام معنویت ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ صارفی معاشرت کا کوئی براہِ راست تعلق راشد کی شاعری کے معنی سے نہیں ہے۔ بلاشبہ صارفی معاشرت، راشد کی نظم کا فوری سیاق نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بیسویں صدی کے تیسرے تا ساتویں عشرے کے درمیان، جب راشد شاعری تخلیق کر رہے تھے، صارفی معاشرت نے یہاں وہاں اپنے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ راشد کو اس مغربی معاشرت کو براہِ راست دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا تھا، جہاں صارفیت دوسری جنگ عظیم کے بعد اہم ترین ثقافتی مظہر میں تیزی سے ڈھلنے لگی تھی، مگر راشد کے لیے صارفی معاشرت بوجوہ مرکزی شعری سروکار نہیں بن سکی تھی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ راشد نے اپنی معاصر عالمی معاشرت کا تصور استعماری معاشرت کے طور پر کیا تھا۔ چناں چہ صارفی معاشرت بالعموم، استعماری معاشرت کے ایک جز کے طور پر ہی ان کے شعری ادراک میں آئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ راشد بہ طور شاعر صارفی معاشرتی کا ٹھیک اسی قدر ادراک کرنے میں کام یاب ہوئے، جس قدر یہ استعماری معاشرت کا حصّہ ہے۔ راشد کے یہاں استعماریت کا سیاسی پہلو مقابلتاً زیادہ نمایاں اور زیادہ اہم تھا۔ یہ سب برحق، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راشد کے لیے اہم ترین چیز شاعری تھی اور وہ شاعر کے طور پر نہ صرف اپنی ذمے داریوں سے خوب آگاہ تھے بلکہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ’’ادیب کی اصل ذمہ داری پوری زندگی کے سامنے ہے۔ کسی جغرافیائی حد بندی، کسی حکومت، سیاسی عقیدے یا سیاسی حزب یا گروہ کے سامنے نہیں۔ کیوں کہ یہ اس عظیم اور بے کراں زندگی کے، جو ادیب کی ذات کے اندر اور باہر ازل سے رواں دواں ہے اور ابد تک رواں دواں رہے گا، محض مختصر، بے مایہ اور ناقابلِ ثبات اجزا ہیں۔‘‘ ۴ ہر چند ذمے داری کا تصور اور شعور ایک چیز ہے اور اسے اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنانا دوسری چیز ہے۔ تاہم راشد کی شاعری سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کی معاصر سیاسی، مقامی، عالمی صورتِ حال بہ ہر حال پوری زندگی کا ایک جز تھی۔ ہر چند راشد نے تنقیدی شعور کے لمحات میں اس جز کو بے مایہ اور حقیر کہا ہے، مگر انھوں نے استعماریت کو جس گہرائی سے پیش کیا ہے اور ایشیائی ممالک کو استعماری تہذیب کی بلندی کی چھپکلی سے تشبیہ، دی ہے، اس سے ہرگز نہیں لگتا کہ ان کے لیے یہ جز پوری زندگی کا بے مایہ اور ناقابلِ ثبات جُز تھا۔ غالباً شاعری کے اسی تصور کی وجہ سے ان کے شعری متن میں ’کئی رنگ اور ٹیڑھے ترچے زاویے‘ ظاہر ہوتے چلے گئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کی نئی معنویتیں سامنے آ رہی ہیں۔
صارفی معاشرت اپنے تمام تر جلووں کے ساتھ تو یورپ اور امریکا میں نظر آتی ہے، مگر اس کے اثرات کی زد میں پوری دنیا ہے۔ مغرب میں یہ مابعد صنعتی عہد کی صورتِ حال ہے۔ اکثر سماجی مفکّرین اسے صنعتی عہد کا لازمی، تاریخی نتیجہ قرار دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صنعتی عہد کے نتیجے میں جب اشیا نہایت فراوانی کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کا صَرف سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ان کے صَرف کو ممکن بنانے کے لیے ماس مارکیٹ، ماس پاپولر کلچر کو پیدا کیا گیا اور ان کے فروغ کی خاطر میڈیا، اشتہاری صنعت وغیرہ وجود میں لائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعتوں کی بقا، ان کی پیداوار کی کھپت میں تھی، مگر صنعت کار محض اپنی صنعتوں کی بقا پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں تھے: انھیں اپنے سرمائے میں مسلسل اور تیز تر اضافے کی بے لگام ہوس تھی۔ اس ہوس ہی نے صارفیت کو جنم دیا۔ لہٰذا صارفیت، صنعتی عہد کا لازمی تاریخی نتیجہ نہیں، سرمایہ پرستی کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ صارفیت، کثیر پیداواریت کے لا متناہی اور پیہم صَرف کو ممکن بنانے کی تدبیروں کی عملی شکل ہے۔ ان تدبیروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا وہ تصوّر تھا، جس کے مطابق انسان چند بنیادی ضرورتیں رکھتا ہے۔ (خود صنعتیانے کے عمل میں یہ تقاضا کہیں موجود نہیں تھاکہ اشیا کی پیداواریت انسان کی بنیادی ضرورتوں سے فزوں تر ہوگی۔) سرمایہ پرست ذہن نے اس تصوّرِ انسان کو تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ اس ذہن کے نمایندہ امریکی مصنّف وکٹر لیبو نے ۱۹۵۵ء میں لکھا۔
ہماری عظیم پیداواری معیشت ۔۔۔ تقاضا کرتی ہے کہ ہم صَرفیت کو اپنا طرزِ زندگی بنائیں۔ یہ کہ ہم اشیا کی خریداری اور ان کے استعمال کو رسومیات میں تبدیل کریں، یہ کہ ہم اپنی رومانی تسکین، اپنی انا کا اطمینان، صَرفیت میں تلاش کریں ۔۔۔ ہمیں ایسی اشیا درکار ہیں جو صَرف ہو جائیں، راکھ ہو جائیں، پرانی بوسیدہ ہو جائیں، تبدیل ہو جائیں اور انھیں تیزی کے ساتھ ٹھکانے لگا دیا کریں۔ ۵
گویا صارفی انسان کا تصوّر تخلیق کیا گیا۔ اس تصوّر کے مطابق انسان کی ضرورتوں کا کوئی انت نہیں۔ اس کے اندر ان تمام اشیا کی شدید طلب ہے جنھیں کثرت سے منڈی میں لایا جاتا ہے۔ صارفی معاشرت میں اشیا، انسانی ضرورتوں کے مطابق پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ اشیا کے مطابق انسانی ضرورتیں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ صارفی معاشرت، انسانی نفسیات اور ثقافت کے گہرے مطالعے سے وہ تمام طریقے دریافت کرتی ہے، جو ایک طرف نئی انسانی ضرورتوں کی تخلیق کو ممکن بنائیں اور دوسری طرف نت نئی اشیا اور ان کے روز بدلتے برانڈ کے صَرف کو ایک ثقافتی تعیّش اور روحانی اطمینان میں بدل سکیں۔ دوسرے لفظوں میں صارفی انسان کے تصّور میں روح کا انکار موجود نہیں ہے، مگر یہ روح ارفع اور بے غرضانہ اعمال سر انجام دینے میں اطمینان حاصل کرنے کے بجائے نئی، مہنگی صنعتی اشیا کے صَرف میں سرشاری پاتی ہے۔ کیا انسانی روح اپنی اصل کو ترک کرکے باقی رہ سکتی ہے؟ صارفی معاشرت میں یہ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ صارفی معاشرت کسی ایسی انسانی ضرورت کے امکان ہی کو ردّ کرتی ہے، جسے وہ پورا نہ کر سکے۔ صارفی تصوّرِ کائنات میں انسانی ضرورتوں اور تمنّاؤں سے انکار کا شائبہ تک موجود نہیں ہوتا؛ وہ خود کو غیر معمولی خلاقیّت کا حامل سمجھتی ہے کہ جو ہر قسم کی انسانی تمنّا کی سرشاری کا سامان پیدا کر سکتی ہے۔
اب اگر اس تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت دریافت کریں تو مجموعی حیثیت میں ان کی پوری شاعری صارفی معاشرت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ نظر آتی ہے۔ وجودیاتی سطح پر راشد کی شاعری اس تصوّر کے خلاف ایک باقاعدہ احتجاج ہے، جس کے مطابق ہر شے کی قدر و قیمت، اس کی صَرفی حیثیت سے متعین ہوتی ہے۔ صارفی معاشرت میں معنی کے واحد اور اٹل تصوّر کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ متبادل اور استعاراتی معانی کو قبول کرنے کا مطلب لوگوں کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ اشیا کے معنی اور مقصد کو خود اپنے تناظر میں متعین کر سکتے ہیں۔ صارفی معاشرت کے لیے اس سے زیادہ خطرناک کوئی بات نہیں کہ لوگ معنی متعین کرنے اور فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ چناں چہ وہ واحد معنی پر اپنے اجارے سے کسی طور دست بردار نہیں ہوتی۔اس زاویے سے دیکھیں تو راشد کی شاعری صارفی معاشرت کے تصوّرِ معنی کے یک سر برعکس تصوّرِ معنی کی علم بردار نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ خصوصیت دنیا کی تمام شاعری میں ہوتی ہے کہ وہ واحد معنی کے اجارے کو مسترد کرتی اور معانی کے نئے آفاق کی جستجو میں رہتی ہے، تاہم اس ضمن میں راشد کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کی کثرت ہے، نیز بعض مقامات پر راشد براہِ راست صارفی کلچر کی بنیادوں پر ضرب لگاتے ہیں۔ مثلاً
زندگی ہیزمِ تنور شکم ہی تو نہیں
پارۂ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں
(کلیات، ص۱۶۱)
صارفی معاشرت کا سارا زور، انسانی زندگی کو اپنے تنور شکم کا ایندھن بنا ڈالنے پر ہے۔ اس نظم میں اس سے انکار ملتا ہے کہ زندگی کو اپنے یا غیر کے تنورِ شکم میں جھونک دیا جائے۔ اس انکار کے پردے میں زندگی کا وسیع اور بلند تصوّر تو موجود ہی ہے، زندگی کے بعض ایسے معانی کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے، جو زندگی کو کسی بھی شے کا ایندھن بننے کا انکار کرتے ہیں، خواہ وہ پارۂ نانِ شبینہ اور ہوسِ دام و درم ہوں یا آتشِ دیروحرم ہو۔ نظم کے آخر میں جن مردانِ جنوں پیشہ کا ذکر ہے، ان کے لیے زندگی انھی کی اپنی ہے اور وہی اس کے معانی و مقاصد متعین کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو راشد کے یہاں صارفی معاشرت کا ایک غیر معمولی اور وسیع تصوّر ملتا ہے۔ فقط سرمایہ پرست اور استعمار ہی لوگوں کی زندگی کو ایک قابلِ صَرف شے میں تبدیل نہیں کرتے، مختلف سٹیٹ اپریٹس، نظریے، کلامیے اور آئیڈیالوجی بھی انسانی زندگی کو اپنے تصرّف میں لاتے اور انسانوں سے اپنی ہستی کے معانی خود طے کرنے کی آزادی اور اختیار سلب کرتے ہیں۔ راشد کے یہاں فرد کی داخلی آزادی ایک ایسے تقدّس کی حامل ہے جسے مجروح کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ راشد اپنی اس فکر میں پوری طرح واضح تھے۔
میں فرد کی کامل آزادی اور اس کی انا کی نشو و نما کا شدّت سے حامی ہوں۔ ایسی آزادی جس کے راستے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو ... میرا عقیدہ یہ ہے کہ تمام اقدار کا مرکز انسان ہے اور تمام اقدار انسان کے ذاتی تجربات سے پیدا ہوئی ہیں۔ کسی الوہی طاقت کی طرف سے مقرر نہیں کی جاتیں، نہ کسی حکومت یا گروہ کی طرف سے عائد کی جا سکتی ہیں۔ ۶
