Tuesday 1 July 2014

استاد اور نظم حقیقی


ایک روز ہم، خود ہم،بیٹھے سوچ رہے تھے کہ ایک طویل قامت،باریش بزرگ ایک عدد سفید کرتے پاجامے اور جناح کیپ سمیت ہمارے دفترتشریف لائے۔ہم نے انہیں، خود انہیں،بغور دیکھا اور لگے سوچنے کہ انہیں کہاں دیکھا ہے۔ یہی حالت ہماری آئینہ دیکھتے ہو جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ آئینے میں جو صاحب ہیں انہیں کہیں دیکھا ہوا ہے۔بعدازاں جب پہچان نہیں پاتے تو مرزا نوشہ کی طرح آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ جاتے ہیں۔اسی طرح اس روز بھی ہم نے سفید کرتے پاجامے اور جناح کیپ کو مع ایک عدد باریش کے اندر آتے دیکھا تو بعداز سوچ بچار بھی ہمیں کچھ معلوم نہ پڑا۔ویسے ہمیں دن کو کم ہی معلوم پڑتا ہے شب میں البتہ ہماری آنکھیں نورِ بصارت سے روشن ہو جاتی ہیں۔قارئین کرام،یہ بات ہم نے آپ سے کہی ہے براہِ کرم اسے کسی سے کہیے گا نہیں۔اس سے قبل ہم اسے، بات کو، صرف اپنی بیگم کو بتا چکے ہیں۔
ہاں تو بعدازدعا سلام موصوف نے موسم کے متعلق دریافت فرمایا۔ ہم نے کہا الحمدوللہ کئی روز سے مسلسل بارش ہو رہی ہے۔ندی نالے بھر چکے ہیں اور اب گلی محلے بھی قاسم خان کی نہر بننے والے ہیں تاہم موسم اچھا ہے۔پھر موصوف نے ہماری صحت کے متعلق دریافت فرمایا اور ہم نے کہا الحمدوللہ بخیروعافیت ہیں بس گزشتہ روز آم کھا لئے تھے ، سوچا گھٹلیوں کے دام ہیں، سو اس باعث دست کی شکایت ہے، دانت تب سے دست درازی کر رہے ہیں، تپش بھی ہے، چکر بھی آتے ہیں اور نزلے نے بھی آلیا ہے، لیکن الحمدوللہ باقی سب خیریت ہے۔بعداز دریافتِ حال و چال موصوف نے ہماری تعریف فرمائی اور ہمارے علم و ادب کے ڈنکے بجنے کا ذکر بڑے شوق سے فرمایا اور زبان و ادب کے تئیں ہماری خدمات میں ایک نہایت عمدہ اور فصیح تقریر فرمائی اور ہمیں تمام علومِ ظاہری و باطنی کا ماہر گردانا۔ہم بڑے انہماک سے سنتے رہے کہ وہ باتیں ہی اتنی اچھی کر رہے تھے۔سوچا کہ ان کی تمام گفتگو جو ہماری ذات و صفات کے حوالہ سے تھی،کو ریکارڈ کر لیا جائے تاکہ سند رہے اور یار دوستوں کی محفل میں ہمارے کام آئے،کہ جو آئے روز ہماری جہالت پہ قہقہے لگاتے ہیں اور عوام میں ہماری حماقتوں کے قصے چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں، لیکن افسوس ریکارڈر نہ ہونے کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔بہر کیف! جب موصوف اچھی اچھی باتیں کرکے تھک چکے تو ہم نے عرض کیا بزرگو!اب ذرا تعارف بھی ہو جائے تو کیا حرج ہے۔اس پہ موصوف چند لمحے خلا میں ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے پھر گویا ہوئے کہ اپنے بارے میں بیان کرنے میں مجھے چنداں دلچسپی نہیں۔میں شہرت کا بھوکابالکل نہیں۔میں تو درویش آدمی ہوں،نام فیروز دین اور دینا تخلصؔ ہے۔لوگ محبت سے اُستاد فیروز دیناؔ کہتے ہیں۔
