Monday 16 December 2013

سعادت حسن کے بعد کا قصہ



کتاب: سعادت حسن منٹو: جادوئی حقیقت نگاری اور آج کا افسانہ
مصنف: محمد حمید شاہد
ناشر: شہرزاد پبلی کیشنز
ملنے کا پتہ: بی۔155، بلاک 5، گلشن اقبال، کراچی
ای میل: info@scheherzade.com

یہ کہانی 1955کے بعد کی ہے، مگر فی الحال مجھے اس پوری کہانی سے غرض نہیں کہ سعادت حسن کیسے مرگیا؟ مجھے تو غرض اس بات سے ہے کہ منٹو کیسے زندہ رہ گیا۔اور یہی بات آج میں محمد حمید شاہد کی منٹو تنقید کے حوالے سے تازہ شائع ہونے والی کتاب ’’سعادت حسن منٹو: جادوئی حقیقت نگاری آج کا افسانہ‘‘ پڑھنے کے بعد چھیڑ رہا ہوں۔اس کتاب کا تقریباً نصف حصہ دراصل اس چھیڑ سے عبارت ہے، جس کی بنیاد مدیر اثبات اشعر نجمی نے رکھی ہے۔ہوا یوں کہ اشعر نجمی الٹی کھوپڑی کے آدمی ہیں، یہ الٹی کھوپڑی منفی معنوں میں نہیں، بلکہ مثبت معنوں میں ہے۔سعادت حسن منٹو کی پیدائش کو جب دو ہزار بارہ میں سو سال کا عرصہ مکمل ہوا تو ان کی صدی منانے کا بھوت کئی لوگوں پر سوار ہوا۔صدی ودی تو خیر کیا ہی منائی گئی، منٹو کے نام پر وہی اوندھے سیدھے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ہمارے سیمیناروں کا مقدر ہیں اور جنہیں مشاعروں کی شاعری سے زیادہ اور کسی چیز سے نسبت نہیں دی جاسکتی۔اس دوران میری اشعر نجمی سے بات ہوئی تھی، اس گفتگو کے دوران ہی مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ ’منٹو کی عظمت‘ پر سوال قائم کرنا چاہتے ہیں۔یہ سوال وہی سوال ہے جو خود منٹو کی خواہش ہوا کرتا تھا، جس نظر سے منٹو لوگوں کو دیکھا کرتا تھا، اشعر نجمی منٹو کو دیکھ رہے تھے، مجھے ان کی آنکھ کا یہ طریقہ کار پسند آیا۔انہوں نے اس کے لیے کچھ سوالات تیار کیے اور اردو کے نامور اور نئی نسل کے ادیبوں کو بھی بھیجے، کچھ نے جواب دیے، کچھ نے انہیں اشعر صاحب کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔انہی سوالوں کے جواب میں اشعر نجمی کے نام اردو کے اہم، بڑے اور منفرد نقاد شمس الرحمن فاروقی نے ایک مکتوب لکھا، اس مکتوب میں بہت سی ایسی نزاعی باتیں تھیں، جن پر ہنگامہ مچنا لازمی تھا۔ہنگامہ سڑکوں پر نہیں، ذہنوں میں۔میں نے خود فاروقی صاحب کے اس مکتوب کو دو تین بار پڑھا ہے اور پڑھنے کے بعد میں چاہتا تھا کہ ان کا تفصیلی جواب دیا جائے، لیکن فکشن کے تعلق سے اول تو میرا مطالعہ اتنا زیادہ نہیں ہے، اور دوسرے فاروقی صاحب کو کسی بات کا جواب دینے کے لیے کم از کم ان تمام معاملات و علمیات کا تجربہ لازمی ہے، جن پر وہ بحث کررہے ہیں، لیکن کچھ باتیں کاٹ رہی تھیں، خاص طورپر منٹو کے فن کے تعلق سے فاروقی صاحب کی وہ معروضیت جو مجھے غزل کے دیوانے کے تعلق سے کنہی صاحب کے پوچھے گئے سوال کی طرح معلوم ہوتی تھی کہ ’مجنوں ہی ہے تو اسے صحرا کا رخ کرنے کی کیا ضرورت ہے، پاگل کے لیے تنہائی و شور کا فرق کیا معنی رکھتا ہے، وہ تو بھیڑ میں بھی خود کلامی کرتا نظر آتا ہے۔‘ دراصل فن کے تعلق سے لاجیکل نقطۂ نظر کس حد تک ٹھیک ہے اور کس حد تک نہیں، اس کا فیصلہ کسی بھی ناقد کے لیے ضروری ہے۔میں نے جتنا منٹو کو پڑھا تھا، فاروقی صاحب کو پڑھنے کے بعد وہ پھیکا معلوم ہونے لگا، یقین جانیے اگر اسی خطوط پر میں میر کا مطالعہ شروع کردوں تو وہ بھی مایوس ہی کریں گے۔مگر ان سب باتوں کو دلیل کے ساتھ بیان کرنے کے لیے جس علم کی ضرورت تھی، وہ ابھی میرے پاس نہیں ہے۔سو، میں نے کہا کہ جب محمد حمید شاہد صاحب کی کتاب’ سعادت حسن منٹو :جادوئی حقیقت نگاری آج کا افسانہ،میں نے پڑھی تو جی خوش ہوا۔اس کتاب میں محمد حمید شاہد نے بہت ہی معتدل رویے کو روا رکھتے ہوئے فاروقی صاحب کے منٹو پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیا ہے، اور انہیں قائل بھی کیا ہے۔حالانکہ مزہ تو لیوسا اور یوسا والی بحث کو بھی پڑھتے ہوئے آیا، میر اور منٹو کے مقابلے پر جو دماغ میں گرم ہوائیں چلنے لگی تھیں، انہیں شاہد صاحب نے اپنے مدلل رویے سے کسی قدر روزن فراہم کیے ہیں۔
کتاب کا انتساب ہی منٹو کی سوگندھی کے نام ہے، یعنی یہیں سے کتاب لکھنے والے نے اشارہ دے دیا ہے کہ اس کے جذبات بھی کہانی کی اسی بے عزتی سے مشتعل ہواٹھے ہیں ،جس کو آج تک اپنے لیے باعث عز و فخر سمجھتے رہے تھے۔اس ہتک کو قبول کرنے سے حمید شاہد نے انکار کردیا ہے، انکار اس لیے کیونکہ وہ خود بھی ایک افسانہ نگار ہیں، بلکہ اچھے اور اہم افسانہ نگار ہیں، افسانہ نگار تو خود فاروقی صاحب بھی ہیں، مگر فاروقی اور حمید شاہد صاحبان کی کہانیوں میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا کہانی کی پرانی اور نئی تہذیب کے درمیان ہے، جتنا مہذب اور شائستہ کہانی اور باغی اور ہلچل پیداکرتی ہوئی کہانی کے درمیان ہے۔ان دونوں ناقدین کے درمیان منٹو صاحب کے کچھ ’’پھندنے‘‘ ہیں، جنہیں پھلانگنا نہ فاروقی صاحب کے بس کی بات ہے اور شاہد صاحب کے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ شاہد صاحب اور فاروقی صاحب دونوں ہی منٹو سے محبت کرتے ہیں، مگر فاروقی صاحب کی محبت،شفقت یا پھر پدرانہ شفقت میں تبدیل ہوجاتی ہے، وہ کئی جگہ منٹو کی غلطیوں اور جلدی افسانہ لکھنے کی عادت یا ضرورت پر نالاں رہتے ہیں،افسانے کے انجام سے غیر مطمئین معلوم ہوتے ہیں اور فکشن کے حوالے سے منٹو کو کئی جگہ کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ایسی میٹھی تنقید ہے ، انہوں نے تو مضمون نگار منٹو کو افسانہ نگار منٹو پر زیادہ فوقیت دے دی ہے۔بات صرف وہی ہے کہ جس سمت زمانہ چلے، اسے چیر کر دوسری طرف دوڑنے کی خواہش مجتہدین میں اکثر پائی جاتی ہے، مگر یہ عادت جب نیت میں شامل ہوجائے تو مسئلہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔میں بھی اگر اس معاملے میں تھوڑا سا معروضی نقطۂ نظر اپناؤں تو غالب میاں سے پوچھ سکتا ہوں کہ اگر آپ کو وبائے عام میں مرنا پسند نہیں تو اس کی تو وضاحت کیجیے کہ وبائے خاص کس بلا کا نام ہے؟پھر ریختوں کو پڑھنے کے لیے میر صاحب نے اپنے بعد یہ گلیوں کی شرط کی عائد کردی تھی؟فن کار کا مسئلہ کیا ہے، اسے فن کار سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے؟چنانچہ شاہد صاحب لکھتے ہیں
’’ افسانے کا کام ایک متھ قائم کرنا ہے ؛ حقیقت میں ویسا ہوتا ہے یا نہیں ، یہ اس کا مسئلہ ہے نہ منصب ۔ بس ہونا یہ چاہیے کہ پڑھتے ہوئے اِس پر اعتبار آئے ۔’’(ص 66)
بلکہ میری رائے میں تو اعتبار آنے نہ آنے سے بھی تخلیق کار کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔نہ آنے والوں کو تو موپاساں کے مشہور زمانہ افسانے ’نیکلس‘ پر بھی پورے طور پر ایمان لانے میں ہچکچاہٹ ہے تو کیا کریں، ان کے اطمینان کے لیے افسانے کے انجام کو بدل دیں، میراجی کی نظموں پر کتنے لوگ ہیں جو اعتبار کریں گے، کتنے لوگ اس جنون، وحشت، اکیلے پن اور نفسیاتی کمزوری کو حق بجانب قرار دیں گے۔یہ سب تو ہر انسان کا بے حد نجی معاملہ ہے، اور بہت کچھ اس کے اپنے عملی یا ذہنی تجربے پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس چیز کا یقین کرتا ہے اور کس کا نہیں۔پھر ناقد کے اپنے تجربات کا تخلیق کار سے ایسے مس ہونا تو بہت خطرناک ہے، مجھے تو ڈر ہے کہ جو لوگ خود افسانہ نہیں لکھتے وہ تو منٹو کو واقعی فاروقی صاحب کی تحریر پڑھ کر بدھو سمجھ بیٹھیں ہونگے۔خیر ، ایسا ہونے کا امکان اب کم ہے کیونکہ حمید شاہد صاحب نے بہت حد تک ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے جو فاروقی صاحب نے رائج کردی تھیں۔جس طرح میر صاحب کے ہر شعر سے ان کی زندگی یا اعمال قبیحہ یا حسنہ کو مربوط کرکے دیکھنا ایک ادبی بددیانتی ہے، اسی طرح منٹو کے ہر انجام کو سست یا غلط سمجھ لینے کے پیچھے اسے منٹو کی افسانہ فروخت کرنے والی ذہنیت سے تعبیر کرنا ظلم ہے۔افسانہ منٹو کا میدان تھا، اور وہ میدان جس میں آدمی کامیاب ہو، وہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا معاملہ بھی ہوتا ہے اور مسئلہ بھی۔ان باتوں کو حمید شاہد صاحب نے کس کس طور بیان کیا ہے یہ تو کتاب پڑھنے پر سمجھ میں آتا ہے مگر منٹو تنقید کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ فاروقی صاحب نے ادھر ادھر کی تحریروں سے استفادہ کرکے منٹو کے بارے میں جو غلط آرا قائم کی تھیں، ان کے جواب میں حمید شاہد کی یہ کتاب منٹو کے قاری کی خود اعتمادی کو بحال کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔میں اس کتاب سے کچھ اہم جملے نقل کردیتا ہوں۔باقی پوری کتاب پڑھنا تو آپ کی ذمہ داری ہے۔

اب یہ عالم ہے کہ وقت کے قدموں تلے روندے گئے’نئے افسانے‘ اور اُس کے ہانپتے کانپتے جملہ پس ماندگان پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منھ کو آتا ہے اور منٹو کو دیکھتے ہیں تو ہمت بندھتی ہے۔

منٹو کو سنجیدگی سے پڑھے جانے کا مناسب وقت آگیا ہے

درد و غم جمع کرنا اور دیوان کرنے کے لیے اُنہیں سینت سینت کر رَکھتے چلے جانے کا نام میر ہے تواِن دُکھوں کو سہنے اور دردوں کو جھلینے والے کے اندر سے نیلا تھوتھا ہو جانے والے اِنسان کوبرآمد کرنے والے کا نام منٹو ہے ۔

اور ہاں اس کتاب کے باقی مضامین بھی اچھے ہیں، جو کہ منٹو تنقید پر روشنی ڈالنے، کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے اکسانے پر مامور کیے گئے ہیں۔

تبصرہ نگار: تصنیف حیدر

منٹو کے تعلق سے شمیم حنفی صاحب کی ایک اہم کتاب منٹو حقیقت سے افسانے تک ریختہ پر پڑھیں
http://rekhta.org/ebook/mantuu_haqiiqat_se_afsaane_tak_shamiim_hanfii

Saturday 14 December 2013

جدیدیت یا ظفر اقبالیت


’’جس ادب کی تخلیق میں دماغ استعمال نہ ہو، برساتی کھمبیوں کی طرح ہے جن سے زمین تو ڈھک جاتی ہے مگر غذا حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘
------------حسن عسکری