ہر چند یہ فرد کی آزادی کا مثالی تصوّر ہے جسے مغرب میں بشرمرکزیت فلسفے اور جدیدیت نے پیدا کیا، تاہم راشد کے لیے یہ تصوّر عقیدے کا درجہ رکھتا تھا اور وہ فرد کو ایک قابلِ صَرف شے نہیں سمجھتے تھے اور مذہبی، ریاستی یا سماجی کسی بھی ادارے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں تھے کہ وہ فرد کو اپنے مقاصد کے حصول میں صَرف کر دے۔ ان کے نزدیک ان اداروں کا کام فرد کو شے نہیں، ایک باشعور ہستی سمجھنا اور اس کی انا، شعورِ ذات کی نشوونما میں مدد دینا تھا۔ گویا راشد کے یہاں صارفیت کا محض اقتصادی مفہوم نہیں ملتا، ایک نیم فلسفیانہ اور ثقافتی مفہوم بھی موجود ہے۔ یہ مفہوم لا236انسان اور گماں کا ممکن کی نظموں میں شدّت سے پیش ہوا ہے۔ مثلاً نظم ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کے یہ مصرعے فرد کی آزادیِ کامل پر زور دیتے ہیں۔
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پر لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینہء گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
(کلیات، ص۲۹۱)
مابعد صنعتی عہد کی صارفی معاشرت کی تمام قباحتوں کو راشد کے یہاں تلاش کرنا عبث ہے کہ یہ ان کی شاعری کا مرکزی سروکار نہیں تھا۔ تاہم ان کی بعض نظموں کی تلازماتی اور استعاراتی جہات کی تعبیر صارفی تناظر میں ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی نظم ’وزیرے چنیں‘ ہے۔
اس نظم کی بنیاد الف لیلہ و لیلہ کی ایک کہانی ہے۔ یہ کہانی شیراز کے ایک نائی کی ہے جو نائی ہونے کے علاوہ دماغوں کا بھی مشہور ماہر تھا۔ وہ دماغ کو کاسہء سر سے الگ کرکے، اس کی آلائشیں پاک کرکے اسے واپس اس کی جگہ لگانے کے فن میں قابل تھا۔ ایک دن اس کی دُکان پر ایران کا ایک وزیر کہن سال آیا۔ ابھی ’ماہرِ کامل‘ نے دماغ کو صاف کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اسے بادشاہ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو اسے عجلت میں بے مغز سر لیے دربارِ سلطانی میں جانا پڑا (گویا وہاں مغز کے بغیر ہی کام چل جاتا تھا)۔ دوسرے دن واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اس کا دماغ نائی کے پڑوسی کی بلّی کھا گئی تھی۔ چناں چہ متبادل کے طور پر دانیالِ زمانہ کے سر میں بیل کا مغز رکھ دیا گیا اور اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جنابِ وزیر، فراست، دانش اور کاروبارِ وزارت میں پہلے سے بڑھ کر چاق و چوبند ہو گئے ہیں۔ اس کہانی کا (سامنے کا) معنی تو یہ ہے کہ حکومتوں کے لیے وہ لوگ زیادہ موزوں ہوتے ہیں جو مغز ہی نہیں رکھتے یا زیادہ سے زیادہ بیل کا دماغ رکھتے ہیں۔ اس سے بہتر طنز اربابِ حکومت پر نہیں ہو سکتا تاہم یہ نظم ایک اور تناظر میں گہری معنویت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ غور کریں تو یہ نظم صارفی معاشرت میں فرد کے نئے تشخّص کی تخلیق کے پورے عمل کو منکشف کرتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار وزیر نہیں، نائی ہے۔ نظم میں اہم تبدیلی وزیر کے کردار میں رونما ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی وزیر کے اپنے ارادے یا اقدام سے نہیں، نائی کی مہارت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو نائی سرمایہ پرست طبقے کی اس آئیڈیالوجی کی علامتی نمایندگی کرتا ہے جس کے ذریعے نئے انسانی تشخّص کی تخلیق کی جاتی ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ نظم میں اس کے نائی کے پیشے سے زیادہ اس کے ماہرِ دماغ ہونے پر ارتکاز ملتا ہے۔ ہر چند اسے دعویٰ ہے کہ وہ دماغ کی آلائشیں دور کر تا ہے، یعنی وہ ایک معالج ہے، مگر یہ دعویٰ اسی تضاد اور خود تردیدی صورتِ حال کا حامل ہے جو ہر آئیڈیالوجی میں ہوتی ہے۔ نظم میں اس کے معالج ہونے کے دعوے کے ثبوت میں کوئی واقعہ مذکورہ نہیں اور جو واقعہ مذکورہ ہے اور جو کہانی میں ایک فیصلہ کن موڑ لاتا ہے، وہ اسے ایک ایسے پیشہ ور نیوروسرجن کے طور پر سامنے لاتا ہے جو نیا دماغ ٹرانسپلانٹ کرنے میں ماہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صارفی معاشرت میں فرد کو یک سر نیا تشخص دیا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کی جگہ بیل کے دماغ کی پیوندکاری، اسی نئے تشخص کی تشکیل کی علامت ہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ نائی کے پاس کئی حیوانوں کے مغز موجود تھے۔ وہ کہاں سے آئے؟ کیا ہم اسے نیم اساطیری کہانیوں کے اس عمومی واقعے کے طوپر پر لیں جس میں کوئی بھی عجیب و غریب بات اچانک ممکن ہوتی ہے اور اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی یا پھر یہ سمجھا جائے کہ وہ لوگوں کے دماغوں کو تبدیل کرنے اور انھیں نئی شناختیں دینے کی خاطر طرح طرح کے دماغ اپنی دست رس میں رکھتا تھا اور اس کا یہ کہنا کہ وزیر کا مغز ہمسائے کی بلی کھا گئی ہے دراصل اسے نیا اور حیوانی دماغ لگانے کا محض بہانہ تھا۔ اسی طرح سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس نے آخر بیل کے مغز کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ کیا اس بات کا علامتی مفہوم یہ نہیں کہ اس کی دست رس میں ایک سے زیادہ تشخصّات تھے اور اسے اپنی مرضی اور ترجیح کے مطابق کسی ایک تشخص کے انتخاب کا اختیار بھی تھا۔ صارفی معاشرت میں سرمایہ پرست طبقے کو بھی شناخت سازی کے وسائل پر اجارہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز بیل کے مغز کا انتخاب کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ صارفی آئیڈیالوجی کو ایک ایسا انسانی تشخص مطلوب ہوتا ہے جو ارادے اور منشا سے محروم ہو؛ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہو؛ انفرادی سطح پر تلاشِ معنی کی تمنّا نہ رکھتا ہو۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر صارفی طرزِ معاشرت میں شے پر شے صَرف کرتے چلے جانے اور پھر بھی نئی اشیا کی طلب کرتے چلے جانے کے لیے بیل کا مغز ہی چاہیے۔ اگر یہاں ایک لمحے کے لیے الف لیلہ و لیلہ کی بیل اور گدھے کی کہانی یاد کریں تو بیل کی کرداری خصوصیات آئنہ ہو جاتی ہیں: وہ وہی کچھ کرتا ہے جس کا مشورہ اسے گدھا دیتا ہے۔
اس سلسلے کی دوسری نظم ’ایک اور شہر‘ ہے جو ۱۹۵۷ء میں نیویارک میں لکھی گئی تھی۔ نظم کا موضوع بھی نیویارک شہر ہی ہے۔ اسے ایک اور شہر کا عنوان دینے کی ایک وجہ تو اسے اپنی ایک پہلی نظم ’ایک شہر‘ سے ممیز کرنا ہے جو ۱۹۵۰ء میں کراچی میں تخلیق ہوئی تھی اور دوسری وجہ اس بات پر زور دینا ہے کہ نظم جس شہر سے متعلق ہے وہ ایک نئی، انوکھی اور عجب قسم کا شہر ہے۔ نظم میں شہر اور اس کے باسیوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ اسے ایک صارفی معاشرت کا حامل شہر ثابت کرتا ہے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور یورپ میں صارفی کلچر کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا گیا اور اسے سرمایہ دارانہ معیشت کی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔
یہ نظم ’وزیرے چنیں‘ کے گیارہ برس بعد لکھی گئی، مگر دونوں کی بافت (Texture) کو دیکھیں تو دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہیں۔ ’وزیرے چنیں‘ میں انسان کو ایک ایسی نئی شناخت دینے کی کہانی ملتی ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت اپنی داخلی آزادی، اپنی ہستی کے معنی خود دریافت کرنے کی صلاحیت سے محرومی ہے۔ نظم ’ایک اور شہر‘ کے پہلے بند میں اسی جانب اشارہ ملتا ہے:
خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش
تاریکی خود بے چشم و گوش
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
(کلیات، ص۲۳۹)
ایک اور شہر یا صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کو خودشناسی کی تمنا ہی نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ انھیں اس مغز ہی سے محروم کر دیا گیا ہے جو خود آگاہی کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صارفیت، معاشی سرگرمی کے نام پر لوگوں کو مسلسل حرکت میں رکھتی ہے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرنے کی تحریک دیتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چیزیں خرید سکیں۔ صارفیت منڈی کو مسلسل آباد اور سرگرمِ کار دیکھنا چاہتی ہے اور آدمی سے اس فرصت، تنہائی اور باطنی خلوت کو چھین لیتی ہے، جس میں آدمی اشیا و مظاہر سے بے نیاز اور ماورا ہونے اور کائنات کی بے کرانیت کو محسوس کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
جب آدمی کا دل، فرصت، آزادی اور خودفہمی کے ارماں سے خالی ہو تو دل کی بھی ’قلبِ ماہیت‘ ہو جاتی ہے۔ 
سینوں میں دل یوں جیسے چشم آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیوِ آہن کے مانند!
(کلیات، ص ۲۶۶)
چشمِ آزِ صیّاد، افرنگی مردانِ راد اور دیو آہن اس سرمایہ دارانہ استعماریت کی طرف غیر مبہم اشارہ ہیں، جس نے ہی صارفیت کو جنم دیا ہے۔ صارفیت کی وحشیانہ ترین شکل وہ ہوتی ہے، جو سیم وزر کو میزان قرار دے دیتی اور باقی تمام پیمانوں (اقدار) کو بے صَرفہ کر ڈالتی ہے۔ یعنی صارفی معاشرت میں اشیا کے معنی اور قدر کا واحد، یک رُخا اور حتمی تصوّر ہوتا ہے۔ یک رُخی، زر اساس اقدار کے سامنے ذوقِ حسن اور ذوقِ عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جو ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلّی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ ذوقِ حسن کی عطا کردہ بے قراری اور صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کی ’اک بے پایاں عجلت، میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے__ اسی نظم میں راشد خودفہمی کے ارماں سے تہی، اپنے دل کو چشم آزِ صیّاد اور سیم وزر کو میزان بنانے والوں کو افقی انسان قرار دیتے ہیں: یہ سب افقی انسان ہیں، یہ ان کے سماوی شہر۔ افقی انسان دراصل وہی صارفی انسان ہے۔
نظم ’تعارف‘ جو نیویارک ہی میں ۱۹۶۳ء میں لکھی گئی، اس میں افقی انسان کے تصوّر کو منفی انسان کے تصوّر سے بدل دیا گیا ہے۔ افقی انسان کی طرح منفی انسان بھی بندگانِ زمانہ اور بندگانِ درم ہیں۔ شاعر ان کے لیے اجل تجویز کرتا ہے۔
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو، بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہِ کرم
(کلیات، ص۱۹۶)
