Saturday 4 January 2014

میرا جی کی چند سطریں


میراجی کی غیر مطبوعہ نظموں پر مشتمل کلام میراجی کے بھائی نے لاہور کے کسی دوکاندار کے ہاتھوں ردی میں بیچ دیا تھا ۔۔۔’دس فروری 1948کو میں لاہور پہنچا اور تادم تحریر لاہور میں اس کوشش میں ہوں کہ کسی طرح اس ردی کا کھوج لگ سکے، جس کے لیے میراجی اکثر روئے ہیں اور میری یہ کوشش بالکل رائگاں نہیں گئی۔آخر ایک پرزہ مزنگ کے ایک دوکاندار کے ہاں سے مجھے مل ہی گیا۔مزنگ لاہور کے اس مقدس محلے کا نام ہے جہاں میراجی رہتے تھے۔میرا خیال ہے کہ یہ کاغذ کا پرزہ اس ڈھائی تین برس کی محنت کی کچھ کم قیمت نہیں ہے۔اس کاغذ کا اوپر کا ایک کونہ پھٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے دیوناگری رسم الخط میں ’’اوم‘‘ کی علامت صرف آدھی پڑھی جاتی ہے اور پہلی سطر کے شروع کے تقریباً دو تین لفظ بھی اڑ گئے ہیں۔نثر کا یہ ٹکڑا یہاں سے صاف پڑھا جاسکتا ہے۔
اخلاق احمد دہلوی(1950)

’’۔۔۔۔۔۔۔چپکے سے جاکر تیرے پہنے ہوئے کپڑے جو تو نے ابھی ابھی اتارے چرا لاؤں، جو تونے ابھی ابھی اتارے ہوں چرالاؤں اور اپنے گھر کی خلوت میں انہیں دیکھ دیکھ کر، انہیں اپنے سینے سے لپٹا لپٹا کر، ان سے اپنے گالوں کو سہلا کر تسکین حاصل کروں۔ان میں رچی ہوئی تیرے جسم کی خوشبو مجھے لاکھوں شرابوں سے کہیں بڑھ کر مست کرسکتی ہے اور تیرے جسم کی ساخت سے جو سلوٹیں ان میں پیدا ہوجاتی ہیں ان کے مقابل سمندر کی لہریں، گھٹاؤں کی گدراہٹ کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔خوبصورت لڑکی!میرے خیالات ایک مرکز پر جمع ہوکر دن بدن دل کی بے قراری زیادہ کیے دیتے ہیں۔وہی سادہ آرزوئیں تیرے دل میں بھی ہوں گی کہ تو بھی جوان ہے اور میں دل پسند۔۔۔۔۔اے نازنین! اپنے اور میرے دونوں جسموں کو ملا کر اس ابدی راستے پر خراماں ہو جو اس قدر پریشان فطری کے باوجود ذہن و روحِ انسانی کا واحد مقصد ہے۔اگر بیرونی بندھن نہیں توڑ سکتی تو اندرونی رکاوٹیں ہی دور کردے کہ باقی کام میرا ہے۔

میرا جی پر شعور کے پہلے شمارے میں اچھی تحریریں ملاحظہ فرمائیے۔
http://rekhta.org/ebook/Shaoor_1_

No comments:

Post a Comment