شعر کی تخلیق کو عوامی فائدے سے تو ویسے کیا ہی نسبت ہے، فن کاری سراسر ایک خودغرضی کا معاملہ ہے، کوئی بھی فنکار دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہو، کسی بھی فن سے اس کا تعلق ہو، اس سے بڑا خود غرض کوئی نہیں ہوتا، مگر یہ خودغرضی ویسی ہی ہے جیسی کہ عشق میں ہوا کرتی ہے، خود کو کسی غرض کے لیے فنا کردینے والی یہ ہوس ہی شاعری بھی ہے، مصوری بھی ، موسیقی بھی ہے اور رقص بھی۔میں اس مضمون میں ان چند باتوں پر غور کرنا چاہتا ہوں جو غزل کے فن کے تعلق سے ہیں اور جدید غزل کے امام ظفر اقبال کے حوالے سے ہیں۔دریائے لطافت والے انشا اللہ خاں سے شاید ہی اب کوئی اتفاق رکھتا ہو کہ غزل کے مضامین کا تعلق صرف و محض عشقیہ معاملات سے ہے، اور اس کے باہر کی موزوں گوئی ہرگز غزل نہیں، چاہے یار لوگ جدیدیت کے نام پر کسی بھی طرح کے تجربات کی دیواریں پھلانگتے پھریں۔
ہمارے یہاں ایک بات پر اکثر مرثیہ خوانی ہوتی ہے کہ اردو ادب میں شاہکار تخلیقات کم ہیں۔اصل میں ہمارے پورے ادب پر نظر ڈالنے سے ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ شاعری کی دنیا میں جس افراط سے ہمارے شاعروں نے غزل کہی ہے اس سے زیادہ کسی اور صنف میں زورآزمائی نہیں کی گئی ہے۔غزل ہماری روایت کا حصہ ہے اور اس روایت میں ہم نے وقت کے ساتھ کبھی تھوڑی کبھی زیادہ تبدیلیاں کی ہیں۔نظم کی اول تو تاریخ ہی کتنی پرانی ہے، یہی کوئی ڈیڑھ سو ، دو سو برس۔اس میں بھی پہلے پہل وہ بے چاری پابند نظمیں ہیں جن کو قافیہ اور ردیف، ٹیپ کے مصرعے اور آہنگ و روانی کی پابندی لے ڈوبی۔بہت بعد میں کچھ سرپھروں نے آزاد نظم کہی، آزاد نظم کی کچھ قسمیں دھیرے دھیرے نمودار ہوئیں اور پھر آئی نثری نظم۔یہ بھی تو راشد اور میراجی کے بعد کی بات ہے نا۔پھر نثری نظم میں ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں شاعر دھوکا کھاتا بھی ہے اور دھوکا دیتا بھی ہے۔اردو شاعری میں آزاد نظم واحد ایسی صنف سخن ہے، جس میں کچھ تیر مارا جاسکتا ہے۔جیسا کہ میراجی ،راشد، مجید امجد اور کئی دوسروں نے کوشش کی ہے۔شاہکارتخلیق ایک تسلسل چاہتی ہے، وہ طوالت کی متقاضی ہوتی ہے، ہمارا شاعر اکثر درمیان میں ہی ہانپ جاتا ہے،طوالت کے لیے تسلسل کی ضرورت ہو نہ ہو مگر بات کے مکمل ابلاغ کی حاجت ضرور ہوتی ہے۔غزل شاہکار ہوہی نہیں سکتی۔بلکہ یہ صنف ایسی ہے جو کسی شاہکار کے لیے بنی ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک بڑی صنف کا حصہ ہے، قصیدے کا۔مثنویوں میں بھی غزلیں ملتی ہیں، خود فرودسی نے شاہنامے میں غزلیں کہی ہیں۔یعنی کہ غزل ایک ضمنی صنف ہے جو کسی بڑے تخلیق پارے میں دل بہلانے کے لیے اول اول استعمال کی جاتی تھی۔اسے بس آپ کسی بڑی صنف کے ایک جز سے تعبیر کرسکتے ہیں۔پھر ایسا ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کو لوگوں نے الگ سے پڑھنا اور لکھنا شروع کردیا۔ایران میں تخلص کی رسم ایجاد ہوئی اور شاعروں نے اپنے دستخط کے ساتھ غزل کو عشق و عاشقی کے لیے مختص صنف قرار دیا۔اس روایت کا تعلق بھی دراصل اسی ضمنی صنف کے خمیر سے ہے جو مثنوی میں قافیے کی پابندی سے تھوڑی دیر کے لیے آزادی برتنے کے لیے اور بادشاہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ملاتے دو منٹ رک کر سانس لینے اور ایک رومانی فضا قائم کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی۔ویسے تو دنیا کی کوئی بھی شعری صنف ہو، اس کا کوئی مصرع یا کوئی شعر اپنے سیاق سے باہر نکل کر بھی کبھی کبھی دوسرے سیاق خلق کرلیتا ہے، ہمارے میر حسن ، مرزا شوق وغیرہ کی مشہور مثنویات کے ساتھ کیا ایسا نہیں ہواکہ ان کی مثنویوں کے کچھ اشعار نے ضرب المثل کی سی حیثیت حاصل کرلی۔مگر یہ محض ایک اتفاقی امر ہے۔خیر ہم غزل کی بات کررہے تھے کہ اس میں شاہکار تخلیق کے عناصر موجود نہیں ہیں۔اس کی وجہ تو میں نے بیان کردی ہے۔خود مرثیہ ہمارے یہاں اپنی ہےئت سے ایسا مجبور ہے کہ اس میں آٹھ آٹھ اجزائے ترکیبی ہونے کے باوجود شاہکار کہنا ممکن نہیں ہے تو غزل بے چاری کس کھیت کی مولی ہے۔اس کا تو ہر شعر ایک علیحدہ چہرہ ہے، ایک الگ بات ہے۔اور کوئی بات ضرب المثل بن سکتی ہے، محاورہ خلق کرسکتی ہے۔مگر شاہکار ادب کے زمرے میں شامل نہیں ہوسکتی اور پھر غزل کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے۔ہم اس کا کینڈا نہیں بدل سکتے۔اس کی صورت ، اس کے خدوخال کو تھوڑا بہت تبدیل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔اب آپ اس بات کو کتنا بھی نزاعی سمجھ بیٹھیں مگر اردو شاعروں کے مزاج میں جو غزلیت ہے اسی کی وجہ سے وہ طویل اصناف کے ڈھرے پر جاہی نہیں سکتے اور درمیان میں ہانپ جانا ان کی مجبوری ہے۔اسی وجہ سے اردو کی طویل شعری اصناف میں بھی آج تک کوئی ایسی تخلیق موجود نہیں ہے جسے شاہکار کہا جاسکے۔میں اردو شاعری پر لعن طعن نہیں کررہا ہوں، کلیم الدین احمد کی طرح یہ بھی نہیں کہوں گا کہ میرتقی میر یا میر درد وغیرہ اگر نظم کے شاعر ہوتے تو کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیتے۔اصل میں اس مزاج کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔اب ہمارے یہاں آزاد نظم یا نثری نظم کو بھی ایک صدی کا دور مکمل ہونے پر آیا ہے، مگر ہم اس میں بھی کون سا ایسا شاہکار ادب تخلیق کرسکے ہیں۔
غزل جیسی صنف کا تعلق ایک خاص قسم کے مزے سے ہے،ہاں شاید وہی کیفیت والا معاملہ۔پڑھیے اور لطف لیجیے، سردھنیے کہ دو مصرعوں میں شاعر نے کیسی خدا لگتی کہی ہے، کیسا زبانی تجربہ کیا ہے، زندگی کے کیسے اچھوتے تجربے کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر کچھ بھی ہو، چونکہ یہ صنف دوجملوں کے پٹوں میں قید ہے اس لیے یہ اشاروں میں بات کرنے پر مجبور ہے۔اب تو یہ مزاج غزل کہنے والوں کا مقدر ہوچکا ہے۔میں خود شاعری کرتا ہوں، اس لیے جانتا ہوں کہ شعر کہتے وقت کوئی شاعر نہیں سوچتا کہ اسے کوئی بہت بڑی بات کہہ دینی ہے، اسے تو بس فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنی بات کو دوسروں کی کہی گئی بات سے الگ طور پر بیان کروں، اتنا الگ کہ سامنے والے کی سماعت اسے سن کر چونک پڑے کہ یہ بات اس صورت میں بھی کہی جاسکتی تھی،ذرا سا ڈھنگ بدلوں اور لوگوں کو دنگ کردوں۔یہ جو رویہ غزل میں آیا ہے، یہ جدیدیت کا عطا رکردہ ہے۔وہ جدیدیت جس کی اساس وجودیت ہے۔اتنا احسان تو ماننا ہی پڑتا ہے کہ اس تحریک کے زیر اثر ہمارے شاعروں نے بات کو کہنے کا اپنا ڈھنگ تراشا اور غزل کو نئے اسالیب حاصل ہوئے۔مگر یہ نئے اسالیب کتنے نئے ہیں، ان کی پول تو بس کچھ ایک شاعروں کو پڑھ کر کھل جاتی ہے۔دھیان سے دیکھیے ، مجموعی طور پر مطالعہ کرنے پر کیا نہیں لگتا کہ جدیدیت کے پہاڑ پر ایک شخص کھڑا نئی راہوں کی جانب اشارہ کررہا ہے اور تمام اچھے برے شاعر ان راہوں کی طرف پرانی روایت کے میدان سے گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔وضاحت کیے دیتا ہوں، محمد علوی، عادل منصوری، منچندا بانی ، احمد مشتاق یا ایسے ہی کئی جدید شاعر تجربے کی ایک یکسانیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ان سب کو تمام و کمال پڑھ جائیے معلوم ہوگا کہ نئی بات ہے، مگر کبھی عادل منصوری کے کسی شعر کو محمد علوی سے اگر کوئی منسوب کربھی دے تو لوگ کون سا فرق کرپائیں گے۔اکثر لوگ جدید شاعروں کے مشہور اور باغیانہ اشعار کو غلط ناموں سے پڑھتے بھی ہیں اور کوئی احتجاج بھی نہیں کرتا، بس جسے معلوم ہوا ، اس نے تصحیح کردی، وجہ یہ ہے کہ جدیدیت کے آہنگ بھی بہت حد تک ایک ہی شیشے سے ٹکراتے رہے ہیں۔خود کلامی، مایوسی، مشین، کربلا، تنہائی، مرغے، بچے، سنپولیے اور عورت جدیدیت کے مضامین بہت حد تک سمٹے سمٹائے ہیں اور ان میں پرانے پر کچھ اضافے کے نام پر الٹ پلٹ کر وہی کھٹے میٹھے بیر کھلائے گئے ہیں جن کی گٹھلیاں بھی اب کڑوا چکی ہیں۔ہر شاعر کے یہاں سے پندرہ بیس اچھے شعر نکل بھی آئے تو کیا بڑی بات ہوئی مگر انقلاب اور جدیدیت کے نام پر ایک ہی دھارے میں بہنے والی اس شاعری کا مستقبل کیا تھا، سو لوگ لوٹ گھوم کر پھر انہی عشق کے مضامین پر واپس آنے لگے۔اور ادھر جو جدید ترین غزل ہے، اس نے تو حد ہی کردی ہے کہ دشت و صحرا اور ہجر و وصال کے قصے میں پھر ایسی رندھی ہوئی نظر آتی ہے کہ بعضے اس دور کو باز کلاسیکی دور سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔لیکن بہرحال جدیدیت نے ایک راستہ دکھایا۔اندھیرے میں انہی بکٹوں پر منہ مارنے والی قوم کو مشعل لے کر کہا کہ ان دروں سے باہر کا راستہ نکلتا ہے۔اس غار کے باہر بھی ایک بڑی دنیا ہے۔بیان کے نئے راستے بھی ہیں، اب یہ تو شاعروں کے اپنے پوٹینشل کی بات ہے کہ وہ کیا کرسکتے تھے اور کیا نہیں۔نئے سے کون خوش نہیں ہوتا، جو آدمی شاعری کی تھوڑی بہت بھی شد بد رکھتا ہے اور ادب کا ذرا سا بھی ذوق اس میں پایا جاتا ہے وہ نئے پن سے نہال ہواٹھتا ہے مگر یہ نیا پن جب پرانا سا لگنے لگے تو کیا علاج کیا جائے۔کون سی جڑی بوٹی کا عرق اس کی نسوں میں اتارا جائے کہ اسے پھر کوئی راستہ مل سکے۔نئے شاعروں میں یہ جڑی بوٹی سوائے ظفر اقبال کے اور کسی کے پاس نہیں ہے۔وہ ایک واحد ایسا شاعر ہے، جس نے تیزی سے لہجے کے لباس تبدیل کیے ہیں، ایک ہی غزل میں چار شعروں کو الگ الگ سمتوں سے نمودار کیا ہے۔ظفر اقبال اردو زبان کا وہ جدیدشاعر ہے، جس کے بغیر جدیدیت کا تصور ہمیشہ ناقص اور نامکمل رہے گا۔اس کی وجہ اس کی بسیار گوئی نہیں،اس کی بسیار تجربہ پسندی ہے، وہ خود کو اچھا کرنے کی خاطر خود کو خراب کرنا بھی جانتا ہے۔راستے بدلنے کے لیے کبھی کبھار راستے بنانے بھی پڑتے ہیں، ان کے لیے خاردار جھاڑیوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے، زندگی کے لیے کبھی کبھی موت کے دہانے پر آکر کھڑا ہونا پڑتا ہے، میں نے سنا ہے، شاید کہیں پڑھا بھی ہو کہ ظفر اقبال نے خود کہا ہے کہ وہ ایک ایسا فنکار ہے، جو کسی بھی وقت اپنا پچھلا کہا سب کچھ منسوخ کرسکتا ہے، تو ادبی معاملات میں میں اسے ایک سراسر جذباتی بیان سمجھتا ہوں، وجہ یہ ہے کہ رد و تنسیخ کا فیصلہ وقت کرتا ہے، فن کار اس معاملے میں بالکل بے دست و پا ہے، کافکا نے تو اپنی کہانیاں جلانے کے لیے کہہ دیا تھا، غالب خود اپنے کلام کا بیشتر حصہ چھپائے چھپائے پھررہا تھا، مگر ان خرابوں سے بھی خزانے دریافت کیے گئے ہیں اور ایک طرف وہ لوگ بھی ہیں جو زربفتی فلیپ پر سنہری روشنائی سے ناقدین کی آرا تحریر کرواتے ہیں،مگر لوگ ان کو پڑھنا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔مجھے ابہام و اشکال سے بحث نہیں ہے، ورنہ کہتا کہ منٹو کا افسانہ پھندنے افسانے کی دنیا کا ایک انقلابی چہرہ ہے جس میں کم از کم پچھلوں سے بیزاری اور نئے سے لپٹنے کی کوئی خواہش تو نظر آتی ہے۔اسی طرح ظفر اقبال بھی اردو شاعری کا وہی پھندنے والا شاعر ہے جس کے یہاں فن کی تشکیل اپنی ہی تردید سے ممکن ہے، کیونکہ شاعری کوئی ٹھہری ہوئی شے نہیں ہے۔اس میں پھیلتے رہنا اور بدلتے رہنا بہت اہم ہے۔پانی کی طرح اپنے کنارے بڑھاتی ہوئی جرات ہی شاعری ہے۔تجربے کے بغیر اس کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔لوگ اسلوب اسلوب چلاتے ہیں، لیکن اسلوب کیا ہے اسے سمجھنے کی کسی بھی طرح کوشش نہیں کرتے۔اسلوب ہر دو سطح پر کام کرتا ہے۔اس میں ایک تو قدرت اور ماحول اور مطالعے کا عطا کردہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ ہوتا ہے جو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔اس پیدا کرنے کے عمل میں جو دقتیں ہم اٹھاتے ہیں، جو گھاؤ ہمیں لگتے ہیں، وہ ہی نئے تجربوں کی کھیپ تیار کرتے ہیں۔فن کار ایک سطح پر جاکر ہر چیز سے غیر مطمئین رہنے لگتا ہے، اسے سب کچھ پہلے سے کہا ہوا اور سنا ہوا لگتا ہے۔اسی مقام پر وہ خود کو الٹنے پلٹنے کے عمل سے نبرد آزما ہوجاتا ہے، ایسے میں اس کے آگے لفظ کی تذکیرو تانیث، تلفظ، تقدیم و تاخیریا اختراعیت کوئی مسئلہ نہیں رہ جاتی۔یہ جدیدیت کا مسئلہ نہیں، غزلیت کا معاملہ نہیں، یہ ہنر کی شریعت میں سراسر ایک جائز امر ہے۔حسن و قبح سے ظاہری علاقہ رکھنے والے نہیں سمجھیں گے کہ اسلوب کی سطح پر، آہنگ کی نہج پر اور لفظ کے میدان میں ایسے تجربے کرنے سے ہی بیان کے نئے راستے کھلتے ہیں۔زیادہ شاعری کرنا ہر آدمی کے بس کی بات کہاں ہے، اس معاملے میں تو اردو کے میر جی، مصحفی اور انشا وغیرہ بہت آگے آگے تھے۔ان لوگوں نے شعر کو زندگی کے مختلف تجربات سے جوڑنے کی کوشش کی، اچھے ، برے شعر کہے مگر سطحیت سے خود کو بچائے رکھا۔اچھا یہ بھی ایک معاملہ ہے کہ ہمارے جو بسیار گو شعرا ہیں ان کے خراب شعروں کو سطحی سمجھ لینا کسی بے وقوفی سے کم نہیں ہے۔شعر اچھا بھی ہوسکتا ہے، برا بھی ہوسکتا ہے، برا اس معنی میں کہ سننے والے کو اس کی ترتیب الفاظ ، خشک معنویت یا اور کسی پہلو پر اعتراض ہو، مگر سطحی شعر اور خراب شعر میں واضح فرق یہ ہے کہ خراب شعر ، ایک تربیت یافتہ سامع یا قاری کے معیار پر پورا نہیں اتر پاتا، اس میں کسی جگہ سے کوئی کمی سننے یا پڑھنے والے کو کھٹکتی ہے اور شعر کے اچھے یا ٹھیک ٹھاک ہونے کی کوئی گنجائش موجود ہوتی ہے، اچھا بعض اوقات خراب شعر اس رو سے کچھ ناقدین کے نزدیک اچھا بھی ہوسکتا ہے جن کو اس میں تجریدیت یا تجربہ کاری کی جھٹپٹاہٹ نظر آجائے مگر سطحی شعر، دراصل غیر شعر ہوتا ہے ،جس میں کسی بھی جذباتی بات کو اول فول طریقے سے بیان کردیا گیا ہو، جس میں بحر، وزن، قافیے، ردیف کا خیال نہ کیا گیا ہو، کوئی ایسی بات نہ ہو جو ذہن کو چونکائے یا اپنی جانب منعطف کرسکے۔اردو کے جدید ادبی مطالعے میں ہم ظفر اقبال کے ذریعے ہی سمجھ پائے ہیں کہ شعر کی ساخت خواہ کتنی ہی غیر تکنیکی دکھائی دے مگر اس کو شعر بنانے کا عمل بے حد تکنیکی ہے۔فن کے تقاضے ہوا میں نہیں پورے ہوتے۔مضمون ایسی کسی بلا کا نام نہیں جسے ہم نے ذہن کی آنچ پر پگھلائے بغیر ہی مصرعوں کے سانچے میں ڈھال دیا ہو۔شعر اپنے عدم میں پہلے سے موجود ضرور ہوتا ہے، بالکل اسی آواز کی طرح جو اپنے آخری پیکر میں ڈھلنے سے پہلے صرف ایک بے نام ہوا ہوتی ہے۔جسے انسان اپنے ہونٹ، زبان اور دوسرے معاون اجزا کے سہارے آواز بنادیتا ہے۔اسی طرح شعر پہلے محض ایک خیال ہوتا ہے، لفظوں کا خرج و دخل اس خیال کے مصرعے میں پیوست ہونے سے پہلے کا عمل ہے۔یہ عمل کچھ ویسا ہی ہے جیسے کوئی بڑھئی کسی الماری کی زینت بننے والی دراز کو اس میں بہ آسانی دھکیلنے اور کھینچنے کے لائق بناتا ہے۔یہ تو وہ فنی مشقت ہے جس سے ہر جینوین تخلیق کار ذہن گزرتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی شعر کے تعلق سے اور کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔کبھی غالب نے کہا تھا کہ شعر انسان کی معنوی اولاد کی ہی طرح ہوتے ہیں تو وہ اس کے انتخاب میں اس قدر محتاط رویہ کیسے اپنا سکتا ہے جیسا کہ خود غالب نے اپنی شاعری کا انتخاب کرتے وقت اپنایا تھا۔انتخاب کے وقت معنوی اولاد کا یہ قتل کیسے جائز ہوجاتا ہے۔شعر، اچھا ہے یا برا، اس کا اندازہ سب سے پہلے لکھنے والے کو ہوتا ہے، کیونکہ وہی اس کا پہلا محتسب بھی ہوتا ہے اور پہلا ناقد بھی۔اب یہ بات بالکل الگ ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کی انفرادی تنقید کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔یہاں میں عسکری صاحب والی بات کو پھر سے دوہراؤں گا کہ تخلیق کا معاملہ صرف دل سے نہیں ہے، دماغ سے بھی ہے۔جذباتیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شاعری صرف واردات قلبی کا نام ہے۔جو لوگ ایسا سمجھتے ہوں، انہیں احمد فراز کی شاعری مبارک ہو، میں تو ظفر اقبال کی جانب کھڑا ہوں۔جس نے تقریباً نصف صدی کے اپنے سفر میں سینکڑوں راستے غزل کے لیے تیار کردیے ہیں۔اب ایسا کام اور ایسا بڑا کام بغیر دماغ کے استعمال کے کیسے ممکن ہے۔ایسا شاعر واقعی جدید ہے جو نئے ادب کے ساتھ ساتھ نئی جمالیات بھی خلق کروانا جانتا ہے۔نظم والے بے شک اس بے چارے غزل کے شاعر کو چھوٹا سمجھیں مگر اسلوب اور تجربے کی سطح پر اس کی طرح کوئی چھوٹا موٹا کارنامہ تو کرکے دکھائیں۔
اب ہم اتنے تو بالغ ہوہی گئے ہیں کہ ہر نئے لہجے کو جدیدیت سے تعبیر نہیں کربیٹھتے ، اتنا شعور بھی آگیا ہے کہ شاعری بکرے کے زور لگانے سے عبارت نہیں ہے۔اس کے لیے تو بہرحال آدمی ہی کو زور لگانا پڑے گا۔خیراپنی بات ظفر اقبال کے ان چند شعروں کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔
یہ جو رواں ہیں چار سو اتنے دھوئیں کے آدمی
کس لیے چوب سبز کو آگ سے آشنا کروں