قابلِ غور بات ہے کہ راشد کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر صارفی معاشرے کے مشاہدے ہی سے پیدا ہوا ہے۔ ہر چند اسے راشد کے اس تصوّرِ انسان سے جوڑا جا سکتا ہے جو شروع سے آخر تک ان کی شاعری میں برابر ارتقا پذیر ملتا ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ راشد افقی یا منفی انسان کے تصوّر کو نہ تو دہراتے ہیں نہ آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر مذکورہ دو نظموں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ تاہم بعد کی دو ایک نظموں میں یہ مکمل تصوّر بین السطّور ظاہر ہوتا ہے۔افقی انسان دراصل وہ انسان ہے، جس سے عمودیت منفی ہو گئی ہے۔ نفسیاتی زاویے سے دیکھیں تو شخصیت کی افقی خصوصیات وہ ہیں جن میں کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی، جب کہ شخصیت کے عمودی پہلووں میں درجہ بندی ہوتی ہے: کچھ خصوصیات اور اقدار، دیگر سے کم تر یا برتر ہوتی ہیں، اور انھی کی وجہ سے شخصیّت میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں افقی انسان اقدار کے تصوّر سے تہی ہوتا ہے۔ اس کی نفسی قلم رَو پر واحد، یک رُخے، حتمی اور غیر مبدّل طرزِ فکر کی حاکمیت قائم ہوتی ہے۔ وہ متخیّلہ سے محروم ہوتا ہے جس کی مدد سے آدمی اپنے محدود تجربات کو وسیع تر کائناتی تناظر سے وابستہ کرنے یا اشیا و مظاہر کے نہاں پہلووں کا تصور کرنے، موجود کے جبر سے نجات پانے اور چند ایک معانی پر تکیہ کرنے کے بجائے نئے اور کثیر معانی خلق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ راشد کے لیے متخیّلہ یا عمودیت سے عاری انسان کو زندہ تصوّر کرنا محال ہے، اسی لیے وہ اسے اجل کے سپرد کرتے ہیں۔ یعنی انسان کے تصوّر میں افقی یا منفی تصوّرِ انسان کی گنجایش ہی نہیں دیکھتے۔
’اندھا کباڑی‘ بھی صارفی تناظر میں خاص معنویت کی حامل نظم ہے۔ اندھے کباڑی پر ہومر کا گمان گزرتا ہے جو یونان کی گلیوں میں اپنی نظمیں گاتا پھرتا تھا، مگر یہ جدید دور کا ہومر ہے جس کے خواب/نظمیں دام سمیت لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اس نظم کی معنیاتی بافت میں افقی اور عمودی تصوّر انسان مضمر اور کارفرما ہے۔ اندھا کباڑی عمودی انسان کی نمایندگی کرتا ہے اور خوابوں کو لینے سے گریزاں تمام لوگ افقی انسان ہیں۔ کباڑی، ہومر کی طرح بصارت سے محروم ہے، مگر اس کی متخیّلہ حددرجہ فعال ہے اور خوابوں کی صورتِ گرثانی دینے میں ثانی نہیں رکھتی۔ لہٰذا اس کا اندھا ہونا درحقیقت اس کے اپنی عمودیت میں غرق ہونے کی علامت ہے۔
صارفی معاشرت میں ہر شے کو قابلِ صَرف بنایا جا سکتا ہے، سوائے خوابوں کے۔ یہی وجہ ہے کہ اندھے کباڑی کے خواب نہ کوئی خریدتا ہے، نہ مفت لیتا ہے اور نہ دام سمیت لینے پر تیار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں خواب انسانی ہستی کا وہ جوہر ہیں جسے ’شے‘ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور صرف اشیا ہی صَرف ہوتی اور معدوم ہوتی ہیں۔ خود راشد کہتے ہیں:
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے
آلودگیِ گردِ سرِراہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
(کلیات، ص۲۸۸)
چناں چہ صارفی معاشرت خوابوں سے گریزاں ہوتی ہے۔ اس معاشرت میں ہر شے عارضی، وقتی، لمحاتی، موسمی ہوتی ہے۔ ٹھہراؤ، استقلال، دوامیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں وقت کا تصوّر فقط لمحہء حال تک محدود ہوتا ہے اور ہر شے کی معنویت اور افادیت فقطہ لمحہء موجود کے حاوی رجحان کے ہاتھوں متعین ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اس معاشرت میں خوابوں سے گریز اور خوف پایا جاتا ہے۔ خواب اگر ایک طرف انسانی وجود کے عمودی اور دوامی عنصر کی نمایندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ وقت کا ایک ایسا ہمہ گیر تصوّر دیتے ہیں، جس میں لمحہء حال محض ایک معمولی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا خواب صارفی یا افقی انسانوں کو ان کے عمود سے آشنا کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھیں لمحہء حال یا جز کی سطح سے اوپر اٹھا کر اُس کُل سے متعارف کروانے کی سعی کرتے ہیں جو ذرّے سے کہکشاں تک ہر شے میں رواں دواں ہے اور جس کے بغیر انسان آزادی کامل کے تجربے سے نہیں گزر سکتا، مگر صارفی انسان اس سب کے سلسلے میں بے حسّ ہوتا ہے، تشکیک میں مبتلا ہوتا ہے یا بری طرح خوف زدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ اندھا کباڑی خوابوں کو (افقی) انسانوں کے سپرد کرنے میں ناکام ہوتا ہے اور نظم کے آخری مصرعے: ’’خواب لے لو ، خواب__/میرے خواب/ خواب __میرے خواب__/خوااااب__ / ان کے دااام بھی ی ی ی، اس کے غیر معمولی حُزن کا تاثر نمایاں کرتے ہیں، مگر نظم کا المیہ اختتام دراصل ایک ’کنونشن‘ ہے جس کے ذریعے اس امر پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے کہ ’خواب‘ کسی حال میں ’کموڈیٹی‘ نہیں بن سکتے۔ صارفی معاشرت میں خواب واحد ایسا مظہر ہیں جو اس معاشرت کے مرکزی فلسفے کہ ہر شے قابلِ صَرف اور براے فروخت ہے، کا انکار کرتے ہیں۔ نظم میں خود خواب علامت ہیں۔ شاعر نے خاص قسم کے خوابوں کا ذکر نہیں کیا، اس لیے خواب کو ان تمام مثالی تصوّرات و اقدار کی علامت گردانا جا سکتا ہے جنھیں آرٹ نے منکشف کیا ہے یا جن میں آرٹ بنیاد رکھتا ہے اور جو صدیوں سے انسانی روحوں میں بصیرا کیے ہوئے ہیں۔۔ شاید اسی لیے اندھا کباڑی خود کو نقشِ گر ثانی کہتا ہے اور خود کو خوابوں کے مالک کے بجاے وارث کے طور پر پیش کرتا محسوس ہوتا ہے (یوں بھی ملکیت کا تصوّر استعماری/صارفی ہے)۔ حقیقی آرٹ، کبھی کموڈیئی نہیں بن سکتا۔ اسی لیے صارفی معاشرت ان کا انکار کرتی، ان کے سلسلے میں تشکیک پیدا کرتی، ان سے بے زاری خوف کو جنم دیتی ہے یا پھر اس جعلی آرٹ کی سرپرستی کرتی ہے جو خود کو قابلِ صَرف شے کے طور پر پیش کرے یا خود کو صارفیت کے ترجمان کے طور پر سامنے لائے۔ 


حواشی
۱؂ یہ فرق تعبیریات کے معروف نظریہ ساز ای۔ڈی۔ ہرش جونیئر نے کیا ہے۔اپنے مقالے Meaning and Significance Reinter-preted میں لکھا ہے:
"Meaning, then, may be conceived as a self-identical schema whose boundries are determined by an originating speech event, while significance may be conceived as a relationship drawn between that self-identical meaning and something, anything, else."
]مشمولہ Critical Inquiry، شکاگو یونیورسٹی، دسمبر ۱۹۸۴ء، ص۲۰۴[
۲؂ ن۔م۔راشد ، راشد بقلم خود، (مرتبین: سعادت سعید، نسرین انجم بھٹی) جی۔سی یونیورسٹی، لاہور، ص۸۲
۳؂ ٹیری ایگلٹن، How to Read a Poem ، بلیک ول پبلشنگ، اوکسفرڈ، ۲۰۰۷ء۔ ص۱۱۲
۴؂ ن م راشد ، راشد بقلم خود، ص۸۹
۵؂ وکٹر لیبو (Victor Lebow) ، Journal of Retailing ، بہار۱۹۵۵ء، ص۷
۶؂ ن م راشد، راشد بقلم خود، ص۹۳

ڈاکٹر ناصر عباس نیّر

راشد کی شاعری پڑھنے کے لیے کلک کریں
http://rekhta.org/Poet/Noon_Meem_Rashid/Nazms

نئی نسل کا ایک اچھا شاعر: صابر

صابر کی شاعری مجھے اچھی لگتی ہے، اس شخص کے یہاں بڑھی دھیمی آنچ پر پکتے ہوئے الفاظ ہیں، جو نہ پوری طرح گلے ہیں اور نہ ادھ کچے ہیں، بس ان کا اپنا ذائقہ ہے، صابر غزل کہتے وقت یا شعر بناتے وقت بہت نئی طرح داریوں سے الجھتا ہے، اس شاعر کی کھری اور سچی کمائی یہی ہے کہ اسے لہجے کے تجربے کا شوق ہے، یہ آہنگ کی داخلی سکونت کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہتا ہے، نئی نسل میں الٹ پلٹ کر اپنے آپ کو دیکھتے رہنے والے ویسے بھی بہت کم ہیں، ہندوستان میں صابر کی شاعری نے ایک نئے ، اجلے اور سچے اسلوب کی چمک دکھائی ہے، یہ چمک خدا کرے بڑی دیر تک قائم رہے۔صابر کو جن لوگوں نے نہیں پڑھا ، میرا مشورہ ہے کہ ایک بار اس کی غزلوں کا مطالعہ کریں، وہ نئی نسل کا ایک نمائندہ شاعر ہے، اس نے تخلیقی بنت میں اپنی ہی ذات کے ادھیڑبن کا بھی ایک راستہ نکال لیا ہے، یہ شاعر ہے یا ہورہا ہے اس کا فیصلہ بعد کی بات ہے مگر شاعری کے نت نئے روپ میں سے اس کی ایک شناخت کچھ ایسی بھی ہے یا ہونی چاہیے۔مجھے یہ شاعر پسند ہے، آپ پڑھیے، باقی آپ کی مرضی اور مطالعے کے بعد آپ کے فیصلے پر چھوڑتا ہوں۔
تصنیف حیدر



Friday 11 October 2013

استعارے کابھید

استعارہ کیا ہے اورادبی اظہار کے لیے کیوں ضروری ہے؟اس سوال سے قبل یہ پوچھنا چاہیے کہ زبان کیا ہے، اور یہ ہماری اساسی ضرورت کیوں ہے؟اس کا معاشرتی تفاعل کیا ہے؟کیا زبان محض اصوات کا نام ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟لفظ اور معنی میں کیا رشتہ ہے؟لسانی نظام کی تشکیل ،ترتیب اور ارتقا سے پہلے ترسیل کے مختلف عوامل کیا تھے؟جذبات کیا ہیں؟احساسات کیا ہیں؟ادراکِ معنی کے پیمانے کیا ہیں؟ادراک، تصوراورتخیل میں فرق کیاہے؟معنی کے منابع تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟معنی آفرینی اور معنی خیزی۔۔۔چہ معنی دارد؟
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
بات تو محض ایک استعارے کی تھی۔اتنے سوالات کیوں کر پیدا ہوگئے؟اس کا مطلب استعارہ کوئی معمولی شے نہیں۔اچھا،زندگی کیا ہے؟زندگی کے بارے میں شاعروں کے بہت سے اشعار اور فلسفیوں کے اقوال ہیں۔بڑے بڑے مفکرین اس کا سراغ لگانے میں رہ گئے۔نہ جا نے کتنے ذہین ترین دماغ توازن کھو بیٹھے۔کوئی چھور نہیں ملا۔جواب تو ایک جملے میں ہے:
زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک استعارہ ہے۔
