Monday 23 June 2014

تنقید کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں


صاحبو بلکہ بادشاہو! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ تنقید کی لت ہمیں کتنی پرانی ہے۔ آئے روز ہماری تنقیدیں نئے نئے شگوفے بلکہ بُوٹے کھلاتی ہی رہتی ہیں۔جس روز ہم کسی کی تنقید نہ کریں ایسا لگتا ہے کہ ’ جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی‘۔بلکہ بعضے دفعہ تو تنقید نہ کرکے ہمیں قائم و دائم چُورن تک کھانا پڑا اس کے بعد معجونِ مقویِ معدہ و بڑی آنت الگ۔حتیٰ کہ ہم نے تہیہ کر لیا کہ تنقید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے کہ یہ وہ اسمِ اعظم ( الٰہ آبادی) ہے کہ جو ہمارے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔پس جس روز دو چار تنقیدیں نہ ہو جائیں ہمیں چین نہیں آتا ۔لیکن ہمارے ساتھ دِقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی طرح نقاد نہیں لگتے، نہ ہمارے بال جھڑے ہیں، نہ بد قسمتی سے عینک لگی ہے اور نہ ہی ہاتھوں میں رعشہ ہے۔رعشہ تو بہرحال ہم خود پیدا کر سکتے ہیں کہ ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، کہ دائیں ہاتھ سے ہم دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔رعشہ تو دو چار روز کی مشق سے آجائے گا، لیکن ان کم بخت بالوں کا کیا کیا جائے؟ ایک یارِ پچپن(۵۵) سے ا سکا حل پُوچھا جو خود تو نقاد نہیں تاہم نقادی کے گُر سکھاتے ہیں۔بولے کہ بال گرانے اور سفید کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم ہر شب سونے سے قبل اپنے سر پر خالص دیسی نمک ملا کرو،اس کے ساتھ ہی انہوں نے دیسی نمک کی پہچان، فوائد اور استعمال پر ایک بلیغ تقریر بھی فرمائی اور نصیحت کرتے ہوئے کہا ’’بہتر ہے سودا سلف لاتے ہوئے نمک کا ڈھیلہ یا پیکٹ سر پر اٹھالیا کرو، انشا اللہ افاقہ ہوگا‘‘۔
اس روز سے ایک طویل عرصہ تک نمک ڈھونے کی مشق بہم پہنچائی لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی بلکہ بعضے دفعہ تو اس’’ شوقِ گیسوئے سفیداں‘‘ کے چکر میں باورچی خانے کے لئے اضافی نمک بھی ڈھویا، لیکن بدبختی نے ساتھ نہ چھوڑا۔نمک ڈھوتے گئے اور ہر صبح آئینہ دیکھتے گئے کہ سفید بال اب نکلے کہ تب اور ’’آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لیکے رہ گئے‘‘۔اب حلی�ۂ نقادگاں بنانے سے زیادہ ہم نے اپنی تنقید پر توجہ مرکوز کی ،خود کو یہ سوچ کر ڈھارس بندھائی کہ ضروری نہیں ہر شخص شکل وہ وہی نظر آئے جو اس کا پیشہ ہے۔( اس کے لئے ہمارے پاس بے شمار مثالیں ہیں لیکن بوجہِ خوفِ خلق نہیں پیش کر رہے)۔بہر کیف!حلیہ پر خاک ڈالی اور تنقید کے عزم بالجزم کو ازسرِ نو تازیان�ۂ شوق و شمار کند�ۂ شخصیات و فنون ہائے لطیفہ.................اوہ معاف کیجئے گا تنقید لکھتے اور کرتے ہوئے ہماری زبان گاڑھی ہو کر فارسیا گئی ہے۔ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ تنقید کے عزم کو تھپتھپایا اور تنقید جاری رکھی۔اب یہ کہ ادھر ہم گھر سے نکلے تو تنقیدیں شروع۔گلی محلے میں صفائی نہیں تو وزیرِ صحت و تندرست�ئ کابینہ پر تنقید۔سڑک پر ٹریفک کا اژدہام دیکھا تو وزیرِ ٹرانسپورٹ و سپلائیز برائے حکومت پر تنقید۔پائپ لائین سے پانی رِستا دیکھا تو وزیرِ محکم�ۂ سپلائی آباں پر تنقید۔حتیٰ کہ جب تنقید کے لئے کوئی وزیرِ با تدبیر باقی نہ بچا تو سب وزیروں کے وزیر یعنی اعلیٰ وزیر کو یہ کہہ کر ہدفِ تنقید بنایا کہ اُونگھ رہا ہے۔اور جھٹ سے یہ محاوہ جڑ دیا کہ‘‘ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجارہا تھا‘‘حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ نیرو کے پاس بانسری تو اپنی تھی ہمارے پاس وہ بھی نہیں ہے۔پس اے عزیزو! اسی طرح قدم قدم پہ تنقیدیں بپا ہونے لگیں۔حتیٰ کہ ایک روز ہم نے ایک باپردہ خاتون کو روک کر یہ تنقید کر ڈالی کہ’’ اے گُل بدنِ شہرِ خوش ادا! باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن اس دور میں جب ہر طرف ملبوسات اور بدن ہائے نازک کی نمود و نمائش ہائے جائز و ناجائز عوتِ مژگانِ ہر خاص و عام حصولِ سند و قبولیت پذیر ہے۔آپ کا خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے کا یہ ڈریس اپ چہ معنی دارد؟‘‘۔