نہیں مرنے میں بھی درکار تعاون مجھ کو
چھت سے اپنی ہی نظر آؤں گا جھولا ہوا میں

موت کے ساتھ ہوئی ہے مری شادی سو ظفرؔ
عمر کے آخری لمحات میں دولہا ہوا میں

ترا چڑھا ہوا دریا سمجھ میں آتا ہے
ترے خموش کنارے نہیں سمجھتا ہوں

خدا کو مان کہ تجھ لب کو چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا

دشمنی کا ہی رہ گیا سروکار
ورنہ کس کا مفاد ہے مجھ میں
---
مضمون نگار: تصنیف حیدر

ظفر اقبال کی سو سے زائد غزلیں پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

Tuesday 26 November 2013

بیکار کی بات


میں نے اسی سال اپریل کے آغاز میں نسیم سید کو ایک میل کیا تھا، جس کے جواب میں انہوں نے اپنی محبت اور عنایت کے سبب یہ تحریرعنایت کی۔ میرا ماننا ہے کہ ایک اچھے اور سچے فنکار کے اندر خود کو دیکھتے رہنے کی ایک اذیت ناک صلاحیت ہوتی ہے، اور وہ جس حد تک بھی ہوسکے اس صلاحیت سے جان چرانے کی کوشش کرتا ہے۔ خیر میں نے انہیں لکھا تھا۔ ''نسیم سیدانی صاحبہ! آپ کے کلام کا انتخاب تو ہم نے کرلیا ہے۔ اب رہی بات آپ کی تصویر کی تو میں چاہتا تھا ریختہ پر آپ کی وہ تصویر لگائی جائے جسے آپ چسپاں کروانا چاہیں۔ جہاں تک بات رہی آپ کے شرمندہ ہونے کی تو ہر اچھا شاعر کہیں نہ کہیں اپنی تخلیقی قوت کے سامنے کچھ ایسا شرمندہ ہے۔ ہم جتنا سوچتے ہیں اتنا کہہ ہی کہاں پاتا ہے اور ویسے بھی کہاں کہہ پاتے ہیں جیسے ہم کہنا چاہتے ہیں۔ آہ ظفر اقبال یاد آگیا دیکھیے۔ ظالم کہتا ہے ابھی اپنی میری سمجھ میں یہ نہیں آرہی میں جبھی تو بات کو مختصر نہیں کررہا آپ کے کوائف اس لیے چاہتا ہوں کیوںکہ فیس بک سے آپ کے بارے میں معلومات ادھار نہیں لینا چاہتا بلکہ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ریختہ کے لیے اپنے خاص اسلوب میں اپنی مختصر سی سوانح لکھ دیں۔ یہی کوئی پانچ چھ صفحات میں۔ میں اسے آپ کی پروفائل میں ویسے ہی لگوا دوں گا اور یہ بھی ظاہر کروائوں گا کہ یہ آپ کی اپنی تحریر ہے۔ اس میں سب لکھ دیجیے گا زندگی کو آپ نے کیسے گزارا اور زندگی نے آپ کو کیسے گزارا۔ اب رخصت چاہوں گا، میرے باس کو اردو نہیں آتی مگر وقت کے اسراف پر ان کی گہری نظر ہے۔'' جواب میں تقریبا ایک یا دو ہفتے بعد ان کی جو تحریر مجھے ملی وہ ریختہ کے پروفائل سیکشن میں توشامل ہے ہی۔ میں یہاں اسے الگ سے آپ لوگوں کے مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں۔ یہ سطریں نسیم سید کی زندگی اور ان کے گزران کو سمجھنے میں بڑٰ ی مدد دیتی ہیں۔شکریہ!
تصنیف حیدر