روشنی کیا ہے؟تاریکی کیا ہے؟سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟آگ،ہوا،پانی،مٹی۔۔۔یہ سب استعارے ہیں۔’’ابتدا میں لفظ تھا،اور لفظ ہی خدا ہے۔‘‘یعنی’ لفظ‘ بھی استعارہ ہے۔[۔۔۔’’شاید لفظ ناستک نہیں ہوتے۔۔۔ہاں شاید۔۔۔لیکن بھیڑیے،اس کی پوترتا کو نوچ کر کیسے خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔‘‘ (1)]تو کیا استعارے سے نجات ممکن نہیں۔کچھ لوگوں کا تو دعویٰ ہے کہ استعارے کی موت ہو چکی ہے۔بیانیہ کی واپسی ہو گئی ہے۔تجریدی شاعری اور کہانیوں کا زمانہ اب ختم ہوا۔وہ ساٹھ اور اس کے بعدکی دہائی تھی۔یہ اَسی (80ء)کے بعد کا ادب ہے۔اول تو یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ تجرید سے اتنی چڑ کیوں ؟علامت سے خوف کیسا ؟استعارے کا نام سنتے ہی جی بیٹھنے کیوں لگتا ہے؟استعارہ کوئی بھوت یا سایۂ مکروہ تو نہیں؟میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ بیانیہ گُم کب ہوا تھا،اور استعارے کی موت ہوچکی ہے، تو ہم زندہ کیوں ہیں۔۔۔؟میں اس دن سے خوف زدہ ہوں،جب انسان سے اس کی سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی جائے گی۔کسی جماعت کا فکری نظام وائرس زدہ ہوجائے گا۔کسی فرد کی قوتِ فکر ہائی جیک کرلی جائے گی۔اگر ایسا ہوا تو استعارہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں خاموش ہوجائے گا۔استعارے کی موت اس دنیا کا بدترین سانحہ ہوگا۔
نطشے(Friedrich Nietzsche)نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا۔موت نہ کبھی پوچھ کر آتی ہے اورنہ اس کی آمدکااشتہار کیاجاتاہے۔مجھے لگتا ہے کہ خدا کی موت ،استعارے کی موت ہے۔ نطشے کی نفی نے استعارے کو حیات بخشی۔اس نے استعارے کی روح کو پالیا تھا،کہ اس کی حیات اور استعارے میں فرق ہی نہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ وہ پاگل ہو گیااور زندگی کے آخری گیارہ سال(1889-1900)اس نے عالم جنون میں گزارے۔وہ استعارے کی تاب نہ لا سکا۔اس کی موت ہو گئی:
اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں،کبھی رسوا سرِ بازار
استعارہ تو رسوائی کا سامان ہے۔پھر بازارِ سخن میں اس کی قیمت گراں کیوں ہے؟کیا ہم استعارے کے بغیر نہیں جی سکتے؟صنعتی انقلاب تو کب کا آچکا۔یہ اکیسویں صدی ہے۔کہتے ہیں ،یہ سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے۔معروضیت کازمانہ ہے۔سوچنے کا نہیں،کرگزرنے کا عہد ہے۔۔۔’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘۔۔۔۔اس دوڑ بھاگ میں کوئی پیچھے مڑ کر کیوں دیکھے؟چاندپرکمندیں ڈالی جاچکی ہیں۔اس نسل کو اس پر آشیانہ بناناہے۔سائنس کی رسائی نے اس کے رومانی چہرے سے نقاب ہٹادیا ہے۔توکیا چاند اب روٹی کا استعارہ نہیں بن سکتا؟اسے محبوب کی صورت سے تعبیر نہیں کرسکتے؟بچپن میں ہم نے سنا تھا کہ وہاں کوئی بڑھیا رہتی ہے۔کیا اس کا سراغ نہیں مل سکتا؟کیا چندا ماماکارومان گُم ہوگیا؟عید کا چاند اب اونچے ٹیلوں سے نہیں،جہاز اور دور بین کی مدد سے دیکھ لیا جاتا ہے۔کیا اب بادلوں میں گھوڑے کی رتھ نظر نہیں آتی؟کیا وہاں شیراورہاتھی چھپ کر نہیں رہتے؟ہاں یہ سچ ہے ،ستارے اب مقدر کا فیصلہ نہیں کرتے!۔ہم فطرت سے جتنے قریب ہوتے جارہے ہیں،اس کا حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔نئی صدی کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں ۔اب نئی قدروں کا سامنا ہے۔اس عہد میں خارجی حقیقت،قبولیت کا نیا باب رقم کررہی ہے۔پھر بھی حقیقت اور مجاز میں سیکڑوں پردے حائل ہیں۔کیوں۔۔۔؟آج کے مادی ماحول میں تخیل کی پرورش اور تہذیب نہایت مشکل ہے۔تاجرانہ ذہن نے ادب کو بھی خرید و فروخت کا ذریعہ بنالیا ہے۔یہ دنیا ایٹم بم میں، آدمی کے اندر چھپے ہوئے حیوان کی سفاکی دیکھ چکی ہے۔چہروں کے سیلاب میں ایک چہرے پر کئی چہرے پڑے ہیں۔تجارتی یلغار نے ذہنِ انسانی کو مشین بننے پر مجبور کردیا ہے۔مشین استعارہ خلق نہیں کرسکتی۔مشین کمانڈ دینے پر مصرعے اُگل سکتی ہے،شعر نہیں کہہ سکتی۔آدمی جذبے کا اسیر ہے۔اسے جب ٹھیس لگتی ہے تو وہ اپنے اندر اترتا ہے۔اس کے اندر کی دنیا آباد ہوتی ہے۔اس کی سوچ اسے گہرائی میں لے جاتی ہے۔وہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔اس عمل میں اسے تجرید کی فصیلیں/ سرحدیں پار کرنی ہیں۔یہ استعاروں کی دنیا ہے۔انتظار حسین نے شاید اسی موقعے کے لیے کہا تھا۔۔۔’’ہمارے اندر ایک تاریک براعظم سانس لے رہا ہے۔‘‘ (2)
ہر خیال Abstractہوتا ہے۔ادراک یقین میں بدلتا ہے۔یقین اور خیال میں تصادم نہیں ہوتا۔آدمی کو تخیلات سے مفر نہیں۔زبان تخیل کے احضار اور اظہارکا آلۂ کار ہے۔خیال نہ صرف عطیۂ فطرت،بلکہ عجیب ترین شے ہے، جو خارجی اورداخلی دنیا میں رابطہ پیدا کرتاہے۔ہر خیال کسی نہ کسی فاعل کا محتاج ہے۔منطقی بیان اور خیال میں بعدالمشرقین ہے۔منطق کو استعارے سے کوئی علاقہ نہیں۔استعارہ تراشنا خیال کا مقدر ہے:
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی 
(عرفان صدیقی)
استعارے کی مہیمارومانی کیف سے معمور ہے۔یہ وہ شے ہے جوزندگی کونئے معنی عطاکرتی ہے۔خیال نامیاتی حقیقت ہے۔اس کے مختلف تلازمے ہیں۔احساس خیال کا روپ دھارتاہے۔ہرخیال بذاتِ خود غیر مادی ہے۔ اس لیے کہ اسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں،نہ سن سکتے ہیں،نہ چکھ سکتے ہیں،نہ سونگھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھو سکتے ہیں۔خیال آزاد ہوتا ہے۔شاعری لفظوں سے نہیں،بلکہ تخیل،احساس اور جذبے سے بنتی ہے۔افلاطون ان تینوں چیزوں پرعقل اور منطق کو ترجیح دیتا ہے۔اس نے اپنی مثالی’ جمہوریہ‘ سے اسی لیے شاعروں کونکال باہر کیا تھاکہ وہ جذبے کے اسیر ہیں اور اسی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔اس نے شاعرپرفلسفی کو اسی لیے ترجیح دی کہ وہ شاعری کو فلسفے سے کم تر سمجھتا ہے۔اسی بنیادپراس نے کلیہ تراشاکہ شاعری اورفلسفے میں ازلی مخاصمت ہے۔فلسفے کی بنیاد عقل پر ہے،جوانسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صفت ہے،جبکہ شاعری جذبات کی تصویر ہے۔افلاطون کے بقول،جذبہ انسان کو صالح بنانے کے بجائے اس کے ذہن کو بھڑکاتاہے۔اس لیے یہ عقل کے لیے مضرہے۔شاعری جذبات کی پرورش کرتی ہے،حالاں کہ اس کا کام ان پر قابوپانا اور،روک لگاناتھا۔یعنی جذبے کو حکمراں ہونے کے بجائے محکوم ہونا چاہیے۔شاعری احساس کو تقویت بخشتی ہے اور ادراک کو معطل کرتی ہے۔ذی عقل، غوروفکر کرتا ہے،جذبات میں بہہ نہیں جاتا۔الہامی کیفیت یا وجدان پر شاعر کا قبضہ نہیں ہوتا۔اس لیے اس کی رہبری قبول کرنا حماقت ہے۔’’شاعر کبھی پیغمبر بن جاتا ہے،کبھی پاگل، اوراس کی شخصیت ان کے درمیان معلق رہتی ہے۔‘‘(3)افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر نقال ہے ۔وہ نقل کی نقل اتارتا ہے۔گویااستعارہ بھی ایک نوع کی نقل ہوا،کیوں کہ یہ شاعری کا ناگزیر حصہ ہے۔افلاطونIdeasکوسچائی سے تعبیر کرتا ہے۔یعنی ہرIdea(عین/جوہر)وہ بنیادی/حقیقی اورلافانی ساخت ہے،جس کی تمام چیزیں نقل ہیں،اورنقل کبھی اصل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اس کے مطابق دنیا میں جتنی چیزیں موجود ہیں،وہ مادی ہیں اورمادے کی حیثیت ثانوی ہے۔Ideasزمان و مکان سے ماورا،اورغیرفانی ہیں۔یہ سچے علم ہیں جن کی بنیاد صداقت پر ہے ،اورصداقت اس روح سے ہم رشتہ ہے،جولافانی ہے۔ریاست مادی اور فانی خیالات سے نہیں چلائی جا سکتی۔افلاطون کے مطابق دنیا میں ایک ہی قبیل کی کئی اشیاپائی جاتی ہیں۔ان سب میں تھوڑابہت فرق ہے۔اِس سے اُس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہرقبیل کی کوئی ایک شے توایسی ہونی چاہیے،جوبہترین اورکامل ہو،یعنی اس سے برتراس قسم کی کوئی چیز نہ ہوسکتی ہو۔اس کے مطابق یہ آئیڈیل یا مثالی چیز/نوع عالمِ اعیان/مثال میں موجود ہے۔یعنی’’عالمِ مثال میں ایک مثالی انسان،ایک مثالی گھوڑا،ایک مثالی کرسی(علیٰ ہذالقیاس)موجود ہے۔دنیا میں موجود کوئی انسان،گھوڑایاکرسی،اپنی ’مثال‘ سے بہتر نہیں۔تمام اشیا اپنی اپنی مثال کی ادھوری نقول ہیں۔‘‘(4)مثالی صورتیں خدا کی تخلیق کردہ ہیں۔اس طریقۂ استدلال کی منطق بظاہر تو بہت توانا ہے،لیکن بباطن اسے منطقی حقیقت سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔افلاطون نے اپنی آسانی کے لیے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ دنیا میں جتنی اشیا ہیں ان کی ایک مثالی صورت خدا کی تشکیل کردہ ہے،اوریقیناًمثالی صورت ایک ہی ممکن ہے۔وہ پلنگ/چارپائی کی مثال دیتا ہے۔کلیم الدین احمد کے بقول آپ پلنگ کی جگہ گائے کا تصور کر لیجیے۔اس لیے کہ مصور محض چارپائی کی تصویر نہیں بناتا۔کلیم الدین احمد نے گائے اور پھول کی مثال کے ذریعے نہ صرف افلاطون کے نظریے کی تردید کی،بلکہ اس پہلو سے بھی آگاہ کیا کہ نظریۂ اعیان کے مفروضے کے تحت فلسفیوں کے خیالات بدلتے رہے ہیں۔چوں کہ گائیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔سفید،سیاہ،بھوری،چتکبری،موٹی،دبلی،سینگ دار،بے سینگ وغیرہ۔بھینس اور بیل بھی اسی قبیل میں ہیں۔اگر خدامحض ایک مثالی گائے بنانے پرقادر ہے تواتنی گائیں کہاں سے واردہوئیں۔یعنی یہ گائیں بھی خداکی بنائی ہوئی ہیں۔اس کا مطلب’’بڑھئی کی طرح خدا بھی نقال ہے،جس نے اپنی مثالی شکل کی اتنی مختلف شکلیں بنائیں،اور خدا نے یہ گائیں نہیں بنائیں تو پھرکس نے؟مصورنے تونہیں بنائی ہیں۔کیا خداکے علاوہ کوئی اور بھی خلاق ہے؟کیا خدا کا کوئی نائب ہے جو اس کی مثالی شکلیں بناتا ہے[؟]پھول کو لے لیجیے۔۔۔اگر دنیا کے پھولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک موٹی کتاب تیار ہوجائے گی۔بقول افلاطون خدا نے ایک اور صرف ایک مثالی پھول بنایا ہوگا۔پھریہ ہزاروں قسم کے پھول کہاں سے آگئے[؟]یہ نقالی کس نے کی[؟]‘‘(5)افلاطون فلسفی ہے۔اسی لیے وہ شاعری پر فلسفے کی بزرگی تسلیم کرتا ہے۔وہ تعقل پرست ہے۔وہ شاعری اور حقیقت میں کسی تعلق کو قبول نہیں کرتا۔اس کے خیال میں شاعری حقیقت کی نقالی نہیں،بلکہ نقل در نقل ہے۔یہاں دو مستقل موضوعات سامنے آتے ہیں:
183 شاعری۔۔۔وجدان یا حقیقت
183 شعری نقل کی نوعیت