یہ سنتے ہی ہماری روح فنا ہو گئی۔تو گویا موصوف شاعر بھی ہیں۔شاعروں سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے۔شعر کہیں گے اور پھر سنانے کے لئے گلیوں، محلوں گھومتے پھریں گے، اور جب تک مکمل دیوان مع تازہ کلام نہ سنا لیں دم نہ لیں گے۔اس دوران اگر کوئی روکنے اور ٹوکنے کی کوشش کرے کہ حضرت ایک ذرا رکیں، میں فشارِ خون کی دوا کھا کر لوٹتا ہوں یا آج بچے کا ختنہ کروانا ہے، بازار سے مچھلی وغیرہ لانی ہے،تو بہت چیں بہ جبیں ہوں گے، اور چشمہ ناک پر ٹکا کر انتہائی خشمگیں نگاہوں سے آپ کو دیکھیں گے اور پھر آپ کی نا اہلی،جمالیاتی حس کی پژ مردگی، ذوق اور فنونِ لطیفہ کے تئیں آپ کے بیمار رجحان پہ آپ کو کوسیں گے اور بزرگوں کو ٹوکنے پر سخت سرزنش کریں گے اور دوبارہ غزلِ مسلسل شروع کر دیں گے۔اس دوران،شاعر اگر نشہ باز ہیں تو سگریٹ، پان، نسوار اور زردہ معہ تھوک کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا۔اور اگر شاعر صوفی منش ہیں تو ہر پانچویں منٹ چائے کی فرمائش کریں گے۔ہمارے ساتھ بارہا ایسا ہو چکا ہے کہ صبح گھر سے کسی کام کے لئے نکلے۔راستے میں کوئی شاعر مل گئے پھر شام کو تھکے ہارے گھر پہنچے، کسی نے پوچھا کہاں تھے، جواب میں کوئی بہانہ گھڑ دیا۔حتیٰ کہ ایک بار ہمارے ایک عزیز دوست جو اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز رہے ہیں اور شعر کہتے ہیں، ہمیں سرِ راہ مل گئے۔ بعداز سلام دعا انہوں نے چائے کافی کے لئے پوچھا تو ہم نے بھی اخلاقاً ہاں کہہ دیا۔اس کے بعد جو ہوا اس کے متعلق’’ سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‘‘ کی رسم کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بیان سنا جائے کہ چائے خانے کے ایک نیم تاریک سے گوشے میں ایک میلی سی میز کے قریب ہم جا بیٹھے۔موصوف نے چھوٹتے ہی چائے کا آرڈر دیا اور فرمانے لگے کہ کل وہ پہاڑ پر سیر کرنے گئے تھے۔قدرت کے حسین نظارے دیکھ کر ایک نظم ہوئی ہے، میں چاہوں گا آپ بھی سنیں، واہ کیا عمدہ نظم ہوئی ہے۔بالکل ولیم ورڈزورتھ اسٹائل کی،بلکہ اس سے آگے کی ہے۔میرا دعویٰ ہے کہ اس نظم کو صرف اور صرف آپ جیسا ادیب ہی بہتر سمجھ سکتا ہے یا پھر میں خود۔یہ کہتے ہی موصوف نے نظم شروع کی اور ہم نیم خوابیدہ انداز میں سنتے رہے کہ نظم ابھی ختم ہو جائے گی اور پھر ہم اپنی راہ لیں گے۔لیکن ورڈزورتھ اسٹائل کی نظم ختم ہوتے ہی موصوف نے گوئٹے کے شخصیت و فن پہ چھلانگ لگائی اور وہاں سے سیدھے حافظ و خیام تک جا پہنچے۔حافظ اسٹائل کی کچھ غزلیں۔ اور خیام انداز کی کچھ رباعیات۔اس دوران اپنی عادت سے مجبور بارہا انہوں نے بلند بانگ قہقہے لگائے، ہمارے ہاتھ پر زور سے ہاتھ مارا اور اپنے اشعار کی شرح میں الگ مصروف رہے۔اس کے بعد کا، عزیزو! ہمیں کچھ ہوش نہیں۔