" تصنیف حیدر نے مجھے لکھا ۔ " سب لکھ دیجیے گا زندگی کو آپ نے کیسے گزارا اور زندگی نے آپ کو کیسے گزارا۔" میں نے وعدہ تو کر لیا مگر کئی دن گزر گئے زندگی کے ان اوراق کو ڈھو نڈنے میں جو شا ید کہیں کھو گئے یا شا ید میں نے پھا ڑ دئے ہوں ۔ " سب لکھ دیجئے " مگر کیسے ؟ با ت یہ ہے کہ ہم زندگی میں پو رے کے پو رے اپنے ہا تھ لگتے ہی کب ہیں ؟ اور پورا کا پورا خودکو یا د بھی کب رہ جا تے ہیں ؟ مگر کو شش کر تی ہوں جہا ں جہا ں سے خو د کو یا د ہوں " سب سا منے لا ئے دیتے ہیں " یہ ایک خا صہ خو بصورت تین منزلہ گھر ہے خیر پو رکے چھو ٹے سے محلے لقمان میں ۔( خیر پور سندھ پا کستان کا ایک چھو ٹا سے شہر ہے ) الہ آ باد سے میرے والدین بھی یہاں آگئے تھے رلتے رلا تے ۔ والد سید تھے اور کئی بارھم " نجیب الطر فین " ہیں کا فخریہ حصا ر ہما رے گرد کھینچتے نظر آ تے تھے ایک شجرہ سینے سے لگا ئے لگا ئے پھر تے جس میں شا ید کوئی تفصیل تھی انکے نجیب الطر فیں ہو نے کی اور یہ کہ کس طر ح اکبر الہ آبادی ہمارے رشتہ دار ہیں ۔ مگر ہم چھ بہن بھا ئیوں میں سے کسی کو کبھی کبھی اس تفصیل میں جا نے کا شو ق نہیں ہوا گو وہ شجرہ اب بھی میرے بھا ئی کے پا س کسی الما ری میں دھرا ہے مگر اس کو دیکھنے کا فا ئدہ ؟ ہم بہت چھو ٹے چھو ٹے تھے تب ہی اچا نک اماں نے ایک دن اپنی مٹھی کھو ل کے خود کو اپنے ہا تھو ں سے جھا ڑ دیا ۔
ہمارے اس تین منزلہ گھر کے دا لا ن میں میری ماں کی لحد ہے اور اس لحد میں میرا اور میرے با قی پا نچ بہن بھا ئیوں کا بچپن دفن ہے ۔ اس گھر کے کمروں میں دالا ن میں صحن میں اوپر کی منزلوں میں ان کے آ خری الفا ظ " میرے بچے " اور " بیٹا بہت پڑھنا " ہر طر ف گو نجتے تھےاور بہت سالو ں تک میں کو ئی آ واز نہیں سن پا ئی سو ا ئے اس آ واز کے ۔ ہم سب بہن بھا ئی ایک سا تھ تھے مگر ہم ایک دو سرے سے بچھڑ گئے تھے اپنی اپنی تلا ش میں لگ کے ۔تب میں شا ید چھ سا ل کی تھی مگر ما ں کے آ خری الفا ظ کا مطلب نہ سمجھتے ہو ئے بھی بہت کچھ سمجھ میں آ گیا میرے اور بہت بچپنے میں ہی زندگی نے بہت کچھ سمجھا اور سکھا دیا مجھے اسکی سمجھا ئی ہو ئی یہ با ت تو جیسے ازبر ہو گئی کہ دکھ درد اور غم وہ کڑوی گو لیاں ہیں جنہیں چبا نا نہیں چا ہئے بلکہ ایک گھو نٹ میں نگل لینا چا ہئے ۔میں ان کڑ وی گو لیوں کو نگلتی اور یہ میرے اندر بر سہا برس کی زہریلی روایا ت کے بدن میں زہر اتا رتی گئیں اپنا اور مجھ میں تر یا ق کا کام کر تی گئیں ا ن کڑ وی گو لیو ں کے بیج سے میں اپنے اندر اندر پھو ٹتی رہی شا ید ، کسی نئے پو دے کی طرح جس کا مجھے بہت بعد میں اندا زہ ہوا ۔ میری بڑی بہن جتنی ڈرپو ک اور خا مو ش تھی میں اتنی ہی نڈر اور بے باک ۔ لہذا جب سا تو ین کلا س میں تھی تو اس اسکو ل میں جس کی ہیڈ مسٹریس بھی بر قع اور نقاب میں ڈھکی چھپی رہتی تھی جب پر دے کے مو ضو ع پر مبا حثہ ہوا تو پر دے کے خلا ف تقریر کی اور مزے کی بات یہ کہ پہلا انعام بھی لیا ۔ یہ ایک چھو ٹا سا کپ تھا جو مجھے زندگی نے عطا کیا تھا اپنے سا منے اپنا اقرار کر نے کا ۔والد سید تھے سو ہم سید قرار پا ئے اور میں نسیم سید ہو گئی ۔ والد ویسے ہی تھے جیسے اس دور کے والد ہوا کر تے تھے " کھلا ئو سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگا ہ " انکے پا س گو ہمیں سونے کا نوالہ کھلا نے کو نہیں تھا مگر شیر کی نگا ہ تھی ۔ سو یہ نگا ہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھر نے سب کو قوانین کا پا بند رکھتی تھی ۔ میرے اندر سوالوں کا ہمیشہ انبار رہا ۔ اور یہ سوالا ت اکثر ان کے قوانین سے ٹکر ا تے ، جب ٹکر ا تے تو سخت جھا ڑ جھپا ڑ ادھیڑ پچھا ڑ ہو تی میری مگر یہ سب کچھ مجھے اوپر سے خا موش اور اندر سے پر شور بنا تا رہا ۔ غرض سوال کر نے کی عا دت کے سبب اسکو ل اور گھر دونوں جگہ ، خو ب خو ب صلواتیں پڑیں ۔سزا بھگتی ٹھکا ئی ہو ئی ۔یہ سب کچھ اب بھی ہو تا ہے کسی اور اندا ز سے مگر اپنی نظموں میں جو جی کرتا ہے بکتی ہوں ۔ لہذا " بدن کی اپنی شریعتیں ہیں " جیسی نظمیں لکھیں تو کئی بڑے شا عروں نے اشا روں اشا روں میں اور کھل کے سمجھا یا کہ عو رت کو کیسی شا عری سے پر ہیز کرنا چا ہئے اور کیسی شا عری کر نی چا ہئے ۔ اس جملے کو معتر ضہ سمجھیں۔ تو با ت تھی نو عمری کے زما نے کی اپنے چھا نے پھٹکے جا نے کی ،کو ٹے پیسے جا نے کی ۔ سا تو یں کلا س میں دو اہم واقعا ت ہو ئے ایک پر دہ کے خلا ف میری جیت اور دوسرا دلچسپ وا قعہ یہ ہوا کہ امتحان میں جملے بنا نے کو آ تے تھے اس زمانے میں ۔ جیسے چو ری اور سینہ زوری ، بکرے کی ماں کب تک خیر منا ئے گی وغیرہ وغیرہ ۔ میں نے سب کو شعر بنا ڈا لا بجا ئے جملے کے ۔ ایک فضول سا شعرکیو نکہ اس پر بہت مار پڑی تھی اس لئے شا ید اب بھی یا دہے ۔ ٹیٹوا دبا نا کا جملہ بنا نا تھا ۔ میں نے لکھامیں سر دبا نا چا ہتا تھا آ پ کا حضور بھو لے سے میں نے ٹیٹوے کو ہی دبا دیا میری اردو کی استا د کو بہت غصہ آ یا ۔ اس نے میرا امتحان کا پیپر میرے منہ پر ما را ۔ اور خوب ڈانٹا پھر ایک گھنٹہ کے لئے کلا س کے کو نے میں کھڑا کردیا ۔اس کو نے میں کھڑے ہو کے میں نے اس ایک گھنٹہ کو بہت سر شا ر ی میں گزارا کیونکہ مجھے بڑا مزا آ رہا تھا یہ سو چ کے کہ اتنی جلدی جلدی میں نے شعر گڑھ ڈا لے جبکہ اس سے پہلے ایک شعر بھی نہیں کہا تھا ۔ اس دن اس کو نے میں کھڑے کھڑے میں نے اپنے لئے سزا میں سے جزا کا فا رمولا دریا فت کر لیا ۔ والد نے حسب دستور چا لیس دن کے اندر شا دی کر لی تھی ۔ دوسری ماں بھی با کل ویسی تھیں جیسے انہیں ہو نا چا ہئے تھا ۔ بڑی بہن با رہ سال کی ہو ئی تو اس کی پینتا لیس سا ل کے مرد سے شا دی کر دی گئی ۔ تو انکی شا دی شدہ زندگی ویسی تھی جیسی اسے ہو نا چا ہئے تھا ۔ بڑے بھا ئی پا ئیلٹ کی ٹرینگ کے لئے انگلینڈ بھیج دئے گئے ۔والد نے ہمیں دوسری والدہ کے سا تھ بہت انصا ف کا ا حسا س دیا ۔ اپنے طور پر محبت بھی دی ۔تحفظ بھی اور تعلیم کے لئے آ گے بڑھتے جا نے کی اپنی بسا ط بھر پو ری مدد بھی ۔مگر انکے اور میرے بیچ میری ماں کی لحد کا فا صلہ تھا اور یہ فا صلہ لق و دق تھا شا ید جو میں چا ہتے ہو ئے بھی ختم نہیں کر پا ئی ۔ ہم چا ر بہن بھا ئی اب بھی ایک سا تھ تھے مگر ایک دوسرے سے بے خبر اپنی اپنی تلا ش میں گم تھے ۔ میں کلا س میں فسٹ اس لئے آ تی تھی کہ جس لڑکی کو ہرا کے میں نے سیکنڈ پو زیشن پر کر دیا تھا وہ بہت امیر با پ کی بیٹی تھی اور میری کلا س ٹیچرز اس کے نا ز نخرے جو تے سب کچھ اٹھا نے کو تیا ر رہتی تھیں ۔وہ نمبر دینے میں اکثر میرے سا تھ بے ایما نی کر تیں جب وہ لڑ کی مقا بلے پر ہو تی ۔ میں نے ٹھا ن لیا کہ مجھے فسٹ آ نا ، کھیل کے میدان میں اسے شکست دینا ہے ۔ جب ہیڈ گر ل کا الیکشن ہو ا تو اسے ہرا کے مجھے لگا میں نے اسے نہیں "بے ایما نی " کو ہرا یا ہے مجھے میری ٹیچر ز اور والد کی جا نب سے جن کتا بوں کو نہ پڑھنے کی تا کید کی گئی میں نے وہ سا ری کتا بیں ڈھو نڈ ڈھو نڈ کے پڑھیں ۔منٹو کے افسا نے ایک کزن کی خو شا مد کر کے منگو ائے ۔ اس پر ہسٹری کی کتا ب کا ٹا ئیٹل چڑھا کے اپنے بستے میں چھپا دیا ۔ مگر والد کو شا ید پینسل کی ضرورت ہو ئی بستہ چیک کیا اور منٹو ہا تھ آ گئے ۔ انہوں نے وہ کتا ب چو لھے میں ڈال دی ۔ مجھے آ گ میں جلتا منٹو گلزار دکھا ئ دیا ۔اور پھر اس آ گ نے بڑی روشنی دکھا ئی مجھے زندگی بھر ۔ میں نے بتا یا نا کہ سزا میں جزا کا فا رمولا تلا ش چکی تھی میں۔ پہلے شعری مجمو عے "آ دھی گو اہی " کی پہلی نظم "تعا رف " یا د آ گئی ( ایک ہی نثری نظم ہے میرے پا س ) سنا تی چلو ں با ت آ گے بڑھا نے سے پہلے ۔ تعا رف بچپن میں اس چڑیا کی کہا نی ہم سب نے سنی ہے جو زندہ رہنے کے گر سے واقف تھی سو ، جب اسے آزا د فضا ئوں سے گرفتا ر کر کے پنجرے میں ڈالا گیا تو وہ گا رہی تھی " آ ہا !! میں نے اتنی تیلیوں والا ، کیا محفو ظ سا اک گھر پا یا " چھری تلے آ ئی تب بھی گا تی رہی" آ ہا !! میں نے لال کپڑے پہنے ۔ سب نے کیسا مجھے سجا یا " اور جب کڑا ہی میں تلی گئی تو وہ گا رہی تھی " آہا !! آ گ میں جل کے سو نا کندن میں ڈھل آ یا " شا ید میں وہی چڑیا ہوں لیجئے ابھی تک میں نے خو د کو سمیٹا ہی نہیں اور تصنیف حیدر کی تا کید ہے کہ پا نچ چھ صفحا ت ہوں تو مجھے اب ایک ورق میں سمیٹنا ہے خو د کو ۔ ویسے ایک ورق سے ذیا دہ کچھ ہے بھی کہاں میرے پا س اپنے تعا رف میں ۔فا سٹ فارورڈ کر تی ہوں با قی وقت کو ۔ دسویں کے بعد کیونکہ خیر پور میں کا لج نہیں تھا لہذا کراچی بھیج دی گئی اس ضد پر کہ مجھے آ گے پڑھنا ہے ۔کراچی کا لج کا زمانہ ۔۔کیا اچھے دن تھے ۔ شا عری نے پھر ایکدن ایک نظم کی صورت میں مخا طب کیا ۔اور پھر اس سے مسلسل رابطہ رہا ۔میں اپنے کا لج کے میگزین " فضا " کی ایڈیٹر تھی ، یو نین کی صدر تھی ،ڈرامہ سو سا ئٹی کی صدر تھی ۔ ڈیبیٹ ، مشا عرے سب میں شا مل ۔ غرض اس مصروفیت میں عجب فر صت تھی عجب آرام تھا عجب خو شیاں تھیں حیدر آ با د ویمن کا لج میں مشا عرہ تھا ۔ پو رے پا کستان سے شا عرات اس مشا عرے میں شر کت کر رہی تھیں ۔ حمایت علی شا عر اور (شاید ) عبیداللہ علیم ججز میں تھے ۔اس مشا عرے میں جب میرے نام کا اعلا ن ہوا پہلے انعام کے لئے تو میں بہت دیر تک سمجھتی رہی کہ غلطی سے میرے نام کا اعلا ن ہوا ہے ۔ ( حما یت علی شا عر آ ج بھی میرے اس ہونق پن پر ہنستے ہیں ) یو نیورسٹی پہنچتے تک شا عری سے میری اتنی گا ڑھی چھنے لگی تھی کہ جب تنقیدی نشستیں ہو تیں تو وہ لڑ کے جو خا ص کر ہو ٹنگ کر نے ہی آتے تھے مجھے اکثر بخش دیتے تھے ۔ ایک نطم لکھی تھی میں نے "جمیلہ بو پا شا " ہمارے ہیڈ آ ف ڈیپا رٹمنٹ اور تما م پر وفیسر ڈیپا رٹمنٹ کے اسٹیج پر موجود ہو تے تھے ۔اس دن فر مان صا حب نے جو کہا وہ جملہ میرے لئے بہت بڑی سر شا ری تھا " نسیم !! تمہا ری شا عری کا مستقبل بہت تا بنا ک ہے " ( سر !! میں شر مندہ ہو ں ۔ یہ ذمہ داری اور سر شا ری نبھا نہیں سکی ) یو نیورسٹی کے دوسرے سال کے آ غا ز میں شا دی ہو گئی ۔ مجھے شا دی انتہا ئی احمقا نہ خیال لگتا تھا سو بہت بار بھو ک ہڑتال کر کے ۔ روکے پیٹ کے شا دی کا چکر ختم کرا چکی تھی مگر مو ت اور شا دی بر حق ہیں اس لئے اس بار ایک نہیں چلی ۔دوسرا سا ل ایم اے کا کسی طرح پوارا ہوا اور شا دی ہو گئی ۔ شا دی کے بعد مجھے پتہ چلا کہ شریف عورتیں شا عری نہیں کرتیں ۔ مشا عروں میں نہیں جا تیں ، کتا بیں نہیں پڑھتیں وغیرہ وغیرہ ۔خیر یہ کو ئی ایسا زندگی اور مو ت کا مسئلہ بھی نہیں تھا سو سر کا دیا خو د کو ایک طرف۔ ہمارے ہو نے کی ان کو بہت شکا یت تھی سو خو د سے ہٹ کے ٹھکا نہ بنا لیا ہم نے کینڈا آ ئی تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارے میاں ایک گوری کو پیا رے ہو گئے ( جیسے لو گ اللہ کو پیا رے ہوجا تے ہیں ) ۔ نہ جا نے ایسے میں جب بہت چھو ٹے چھوٹے چا ر بچے تھے ۔ دو دو نو کریاں تھیں ۔ پڑھا ئی تھی ( ہما ری ڈگڑیا ں یہاں آ کے ردی کا غذ جیسی ہو تی ہیں اگر یہاں کی کو ئی ڈگری نہ ہو میں نے ہو ٹل مینج مینٹ کا کور س یہا ں سے کیا ) ایسے میں وہ جو میں تھی اپنے اندر کسی کو نے میں پڑی جس کو میں کب کا بھو ل بھال چکی تھی وہ آ مو جودہو ئی ۔برتن دھو تے ، برف صا ف کر تے ، گھا س کا ٹتے ، روٹی پکا تے ، گا ڑی چلا تے میں نظمیں لکھتی رہی ۔نہ صرف لکھتی رہی بلکہ بے پنا ہ چھپتی بھی رہی مختلف رسا ئل میں ادبی تنظیم بنا ڈا لی ، اور شا ید ہی کو ئی معروف شا عر ایسا ہو جو کنگسٹن نہ آ یا ہو ۔ سر دا رجعفری کا لیکچر یا د گار ہے میری زندگی کا کہ ایک ہفتہ سردار بھا ئی میرے گھر رہے تھے ۔جو ن بھا ئی سے تفصیلی ملا قا ت بھی تب ہی ہو ئی ۔بہت کچھ ہے لکھنے کو مگر پھر کبھی شا ید ان اوراق میں ہی کچھ اضا فہ کروں ۔ اسی زما نے میں شعرا سے ملنے کا اتفا ق ہو ا ۔ اور بہت کچھ سمجھا اور جا نا اپنی شعرا برا دری کے با رے میں ۔ اسکا تفصیلی ذکر بھی پھر کبھی ۔ اسی مصروفیت کے زما نے میں پہلا مجمو عہ " آ دھی گواہی " آیا ۔ سمندر را ستہ دیگا " دوسرا مجمو عہ ہے ۔ آ دھی گو اہی کے بعد یہ یقین کہ سمندر را ستہ دیگا کا سبب یہ تھا کہ خوف کی چھو ٹی چھو ٹی چڑیا میرے بچپن سے جو مجھ میں قید پڑی تھیں تا کیدوں کی جنکے پروں میں گر ہیں لگی تھیں میں نے ان سب چڑیوں کے پر کھو ل دئے میں بہت سے شعرا کی بے پنا ہ خو بصورت شا عری پڑھ کے سو چتی ہوں ۔ میرے لکھنے کا اور پھر شا ئع کر نے کا کیا کوئ جو از ہے ؟ " نہیں ہے " میرے اندر سے آ واز آ تی ہے ۔ پھر بھی لکھتی ہوں کہ اس کے علا وہ مجھے خود سے مخا طب ہونے کا طر یقہ نہیںآ تا ۔زندہ رہنے کے لئے اپنے آ پ سے مکا لمہ ضروری ہے ۔میری شا عری میرا مجھ سے مکا لمہ ہے اورکچھ نہیں ۔ مجھے اپنی صرف ایک کتاب پسند ہے "شما لی امریکہ کے مقا می با شندوں کی شا عری" یہ تر جمہ نہیں ہے بلکہ بہت خو بصورت احسا سا ت کی تر جما نی ہے ۔ اور یہ تر جما نی بہت دل سے کی ہے میں نے ۔ اس پر ابھی اور کام کر رہی ہوں ۔ " جس تن لا گے " اشا عت کے مراحل میں ہے ۔ یہ کچھ کہا نیاں ہیں ۔ اپنے بارے میں بات کرنا بیکا ر کی بات لگتی ہے مگر بعض محبتوں کا کہا ٹا لنا ممکن نہیں ہوتا ، یوں تو لکھنے کو ابھی بہت کچھ ہے مگر جتنا ہے اتنی ہمت بھی ہو نی ضروری ہے ۔سو چنا پڑے گا شا ید لکھ ہی ڈا لوں ۔

تحریر: نسیم سید
نسیم سید کی شاعری بہت جلد ریختہ پر موجود ہوگی۔

www.rekhta.org

Wednesday 20 November 2013

فیض احمد فیض اور شاعرصدی کی کشمکش


’’فیض کسی مرکزی نظریے کا شاعر نہیں۔صرف احساسات کا شاعر ہے۔‘‘
(ن۔م۔راشد)

’’یہ نہیں کہ فیض کا نقطۂ نظر غلط ہے۔ایک عالم اس نظریے کی افادیت اور ہمہ گیری کا معترف ہے۔کون ہے جو ظلم، جبر، غلامی اور حق تلفی کی حمایت کرے گا۔ لیکن فیض کا منصب شاعر کا ہے ،مصلح یا سیاسی لیڈر کا نہیں۔لیڈر یا مصلح کے لیے ایک خاص نقطۂ نظر کی لکیر پر کاربند رہنا ازبس ضروری ہے۔لیکن شاعر نشو ونما، مسلسل تخلیقی عمل اور تدریجی ارتقا کا نقیب ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی مقام پر ہمیشہ کے لیے رک جانا اس کی شاعری کے حق میں مفید نہیں ہوتا۔‘‘
(وزیر آغا)