صاحبو اور بادشاہو! اس روز سے تنقید پر سے ہمارا دل کھٹا ہوا کہ اُس خاتونِ ضخیم و معرکتہ الآرا نے ادائے شانِ بے نیازی سے چلمن ہٹائی اور بڑے کرخت لہجے میں گویا ہوئیں:
’’کیا کہا؟ خاتون ہوگا تیرا باپ‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے بھاگنے کی مہلت بھی نہ دی یعنی ان کا ہاتھ اور میرا گریبان۔خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں، بلکہ مِن و عَن آسر زرکاوی کے زمان�ۂ عہدِ شباب و کباب ہائے سندھ و لندن و پیریس طرز کی دوعدد پھڑکاؤ مونچھیں، بلکہ گلدستہ ہائے مونچھ رکھتی تھیں، کڑک کر بولیں......’’اے تو کیا بولا! خاتون الرشید..............میری وائف کو تو کیسے جانتا؟‘‘پس صاحبو اور بادشاہو!میں سڑک کے دوسرے کنارے پڑا تھا اور وہ خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں،چلمن گرائے خراماں خراماں دوسری سمت رواں تھیں۔ایک ضعیف الملا عمر ٹائپ کے نوجوان نے ازراہِ رشک و ہمدردی ہمیں قریب کے شفا خانے تک پہنچایا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں،کی بیگم کا نام خاتون تھا اور خود ان کا رشید۔اور صاحب الرشید درپردہ ہائے برقع�ۂ سیاہ و چلمنِ تابدار، افیون کی امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔پس اس خاتون الرشید کے چکر میں کئی روز تک ہدایات و نسخہ ہائے دوائے ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ مالش بھی کرواتے رہے۔ہم نے ان خاتون، جو در اصل خاتون نہیں تھیں،کے طرزِ عملِ غیر صالح سے نصیحت باندھی اور تہیہ کر لیا کہ تنقید نہ کریں گے۔گو کہ اس میں،تنقید میں،فائدے بہت تھے۔ایک تو لوگ بلا وجہ خائف رہتے تھے۔جاہل اس لئے بات نہیں کرتے تھے کہ میاں بڑا عالم ہے، بچ کے رہو۔ اور عالم یہ سمجھتے تھے کہ نقاد ہے نہ جانے کب اور کہاں..............خیر نقاد ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی بات پر چاہے وہ بجا ہو یا بے جا اڑے رہ سکتے ہیں۔اڑے رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ کوئی بھی طوفانِ باطل آپ کو ہلا نہیں سکتا۔بہر کیف! تنقید سے توبہ کی اور لسانیات پر توجہ مرکوز کی، بلاشبہ تنقید کے بعد لسانیات میں کافی اسکوپ ہے۔اس میں بھی آپ آئے روز نئے نئے گل بوٹے کھلا سکتے ہیں اور ایک زبان کا رشتہ دوسری زبان سے جوڑ کر اپنے آپ کو لسانی تحقیق کا جدِ امجد حیدر آبادی کہلا سکتے ہیں۔ہم نے بھی اپنے نام کے ساتھ ماہرِ لسانیات و مطالعات ولحیات الاموات، الشرح بالقبور النشور لکھوا کرلسانیات پر لیکچر دینے کی ریہرسل شروع کر دی۔ریہرسل کے لئے ہم نے میر انیسؔ کی طرح قدِ آدم آئینہ اپنی خواب گاہ ہائے خرگوش میں نصب کروایا اور لیکچرز کی پریکٹس بالفعل شروع کر دی۔اب ہم اردو کا رشتہ قدیم سنسکرت اور آریائی زبانوں سے جوڑ رہے ہیں اور جونہی یہ جوڑ جڑ جائے گا قارئینِ کرام آپ کو مطلع کیا جائے گا۔کیونکہ ہم نے سنسکرت کو قومی سطح پر قومیانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے اس لئے اردوئے کربلائے معلی کے ساتھ اس کی رشتہ داری انشاء اللہ سود مند ثابت ہوگی۔اُمید ہے کہ اس کے بعد ہمیں شری دیوی پدما، مسز پدما بھوشن لعل،یا گیان پیٹھ سنگھ رخِ زیباؔ جیساکوئی اعزاز مل جائے گا۔اب حکومت کوہمیں باضابطہ طور ماہرِ لسانیات کے طور قبولنا چاہیے ورنہ اس کے اثرات شیئر مارکیٹ پر ہرگز اچھے نہ ہوں گے۔
************
skkarrar@gmail.com

ریختہ پر موجود تنقیدی کتب پڑھنے کے لیے کلک کریں

No comments:

Post a Comment