شاعری ان معنوں میں وجدانی ہر گز نہیں کہ شاعر کے پاس اپنی شعری صلاحیت نہیں ہوتی۔اس پر دیوتاؤ ں کا سایہ ہوتا ہے۔جب وہ شعر کہنے پر آتا ہے تو شاعری کی دیوی اسے القا عطا کرتی ہے۔اس پر الہام ہوتا ہے۔شاعر مجنون یا خبطی ہرگزنہیں۔ایسا بالکل نہیں کہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہے۔شاعری تخیلی تجربہ ہے،جس میں فینسی اور قوتِ ممیزہ کو بڑا دخل ہے۔شاعری اور حقیقت،ایسا موضوع ہے جس میں ظاہرپرستوں نے سادہ لوحوں کوخوب الجھایا۔حقیقت کیا ہے؟وہی جو سامنے نظرآتی ہے؟یاپھروہ بھی جہاں تک ہماری رسائی نہیں؟اگر ہر نظر آنے والی شے ہی حقیقت ہے تو خدا ،اس دنیا کا سب سے بڑاجھوٹ ہے۔محسوسات اور جذبوں کا ذکرہی کیا؟حقیقت بھی جدلیاتی شے ہے۔مجازحقیقت کی ضد ہے،لیکن یہ بھی اتنی ہی حقیقی ہے۔یہ دنیا، یازندگی، وہ سکہ ہے جس کا ایک رخ حقیقت کہلاتا ہے اور دوسرا مجاز۔ایک خارجی کہلاتا ہے،دوسرا داخلی۔دنیا کے وجود کے ساتھ دونوں کے وجود کا اثبات ناگزیر ہے۔شاعری اس دنیا کی عظیم حقیقت ہے۔یہ نقل نہیں،تخیلی تجربہ ہے۔شاعری سے نفرت،حماقت ہے۔اسے دور سے سلام مت کیجیے۔اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کی ضرورت نہیں۔اس کے تجربے میں خود کو شریک/تحلیل کیجیے۔حقیقت کیا ہے،خود معلوم ہوجائے گا۔حقیقت ڈھنڈورا پیٹنے جیسی کوئی شے نہیں۔جس طرح انقلاب انقلاب چیخنے سے انقلاب نہیں آجاتا،اسی طرح’حقیقت پسندی‘یا’حقیقت نگاری‘کا عنوان قائم کرلینے سے حقیقت کی تفہیم نہیں ہوجاتی۔اس نوع کے عناوین قائم کرنے والے حضرات چھوٹے چھوٹے سامنے کے حقائق کومعراج تصور کرلیتے ہیں،اور اس عظیم حقیقت تک یا تو ان کی نظر نہیں جاتی یاپھر وہ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں،جوزندگی کا بھید بھرا گہراداخلی تجربہ ہے۔یہی تجربہ استعارے کی تخلیق کے لیے اساس فراہم کرتاہے۔استعارہ تو مجاز کی ایک شکل ہے۔پھر مجاز، حقیقت کیسے بن سکتا ہے؟یہ سوال انھی حضرات کو پریشان کرتا ہے جو حقیقت کو محض مرغی کا انڈا سمجھتے ہیں۔اس انڈے میں کوئی سانس بھی لے رہا ہے،یہاں تک ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ان کی بساط میں حقیقت محض مرغی کا انڈا ہی نہیں،کسان کا ہل بھی ہے،مزدور کی ٹوکری ہے۔موچی کی چپل ہے۔دھوبی کا گدہا ہے۔کسی مظہر کو سیاسی لیڈر بھی دیکھتا ہے۔مذہبی واعظ بھی دیکھتا ہے۔کوئی سماجی مصلح بھی اس کا جائزہ لیتا ہے،لیکن ان کی نظر اور ایک فن کار کے مشاہدے میں کچھ تو فرق ہے،اور پھر مجروحؔ صاحب تو پاگل ہی تھے کہ ایسی بات کہہ دی:
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے سات چلے
مجروحؔ صاحب کیسے ترقی پسند ہیں؟آگ لگانے کی بات کرتے ہیں۔گھر پھونکنا تو بورژواطبقے کی سازش ہے۔یہ غیرسماجی فعل ہے۔ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ’مشعلِ جاں‘کی ترکیب کا مفہوم حقیقت کی کس ڈکشنری میں ملے گا۔پھر میرؔ صاحب نے جو یہ شعر کہا:
دیکھ تو،دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
تو وہ تو یقیناًمجنون ٹھہرے کہ انھیں اتنی سی بات معلوم نہ تھی کہ دھواں دل یا جاں سے نہیں،بلکہ چولھے سے اٹھتا ہے۔[نابغۂ جہاں غالبؔ نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہاتھا۔۔۔’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ،انھیں کچھ نہ کہو‘۔۔۔کیوں کہ یہ مے و نغمہ کواندوہ وربا کہتے ہیں۔]اگر تفہیم وتعبیر کی یہی صورت رہی تو استعارہ تو بے موت مر جائے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ حقیقت میں تغیر کی صلاحیت ہوتی ہے۔تغیر ارتقا کی کلید ہے۔ادب بھی حقیقت ہے،لیکن حقیقت کوئی آئینہ نہیں کہ کوئی رٹ لگاتا رہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے۔آئینہ جو دیکھتا ہے،وہی دکھاتا ہے،مگر حقیقت محض وہی نہیں،جسے ہماری ظاہری آنکھیں دیکھتی ہیں۔حقیقت ہر جگہ یکساں نہیں رہتی۔دو اور دو چار ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے،لیکن غالبؔ کا یہ کہنا؛’ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال‘،بھی حقیقت ہے۔’محشر خیال‘کی ترکیب ،ہوسکتا ہے کہ کسی کو نہ سمجھ میں آئے۔ایسے لوگ تو غالبؔ کو یقینادیوانہ کہیں گے کہ وہ خلوت کو بھی انجمن سے تعبیرکرتا ہے۔توحقیقت محض سیاسی،سماجی یا معاشی نہیں ہوتی۔یہ نہ جانے کتنے خلیوں سے مل کر بنی ہے؟یہاں محمد حسن عسکری محلِ نظر ہیں:
سائنس دانوں نے تو اب آکر ایٹم کو توڑنے کا طریقہ دریافت کیا ہے لیکن فن کار پہلے ہی دن سے یہی کر رہا ہے،وہ حقیقت کے جوہروں کو درہم برہم کردیتا ہے تاکہ ایک نئی حقیقت کی تشکیل کر سکے۔(6)
فن کار سماج بے زار نہیں ہوتا۔ وہ مولوی بھی نہیں ہوتاکہ وعظ کرے اور خوف دلائے۔شاعری کے آرٹ کے لیے اخلاقی اور سماجی حقیقت سے کہیں زیادہ حسیاتی حقیقت کی ضرورت پڑتی ہے۔شعری آرٹ محسوسات کی دنیا ہے۔اس لیے فن کارکو اخبار نہیں،دیوار پڑھنا چاہیے۔یہاں خبر سے زیادہ بے خبری کی ضرورت ہے۔اگر کوئی اس بے خبری کو محسوس نہیں کرسکتاتواس پرافسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔بے خبری کو بے تعلقی کے اصول سے تقویت پہنچتی ہے۔شاعری شخصیت کے اظہار کانام ہرگزنہیں۔شاعری تجربے کے اظہارکانام ہے،اورتجربہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے نامیاتی اختصاص کا حامل ہے۔یہ سچ ہے کہ شاعر یا کوئی بھی فن کار حساس ہوتا ہے،لیکن وہ ہربات سے متاثر نہیں ہوتا۔اس کے قبول کردہ اثرات اس کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں،مگر تخلیق کار کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ ان اثرات اور جذبات کے ریلوں میں ترتیب وتہذیب پیدا کرے اور انھیں اپنے تجربے میں تحلیل کرے۔ان اثرات اور شدتِ جذبات کے فوری نتائج میں پیدا ہونے والا ادب غیر مرتب ہوگا۔شاعری بہترین تنظیم کا نام ہے۔اس تنظیم کے لیے تجربے کی تہذیب ضروری ہے اور یہ تہذیب فوری تاثرات سے پیدا نہیں ہوتی۔اس لیے شخصی اور فنی تجربے میں ایک فاصلہ چاہیے۔ولیم ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ شاعری ہیجان کے وقت نہیں،بلکہ سکون کے وقت پیدا ہوتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کسی وقوعے سے فوری طور پر ظاہرہونے والے جذبات میں سنجیدگی، کچھ وقت گزرجانے کے بعدپیدا ہوتی ہے۔بے تعلقی ذہنی اورزمانی فاصلے کانام ہے جو بے خبری کو قوتِ نمو عطا کرتی ہے۔یہی بے خبری اوربے تعلقی استعارے کی تعمیر میں ممد ہوتی ہے،اوریہی وہ شے ہے جو استعارے کو گنجینۂ معنی کا طلسم بناتی ہے۔
اس سلسلۂ کلام کا مقصود یہ ہے کہ شعری حقیقت وہی نہیں،جسے ہم اپنے روزمرہ میں دیکھتے ہیں۔عام حقیقت اور شعری صداقت میں فرق ہے۔اس فرق کو سب سے پہلے ارسطو نے بیان کیا۔جب اس نے بوطیقا لکھی تو زبان کے مجازی پہلو پر بھی اظہار خیال کیا۔اس طور استعارے کی ماہیت پر سب سے پہلے ارسطو نے قلم اٹھایااور اسے شاعری کا حسن قرار دیا۔نقل والی بحث میں شاعری کادفاع کرتے ہوئے اس نے استعارے کو جواز عطاکیا۔اس کا تصورِ استعارہ شرح وبسط کا متقاضی ہے۔ اس سے قبل ہم تھوڑی دیر کے لیے پلٹیں گے۔اس لیے کہ ابھی افلاطون کے ضمن میں جو سوالات قائم ہوئے تھے،ان پر گفتگو مکمل نہیں ہوئی ۔عام صداقت اور شعری صداقتوں میں انفراد کے ساتھ اس بات کا بھی اعتراف ضروری ہے کہ شاعری اندر کی آواز کانام ہے۔یہ داخلی دنیا بڑی پراسرار ہے کہ اس سے مصاحبے کے لیے ادراک سے کہیں زیادہ وجدان کی ضرورت ہے۔ وجدان کوئی آسمانی شے نہیں،اس کا خمیر خارج و داخل کے طویل تصادم سے اٹھا ہے۔یہ اس انسان کا ورثہ ہے جس نے پہلی دفعہ خود کو تنہا محسوس کیا۔یہی احساس،ناتمامی اور غیراطمینانی کی صورت، نیرنگِ خیال کا روپ دھارکر تخلیق کی دنیا کا کولمبس بن جاتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا اقبال کے اس مصرعے کی تعبیر ہے۔۔۔’کہ آرہی ہے دمادم صداے کن فیکون‘۔صداے کن فیکون کے اس شورِ مسلسل میں کسی بھید کے کسی ایک جز کو بھی پالینا، یااپنے بھیتر اس کا احساس جگالینا، لطیف تجربہ ہے۔اس تجربے کو رومانی اور جمالیاتی کیفیات سے عمیق تعلق ہے۔یہ تجربہ انقباض کے مراحل سے گزر کر انبساط کے احاطے میں داخل ہوتا ہے۔
افلاطون شاعروں کو اس لیے مطعون ٹھہراتاہے کہ وہ جذبات کی پرورش کرتے ہیں،لیکن مسئلہ فقط جذبے کا نہیں۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق شاعرآسمانی/الہامی زبان استعمال کرتا ہے،کیوں کہ اس کے توسط سے کوئی اور(شاعری کی دیوی یا خدا) کلام کرتا ہے۔تومعاملہ محض نقل کی نقل کا نہیں رہ گیا۔ایک بڑا حملہ زبان پر بھی ہوا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا استعارہ بھی نقل ہے؟یہاں افلاطون کو شدید جھٹکا لگتا ہے۔شیرکوہم کسی بہادر شخص کا استعارہ مان لیتے ہیں،مگرجانور کی صفت کو انسان کی صفت سے ہم آہنگ کرناافلاطون کی شریعت میں جائز نہیں،کیوں کہ انسان کو جانور بتانا غیرعقلی روش ہے۔اس طرح افلاطون کے ہاں استعارہ راندۂ درگاہ ٹھہرا۔اگرہستی کوسراب یالب کو گلاب کی پنکھڑی سے تعبیر کرنا غیرعقلی رویہ ہے اورچرخ یاآسمان کہہ کر زمانہ مراد لیناغیرحقیقی بیان ہے تواظہار کی سلطنت میں استعارے کی بقاناممکن ہے۔اس لیے ،سچائی یہ ہے جو مارسٹن مورس(Marston Morse)کہتا ہے۔۔۔شاعری میں عقل مالکہ نہیں،بلکہ خادمہ ہوتی ہے۔(7)افلاطون نے شاعری کو کم ترکیوں جانا،اس کی وجہ بیان کی جاچکی ہے۔نچوڑ یہ ہے کہ وہ شاعری کی ماہیت کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکا۔کچھ حدتک اس کا ازالہ اس کے شاگرد ارسطو نے کیا۔یونان کی تثلیثِ فلاسفہ میں ارسطو اہم ترین سنگ میل ہے۔اس نے فلسفہ اور ادب سے متعلق بعض نہایت بنیادی سوالات اٹھائے۔اس نے افلاطون کو کئی سطحوں پر رد کیا۔اس نے شاعری کو نقل در نقل کے بجائے محض نقل کہااور اس کے لیے Mimesisکالفظ استعمال کیا۔نقل کو بھی اس نے واقعیت/امکانی نمائندگی سے تعبیر کیا،جس کی بنیاد پر یہ عام سطح سے بلند ہوگئی۔جذبات کے دفاع میں اس نے تزکیۂ نفس) (Katharsisکی اصطلاح استعمال کی،جس کا کام فاسدخیالات اور مضرجذبات کی اصلاح ہے،نہ کہ جذبات کی پرورش۔زبان کے استعاراتی پہلو پر بھی روشنی ڈالی۔یہاں شاعری کی ماہیت کی تفہیم کے ساتھ مباحث کے کئی در کھلتے ہیں۔کئی سلسلے قائم ہوتے ہیں۔ ارسطونے’Poetics‘کے25ویں باب میں اظہار کے بنیادی پہلوؤں پرتوجہ دلاتے ہوئے تین اہم وسائل کو نشان زد کیاہے اور ان کی تفہیم بھی تین حصوں میں کی ہے:
(1)The poet being an imitator just like the painter or other maker of likenesses, he must necessarily in all instances represent things in one or other of three aspects, either as they were or are, or as they are said or thought to be or to have been, or as they ought to be.
(2)All this he does in language, with an admixture, it may be, of strange words and metaphors, as also of the various modified forms of words, since the use of these is conceded in poetry.