شاعری اور نظریے کے انطباق کا مسئلہ ادب کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ اور ان دونوں میں غزل اور نظم کا کردار بھی منفرد رہا ہے اور مزاج بھی۔ غزل جہاں ایک طرف اپنی ہےئت اور ساخت کی پابندی کی وجہ سے شاعر کو ردیف و قافیے کی مجبوری کے ذریعے لاشعوری طور پر اپنے طے شدہ راستوں پر چلنے کے لیے مجبور کرتی ہے وہیں نظم کا فارمیٹ نظریے کی تبلیغ اور اظہار کے لیے بہت مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ نظم میں شاعر اپنے خیال کو قافیے کے سانچے میں ڈھالنے پر مجبور نہیں ہوتا۔مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو غزل میں اکثر شاعر نہ چاہتے ہوئے بھی دومختلف خیالات کو پناہ دینے کا مرتکب ہوجاتا ہے اور نظم اس کے برعکس شاعر کو ایک دشتِ بے کنار کی طرح تب تک چلتے رہنے کی اجازت دیتی ہے جب تک شاعر کا موقف واضح نہ ہوجائے ، اس کی بات پوری نہ ہوجائے۔غزل کا ہر شعر بجائے خود ایک غزل ہے جبکہ نظم کی منجملہ لفظیات ایک شعر کی حیثیت رکھتی ہیں۔صاف لفظوں میں کہا جائے تو وہ شعر جو غزل میں ردیف اور قافیے کی مجبوری کے سبب اپنی بات پوری نہ کرپایا ہو اس کے لیے نظم کی بے پناہ وسعت کسی غیر مترقبہ نعمت سے کم نہیں اور شاعر یہی کرتا بھی ہے۔ غزل کا شعر تب کامیاب ہوتا ہے جب اس کی کم سخنی میں شاعر کی تمام تر قوتِ گویائی کاسلیقہ سماجائے اور نظم تب کامیاب ہوتی ہے جب اپنی وسعت کی گرانی کے باوجود وہ نظریے کی رسائی میں کامیاب ہوگئی ہو۔اردو میں نظم کا سلیقہ ابتدا سے موجود تھا، غزل ہماری روایت کی پاسدار صنف ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایسی کامیاب صنفِ سخن کی نظیر دنیا کے کسی اور ادب میں موجود نہیں ہے۔نظریہ شعر کے لیے ضروری ہے پھر چاہیں وہ غزل کا شعر ہو یا نظم کا ۔شعر بغیر نظریے کے کامیاب نہیں ہے ۔شاعر اپنے نظریے کی توضیح کے لیے رمز و کنایے سے کام لیتا ہے، استعارے کا سہارا لیتا ہے، صنائع کے سرسبز میدانوں کی سیر کرتا ہے اور مضمون آفرینی اور معنی آفرینی کے نئے سے نئے بت تراشتا ہے۔مگر کیا یہ سب لاشعوری طور پر ہوتا ہے؟ کیا شاعر سچ میں خدا کی جانب سے ٹھیک پیغمبروں اور ولیوں کی طرح زمین پر اتارے جاتے ہیں؟ کیا سچ میں سینۂ فطرت کا راز جاننے کی صلاحیت شاعرکا ہی خاصہ ہے؟ کیا اپنی کامیابی اور ناکامی کے درپردہ شاعر کے ذہنی مزاج، سازشی اقدامات یا بے رخی کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا؟ کیا شاعری میں نظریات کی تفرقہ اندازی بھی لوحِ محفوظ پر کندہ کی گئی ہے؟ یہ تمام سوال یونہی میرے ذہن میں نہیں آئے ہیں کہ میں انہیں بے ساختہ ضابطۂ تحریر میں لے آیا ہوں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان سوالوں کے جواب کیسے حاصل کیے جائیں؟ ان پر گرما گرم بحثیں کروائی جائیں۔ ان کے جواب کے لیے عالمی ادب سے مثالیں ڈھونڈی جائیں اور سب سے اہم سوال جو میرے درِذہن کو اپنی دستک سے لہو لہان کیے رہتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا نظریے کے بغیر شاعری کا وجود ممکن ہے؟ میں نے اوپر جو دو اقتباسات دیے ہیں ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ میں آپ کو یہ بتا سکوں کہ فیض کی شاعری جس صدی کی ترجمانی کے لیے ناکافی ہے اس میں فیض کو اسے صدی شخصیت کہنا کیسے ممکن ہے۔میں راشد اور وزیر دونوں کا معاصر نہیں ہوں۔میں فیض کو ان سے پچاس سال بعد دیکھ اور پڑھ رہا ہوں اس لیے ظاہر ہے کہ دونوں کی بات سے اتفاق میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے نہ صرف فیض کی شاعری کا تفصیلی جائزہ لیا ہے بلکہ اس شاعری کے محرک واقعات کی تفصیل کو بھی تاریخ کی روشنی میں دیکھا ہے اور مجھے محسوس ہوا کہ فیض کی شاعری ایک نظریے کی گونج سے سہمی ہوئی شاعری ہے ، اس میں احساسات اگر ہیں بھی تو وہی گھسے پٹے ہیں جو ایک ناکام نظریے کے مقلد کے حصے میں آتے ہیں۔ وزیر آغا نے کلکِ قلم کویہ لکھتے لکھتے گھس دیا کہ فیض نے محض ’نقشِ فریادی‘ میں جو شاعری کی تھی وہ اسی کا تتبع کرتے رہے اور زندگی بھر اپنی اس نظریاتی شاعری سے پیچھا نہ چھڑا سکے جس نے انہیں فیض احمد فیض کے درجے پر فائز کیا تھا۔لیکن وہ یہ بھول گئے کہ فیض کا نظریہ مختلف ادوار میں تجربے کی ان دبیز تہوں میں لپٹتا چلا گیا جو ان کے عہد کا مقدر تھے، اول اول جو ہنگامہ آرائی ان کے قلم سے وجود میں آئی اس کے آئینے پر رفتہ رفتہ نومیدی اور مایوسی کی دھول جمنے لگی اور فیض کی شاعری نے کہیں دھیمی اور کہیں اونچی آواز میں اس ہار کو تسلیم کیا ، اس ناکامی کو قبول کیا۔ایک اہم سوال جو اس مقالے کا موضوع بھی ہے وہ یہ ہے کہ کیا فیض شاعرِ صدی ہیں؟ اور ظاہر ہے کہ اگر نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں اور اگر ہیں تو کیوں ہیں؟ یہاں ذرا موضوع سے ہٹ کر ایک بات کہنا چاہوں گا ، غالبؔ کو غالبؔ بنانے میں کیا محض غالب کی شاعری کا ہی ہاتھ تھا؟ نہیں بالکل نہیں۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو میرؔ کی موجودگی میں غالب کو کبھی آفاقی شاعری کے اس تختِ طاؤس پر نہیں بٹھایا جاتا جس کی حکمرانی دراصل میر کا حصہ تھی۔ ایک وہ وقت تھا جب ہمارے یہاں سے باقاعدہ مغربی ادب سے مرعوب اور بات بات پر عالمی ادب میں اپنے یہاں سے مثالیں دینے پر بغلیں جھانکنے والی قوم کو ایک ایسے شاعر کی تلاش تھی جسے عالمی ادب کے بازار میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا جائے۔ اس بات سے مفر نہیں کہ غالب کی شاعری میں اس نمائندگی کی صلاحیت تھی اسی وجہ سے ان کو اس منصب پر فائز کیا گیا۔ باقاعدگی سے غالب تنقید اور تحقیق کے دروازے کھولے گئے اور غالبیات کا عالیشان محل تعمیر کیا گیا۔مگر کیا میریات، غالبیات اور اقبالیات کے علاوہ فیضیات ایسا موضوع ہے جس میں ان تمام موضوعات کی طرح اتنی ہی وسعت ہو جسے ایک صدی کے غیر معمولی، آفاقی اور لافانی ادب کا اختصاص حاصل ہو؟میں فیض کے یہاں ایسی کوئی خاص بات محسوس نہیں کرتا ۔ یہ شاعری ٹھیک اسی طرح متاثر کرتی ہے جس طرح شاد عظیم آبادی، اختر شیرانی، عندلیب شادانی اور عبدالحمید عدم کی شاعری کا مطالعہ اپنی اثر انگیزی کے حصار میں لیتا ہے۔فیض کی شاعری کو ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت اس لیے بھی حاصل نہیں ہے کیونکہ ان کی شاعری میں محض مخاطب بدلا ہے، علامتیں اور استعارے نہیں بدلے۔ وہ غزل یا نظم کو ایسا کوئی نرالا اسلوب اور انوکھا طرزِ بیان دینے سے قاصر تھے جیسا اندازن۔م۔راشد اور ظفر اقبال کے حصے میں آیا تھا۔وجہ وہی تھی کہ خود کو ان روایتی علامتوں سے بچانا فیض کے بس کا روگ نہیں تھا۔ان سے کئی بہتر کوششیں مخدوم، مجاز اور جاں نثار اختر نے کی ہیں مگر زمانے کی دست برد سے ہنر کی نت نئی کوششیں بھی گزند کھائے بغیر نہیں رہتی ہیں اسی وجہ سے بہت سی نئی تاویلیں تاریخ کے سیہ غاروں میں گم ہوکر رہ گئیں اور دہلیز پر صرف فیض کا چراغ روشن ہوکر رہ گیا۔ مجروح سلطانپوری نے کہا تھا کہ ’فیض ترقی پسندوں کے میر تقی میر ہیں۔‘ میر تقی میر ماننا شاید مشکل ہو مگر میر ماننے سے انکار اس لیے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ فیض کی شاعری کو اس نقشِ قدم کی سی حیثیت حاصل ہے جس نے ترقی پسندی کی ڈگر پر اسے پہلے پہل ثبت کیا۔اور یہی فیض کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، مگر یہ کارنامہ اتنا اہم نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے فیض کو شاعرِ صدی کی مسند پر بٹھا دیا جائے کیونکہ یہ ایک غیر ارادی فعل ہے، اگر یہ کام فیض نہ کرتے تو ظاہر ہے مجروح کرتے، مجاز کرتے یا مخدوم کرتے۔اب آئیے اسی بات کی طرف جو میں نے اولاً کہی تھی کہ نظریہ شاعری کے لیے کیوں ضروری ہے اور فیض کی شاعری میں نظریے کا تجرباتی دور کس کشمکش، الجھن اور تنزل کا شکار ہے۔ ترقی پسندی کے نظریے کو لے کر ہم اکثر بھول میں رہتے ہیں کہ غمِ دوراں کو غمِ جاناں پر ترجیح دینے والی حقیقی شاعری فیض جیسے شاعروں کا ہی حصہ ہے۔حالانکہ غالب نے فیض سے کئی برسوں پہلے کہہ دیا تھا کہ 
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
یہ نظریہ مکمل طور پر نہ سہی مگر رجحان کے طور پر ہمارے شاعروں کے یہاں بہت پہلے سے موجود تھا۔ اردو میں ترقی پسندوں نے کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے جس سے ان کی حیثیت اگلوں سے مقدم ٹھہرے کیونکہ اردو ادب کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ولی، میر، سراج، یقین، غالب اور مومن وغیرہ نے بھی غمِ دنیا کوعنوان بنایا تھا اور یہ نشتر لہجہ دلوں کے پار اتر جانے کا ہنر جانتا تھا۔ کسی شاعر نے بہت پہلے کہا تھا کہ 
آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں
محنتیں خاک میں مل جاتی ہیں 
ظاہر ہے یہ شعرخواص کے اس عیاش طبقۂ حیات کے لیے نہیں کہا گیا ہے جس نے عیش کوشیوں میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی بلکہ اس افلاس زدہ، مجبور اور لیبر کلاس کے لیے یہ شعر کہا گیا ہے جس کی زندگی کا مقصد ہی صفحۂ ہستی سے رفتہ رفتہ نیست و نابود ہوجانا ہے۔ اس شعر میں آفاقیت ہے، آج بھی اسے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے گلوبلائزیشن اور صارفیت کے اس جانبدار عہد کے منہ پر ایک طمانچہ دے مارا ہے۔کلاسیک میں ایسے شعر وں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی ایسے شاعروں کی جن کو پڑھ کر ترقی پسندی کے اونچے اونچے ہنرمند بونے نظر آنے لگتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ صرف فیض صدی کیوں؟ یقین صدی کیوں نہیں؟ قائم صدی کیوں نہیں اور سب سے بڑھ کر میر صدی کیوں نہیں؟ اس بات کے تعین کے لیے کہ آیا فیض کی شاعری اس صدی کی سب سے ممتاز شاعری ہے یا نہیں، شاعری کا بھرپور جائزہ لینا ضروری ہے۔ فیض نے نقشِ فریادی سے شامِ شہریاراں تک کے سفر میں اردو ادب کو چھ مجموعوں سے نوازا ہے۔ ان کی شاعری ابتدا میں جس تپاک سے قاری کے گلے لگتی ہے اس کے لمس کااحساس آخری شعر تک باقی رہتا ہے۔ فیض نے ابتدا میں جس optimistکا رویہ اختیار کیا تھا اس نے انہیں سنہرے مستقبل کے خوابوں کا ایک خزانہ دے دیا تھا اور اس خزانے کی چابی تھی وہ انتظار جو ان کے پیشروؤں کے حصے میں بھی آیا تھا۔اس جذبے کے لیے ضروری تھا اپنی فرسودہ روایات سے انحراف ، مگر روایت سے انحراف کا اعلان جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ہے اس جذبے کے تسلسل کو قائم رکھنا۔ شاعرچونکہ حساس طبع ہوتا ہے اس لیے بات بات پر گزری امارتوں کو یاد کرنا اور تن آسانیوں کے راگ الاپنا اس کی مجبوری ہوتی ہے، وہ اپنی روایت کی جڑوں سے کٹ جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ شاعر معاشرے میں اس سخت کوش کی مانند ہے جو اپنے آپ کو بدلنے کی ہزار ہا کوششیں کرتا ہے مگر اس کی اپنی طبیعت اسے بدلنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔غزل میں تو اس مجبوری کا احساس اتنا زیادہ نہیں ہوتا کیونکہ وہاں شاعر اپنے طور پر مضامین باندھنے کے لیے آزاد ہوتا ہے اور قافیے کی مجبوری کبھی کبھی اس کے حق میں فائدے مند ثابت ہوتی ہے، لیکن نظم میں جب کسی موضوع کو روانی کے ساتھ نبھانے کا موقع شاعر کو فراہم ہوتا ہے تو اس کی شاعرانہ طبیعت موضوع کے ساتھ انصاف کا بھرپور تقاضہ کرتی ہے اور شاعر جتنا اپنے فن کے تئیں ایماندار ہوتا ہے اس کے یہاں موضوع کے ساتھ انصاف کا حق اتنی مضبوطی سے نبھایا جاتا ہے۔ فیض غزل میں اگر زیادہ کامیاب ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ غزل ، نظم سے زیادہ بہتر لکھ لیتے ہیں بلکہ یہ کامیابی اس لیے ممکن ہوئی ہے کیونکہ غزل ان کو محبوب کی روایتی قصیدہ خوانی کے مکمل مواقع فراہم کراتی ہے، پھر غزل پر کسی طرح کا بہتان بھی نہیں لگ سکتا۔ شعر تو شعر ہے اس کی وسعت خدا معلوم ہے، نہ جانے کتنے معنی ہے جو فی بطن شاعر ہیں اور کتنے معنی ہیں جو ناقدین کے ہاتھ لگ سکے ہیں۔ غزل کا ہر شعر اس معاملے میں دھوکہ دیتا ہے، سادہ الفاظ میں ملبوس اشعار کی تہہ تک پہنچنے کے لیے جو ناقدین تحت الثریٰ کی سیر کر آتے ہیں ، اکثر ان کے معنی سطح پر تیر رہے ہوتے ہیں۔غزل لفظوں میں الجھانے کا کام زیادہ کرتی ہے، کیونکہ لاشعوری طور پر قاری یا سامع استعارے ، کنایے، تشبیہ وغیرہ کے سہارے معنی تک پہنچنا چاہتا ہے اس لیے وہ شعر کو مختلف تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ، اگر کوئی نکتہ ذہن میں سما گیا تو کیا خوب ورنہ ناقد آئیں بائیں شائیں بک کر بھی اپنا کام چلا سکتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ شعر کی تشریحات میں زیادہ تر اسی طرح کام لیا جاتا رہا ہے مگر غزل کے لیے تنقید کی اس کمزوری کو ہی نام نہاد ناقدین نے اپنی سب سے بڑی طاقت بنا لیا ہے۔ہمارے یہاں واضح تنقیدات کا کلچر فروغ نہیں پاتا، میں ادب میں اسی تنقید کا طرفدار ہوں جہاں کلکتہ شہر میں ایک طرف اسداﷲ خاں غالب شعر پڑھ رہے ہوں، دوسری جانب شاگردانِ قتیل برسرِ مشاعرہ سوال کررہے ہوں کہ فلاں ترکیب کا جواز کیا ہے؟ فلاں محاورہ غلط استعمال ہوا ہے، اصل یوں ہے اور اہلِ زبان تو یوں کہتے ہیں۔مگر یہ طریقۂ تنقید علم سے حاصل ہوتا ہے اور علم کا چلن ندارد ہے تو صاحب ایسے میں کون فیصلہ کرے گا کہ فیض کے یہاں کون سی شاعری اچھی ہے اور کیوں ہے اور کون سی شاعری ،زبان، بلاغت اور ادب کے دائرے سے خارج ہے۔آج جو ہمارے یہاں یہ فیض تقریبات کا سلسلہ قائم کیا گیا ہے۔ بات بات پر یافیض کہنے والی اس جماعت سے پوچھیے کہ یہ شورو غوغا کیوں تو ایک ساتھ دس آوازیں آئیں گی کہ فیض کے ساتھ ہمارا جذباتی رشتہ ہے،فیض عظیم شاعر ہیں، فیض کی نظم ملاقات ایک آفاقی نظم ہے، فیض مزدوروں کے شاعر ہیں، فیض نے استعاروں کو نئے معنی دیے ہیں، علامتوں کو نئے ملبوس پہنائے ہیں یا سب سے بڑھ کر یہ کہ فیض کی شاعری ترقی پسندوں میں سب سے بہتر شاعری ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ فیض کا اگر ہمارے ساتھ کوئی جذباتی رشتہ ہے بھی تو کیا شاعری کے فیصلے محض جذبات سے ہوجاتے ہیں۔ فرض کیجیے میرا کوئی عزیز دوست شاعر ہے اور اس سے میرا گہرا جذباتی رشتہ بھی ہو ، اس کے یہاں شاعری میں وہی اصنام پرستی کے قصے ہیں، ہجرووصال کی باتیں ہیں، محبوب کی ستم پروری ہے، عاشق کی مظلومیت ہے۔ تو کیا میں اسے سب سے زیادہ اہم شاعر ماننے لگوں؟ کیا میرے کہنے سے کوئی یہ مان لے گا کہ میرا دوست اردو ادب میں اس صدی کا سب سے عظیم شاعر ہے۔ پھر بات عظمت پر آئی ہے تو عظیم شاعر کے اوصاف پر سوال کھڑا ہوتا ہے۔عظیم شاعر تو وہ ہے جو کسی گھسے پٹے نظریے کا خواہ مخواہ اسیر ہو کر نہ رہ جائے ، جس کے یہاں مشاہدے کی گہری چھاپ ہو، جو حق کے لیے اپنی جڑوں کو چھوڑنے کا روادار ہو، عظیم وہ ہے جس کی بات تجربے کی بنیاد پر کہی گئی ہو، جس کے اشعار کی اثر انگیزی زمان و مکان کی قید سے ماورا ہو، جس کی فکر آفاقی قدروں کی ترجمان ہو، جسے پڑھتے یا سنتے ہوئے محض رجزیے کا احساس نہ ہو، جس کی شاعری فقط الم کی روداد نہ ہو، جو فکر کو وقت کے ساتھ نیا ملبوس بخشتا ہو، جس کی آواز توانا ہو، جسے خود پر مکمل بھروسہ ہو، جو تقلید کا قائل نہ ہو بلکہ اپنے لیے اک نئی راہ نکالنا جانتا ہو، جو موحد ہو، مجتہد ہو اور منفرد ہو۔ایسا نہیں ہے کہ فیض ان خصوصیات سے بالکل عاری ہیں، ان کی شاعرانہ عظمت مسلم ہے مگر وہ ایسی نہیں ہے کہ ان کے ہم عصر اس کی خاکِ پا تک نہ پہنچے ہوں، میں فیض کے یہاں غزل میں نظم سے زیادہ قوتِ ترسیل پاتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ فیض احمد فیض غزل کی شاعری میں ایک بڑے نام کے طور پر ضرور یاد رکھے جائیں گے، میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ ان کی نظمیں تاثیر سے بالکل عاری ہیں مگر غزل ان کے یہاں زود اثر ہے۔یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ مارکسی نظریے کے حامل تھے مگر فیض کی غزل کا کمال یہ ہے کہ اس نے خودکو نظریے کی اس سخت گرفت سے آزاد رکھا ہے جس سے سردار جعفری کی غزل محفوظ نہ رہ سکی۔فیض کے یہاں غزل کی نفسیات کو سمجھنے کا ہنر اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔انہوں نے دیوارِ غزل پر الفا ظ کے جو پیکر چسپاں کیے ہیں ، وہ اپنی دلکشی اور خوبصورتی سے دلوں میں گھر کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔فیض کی غزل نظریے کے دائرے میں محدود ہوکر سہمی، سسکتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہاں اسے اپنے پروں کو کھول کر معنی کے نئے آسمانوں میں اڑنے کا طریقہ آتا ہے۔ایک ذرا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ فیض نے جس طرح پرانے علائم کو نئے سانچے میں ڈھالا، اس سے ان کے یہاں طنز کا پہلو زیادہ نمایاں ہوا ہے۔اکثریہ طنز لطیف ہوتا ہے مگر کہیں کہیں سخت بھی ہوجاتا ہے۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