چائے آتی رہی اور وہ اپنے علم و فن معہ عروض و بیان، نیز فصاحت و بلاغت کے جوہر دکھاتے رہے، اتنا یاد ہے کہ چائے والا اور اس کا خادم دونوں دستہ بستہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ چائے خانہ کے بند ہونے کا وقت ہو چلا ہے، لہذا جان کی امان عطا کی جائے۔وہ دن اور آج کا دن، شاعر کو دیکھتے ہی ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہی چپکے سے اپنی راہ لیتے ہیں۔شاعروں کے متعلق ہماری رائے ہے کہ یہ صرف کتابی ہی اچھے۔جونہی شاعر بہ نفسِ نفیس سامنے آئے اس کی عظمت کے سارے بت تراخ سے ٹوٹ جاتے ہیں اور عظمتِ فن ہیچ معلوم ہوتی ہے۔ہمارا تو یہی تجربہ ہے اس لئے آپ بھی احتیاط برتیں۔
ذکر تھا اُستاد فیروز دیناؔ سے ہماری ملاقات کا۔بعد از تعارف موصوف نے بتایا کہ میں ایسا ویسا شاعر نہیں، شاعرِ حقیقی ہوں۔ہم نے دریافت کیا اُستاد شاعرِ فطرت، شاعرِ غم،شاعرِ ملت،شاعرِ عشق تو ہم نے سنا ہے، یہ شاعرِ حقیقی کیا ہے؟اس پہ موصوف حسبِ عادت چند لمحے چپ رہے، ہمارے چہرے کی طرف ٹکٹی باندھ کر تکتے رہے اور جب خوب سیر ہو کر تک چکے تو بولے۔شاعرِ حقیقی کا مطلب یہ ہے کہ وہ شاعر جس میں عشقِ حقیقی ہو۔میں اُس ذات کے عشق کا شاعر ہوں۔ یہ کہتے ہوئے موصوف نے اپنی اُنگشتِ شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور نعرہ لگایا’’ حق ھُو‘، الحق‘‘۔ہم نے پہلے بغور ان کی انگلی کا تعاقب کیا اور بعدازاں ان کے چہرے کا مشاہدہ۔شکل سے بھلے مانس لگتے تھے اور عمر کے اس دوراہے پر تھے جہاں عشقِ مجازی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں ، کہتے ہیں عشقِ مجازی حقیقی کی پہلی سیڑھی ہے،تو غالباً استاد فیروز دیناؔ اس سے سیڑھی سے بحفاظت چڑھ آئے ہیں۔ہم نے ازراہِ خلوص و ہمدردی عرض کیا کہ یااُستاد ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔اُستاد بولے کہ ہمیں اپنا دیوان چھاپنا ہے۔یہ کہہ کر انہوں نے تاج عالم ڈائری سن انیس سو تہتر اپنے چولے سے نکال کر ہمارے سامنے رکھ دی۔اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک نظم نکالی اور ہمیں سنانے لگے۔نظم میں اور سب کچھ تھا بس نظم نہیں تھی اور یہی غالباً اس نظم کی خوبی تھی کہ وہ نظم نہیں تھی۔
اُستاد فیروز دیناؔ سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ہم ممنون ہیں کہ اُستاد نے صرف ایک نظم پہ اکتفا کیا اورمعہ دیوان رخصت ہو لیے۔اُستاد کو دیوان چھپوانے کا حق ہے، کوئی پڑھے یا نہ پڑھے۔ لیکن ہمارے وہ عزیز دوست جو سرِ راہ ہمیں روک کر ہم پر غزل آزمائی کرتے ہیں ان سے ہم یہی کہتے ہیں کہ عزیزو! کیوں ہمارا وقت خراب کرتے ہو کہ ہمارے پاس سوا اس کے، وقت کے، کچھ ہے بھی نہیں۔

کالم نگار: شیخ خالد کرار
skkarrar@gmail.com

اردو کے اہم شعرا کے دواوین پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔

No comments:

Post a Comment