(3)It is to be remembered, too, that there is not the same kind of correctness in poetry as in politics, or indeed any other art.(8)
مذکورہ خیالات کی بنیاد نظریۂ واقعیت ہے۔ارسطو نے شعری نقل کو انسانی اعمال کی نقل بتایا ہے۔یہ اعمال محض اعضا کی حرکات کانام ہرگزنہیں،بلکہ اس تحرک کانام ہیں جس سے زندگی عبارت ہے۔اسی تحرک کی بنا پراس نے Mimesisکو من وعن نقل قرار نہیں دیا۔اس تحرک میں واقعاتی/امکانی صورتِ حال کاادراک استعارے کی تخلیق کا سرچشمہ ہے۔مندرجہ بالابیانات میں پہلاحصہ اس امر پر مشتمل ہے کہ نقل کے تین ذرائع ہیں۔یعنی ان تینوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ایک تو یہ کہ اشیا،جیسی کہ وہ ہیں یاتھیں۔دوم یہ کہ جیسی وہ بتائی یاسمجھی جاتی ہیں۔سوم یہ کہ انھیں جیساہوناچاہیے۔تیسراذریعہ(یعنی اشیا کو جیسا ہونا چاہیے)تخلیقی ادب کی کنجی ہے۔چوں کہ اظہار کا وسیلہ زبان ہے،اس لیے اس تیسرے پہلو میں لسانی آزادی جائز ہے۔یہاں زبان کے مجازی پہلوؤں کاپوراپورا،استعمال کیاجاسکتاہے۔غیرمانوس الفاظ،استعارہ،کنایہ،تشبیہ،تمثیل،مبالغہ،پیکراورعلامت تراشی یادیگر لسانی تغیر و تبدل کو بروئے کارلایاجاسکتاہے۔ان کے اطلاق اور صحت کا فیصلہ مقتضاے فن پر ہے۔گھوڑا،ایک جانور ہے۔اسے لوگ چوپایہ بتاتے ہیں۔یعنی اس کے دوپیرآگے اور دوپیچھے کی طرف ہوتے ہیں۔اگراس کے چاروں پیرہوامیں معلق ہوںیااس کے چاروں پیرآگے کی طرف ہوں تویہ مقتضاے فن کے لحاظ سے غلط نہیں ہوگا۔سائنس اور طب میں یہ عیب/غلطی سمجھاجائے گا،جبکہ ادب میں تخیل کوآزادی ہے کہ وہ اشیا میں تغیروتبدل پیدا کرسکے۔یہاں تخلیق کارکے ذہن میں یہ نکتہ ہوتا ہے کہ فن کے نقطۂ نظر سے اشیا ایسی بھی ہوسکتی ہیں۔ارسطونے گھوڑے کے ساتھ ہرن کی بھی مثال دی ہے۔ہرن کی سینگ نہیں ہوتی،لیکن کسی تخلیق میں اس کے سینگیں نکل آئی ہوں تو یہ فنی غلطی اس وقت تک نہیں قرار دی جاسکتی ،جب تک کہ یہ اقتضاے فن کے خلاف نہ ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ وہ من وعن نقل ہو۔اگرتخلیق ہوبہونقل ہوتی توہرن کی سینگ دار تصویرممکن ہی نہ تھی اورگھوڑے کے چاروں پیروں کے آگے کی طرف ہونے کا سوال بھی پیدانہ ہوتا۔
استعارہ ناممکن کو ممکن بنانے کا نام ہے۔خارجی یاروزمرہ کی دنیا میں کچھ کہہ کرکچھ مراد نہیں لی جاسکتی۔یہ استعاراتی دنیا میں ممکن ہے۔سامنے کی حقیقت میں ہم بڑھاپے کوشام نہیں کہہ سکتے۔اگر ہمیں کسی کو یہ کہنا ہو کہ یہ آپ کا بڑھاپا ہے۔اس کی جگہ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ آپ کی شام ہے تو معنی کہاں سے کہاں منتقل ہوگیا۔حالاں کہ بڑھاپا زندگی کی شام ہی تو ہے۔گھوڑے اورہرن کی مثال ابھی ہمارے سامنے ہے۔اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ استعارہ تخیل کے گھوڑے دوڑانے کانام ہے۔تخیل کیا ہے اور اس کا استعارے سے کیا تعلق ہے؟بدیہی حقیقت ہے کہ ادبی تخلیق تخیل کے بغیر ممکن ہی نہیں،یعنی استعارہ بھی تخیل کا محتاج ہے۔تخیل حاصل شدہ مواد میں نظم وترتیب پیدا کرنے کانام ہے۔کولرج تخیل کو فن پارے کی روح قرار دیتا ہے۔حالی تخیل کی تعریف میں لکھتے ہیں:
وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجزیہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے۔(9)
کولرج اسی کو ثانوی تخیل (Secondary Imagination) سے موسوم کرتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
It [Secondary Imagniation] dissolves, diffuses, dissipates, in order to recreate.(P:202,CH-XIII,Vol-I)/(10)
مقدمہ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے۔ اور ماضی و استقبال اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم اور جنت کی سرگذشت اور حشرو نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے گویااس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں۔ اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کرسکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر آتی ہے۔ جو نتیجے وہ نکالتا ہے گووہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہوجاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔(11)
لیکن تخیل کی یہ تعریف ،دراصل قوتِ واہمہ(Fancy)کی ہے۔قوتِ واہمہ یادداشت کا ایک عمل ہے جو کسی ایک نتیجے پر اصرارنہیں کرتا۔یہ الگ بات ہے کہ حالی قوتِ واہمہ اور تخیل میں فرق نہ کر سکے،مگروہ اردو میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے ادبی تنقید میں تخیل کوتخلیق کی شرطِ اولین بتایااورشرح وبسط کے ساتھ اس کی ماہیت پر بساط بھر گفتگو کی۔استعارہ تخیل کی ایجاد ہے۔ فینسی استعارے کی تخلیق کی محرک ہے۔یہ وہ قوت ہے جو اشیا میں ربط پیدا کرتی ہے۔یہ قوت انسان کے لیے فطرت کا عظیم عطیہ ہے۔تخیل کے اس ضمن میں تین بنیادی الفاظ کی وضاحت ضروری ہے۔احساس،جذبہ اور تصور۔ان میں اور تخیل میں فرق ہے۔درد کی ٹیس،ہوا کے جھونکے اورآگ کی تپش کومحض محسوس کیا جاسکتا ہے۔غصہ،رحم اور خوف ذہن کی مختلف حالتیں ہیں جن کا تعلق جذبات سے ہے۔نظر سے گزری ہوئی اشیا کی تصویر کوذہن میں لاناتصور ہے۔تخیل میں اختراع کی صفت ہوتی ہے،جبکہ تصور محض حقیقت کاعکس ہے۔اسی لیے تصورکوMimesisاورتخیل کوImaginationکہتے ہیں۔ارسطونےMimesisکی تعریف کو Imagination(اصطلاح استعمال کیے بغیر)سے ملانے کی کوشش کی ہے۔واقعیت یاامکانی صورتِ حال تخیل ہی کے زمرے میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ارسطو کی تعریف پر آج بھی توجہ دی جاتی ہے۔امکانی صورتِ حال کا رشتہ استعارے سے ہے۔یہی وہ اساس ہے جس پرارسطو نے استعارے کی تعمیر کی۔لونجائنس(Longinus)استعارے کو شاعری کے لیے تزئین کا سامان بتاتا ہے،جبکہ ارسطو نے استعارے کو کلام کا جوہرکہا ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے صحیح کہا ہے کہ یہاں’’استعارہ محض ایک تزئینی یاضمنی وصف نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ حقیقت بن جاتاہے۔‘‘(12)قوتِ امکان کے تحت یہی تصورِ استعارہ آگے چل کرکولرج اور ورڈزورتھ کے ہاتھوں رومانی تحریک کی بنیاد بنتاہے۔اسی بنیاد پرکولرج نے مغربی تنقید کی تاریخ میں اپنا مشہور نظریۂ تخیل پیش کیااوریہ ثابت کیا کہ شاعری نقل نہیں بلکہ تخیلی تجربہ ہے۔
ارسطو استعارے کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
"Metaphor consists in giving the thing a name that belongs to something else."(13)
ترجمہ:تبادلے کے ذریعہ کسی غیرمانوس نام کا اطلاق استعارہ کہلاتاہے۔(14)
استعارے کی مثال میں ارسطوچار جملے تحریر کرتا ہے:
183 میراجہاز یہاں کھڑا ہوا ہے۔
183 سچ ہے کہ اوڈی سیوس کے عمدہ کارنامے دس ہزار ہیں۔
183کانسے کی تلوار نے جان نکال لی۔
183کشتی پانی کو کاٹ رہی تھی۔[بوطیقا،باب:21]
اٹھنا،بیٹھنایاکھڑاہوناجانداروں کی صفت ہے۔لیٹنا،بیٹھنایاکھڑاہوناانسانوں کاکام ہے۔جہاز لنگرانداز ہوتا ہے۔یہاں لنگرانداز ہونے کو کھڑاہوناکہا گیا ہے۔یہ بیان کی خوبصورتی کے لیے استعارے کا استعمال ہے۔اوڈی سیوس کے کارناموں کی تعداد بھی یہاں دس ہزار نہیں۔دس ہزارسے مراد کثرتِ تعداد ہے۔تلوار جان نہیں نکالتی۔اس کاکام کاٹناہے۔اسی طرح کشتی پانی نہیں کاٹ سکتی۔پانی کاٹنا یہاں پانی ہٹانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔بیان کی یہ متبادل صورتیں استعارہ ہیں۔خوبصورت استعارے تراشنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔نئے اورنادر استعارے تخلیق کرناکوئی کسی سے نہیں سیکھ سکتا۔اس کاتعلق انسان کی فطری صلاحیتوں سے ہے۔[بوطیقا،باب:22]ارسطو کے اس خیال کو آج تک نہ ردکیا جاسکااور نہ اس میں توسیع ہوسکی۔
زبان کا استعاراتی نظام کیوں کرمرتب ہوا؟اس کا جواب تاریخِ انسانی کے اس اولین عہد سے شروع ہوتا ہے،جب آدمی اشاروں میں گفتگو کیا کرتا تھا۔اشارہ کیا ہے؟اشارہ بھی ایک نوع کا مفروضہ ہے۔ہماری زندگی میں مفروضے کی کیا اہمیت ہے؟مفروضہ مجاز ہے یا حقیقت؟یہ اسی قبیل کا سوال ہے کہ پہلے مرغی یاپہلے انڈا۔نتیجہ یہ ہواکہ آدمی نے فرض کرنا سیکھ لیا۔جب ہم نے اپنے اوپر دیکھاتوفرض کرلیا کہ وہ عرش یا آسمان ہے۔نیچے دیکھا تواسے فرش یا زمین تصور کرلیا،کہ یہ ہمارے لیے بچھائی گئی تھی۔یہی زمین جب اونچی نظرآئی تو اسے پہاڑ کانام دیا۔آبِ رواں کودریا کہہ دیا۔ہرشے کو ہم نے شناخت عطاکی۔مفروضات کا سلسلہ دائمی ہے۔مفروضہ جب روزمرہ کاحصہ بن جاتا ہے تواس کی استعاراتی معنویت کم ہوجاتی ہے۔اس لیے ہرنیا استعارہ انسان کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔اس مضمون کے شروعاتی حصے میں ،میں نے نطشے کاحوالہ دیا تھا۔اس کا خیال ہے:
Life would be strictly unthinkable without conceptual fictions such as 'time','space' and 'identity' which we impose upon the world.(15)
ہم نے نہ جنت دیکھی،نہ دوزخ۔پھربھی اس حوالے سے موہوم خیالات خلق کرلیے گئے ہیں۔زندگی میں مفروضہ بارکیسے پاتا ہے؟مفروضے کا اطلاق کیوں ضروری ہے؟Lee Spinksنطشے کے تصورِ استعارہ کی شرح میں لکھتا ہے:
[Nietzsche] broadens his argument by claiming that all of the concepts we employ to represent the 'true' structure of the world۔such as 'space','time',identity','causality' and 'number'۔are metaphors we project on to the world to make it thinkable in human terms.(16)
مفروضہ فکشن ہی تو ہے۔فکشن اس وقت تک بے معنی ہے ،جب تک ہم اسے کسی مفروضے کے تحت بامعنی نہ بنائیں۔ہم بڑی حقیقتوں کو جتناسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،وہ اتنی ہی مبہم کیوں ہوجاتی ہیں،کیوں کہ ہر حقیقت اپنے اندر لامحدود پہلو رکھتی ہے اور یہ لامحدود پہلو ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔فانیؔ زندگی کو نہیں سمجھ پائے تو اسے معمہ/دیوانے کا خواب کہہ دیا۔خلا،وقت،شناخت،تعداد،تجریدی تصورات ہیں۔یہ وہ گہرے اور عظیم استعارے ہیں جن کے بغیر زندگی کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔
اردو میں استعارے کی ماہیت پرغوروفکراوراظہارِخیال کارواج عام نہیں۔اب اردو میں تنقید کاکام نظریات کی تفہیم وتعبیر ہے۔آج ایک مبتدی جب تنقید پڑھنایالکھنا شروع کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ترقی پسندی کیا ہے؟جدیدیت کیا ہے؟مابعدجدیدیت کی تعریف کیا ہے۔۔۔؟ادب سماج کا آئینہ ہے یا تنقیدِ حیات؟حالاں کہ ادب کی ماہیت کو سمجھے بغیران تصورات کاکیاکام؟ہمارے آج کے ناقد کو لفظ ومعنی کے رشتوں پرغورکرنے کی زحمت نہیں۔وہ متن کے اسرار اجاگر کرنے کے لیے یہ سوال نہیں کرتاکہ سیاق کیا ہے؟معنی کے منابع کیا ہیں؟تشبیہ کی ندرت کس میں ہے؟استعارے کی ماہیت کیا ہے؟علامت کیوں کرخلق ہوتی ہے؟تمثیل کابیان سے کیا تعلق ہے؟ادب میں مبالغہ کیوں ضروری ہے؟نشان،نقوش اورپیکروں کی کیا اہمیت ہے؟آج کاناقداصرار کرتا ہے کہ شاعری میں شعریت ہونی چاہیے،لیکن وہ شعریت کے اسباب اور اس کی محتویات پرگفتگونہیں کرتا۔ہمارے ہاں حالی،شبلی،محمد حسن عسکری،کلیم الدین احمد،شمس الرحمن فاروقی،گوپی چندنارنگ،وارث علوی ،شمیم حنفی اورقاضی افضال حسین جیسے کتنے ناقدین ہیں جوادب کی نظری اساس پرسوچنے،اطلاقی نمونے پیش کرنے اور اس کے امکانات کو ضابطۂ تحریر میں لانے کی ہمت کرتے ہیں۔کچھ لوگ کہیں گے کہ ہم استعارے کی اہمیت کااعتراف کرتے ہیں،لیکن اس جھنجھٹ میں کیوں پڑنے جائیں۔استعارے کا مسئلہ تو اہلِ بلاغت طے کریں،اوراستعارہ ایسی کوئی شے بھی نہیں کہ اس کی تعریف یا تفہیم مشکل ہو۔عروض وبلاغت کی کتابیں استعارے کے باب میں حرفِ آخرکادرجہ رکھتی ہیں۔اگر یہ باتیں صحیح ہیں تو اپنے قارئین کا ذہن اس ’حرفِ آخر‘ کی طرف منتقل کرناچاہوں گا:
استعارہ مجازلغوی ہے[،] یعنی وہ ایسا لفظ ہے کہ جس معنی کے واسطے بنایا گیا ہے[،] اس معنی کے غیرمیں مستعمل ہوا ہے[،] مشابہت کے علاقے سے۔(حدائق البلاغت)/ (17)
حقیقت اور مجاز کے درمیان اگر لگاؤ تشبیہ کاہے توایسے مجاز کواستعارہ کہتے ہیں۔استعارہ میں مشبہ بہ(وہ شے جس سے تشبیہ دیتے ہیں)کوعین مشبہ(وہ شے جس کو تشبیہ دیتے ہیں)قراردیتے ہیں،لیکن کبھی کبھی دونوں کے مناسبات وصفات کاذکر بھی آجاتاہے۔(علم بیان وعلم عروض)/(18)
استعارے کی اس نوع کی تعریفیں،ان کی چنداقسام اور مثالیں اگر’حرفِ آخر‘ ہیں تو یہ مضمون لکھ کر میں نے وقت ضائع کیا۔حالی پاگل تھے کہ[ مقدمہ میں] استعارے پر صفحات سیاہ کیے۔محمدحسن عسکری (استعارے کا خوف)، ممتاز حسین(رسالہ درباب استعارہ)، گوپی چندنارنگ(بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں)،وارث علوی(استعارہ اورنرالفظ)،شمس الرحمن فاروقی(شعر،غیرشعراورنثر/میر انیس کے ایک مرثیے میں استعارے کانظام/میر کی زبان،روزمرہ یا استعارہ)اورقاضی افضال حسین(میرکی شعری لسانیات) نے اس موضوع پر شایدبیکار ہی قلم اٹھایا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب کی اساس پربارباربحث ہو ،تاکہ ہماری بنیاد کھوکھلی نہ ہونے پائے۔ہمیں حالی کاشکرگزارہوناچاہیے کہ اردو میں پہلی بارانھوں نے استعارے کوعام نہج سے ہٹ کردیکھااور یہ احساس دلایا کہ استعارے پراہلِ بلاغت سے کہیں زیادہ اہلِ تنقید کی توجہ چاہیے۔اس لیے کہ استعارے کی تفہیم بندھے ٹکے خطوط پر نہیں ہوسکتی۔چند مثالوں سے اس کاحق ادا نہیں ہوسکتا۔جس طرح زندگی ہرروزنیالباس بدل رہی ہے،اسی طرح استعارہ بھی نئے نئے سیاق میں ظاہر ہورہا ہے۔اس کاہر نیا روپ تنقید کو بحث اور مکالمے کی دعوت دیتا ہے۔حالیؔ لکھتے ہیں:
استعارہ بلاغت کا ایک رکن اعظم ہے اورشاعری کو اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قالب کوروح کے ساتھ۔کنایہ اور تمثیل کا حال بھی استعارہ ہی کے قریب قریب ہے۔یہ سب چیزیں شعر میں جان ڈالنے والی ہیں جہاں اصل زبان کا قافیہ تنگ ہوجاتا ہے وہاں شاعرانھیں[انھی]کی مدد سے اپنے دل کے جذبات اوردقیق خیالات عمدگی کے ساتھ ادا کرجاتا ہے اور جہاں اس کا اپنا منتر کارگر ہوتانظرنہیں آتا وہاں انھیں[انھی]کے زور سے وہ لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرلیتا ہے۔(19)
استعارے کو بلاغت کا رکنِ اعظم کہنااردو میں حالی سے قبل کسی کو نصیب نہ ہوا۔حالی نے یہ بھی کہا کہ استعارے[وغیرہ]سے مدد نہ لی جائے تو شعر شعر نہیں رہتا،بلکہ معمولی بات چیت ہوجاتی ہے۔اس نکتے سے ایک اہم سوال قائم ہوتا ہے۔اگر یہاں بات چیت سے’معمولی‘کوحذف کردیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ استعارے کا گفتگو سے کیا علاقہ ہے؟کیا گفتگو استعارے سے عاری ہوتی ہے؟اگرگفتگو بھی استعارے کی حامل ہوتی ہے تو شاعری اور بات چیت میں کیا فرق ہے؟شاعری استعاراتی نظام میں تسلسل کانام ہے۔شاعری میں استعارے کی تہذیب اور تنظیم کابھی خیال رکھنا پڑتا ہے،جبکہ گفتگو میں یہ تسلسل قائم نہیں ہوپاتا۔اسی لیے گفتگو میں وہ گہرائی پیدا نہیں ہوپاتی،جوکسی ادبی تخلیق کا امتیاز ہے۔یہ سچ ہے کہ گفتگو میں بھی استعارے چلے آتے ہیں،لیکن یہ کب ہوتا ہے؟ہم گفتگو میں محاورے استعمال کرتے ہیں۔محاورے کیا ہیں؟یہ کیسے تشکیل پاتے ہیں؟یہ باتیں الگ باب کھولتی ہیں۔تنہالفظ محاورہ نہیں بنتا۔محاورے میں کم از کم دو لفظوں کا اجتماع چاہیے۔’روزروز‘محاورہ ہے۔اگر اس کی جگہ کہاجائے کہ ’دن دن‘مت آیا کرو،توروزروزکامفہوم نہیں بنتا۔اس لیے محاورے میں روایت بننے کی صلاحیت ہونی چاہیے،تاکہ استناد میں مسئلہ نہ ہو۔اکثر محاورے استعاراتی اساس پر تشکیل پاتے ہیں۔وہ محاورے جوافعال پر مبنی ہوتے ہیں،ان میں ایک اسم اور ایک فعل مل کر مجازی مفہوم پیدا کرتا ہے۔مثلاً’’سینہ پھٹ گیا،دل میں چھید پڑگئے،آسمان ٹوٹ پڑا۔تجھ کو کس کی نظر کھا گئی۔‘‘(20)کاغذتوپھٹ سکتا ہے،سینہ نہیں۔مٹی کابرتن توٹوٹ سکتا ہے،آسمان ٹوٹنے والی کوئی شے نہیں۔اس لیے یہ نا ممکنات،استعارے ہیں،اور عسکری صاحب کے بقول ،محاورے محض خوبصورت فقرے نہیں،بلکہ اجتماعی تجربے کے ٹکڑے ہیں۔یہ مربوط معاشرے کی پیداوار ہیں۔
مجازی پہلو محاورے کا ہو یا کسی بھی لفظ کا،یہ معنی خیزی میں اس لیے ممد ہے کہ مجاز کا مطلب ہی ’تجاوزکرنا‘ہے۔استعارہ معنی کو پھیلاتاہے۔استعارے کی ماہیت پرشبلی نے کچھ بنیادی سوالات قائم کیے ہیں:
183استعارے کی حقیقت کیا ہے؟
183یہ کہاں اور کیوں کرکام آتاہے؟
183اس میں ندرت اور لطافت کیوں کرپیدا ہوتی ہے؟
183کس طرح ایک بڑے سے بڑاوسیع خیال اس کے ذریعے سے ایک لفظ میں ادا ہوجاتا ہے؟(21)
شبلی نے یہ سوالات اٹھا کر ذہانت کا ثبوت دیا،لیکن اصطلاحی اور روایتی افہام و تفہیم سے ہٹ کر ان کی فلسفیانہ اساس تلاش کرنے سے وہ قاصر رہے۔محمد حسن عسکری اور ممتاز حسین،یہ دوحضرات ایسے ہیں،جنھوں نے اردو میں حالی کے بعد استعارے کو عام نہج سے گریز کرکے دیکھنے کی کوشش کی۔ان کے لیے استعارہ کوئی صنعت نہیں،جوبیان کے حسن کو چمکادے۔ وہ استعارے میں کائنات کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔اسی لیے ممتاز حسین نے ’انقلابی استعارہ‘کی اصطلاح وضع کی۔استعارے کی رٹی رٹائی تعریف کے حامل حضرات اس استعارے کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔محمد حسن عسکری کہتے ہیں کہ استعارہ انسان اور کائنات کوایک دوسرے میں مدغم کرنے کا وسیلہ ہے۔یہ انسانی تجربے کی نسوں میں سے رستا ہے۔استعارے سے انحراف زندگی سے انحراف ہے:
اپنے ذہن کے ذریعے آدمی جبلتوں سے بھاگنا چاہتا ہے۔لیکن ذہن کی کمین گاہ میں خود جبلت چھپی ہوئی بیٹھی رہتی ہے۔غرض ہم زبان سے جو فقرہ بھی کہیں اس میں بھولاہوایازبردستی بھلایاہواتجربہ یا پوری عمر کا تجربہ پوشیدہ ہوتا ہے۔یعنی ہمارا ایک ایک فقرہ استعارہ ہوتا ہے۔استعارے سے الگ ’اصل زبان‘کوئی چیز نہیں۔کیوں کہ زبان خود استعارہ ہے۔چونکہ زبان اندرونی تجربے اورخارجی اشیا کے درمیان مناسبت اور مطابقت ڈھونڈنے یا خارجی اشیا کو اندرونی تجربے کا قائم مقام بنانے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔اس لیے تقریباًہرلفظ ہی ایک مردہ استعارہ ہے۔اصل زبان یہی ہے۔(22)
عسکری صاحب مردہ استعارے کی بات کرتے ہیں،یعنی زندہ استعارہ بھی کوئی شے ہے۔اصل زبان استعارہ کیوں ہے؟ہم نے ایک رقیق شے کو’پانی‘فرض کرلیا۔مفروضہ استعارے کی کلید ہے،لیکن اس میں بعض رعایتیں/مماثلتیں بھی ہونی چاہئیں۔ہر استعارہ اپنی اساس رکھتا ہے۔روزمرہ /گفتگویااصل زبان میں پانی محض ایک پینے یا پیاس بجھانے والی چیز ہے۔اس میں اجتماعی اتفاق ہے۔یہی پانی جب ادبی تخلیق میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد زندگی ہوتی ہے۔یعنی پانی اگر محض پیاس بجھانے والی کوئی شے ہو تو مردہ استعارہ ہے،اور اس سے مراد ’زندگی‘ہوتو زندہ استعارہ ہے۔ہرلفظ ایک مردہ استعارہ ہے۔اس میں زندہ استعارہ بننے کی قوت ہوتی ہے۔گویا ہرلفظ میں ’استعارہ‘ بننے کی صلاحیت پوشیدہ ہے۔شاعر جب کسی لفظ میں روح پھونکتا ہے تو ایک نیا سیاق خلق کرتا ہے۔اس طرح ایک نیا استعارہ وجود میں آتا ہے۔شاعرکی عظمت اس بات میں ہے کہ اسے الفاظ پرکتنی قدرت ہے؟وہ الفاظ کی کتنی گہرائی میں اتر سکتا ہے؟ان کی کتنی تہوں کو دریافت کرسکتا ہے؟اس میں ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی قوت ہے یا نہیں؟اسی طرح کسی شاعر کو پرکھتے وقت یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کس گروہ یا مکتبۂ فکر سے متاثر ہے؟یہ اتنا اہم نہیں کہ اس کے موضوعات کیا ہیں؟اس کے ہاں سماجی اقدار اور اخلاق کے پیمانے کیا ہیں؟اس کا مطالعہ کتنا ہے؟اصل دیکھنے کی چیز تو یہ ہے کہ اس نے زبان اور شاعری کو کتنے نئے الفاظ دیے؟اس نے کتنے نئے استعارے خلق کیے؟کتنی نئی تشبیہیں تلاش کیں؟کتنی نئی علامتیں وجود میں لائیں؟کتنی نئی ترکیبیں تراشیں؟پرانے استعاروں اور علامتوں میں اس نے کیوں کر روح پھونکی؟کتنے الفاظ اس نے زندہ کیے؟انھی پہلوؤں سے پتا چلتا ہے کہ تک بندی/قافیہ پیمائی اور معنی آفرینی یا تخلیقی وفور میں کیا فرق ہے۔فیضؔ کا شعر ہے:
درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے اتر نے لگتے ہیں
’اندھیرے کی مہر‘نئی ترکیب ہے۔یہ رات کا بھی استعارہ ہوسکتی ہے اور مایوسی کا بھی۔یہاں ستارے زندگی کی رمق اور حوصلے کا استعارہ بن گئے ہیں۔منطقی معنی میں دل کے اندرستارے نہیں سماسکتے۔یہ بیان کا حسن ہے۔یہ تخلیقی منطق ہے۔یہی استعارہ ہے۔ہرنیا استعارہ زندگی کا ایک نیا تجربہ ہے۔شاعری تجربے سے بنتی ہے اور تجربہ جب استعارے میں ڈھلتا ہے تو معنی کی دنیا آباد ہوتی ہے۔لفظ و معنی کی کشاکش توازلی ہے۔لفظ ایک سمندر ہے۔اس کے اندر ایک کائنات بند ہے۔لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم ہے:
’’گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
طلسم سانپ کی اس تصویر کو بھی کہتے ہیں،جو خزانوں اور دفینوں پر حفاظت کی خاطر بناتے ہیں۔گویا طلسم اس شعوری کوشش سے عبارت ہے جو خزانوں تک رسائی کو نا ممکن بنادے۔کلام غالب میں معنی کو مخفی رکھنے یا قاری کی رسائی سے محفوظ رکھنے کا طلسم(شعوری کوشش)’’لفظ‘‘ہے کہ یہی معنی تک رسائی کو ناممکن بنادیتا ہے۔‘‘۔۔۔قاضی جمال حسین/(23)
لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم کیوں ہے؟اس میں سمندر کی سی گہرائی اور گیرائی کیوں ہے:
سمندر کی تہ میں
سمندر کی سنگین تہ میں
ہے صندوق۔۔۔
صندوق میں ایک ڈبیامیں ڈبیا
میں ڈبیا۔۔۔
میں کتنے معانی کی صبحیں۔۔۔
وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بند
اپنی شعاؤں میں جکڑی ہوئی
کتنی سہمی ہوئی!