لو سنی گئی ہماری یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے، وہی فصلِ گل کا ماتم

گلے میں تنگ ترے حرفِ لطف کی بانہیں
پسِ خیال کہیں ساعتِ سفر کا پیام
طنز کی کیفیت سے شاید ہی اردو کا کوئی شاعر بچا ہوگامگر فیض جب حرفِ لطف سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تو پڑھنے والے پر اس کے پسِ پشت اسباب آپ ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ کیفیت آفاقی ہے، ایسا نہیں ہے کہ صرف بھوک، افلاس، بے روزگاری یا مجبورئ حالات ہی انسان کو محبت سے بیزار کردیتی ہے۔ انسان اس کیفیت کا شکار ان حالات میں بھی ہوسکتا ہے جب اسے پے بہ پے رشتوں کی طرف سے چوٹیں ملی ہوں اور اس بات نے اسے اتنا پریکٹیکل بنادیا ہو کہ وہ کسی بھی رشتے کی چھاؤں میں دم لینے کو تیار نہ ہو اور بقولِ فیض منزل پر ہی ڈیرے ڈالنے کی یہ خواہش اسے مستقل آگے بڑھاتی رہے پھر چاہیں ایک دن یہ خواہش اسے تاریک راہوں میں مار ہی کیوں نہ دے۔ اسی کیفیت کا شکار ہوکر کبھی ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ 
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
فیض ہی نہیں بلکہ تمام ترقی پسندوں کے ساتھ یہ المیہ بھی رہا ہے کہ ان کی شاعری کو محض ایک مخصوص نظریے کے آئینے میں ہی دیکھا جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اس طریقۂ تنقید کو بھی خود ترقی پسندوں نے ہی فروغ دیا تھا مگر ہمیں اس سے بچنا چاہیے۔ فیض نے غزل کے میدان میں شروع سے آخر تک ایسے اشعار کی کہکشاں تیار کی جن کی چمک سے آنے والے زمانوں کے اذہان بھی منور ہوتے رہیں۔وہ غزل میں امید کے دیے بجھنے نہیں دینا چاہتے ان کا رویہ نقشِ فریادی سے شامِ شہر یاراں تک غزل کے لیے نہیں تبدیل ہوتا، وہ غزل کی تراش میں ایسی احتیاط سے کام لیتے ہیں کہ اس کا روایتی چہرہ خراب نہ ہونے پائے۔مگر وہ غزل میں زبان کے چٹخارے سے زیادہ معنی آفرینی کے عوامل پر توجہ دیتے ہیں اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس کی ایک اہم وجہ ان کا اقبال سے متاثر ہونا بھی ہے، کہیں کہیں تو اقبال کی یہ تقلید ان کی نظموں میں بھی بہت صاف محسوس کی جاسکتی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ نظموں میں فیض کی اس تقلید کی صورت بہت اچھی نہیں ہے وہ اقبال کی ’طارق کی دعا‘ جیسی عظیم اور مضبوط لب و لہجے کی نظم کے فارمیٹ میں جب ’کتے ‘ جیسی نظم لکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ یہاں فیض اپنی صلاحیت سے وہ کام نہ لے سکے جو انہیں لینا چاہیے تھا۔خیر بات ہورہی تھی اقبال کی تقلید کی ، میں اپنے بیان کی تائید میں فیض کے چند اشعار پیش کرنا چاہوں گا۔ملاحظہ ہو
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

ہمیں نے روک لیا پنجۂ جنوں ورنہ
ہمیں اسیر یہ کوتہ کمند کیا کرتے

نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب زیانِ چمن
کھلے نہ پھول، اسے انتظام کہتے ہیں

اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کرچکے ہیں ہم
دراصل فیض نے انقلاب کی جو روش اپنائی تھی اس میں وہ لفظوں کی گھن گرج سے زیادہ اس اعلانیہ رویے کو اپنانا چاہتے تھے جس کی نہریں دریائے اقبال سے جاری ہوتی ہیں۔اپنی خدمات جتانا، تکلیفوں، پریشانیوں کے نوحے پڑھنا، یقین اور ثابت قدمی کے دعوے کرنا یہ تمام باتیں اقبال سے زیادہ اور کسی کے یہاں کامیابی سے نہیں کی گئی تھیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تقلید کے باوجود فیض کا اقبال سے کوئی مقابلہ نہیں ہے کیونکہ دونوں کے انقلاب کا میدان الگ ہے،ایک کے یہاں اپنی اوریجنل آواز ہے ، دوسرے کے یہاں اس کی نقل ہے۔البتہ فیض نے پھر بھی نقل سے اصل تک کے سفر کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔انہوں نے اس نئے اور پرجوش آہنگ سے سیدھی طرح کام نہیں لیا بلکہ غزل کی اسی بندھی ٹکی لفظیات سے اس کا رشتہ جوڑا کہ نتیجے میں لفظ و معنی کی ایک نئی دنیا نظروں کے سامنے نمایاں ہوگئی۔فیض کے اشعار زباں زدِ خاص و عام ہوئے، یہاں تک کہ ان کی کچھ نظموں ’رقیب سے‘، ’ملاقات‘، تنہائی‘ اور ’موضوعِ سخن‘ نے بھی اسی آمیزے کا سہارا لیا۔فیض احتجاج کے شاعر ہیں،جب ماحول پر احتجاج کا کوئی خاص اثر نہیں دیکھتے تو وہ مایوس ہوتے ہیں، پھر یقین کا جذبہ ان کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے اور وہ تازہ دم ہوجاتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ نومیدی اور مایوسی کا یہ جذبہ فیض کے یہاں غزل کے بجائے نظم میں زیادہ ہے جس کا اظہار ان کے دوسرے مجموعے ’دستِ صبا‘ سے ہی ہونے لگتا ہے۔ پھر ’زنداں نامہ‘ ، ’دستِ تہہِ سنگ‘، ’سرِ وادئ سینا‘ اور ’شامِ شہرِ یاراں‘ میں مایوسی کا یہ گراف بڑھتا جاتا ہے اور ان کی نظموں کے عنوان تاریکی کے نئے فسانے سنانے لگتے ہیں۔’صبحِ آزادی‘، ’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘، ’زنداں کی ایک صبح‘، ’واسوخت‘، ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘، ’شام‘، ’ تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں’، ’ کہاں جاؤ گے‘،’یہاں سے شہر کو دیکھو‘، ’دعا‘،’فرشِ نومیدئ دیدار‘، ’ ہم تو مجبور تھے اس دل سے‘ اور ’درِ امید کے دریوزہ گر‘وغیرہ اس مایوسی کی بڑی مثالیں ہیں۔اپنی ایک نظم ’یہ فصل امیدوں کی ہمدم‘ میں وہ کہتے ہیں کہ ’’سب کاٹ دو؍بسمل پودوں کو؍بے آب سسکتے مت چھوڑو؍سب نوچ لو؍بیکل پھولوں کو؍شاخوں پہ بلکتے مت چھوڑو؍یہ فصل امیدوں کی ہمدم؍اس بار بھی غارت جائے گی؍سب محنت، صبحوں شاموں کی؍اب کے بھی اکارت جائے گی‘‘دیکھا جائے تو یہ رویہ مارکسزم کے اس پریقین اور پرجوش جذبے کے برخلاف تھا جس نے مانگنے سے حق نہ ملنے پر اسے چھین لینے کی تلقین کی تھی مگر فیض جس ماحول میں جی رہے تھے وہاں سرمایہ داری اور دیوِ استبدادکے سامنے سر جھکانے کی مجبوری نے انہیں یہ سب کہنے پر مجبور کردیاشاید اسی سبب سے نظم میں فیض کی شاعری فکری ایہام کے بجائے ابہام کا شکار زیادہ دکھائی دیتی ہے، ان کے یہاں یہ عیب صرف اپنی بات کہہ دینے کی خواہش کے عمل نے پیدا کیا ہے، فکر میں حقیقت پسندی نہیں ہے اور یہ عمل تخلیق کے بنیادی پیکر کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہے، نظم اس کی خاص شکار نظر آتی ہے اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔مگر اس سے پہلے یہ بھی سن لیجیے کہ فیض نے شعوری طور پر اس علامت نگاری میں ترمیم یا انقلاب کی کوئی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کے یہاں یہ بے ربطی فکر کے کمزور ڈھانچے کی عقدہ کشائی کرتی ہے۔ایسی شاعری میں نقالی یا Imitationکے اس بنیادی تصور پر بھی ضرب پڑتی ہے جو ارسطو کے ذریعے ہم پر ادب کی پہلی تعریف کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ فیض کہتے ہیں
یہ مظلوم مخلوق اگر سر اُٹھائے 
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبالیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے
(نظم’’کتے‘‘نقشِ فریادی)
مندرجہ بالا نظم فیض کی مشہورِ زمانہ نظم ’کتے ‘ ہے جس میں وہ کتے کو غریب ، بے کس، مجبور، افلاس زدہ اور سرمایہ داری نظام کی چکی میں پسنے والے فرد کا استعارہ بناتے ہیں مگر نظم کے اس حصے تک آتے آتے فیض زبانی اعتبار سے اپنی بات کو تنگنائے نظم کی نذر کردیتے ہیں۔جب شاعر کتوں کی کریہہ آوازوں کے شورکو مزدوروں کے جائز اور بلند بانگ نعروں سے تعبیر کرے تو حقیقی شاعری کا آئینہ مضروب ہوتا ہے۔ پھر جو محاورے فیض نے استعمال کیے ہیں ان کااستعمال تفہیم کے عمل کے دوران سراب صفت معلوم ہوتا ہے ۔ سراُٹھانے سے فیض نے ہزار بغاوت کے پیکر تراشنے کی کوشش کی ہو مگر اس سے ذہن میں تفخر، شان و شوکت اور عزت و تکریم سے جینے کا خیال بھی پیدا ہوتا ہے ۔ دوسرے شعر کا پہلا مصرع پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ محبت سے دنیا کو اپنا بنانے کی صفت کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر دوسرا مصرع کرخت، زشت بیانی ،لوٹ ، کہرام، مارپیٹ اور فساد جیسے انتشاری عناصر کی تصویر کشی کرتا ہے۔کتے کی دم ہلادینے سے حس پیدا کردینا ہی کیوں نہ مقصود ہو مگر کتے کی دُم ہلنا وفاداری کی علامت بھی ہے، کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے سے تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نادار لوگ ادب کرنا بھول چکے ہیں اس لیے ان کی دم ہلا کر زبردستی انہیں ان کی فطری وفاداری یاد دلائی جائے۔اسی طرح فیض ایک اور نظم میں کہتے ہیں ۔
ایک افسردہ شاہراہ ہے دراز
دور افق پر نظر جمائے ہوئے
سرد مٹی پہ اپنے سینے کے
سرمگیں حسن کو بچھائے ہوئے
جس طرح کوئی غمزدہ عورت
اپنے ویراں کدے میں محوِ خیال
وصلِ محبوب کے تصور میں
موبمو چور، عضو عضو نڈھال
(نظم ’شاہراہ‘نقشِ فریادی) 
فیض نے اس نظم میں جس افسردہ شاہراہ کو غمزدہ عورت سے تشبیہ دی ہے، داخلی طور پر یہاں بھی نظم میں وہی مارکسی تفکر کارفرما ہے جس نے ’وصلِ محبوب کا وہ بنیادی تصور ‘ پیدا کیا ہے ‘ جس سے عورت عضوعضو نڈھال اور مو بمو چور ہوئی جارہی ہے۔علمی پیرائے میں اس کی تشریح کیجیے تو وہی پرانا راگ الاپنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے گا کہ اس نظم کی وسعت بھی لے دے کر وہیں تک محدود ہے جہاں غمزدہ عورت ان لٹے پٹے لوگوں کی متبادل ہے جو صرف کامیابی اور ہمکنارئ منزل کی تمنا میں اپنی عمریں بتادیتے ہیں، شاہراہ کی افسردگی ثابت کرتی ہے کہ افق کی دوری اس کی تقدیر کا حصہ بن چکی ہے مگر نظریں ہیں کہ وہاں سے ہٹتی نہیں۔’سردمٹی‘ دراصل اس جمود کا استعارہ ہے جو فکری ہیجان پیدا کرنے کے عمل سے قاصر ہے اور مزدور طبقے کے لیے یہی مسئلہ سب سے اہم ہے جس سے وہ روبرو ہونا نہیں چاہتا ۔ نظم کا پیرایہ افسردہ، دراز، دور، سرد، غمزدہ، ویراں کدے، چور اور نڈھال جیسی لفظیات سے اتنا بوجھل ہوجاتا ہے کہ اس مختصر سی نظم میں شاعر کا تصور انقلاب کے بجائے یاسیت ، محرومی اور تردد زدہ معلوم ہوتا ہے۔نظم اپنی تشکیل کے دوران ہی ایسے بصری پیکر تیار کرلیتی ہے جس سے دنیائے حیات میں سب سے زیادہ سرگرمِ عمل طبقہ ایسی زنجیروں سے بندھا نظر آتا ہے جس پر نہ کسی رجزیے کا اثر ہونا ہے نہ المیے کا۔میں نے پہلے ہی اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ فیض احمد فیض کی شاعری ان کے مجموعوں میں بالترتیب نومیدی کا شکار ہوئی ہے۔شاعر جس سماج کا فرد ہوتا ہے وہاں کی بوسیدہ اور غلط روایات سے لڑنے کے لیے تحریک دینا اس کا فرض اولین ہوتا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اردومیں اس طرح کی شاعری کا چلن صرف فیض کی شاعری سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے بھی کارآمد شاعری اور انقلابی شاعری کے آوازے بلند ہوچکے تھے اور کامیاب بھی رہے تھے، مگر نظریاتی شاعری کی سب سے بڑی کمزوری اس کی یک موضوعی صفت بھی ہے۔فیض بھی اسی یک موضوعی صفت کے دام میں آگئے مگر ان کے یہاں انقلاب کی گونج ، ہڑتال، نعروں، جلوسوں ، پتھراؤ اور مفسدہ پردازی کی مدد سے گرجدار بنائی گئی۔ انقلاب کی روش غلط ہو نہ ہو مگر طریقۂ انقلاب کی سمت ضرور غلط تھی، جس وجہ سے عدم تشدد کے نظریے کے ساتھ ساتھ اپنے حق بجانب ہونے کے یقین پر بھی کاری ضرب پڑتی تھی۔شخصی آزادی کا مسئلہ، بھوک کی تڑپ اور گندی نالیوں میں بسیرے کو دیکھنے والے فیض اس طرح کی تحریک کے لیے کمر بستگی کا سامان تو فراہم کردیتے ہیں مگر اس کے نتائج پر غور وخوض نہیں کرتے جس کی وجہ سے سماج میں فرد کے ارتقا کی صحیح راہیں مسدود بھی ہوسکتی ہیں۔فیض سرمایہ داری اور جمہوریت کے اس افتراق کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں جس میں حق آزادئ رائے کا امتیاز نمایاں ہے ،نتیجتاً فیض کو معلوم ہوہی جاتا ہے کہ جہاں ان کے نظمیں ہاتھوں ہاتھ لی جارہی ہیں ، لوگ گلی کوچوں میں نظمیں گار ہے ہیں، لیڈران تقاریر میں اور شدت پسند اپنی تحاریر میں اثر انگیزی کے لیے ان کے بند استعمال کررہے ہیں اورجہاں ایک مخصوص نظریے نے فیض کو ایسی چیختی ہوئی نظمیں لکھنے پر کاربند کیا، جب فیض غور سے اسی سماج کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ مارکسیت کے اس طریقۂ انقلاب سے خود بھی گھبراجاتے ہیں اور دائرۂ یاس میں سمٹ کررہ جاتے ہیں۔ان کی نظموں کی گھن گرج اس بات کو فراموش کردیتی ہے کہ سماج افراد کے ذریعے تشکیل پاتا ہے اور جس سماج میں جیسے افراد ہونگے ، سماج کی تصویر بھی وہی ہوگی، برصغیرہند میں سبز انقلاب کی لہر لانے والوں کے خواہش مند ادیب و شاعر بھول جاتے ہیں کہ رشوت خورافسران، غیرذمہ دار حکمران اور اسفل سیاسی لیڈران کہیں اور سے نہیں آئے ہیں بلکہ اسی سماج اور انہی لوگوں کا حصہ ہیں جنہوں نے اپنی آسائشوں کے لیے ، آسان راہیں تلاش کرنے کی خاطر ایک سماج میں اس سسٹم کو فروغ دیا ہے جو انہی کا خون چوسنے کے درپے ہے۔فرض شناسی سے جو لوگ آگاہ ہیں یہ سسٹم انہیں بھی بدل دیتا ہے کیونکہ بہتات ایسے ہی افراد کی ہے جو خود بدلنا نہیں چاہتے اگر ایسے میں کوئی انقلاب آ بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ موجودہ حکمرانوں کی جگہ کچھ دوسرے لوگ لے لیں گے، اول اول قسمیں کھائی جائیں گی، قول و قرار کی باتیں ہونگی مگر سسٹم کا خمیر جن لوگوں سے بنا ہے وہ اپنی فطرت سے کہاں باز آنے والے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ اس بات کو فیض نہیں سمجھتے اسی لیے تو 1947میں آزادی جیسی نعمت حاصل ہوجانے پر بھی ان کی رائے یہی ہے کہ 
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثرہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سررہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانئ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدۂ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
(نظم’صبحِ آزادی‘دستِ صبا)
وزیر آغا کی وہ بات جو میں نے شروع میں نقل کی ہے اس کے استرداد کی پہلی کڑی فیض کی یہی نظم ہے۔فیض ہرگز جمود کے شاعر نہیں ، چونکہ وہ شاعر ہیں اس لیے مشاہدے پر بھی مجبور ہیں، دنیا کے ظلم وستم، ناروائیاں اور ہنگامیہ آرائیاں ان کی نظر میں ہیں ، ایک طرف وہ قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں، ہیومنزم کے لیے کلفتیں اُٹھاتے ہیں اور اول اول اسی سخت کوشی کو ترقی کی بنیاد سمجھ لیتے ہیں اور زباں پہ مہر لگنے کے باوجود ہرایک حلقۂ زنجیر میں زباں رکھ دینے کے ہنر میں طاق ہونے کو اولیت دیتے ہیں۔مگر اس زندانی ولولے کا اختتام دیکھیے کس طرح ہوتا ہے، بقولِ فیض
سر پٹکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی
گوپا پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمنِ جاں
سنگ و فولاد سے ڈھالے ہوئے جناتِ گراں
جن کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں
میرے بیکار شب و روز کی نازک پریاں
اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہی ہیں یہ اسیر
جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر
(نظم’زنداں کی ایک صبح‘ دستِ صبا)
اس انتظار نے فیض کے یہاں ابدیت کامقام حاصل کرلیا اور بیشتر نظموں میں ان کے یہاں ایسی لفظیات ہی استعمال ہوئی ہے جو مایوسی کی ایسی فضا تیار کرتی ہے جس سے خود کو آزاد کرپانا شاعر کے بس سے باہر ہے۔لبرل ازم کی حمایت فیض کو ان قریوں میں تو لے آئی جہاں تعفن آمیز نالوں میں زہریلے جراثیم کی پرورش ہوتی ہے، دھواں اگلتی چمنیاں محنتی لوگوں کے ہاتھوں پر چند سکے اور ماتھوں پر کالک پوت دیتی ہیں۔شراب، گالی گلوچ، مارپیٹ، ہو ہلڑ اور لوٹ کھسوٹ یہاں کی پتھریلی زمینوں میں کانٹے دار پودوں کی بو دیے گئے ہیں اور شاعر انہیں دیکھ کر ہراساں ہے، بے بس ہے، کبھی وہ صبح سویرے مشینوں میں پسنے کے لیے جانے والی اس قوم کو ایک ٹوٹے پھوٹے منبر پر کھڑے ہوکر خطاب کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی ان کی بے حسی اور ان سنی پر قلم کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہادیتا ہے۔اس نظامِ حیات کو بدلنے پر کوئی شے قادر نہیں ہے، ان خستہ کاموں کی تقدیر سیاست کی اس کال کوٹھری میں لکھی جاتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے ان کو علم کے روشن راستوں سے گزرنا پڑے گا مگر فیض جانتے ہیں کہ یہ روشن راستے اس قوم کو نہ تو نصیب ہیں اور نہ ہی یہ خود وہاں جانے کے لیے بے چین ہے،۔اس بات کا اعتراف فیض کے یہاں بہت صاف طور پر نظر آتا ہے۔
ٓآسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ ملے، ماتھے پہ سندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہوگا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہوگا
(نظم ’شام‘ دستِ تہہِ سنگ)
آگے جاکر اس نظم میں فیض ضرور مارکسی نظریے کو آسماں سے تعبیر کرتے ہوئے اس کھوکھلی آس کی بات ضرور کرتے ہیں جس کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں ہے مگر دامنِ وقت سے پیوستہ ہے یوں دامنِ شام میں جو بوجھل اور شکست زدہ اعتراف جھلکتاہے وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ترقی پسندی کے دعوے صرف نظموں کے عنوان بن جانے تک محدود نہیں ہیں اور نہ اس کے لیے حکومتِ وقت سے ٹکراکر چور ہوجانے کی ضرورت ہے بلکہ عمل اس کارگہہِ ہستی میں سب سے اہم کردار نبھانے والا مہرہ ہے جس کی اہمیت سے تمام ترقی پسند صرفِ نظر کرتے ہیں۔فیض جس انقلاب کی بات کرتے ہیں وہ ظاہری اتھل پتھل کو ذہن کی کارفرمائیوں پر سبقت دیتا ہے مگر اس انقلاب سے ترقی کی امید کی بہ نسبت تنزل کا اندیشہ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ظلم کے خلاف ظلم ہمیشہ تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلی لڑائی ہابیل اور قابیل نامی دو بھائیوں میں ہوئی تھی ، قابیل کا طرزِ شکایت غلط نہیں تھا مگر اس کے طریقۂ انقلاب نے اسے قاتل بنادیا، اس کی نظر میں ہابیل ہی غاصب تھا کہ وہ اس کی محبت سے دستبردار ہونے کے لیے راضی ہی نہیں تھا اور پھر خدانے بھی اسی کی نذر قبول کرکے اسے قابیل سے زیادہ ممتاز ، معتبر اور اہل ثابت کردیا، جس کے نتیجے میں قابیل کے دل میں حسد، جلن اور بدلے کے عناصر نے پرورش پائی اور نتیجتاً اس کے انقلابی رویے نے تباہی کا ایسا در کھولا کہ انسانیت انگشت بدنداں دیکھتی ہی رہ گئی۔اسی لیے جب فیض کہتے ہیں کہ
کس حرف پہ تونے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا



سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب نے ہم نے رقص آغاز کیا

بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر اس ہاتھ پہ سر، اس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر نظارۂ بامِ ناز کیا

جس خاک میں مل کر خاک ہوئے وہ سرمۂ چشمِ خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا ، ہم رنگِ گلِ طناز کیا
تو عجیب محسوس ہوتا ہے کہ شاعری کا کام انسان کو جارح بنانا نہیں ہے، شاعری علم اللسان میں وہ پہلا اور آخری علم ہے جو انسان کو امید کے نئے سے نئے در دکھاتا ہے، دلوں میں امنگ اور آنکھوں میں آنے والے سنہرے مستقبل کے خواب بوتا ہے، اس کے ذریعے مظلوموں کی آہ و بکا اور فریاد و زاریاں ضرور حکمرانِ وقت کے کانوں تک پہنچائی جانی چاہیے مگر اس کا ڈھب یہ ہو کہ کہنے والا حدِ ادب سے باہر نہ جائے ، بات بات پر جنگ و جدل اور خونریزیوں کی دھمکیاں نہ دے اور سننے والا غور وفکر کی تمام جہات کو خو د پر روشن کرلے ۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے یہاں کہنے سننے کے یہ دونوں طریقے رائج نہیں ہوسکے۔فیض کی بیشتر شاعری جس حصار میں مقید ہے اس سے سرخ لہو کی بو آتی ہے اوریہ بو کچھ ایسی موجِ بوئے گل کی صورت میں ہے جس سے پڑھنے یا سننے والے کی ناک میں دم آجائے۔دیکھا جائے توفیض کے بارے میں راشد کا نظریہ اولاً اتنا کمزور نہیں تھا جنتا بعد میں ثابت ہوا فیض کی شروعاتی شاعری پڑھ کر کہیں کہیں اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی سانس لینے کی گنجائشیں نکل ہی آتی ہیں، مگر یہ اتنی زیادہ نہیں ہیں کہ فیض کا قاری خود کو اس زنداں سے آزاد محسوس کرنے لگے جس کی تعمیر فیض کے یہاں موجود پتھریلی لفظیات کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔یہ روایتیں دم توڑ چکی ہیں، آج سیاست کے تاریک گھروندوں میں بھی علم کی روشنی پہنچ رہی ہے۔انقلاب اور انصاف کے نام پر لوگوں کو یرغمال بنانے کی مہم پر تف کہنے والوں کی کمی نہیں ہے، اپنے حق کی روشنی حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے گھروں کو تاریک کردینے کی تحریک ماند پڑرہی ہے۔ اس انقلابی ظلم کو بھی ظلم کی فہرست سے باہر نہیں کیا جاسکتا۔دنیا بھر میں کمیونزم کے نام پر پنپنے والے ظلم و جبر واستبداد کی سیاست اظہر من الشمس ہے۔بیداری کا بنیادی ثبوت علم کی پائداری ہے اور علم کا لایا ہوا انقلاب دور اندیش ہوتا ہے وہ بات بات پر پاےۂ تخت الٹنے کی گردان نہیں کرتا بلکہ اپنے سسٹم کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے مستقل کوشش کرتا ہے اور یہی کوشش اک ننھی کرن سے دمکتے ہوئے آفتاب میں تبدیل ہوجانے کا ہنر جانتی ہے۔ایسے ماحول میں کسی ایسے شاعر کو صدی شخصیت یا شاعر کہنا کہاں تک صحیح ہے جو اپنے نظریے کی اساس تک پر مظبوطی سے قائم نہ رہ سکا ہو اور اس کے دیوان میں جگہ جگہ مایوسی کے جالے لٹکتے ہوئے دیکھے جاسکیں۔***

مضمون نگار: تصنیف حیدر

فیض کی شاعری، ان کی لکھی گئی کتابیں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
http://rekhta.org/Poet/Faiz_Ahmed_Faiz

Saturday 16 November 2013

الفاظ کے کاپی رائٹ کا مسئلہ اور جدید دنیا کی تیسری آنکھ


دنیا اب ایک عالمی گاؤں کی صورت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔لاکھوں کروڑوں انسان اس وقت سائبر ورلڈ میں اپنی زبان اور اپنے لہجے میں بات کرتے ہوئے نظر آتے آتے ہیں۔ابتدا میں مشرق کی فرسودہ قوموں کو ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے انگریزوں کی یہ عالمی سازش پوری دنیا میں ان کے زبان کی تبلیغ اور ترقی کے لیے رچی گئی ہے مگر وقت کے گزرتے گزرتے ماہر لسانیات کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ لیفٹ ٹو رائٹ کی طرح رائٹ ٹو لیفٹ لکھی جانے والی زبانوں کے ارتقا میں بھی اس ’سازش ‘کا بڑا اہم رول ہے۔اردو کے حق میں بھی یہ معاملہ فال نیک رہا۔پچھلے دنوں جب انور سن رائے صاحب سے میری بات ہورہی تھی تو انہوں نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اردو ریڈرز کو بھی انٹرنیٹ پر کتابیں پڑھنے کی عادت ڈلوانے میں فیس بک کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اجمل کمال جیسے اردو کے بڑے ادیب، ناشر ، مترجم اور مدیر نے بھی فیس بک پر اپنے ایک کمنٹ میں کہا تھا کہ ’آج‘ کو آن لائن کردینا اردو والوں کے حق میں نہ صرف بہتر ہے بلکہ آنے والے عہد کے لیے فائدے مند بھی ہے، انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ عہد میں آج کو کاغذپر لانے کی ضرورت ہی انہیں محسوس نہ ہو اور وہ صرف اس کا آن لائن ایڈیشن شائع کریں۔خود انور سن رائے اس طرح کے پہلے شخص (میری نظر میں)ہیں جو کہ ریختہ کو بہت جلد اپنی ترجمہ کردہ ایسی کتابیں دے رہے ہیں جو کہ کبھی بھی پبلش نہیں ہوئی ہیں اور پہلی بار ان کا آن لائن ایڈیشن ہی شائع ہورہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کتابوں کو آن لائن کرنا اور ان کو قارئین کے سامنے لے کر آنا کیا مصنفین اور ناشرین کے حق میں مضر ہے یا ان کے حق میں ہے۔بدلتے وقت میں یہ سوچ رفتہ رفتہ اردوکے ماہرین کے یہاں بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ اردو زبان کے ارتقا میں فیس بک جیسی ویب سائٹ کا بہت اہم رول ہے۔فیس بک ایک ایسی جگہ ہے جہاں عالمی سطح کے پروگراموں کی تفصیلات، شعرا اور ادبا کی تخلیقات ، ان کے تنقیدی و تحقیقی مضامین اور دوسرے کئی ایسے ترجمے بھی شائع ہوتے رہتے ہیں جنہیں پڑھ کر لوگ ان پر کمنٹ کرتے ہیں اور وہ کمنٹس ایک اچھے خاصے آن لائن مذاکرے کا رخ اختیار کرلیتے ہیں۔فاسٹ فوڈ کے عہد میں آپ اس کمنٹ کلچر کو چاہے جتنا کوس لیں مگر کسی بھی اخبار، رسالے یا جریدے میں چھپنے کے بعد مہینے بھر کے انتظار کے بعد آپ کو شاید ادارے کی جانب سے چھ سات ایسے خطوط ملتے ہوں جن میں آپ کی تخلیق پر اچھی بری رائے موجود ہو۔پھر آپ اس کا جواب لکھیں اور وہ مہینے بھر بعد تب شائع ہو، جب ادارے کا مدیر اس کو شائع کرنا ضروری سمجھتا ہو۔فیس بک نے ایسی تمام بندشوں کو ختم کردیا۔فیس بک پر ہی حاشیہ جیسے فورم بھی قائم کیے گئے جن کے ذریعے ہر نئی نظم پر خوب بحث و مباحث ہوئے اور ان میں ساقی فاروقی،علی محمد فرشی، محمد حمید شاہد،نصیر احمد ناصر، اشعر نجمی، ظفر سید ، نسیم سید، ناصر عباس نیر، انوار فطرت، ابرار احمد، زاہد امروز، واجد علی سید اور معید رشیدی جیسے کئی اہم اور سنجیدہ افراد نے شرکت کی۔ان مذاکروں کو سینکڑوں افراد نے پڑھا اور پسند کیا،بعد ازاں یہ مذاکرے اثبات، نقاط اور تفہیم جیسے رسائل میں شائع بھی ہوئے۔اردو داں طبقے نے فیس بک کا جتنی گرم جوشی سے استقبال کیا ہے اس کو یقیناًاردو کی ارتقائی شکل ہی سمجھنا چاہیے،اس معاملے میں ترقی کاضامن انپیج کا وہ ورجن بھی ہے جس میں متن کو یونیکوڈ میں کنورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کا متن براہ راست انٹرنیٹ پر پیسٹ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح جمیل نوری نستعلیق اور کئی دوسرے اہم فونٹس کو اپنے کمپیوٹر میں انسٹال کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جانے لگی۔پہلے پہل ونڈوز میں اردو کو الگ سے انسٹال کرنے کی ضرورت ہوتی تھی مگر بعد ازاں زبان کی مقبولیت اور اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد کے پیش نظر ونڈوز نے اردو کو انبلٹ کردیا۔اب ایسے میں سوال یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں ریختہ جیسی ویب سائٹ اگر کتابوں کو آن لائن کرکے انہیں دنیا بھر کے اردو قارئین کو فراہم کرانا چاہتی ہے تو کیا یہ سوچ غلط ہے، کیا اس سے مصنفین اور ناشرین کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پرانی کتابوں کی بات تو ایک طرف رہی کہ انیس سو ساٹھ سے پہلے کی کتابیں کاپی رائٹ ایکٹ زمرے سے باہر ہیں اورآج کے دور میں جہاں دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں ڈیجٹل انقلاب آرہا ہے اور رفتہ رفتہ تمام کتابوں کو بڑی بڑی اردو لائبریریاں ڈیجیٹل صورت میں محفوظ کررہی ہیں تو اس کا مقصد صرف یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کتابوں کو ضائع کرنے سے بچالیا جائے اور وہ کتابیں کسی دھول کھائے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔کسی بھی زبان کی ترقی اس کی لفظی میراث پر نظر ثانی کرتے رہنے اور ان کے ذریعے اپنے مستقبل کو بہتر بناتے رہنے کی کوشش سے جڑی ہوئی ہے۔ریختہ جیسی کمپنی جو انجمن ترقی اردو ہند، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، آج کی کتابیں اور غالب انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کی مطبوعات کو آن لائن کرنے کا جتن کررہی ہے، کیا اتنا بھی نہیں جانتی کہ کتاب کو ہاتھ میں لے کر سردی کی دھوپ میں ٹہلتے ہوئے پڑھنے کا رومانس کیا ہوتا ہے اور اسے آن لائن کردینے سے مصنف کو کسی طور پر نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔کیا ان معاملات پر ان آوازوں نے پورے طور پر غور کرلیا ہے جو لفظ کو ہر جگہ چلا چلا کر بیچنے کے حق میں ہیں۔لفظ کسی پھیری والے کے ٹوکرے میں رکھے ہوئے بیر نہیں ہوتے جنہیں آواز لگا کر فروخت کیا جائے۔لفظ اپنی شناخت اپنے آپ ہوتے ہیں، وہ اس تصویر کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے سمجھنے والے کو اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کردے۔لفظ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔قیمت ہوتی ہے تو اس احساس کی جو لفظ کو ذہن و دل میں منتقل کرنے کے بعد وجود میں آتا ہے۔تخلیق کے کاروبار میں ملوث افراد آخر کیوں فیس بک پر اپنی تخلیقات لگا کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیگ کرنے کے حق میں رہتے ہیں ، اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اس تخلیقی عمل کا ردعمل کیسا ہو ضروردیکھا جائے۔لفظ ٹکڑوں میں لوگوں کے سامنے آئیں یا کتابی صورت میں ان کی اپنی انفرادیت پر کوئی سوال قائم ہوہی نہیں سکتا۔ساقی فاروقی کی جان محمد خان۔۔۔سفر آسان نہیں نظم ان کے کسی بھی مجموعے سے نکال کر کسی بھی مجموعے میں شامل کردی جائے، سور پر لکھی گئی ان کی مشہورزمانہ نظم کو ان کی کلیات سے نکال کر باقیات میں رکھ دیا جائے تو کیا اس کی اہمیت پر کوئی فرق آئے گا۔نظم ہو یا فقرہ ،شعر ہو سطر اس کی ہےئت ایک بوند کی سی ہے،وہ بوند جس کے بغیر سمندر ادھورا ہے، جو سمندر میں ضم ہوکر بھی اپنی شناخت نہیں کھوسکتی۔اردو کے ادبی سمندر میں بھی ایسی کئی بوندیں موجود ہیں۔آج ہمارے یہاں بیشتر شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے تعارف اور شناخت تک کے معاملے میں فیس بک اور ریختہ جیسی ویب سائٹس اہم کردار اداکررہی ہیں۔فیس بک پر لگایا جانے والا کسی کتاب کا اشتہار ہو یا ریختہ پر اپلوڈ کی جانے والی کوئی کتاب، اس سے مصنف یا ناشر کو نقصان نہیں پہنچتا، البتہ فائدہ ضرور حاصل ہوسکتا ہے۔اول تو اسے اپنی کتاب عالمی سطح پر دس جگہ پہنچانی نہیں پڑتی۔دوم فاصلے کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔شاعر، ادیب ،مترجم،یا ناقد کو پبلک ڈومین میں آنے کا موقع ملتا ہے، اس کی کتاب پر خبروں اور باتوں کے لیے عالمی سطح پر ایک گراؤنڈ تیار ہوتا ہے۔ریختہ نے خود ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید لکھنے والوں کی کتابوں کو آن لائن کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ریختہ نے ابھی تک تقریباً ہزار سے زائد کتابیں اسکین کرلی ہیں اور سات سو کتب کو آن لائن کردیا ہے۔اس معاملے میں گوگل کی پورے طور پر تقلید نہیں کی گئی ہے کیونکہ ریختہ جدید کتب کے معاملے میں مصنفین اور ناشرین سے اجازت لے کر ہی انہیں اپلوڈ کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہے جبکہ گوگل بکس پراجیکٹ میں اس کی بہ نسبت بغیر اجازت ہی کتابوں کو آن لائن کردیا جاتا ہے۔گوگل نے اس معاملے میں کچھ درجہ بندی کردی ہے، چنانچہ وہ بالکل تازہ کتابوں کو پورے طور پر آن لائن نہ کرکے ان کا کچھ حصہ لوگوں کے سامنے لے آتا ہے۔اوردوسرے زمروں میں موجود کتابوں کو پورے طور پرآن لائن کردیتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ وہ یہ کام مفادہ عامہ کے لیے کررہا ہے اس لیے اس پراجیکٹ کے لیے کسی بھی شخص سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔چنانچہ آتھرز گلڈ نے اس کے خلاف کیس دائر کیا، یہ کیس سن دو ہزار پانچ میں دائر کیا گیا تھا۔اور ایک تازہ خبر کے مطابق گوگل نے کتابوں کو اسکیننگ کرنے کے ایک بہت بڑے پراجیکٹ کے خلاف آتھرز گلڈ کی جانب سے دائر کیے گئے کیس کو جیت لیا ہے۔اس کیس کے آخر میں جج نے گوگل بکس کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اس پورے پراجیکٹ کو رائٹرز اور آتھرز کے لیے بھی مفید قراد دیا ہے۔اس مقدمے کے جج ڈینی چن کے مطابق گوگل بکس اسکیننگ پراجیکٹ کسی بھی طور پر کاپی رائٹ ایکٹ کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کتابوں کی فروخت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔
بلومبرگ نیوز کے مطابق گوگل بکس کے ذریعے کتابوں کو ڈیجٹائز کرکے یونیکوڈ میں ان کی فہرست سازی کروائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو مصنفین کے کاموں کو تلاش کرنے میں آسانی ہو۔چنانچہ ریاست متحدہ ہائے امریکہ کے ڈسٹرکٹ جج چن کا کہنا ہے کہ یہ کام خاص طور پر لائبریریوں کے لیے اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے لاکھوں کتابوں کو بڑی آسانی کے ساتھ تلاش کیا جاسکتا ہے۔چن کا بھی ماننا ہے کہ آن لائن بک سورس کسی بھی طرح کتاب کا متبادل نہیں ہوسکتاالبتہ اس کے ذریعے لوگ کتابوں کے بارے میں جانیں گے اور ان کی اہمیت میں اور اضافہ ہوگااور کتاب کی ریڈر شپ پر بھی اچھا خاصہ اثر پڑے 
گا۔چونکہ گوگل کتابوں کی اسکینڈ کاپی کو فروخت نہیں کرتا اس لیے اس پراجیکٹ کے ذریعے کتاب کے ناشر اور مصنف دونوں کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ کتاب عالمی سطح پر لوگوں کے سامنے آسکے گی۔
یہ قانون حالانکہ امریکہ میں پاس ہوا ہے، مگر اس کا اثر عالمی سطح پر ہونا چاہیے۔وقت کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اہمیت اور ان کے پڑھنے والوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔مادیت نے لوگوں کی مصروفیات میں اس قدر اضافہ کردیا ہے کہ کسی خالی آدمی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ کسی کتاب کے حصول کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہرتک کا بھی سفر کرسکے۔اسی لیے کتابوں کو آن لائن کرنے والی کمپنیز وجود میں آئی ہیں۔ریختہ نے خود اس معاملے میں اتنی اصول پسندی سے کام لیا ہے کہ وہ
۰کتابوں کو آن لائن کرنے کے لیے مصنفین سے اجازت طلب کرتی ہے۔
۰انہیں ڈاؤنلوڈ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
۰انہیں کاپی کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
۰کتاب کی تفصیلات فراہم کراتی ہے تاکہ دنیا میں کوئی بھی شخص آسانی کے ساتھ اس کی ہارڈ کاپی منگواسکے۔
۰کتاب دینے والے شخص کا جلی حروف میں شکریہ ادا کرتی ہے۔
۰کتابوں کو سرچ ایبل کرنے کے ساتھ ساتھ مواد کو تلاش کرنے کے لیے ٹیگنگ کے ذریعے اسکالرز کے لیے آسان بناتی ہے۔
آج پوری دنیا میں کتابوں کو آن لائن پیش کرنے کی اس کوشش میں کہیں نہ کہیں مصنفین اور ناشرین کو برابر کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کے رویے میں اضافہ ہورہا ہے۔زبانوں کی ترقی کہیں نہ کہیں کتابوں کی اس رونمائی میں پوشیدہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی پبلشر کے کاروبار اور مصنف کی پی آرشپ کو بڑھانے کا عمل انجام دیا جارہا ہے۔اس رویے سے کٹنے کا مطلب خود کو آگے بڑھتے ہوئے وقت سے پیچھے روکے رکھنا ہے۔ہاں اس رویے میں کمپنیز کی جانب سے اتنی ایمانداری بھی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کو مصنف یا ناشر کی اجازت کے بغیر نہ تو فروخت کریں اور نہ اس کو ڈاؤنلوڈ کرنے یا لوگوں میں مفت تقسیم کرنے کے رویے کو فروغ دیں۔اگر ان سب باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کتابوں کو آن لائن کرنے کا عمل جاری رہے تو اس سے میرے خیال میں زبان و ادب دونوں کا بھلا ہوگا۔

مضمون نگار: تصنیف حیدر

www.rekhta.org/ebooks