(یہ صندوق کیوں کرگرا؟
نہ جانے کس نے چرایا؟
ہمارے ہی ہاتھوں سے پھسلا؟
پھسل کرگرا؟
سمندر کی تہ میں۔۔۔مگر کب؟
ہمیشہ سے پہلے
ہمیشہ سے بھی سالہا سال سے پہلے؟)
اور اب تک ہے صندوق کے گرد
لفظوں کی راتوں کا پہرا
۔۔۔وہ لفظوں کی راتیں
جو دیووں کے مانند۔۔۔
پانی کے لسدار دیووں کے مانند!
یہ لفظوں کی راتیں
سمندر کی تہ میں تو بستی نہیں ہیں
مگر اپنے لاریب پہرے کی خاطر
وہیں رینگتی ہیں
شب وروز
صندوق کے چارسورینگتی ہیں
سمندر کی تہ میں!
بہت سوچتا ہوں
کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں
رہائی کی امید میں
اپنے غواص جادو گروں کی
صدائیں سنیں گی؟ [سمندر کی تہ میں/ن۔م۔راشد]/(24)
لفظ مبہم کیوں ہوتا ہے؟معنی ہردم پھسل کیوں جاتا ہے؟ایک پہلو ختم نہیں ہوتاکہ دس حاضر ہوجاتے ہیں۔ماں درگا کی طرح لفظ کے دس ہاتھ ہوتے تو بھی کوئی بات نہ تھی۔اس کے تو سیکڑوں ہاتھ ہیں،اور معنی کی طلسمی انگوٹھی کس ہاتھ کی انگلی میں ہے،کسی کو نہیں معلوم۔ماں درگا مسکرا رہی ہے کہ قاری متن میں تحلیل کیوں نہیں ہوجاتا!!!
استعارہ لفظ کے اسرار دریافت کرنے کانام ہے۔اس دریافت کی بنیاد مشابہتوں پرہے۔فن کار مناسبت پیدا کرنے کے لیے رعایتوں کا استعمال کرتا ہے،جواپنے اندر دوپہلو رکھتی ہے۔لفظی اورمعنوی۔’’رعایت معنوی اکثر براہِ راست استعارہ ہوتی ہے۔رعایت لفظی استعارے کا التباس پیداکرتی ہے۔‘‘(25)تلازمے استعاروں کو قابلِ توضیح بناتے ہیں۔اس لیے رعایتوں کا انکشاف شرحیات میں ایک مستقل باب ہے۔مضمون اور استعارے میں کیا فرق ہے؟دونوں کے مفہوم میں وسعت رعایتوں سے پیدا ہوتی ہے۔یعنی رعایتیں جتنی ہوں گی،تہ داری اتنی ہی آئے گی۔مضمون اور استعارہ،دونوں ایک ہی شے نہیں۔زندگی ایک موضوع ہے۔اس کے کسی ایک ضمن کومضمون کیا جاتا ہے۔استعارہ اس مضمون میں چنگاری بھردیتاہے۔اس میں معنی کا جہان روشن ہوجاتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی رقم طرازہیں:
استعارے کے باب میں مغربی مفکرین نے بہت لکھا ہے۔ان کے علی الرغم ہماری شعریات میں استعارہ اتنا اہم نہیں۔استعارے کی جگہ ہمارے یہاں(یعنی سنسکرت شعریات میں بھی اورعربی فارسی شعریات میں بھی)مضمون کو مرکزی مقام حاصل ہے۔(26)
ہمارے یہاں یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے۔۔۔۔[یہ وہ]طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم ایک ہی معنی کو کئی طریقے سے بیان کرسکتے ہیں۔میر[تقی میر]کازمانہ آتے آتے استعارے کی حیثیت مضمون کے تصور میں اس طرح ضم ہوگئی تھی کہ اس کا الگ سے ذکر بہت کم ہوتا تھا۔(27)
جب مضمون اور استعارہ الگ الگ چیزیں ہیں تو باہم ضم کیوں ہوئے؟ہمارے یہاں جب یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے تواس کی جگہ مضمون کو مرکزی مقام حاصل کیسے ہوا؟فاروقی صاحب نے اس کی وجہ بیان نہیں کی۔سنسکرت شعریات کا معاملہ عنبر بہرائچی پرچھوڑیے۔اردو شعریات میں استعارعے پر بحث کی صورتِ حال یقیناوہی ہے جوفاروقی صاحب نے بیان کی۔یعنی ہماری اولین تنقید (تذکرے)نظری مباحث سے خالی ہے۔ادب میں ایک ڈسپلن کی حیثیت سے تنقیدکوہم نے مغرب سے مستعار لیا۔ولی کا شعرہے:
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تاقیامت کھلا ہے باب سخن 
یہاں مضمون کی جگہ استعارہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے۔ولی نے اس مضمون کو’ استعارہ‘کی اصطلاح میں کیوں نہیں باندھا؟غالب نے شاعری کو معنی آفرینی کہا۔مضمون آفرینی کیوں نہیں کہا؟اس لیے کہ وہ’گنجینۂ معنی کے طلسم‘پرایمان رکھتے ہیں۔مضمون میں یہ طلسم ،استعارہ پیدا کرتا ہے۔بقول محمد حسن عسکری؛[یہ]انسان اورکائنات کوایک دوسرے میں مدغم کرنے کا وسیلہ ہے۔(28)اس وسیلے سے خوف، زندگی سے خوف ہے۔اس وسیلے کی موت، زندگی کی موت ہے۔اس لیے ہماری تنقید کوبھی بیدار ہونا پڑے گا،تاکہ یہ طلسم کہیں گم نہ ہوجائے۔یہ سچ ہے کہ بعض استعارے گھس پٹ کر دم توڑدیتے ہیں۔ان میں عصری معنویت سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔یہ اتنے افسوس کی بات نہیں،جتنا یہ کہ نئے استعاروں کی تخلیق کا سلسلہ موقوف ہوجائے۔استعارہ تجربے کی دبازت کا نشان ہے۔اس لیے تخلیقی سطح پر اس کی توانائی کا اعتراف لازمی ہے۔استعارہ محض شاعری کی جاگیر نہیں،بلکہ ہر تخلیقی ساخت کا خاصہ ہے۔اگر آج کا کوئی ادیب استعارہ استعمال نہیں کرتاتویہ زندگی سے فرار ہی نہیں،بلکہ خود ناشناسی بھی ہے اور فطرت کی عظیم نعمت کی ناقدری بھی۔اگر کسی سماج میں استعارے خلق نہیں ہورہے ہیں تواس کا مطلب اس کی حسیت کو گھن لگ چکا ہے۔اس کے داخلی ڈھانچے کو کسی فقیر کی بددعا یاکسی مہان رشی کی شراپ لگ گئی ہے،اور اس کا ہرفرد بیمار ہے۔عسکری صاحب نے کہا تھاکہ استعارے کی پیدائش کا عمل وہی ہے جو خواب کی پیدائش کا۔(29)خواب کے لیے نیند شرط نہیں،لیکن جس دنیا میں خواب سے زیادہ لوگوں کو نیند پیاری ہو،وہاں استعارے کے لیے یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے۔انسان مشین بن جائے تو جیون نہیں جی سکتا۔جس طرح اونچی عمارتوں میں مٹی کے گھروں کی خوشبو نہیں مل سکتی،اسی طرح ’حقیقت‘کبھی خواب کا بدل نہیں بن سکتی۔توکیا ہمیں پھر جنگل کی طرف پلٹنا چاہیے؟آج نہ وہ قیس ہے، نہ وہ صحرا۔نہ وہ شیریں ہے ،نہ وہ فرہاد۔پھر بھی یہ دل پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنا چاہتا ہے۔اگر یہ خواب ہے تو خواب ہی صحیح ۔مٹی کا بھید کسے معلوم:
اٹھو یہ منظرشب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
(عرفان صدیقی)

حواشی
(1)فیاض احمد وجیہہ،قیدیوں کے مزار پر(افسانہ)،مطبوعہ:جدیدادب،شمارہ:14(جنوری تا جون 2010)،جرمنی،مدیر:حیدرقریشی،ص:226
(2)انتظارحسین،بکرم،بیتال اور افسانہ،مشمولہ:علامتوں کازوال،1983،نئی دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:123
(3)وہاب اشرفی،قدیم مغربی تنقید،2010،دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،ص:29
(4)ملک اشفاق،افلاطون:حیات،فلسفہ اور نظریات،2009،لاہور،پاکستان:بک ہوم،ص:100
(5)کلیم الدین احمد،قدیم مغربی تنقید،2004(دوسراایڈیشن)،لکھنؤ:اترپردیش اردو اکادمی،ص:14
(6)محمدحسن عسکری،مجموعہ محمد حسن عسکری،1994،لاہور،پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز،ص:980
(7)محمدہادی حسین،مغربی شعریات،1968،لاہور،پاکستان:مجلس ترقی ادب،ص:345
(8)Aristotle,On The Art Of Poetry,Translated by Ingram Bywater, 1959, London, Oxford University Press, PP:85-86
(9)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:114
(10)S.T.Coleridge,Biographia Literaria,1973,Edited with his Aesthetical Essays by J.Shawcross, Volume:I, Chapter:xiii, Oxford University Press,P:202.
(11)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:113
(12)ارسطو،شعریات،مترجم:شمس الرحمن فاروقی،1998(تیسرا اڈیشن)،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردوزبان،ص:30
(13)Aristotle,On The Art Of Poetry,Translated by Ingram Bywater, 1959, London, Oxford University Press, PP:71-72
(14)ارسطو،شعریات،مترجم:شمس الرحمن فاروقی،1998(تیسرا اڈیشن)،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردوزبان،ص:108
(15)Lee Spinks,Friedrich Nietzsche,2007,Noida,U.P.:Routledge,P:42
(16)Lee Spinks,Friedrich Nietzsche,2007,Noida,U.P.:Routledge,P:38
(17)شمس الدین فقیر،حدائق البلاغت،مترجم:امام بخش صہبائی،سال اشاعت:ندارد،لکھنؤ:منشی نول کشور،ص:41
(18)ڈاکٹر مجیب الرحمن،علم بیان وعلم عروض،1981(دوسرااڈیشن)،کلکتہ:عثمانیہ بک ڈپو،ص:45
(19)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس،ص:212
(20)شبلی نعمانی،شعرالعجم(جلد چہارم)،2007(طبع جدید)،اعظم گڑھ:دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،ص:38
(21)ایضاً،ص:39
(22)محمدحسن عسکری،مجموعہ محمد حسن عسکری،1994،لاہور،پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز،ص:196
(23)قاضی افضال حسین،تحریر اساس تنقید،2009،علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس،ص:4
(24)ن۔م۔راشد،کلیات راشد،2004،دہلی:کتابی دنیا،ص ص:450-452
(25)شمس الرحمن فاروقی،شعرشور انگیز،2006(تیسرااڈیشن)،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردو زبان،ص:61
(26)ایضاً،ص:18
(27)ایضاً،ص ص:60-61
(28)محمدحسن عسکری،مجموعہ محمد حسن عسکری،1994،لاہور،پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز،ص:200
(29)ایضاً،ص:196

مضمون نگار:معید رشیدی

http://rekhta.org/ebook/taKHliiq_taKHiil_aur_isteaaraa_moiid_rashiidii