Wednesday 18 September 2013

(رسالہ سہ ماہی اثبات)

جائزہ
(ریختہ کو موصول ہونے والی کتابوں؍رسائل پر تبصرہ)


سہ ماہی اثبات
شمارہ نمبر:14-15
مدیر: اشعر نجمی
رابطہ: +91-9892418948
(مدیر سے رابطہ ہندوستانی وقت کے لحاظ سے دوپہر دو بجے سے شام آٹھ بجے تک)
مبصر: تصنیف حیدر
ملنے کا پتہ:اثبات (سہ ماہی)
بی؍202،جلا رام درشن، پوجا نگر، میرا روڈ(مشرق)ضلع تھانہ، مہاراشٹر
قیمت:200روپے(ہندوستانی کرنسی کے اعتبار سے)
آن لائن لنک:www.esbaatpublications.com

سہ ماہی اثبات ہندوستان سے شائع ہونے والے ادبی رسائل و جرائد میں اپنی ایک الگ اہمیت تسلیم کرواچکا ہے ۔اس رسالے نے اپنے مشمولات کی بنیاد پر ابتدا سے ہی اپنی سنجیدگی اور متانت کے آثار سب پر روشن کردیے تھے۔اس رسالے کے مدیر اشعر نجمی رسالے کے مشمولات کے لیے خاصی محنت کرتے ہیں جس کے سبب یہ ادبی جمود کے آئنے پر پڑنے والے پہلے پتھر کی علامت بن گیا ہے۔اس بار ہمارے پیش نظر اثبات کا تازہ شمارہ ہے جو کہ شمارہ نمبر چودہ۔پندرہ ہے۔اس شمارے میں منٹو اور میراجی دونوں کے حوالے سے اہم متون کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ کہانیوں، غزلوں اور نظموں کے اعتبار سے بھی اثبات کا یہ شمارہ اہم ہے۔اس شمارے میں مدیر نے منٹو پر کچھ سوالات اپنی جانب سے قائم کرکے کچھ افراد سے ایک مذاکرہ قائم کروایا ہے جو کہ جوابوں کی وجہ سے اور اہم ہوگیا ہے۔ان سوالات میں منٹو کو عظیم اور بڑا سمجھنے جیسے نظریات پر شک ظاہر کرنے کی کوشش صاف محسوس ہوتی ہے مگر اس شک میں کسی قسم کی سازش کی مہک نہیں آتی بلکہ یہ خالص طالب علمانہ کوشش معلوم ہوتی ہے جس سے سوال و جواب کا یہ سلسلہ اہم تر ہوجاتا ہے۔مگر جوابات میں ایک طرح کے مائنڈ سٹ اپ اور منٹو کے بارے میں چبے چبائے ہوئے نوالوں کا سا اثر صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے، خاص طور پر انتظار حسین کی جانب سے بھی منٹو کی ذات یا فن پر کوئی ایسی روشنی نہیں پڑتی جسے حص�ۂ خاص سے تعبیر کیا جائے تاہم معین الدین جینابڑے ، صدیق عالم اور امیر حمزہ ثاقب کے جوابات میں ایک خاص قسم کی رمق نظر آتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ منٹو پر ایک نئے مذاکراتی سلسلے کا آغاز اس شمارے سے ہوچکا ہے، جس کی بدولت ہم منٹو کی بازیافت کے عمل سے گزر سکیں گے، خواہ اس میں کوئی کٹا پھٹا اور خستہ حال منٹو ہی ہمارے ہاتھ کیوں نہ لگے لیکن افسوس کہ اس مذاکرے میں کچھ اہم لوگوں کی شرکت نہیں ہوسکی جن کی موجودگی سے کچھ اور نئے زاویوں سے باتیں کرنے کی کوشش کو جلا مل سکتی تھی۔اسی شمارے میں شمس الرحمن فاروقی نے منٹو کے حوالے سے مدیر اشعر نجمی کے سوالات کے جواب میں ایک مقالہ رقم کیا ہے جس کا عنوان ہے’ ہمارے لیے منٹو صاحب‘ ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے لیے اور منٹو صاحب دونوں جملے اس مقالے کے پڑھتے پڑھتے اپنے آپ الگ ہوجاتے ہیں کیونکہ قاری کو شمس الرحمن فاروقی کی باتوں میں ہمارے لیے تو زیادہ نظر آتا ہے مگر منٹو صاحب فرانسیسی ، فارسی اور دیگر دنیا جہان کے ادب کے نیچے دفن ہوتے معلوم ہوتے ہیں۔پھر اس مقالے میں بو کے حوالے سے بھی کچھ باتیں تو ایسی ہیں جنہیں ہضم کرپاناذہنی طور پر صحت یاب قاری کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ممتاز شیریں کی چند معقول باتوں کو فاروقی صاحب نے جس فطانت سے ہوا میں اڑایا ہے وہ سرپیٹنے پر مجبور کردیتی ہیں۔پھر بھی اس مقالے میں بہت سی اہم باتیں بھی ہیں جن پر غور کرنے اور انہیں سمجھنے کی ہم سب کو دوبارہ ضرورت ہے، یہ تمام تر گفتگو محاکمۂ منٹو کے لیے بے حد کارآمد اور لائق تحسین ہیں ۔میراجی کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کا مضمون دلچسپ 
اور بے حد اہم ہے،یہ مضمون(میراجی سو برس کی عمر میں)میراجی کی تفہیم و تفسیر میں بہت حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے۔صدیق عالم کی بے تکی کہانیاں فکشن کے باب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔انور سین رائے کی نظمیں اور تراجم پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔’انداز بیاں اور‘ کے ذیل میں فاروقی صاحب نے ابھے کمار بیباک پر جو مضمون لکھا ہے وہ ذرا پھیکا سا تنقیدی مضمون ہے لیکن جدید غزل کے حوالے سے آنے والے ایک انتخاب ’غزل آباد‘ پر ان کی کچھ گرفتیں قابل قدر ہیں کہ وہ نئی نسل کو فراموش کرنے کی بجائے جدید غزل کے انتخاب میں اس کی کمی محسوس بھی کرتے ہیں اور اس کی شکایت بھی کرتے ہیں۔نوادرات، روبرو اور تاثرات کے گوشے بھی بہت خوب ہیں کہ ان سے نئی نئی باتوں اور مکالموں کی راہیں کھلتی ہیں۔آخر میں مدیر اشعر نجمی نے گزشتہ شمارے پر اسلم غازی کے اعتراضات کا جواب بہت ہی مدلل اور سنجیدہ انداز میں دیا ہے۔یہ شمارہ بھی اثبات کی گزشتہ سنجیدہ روایت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔اثبات کے تمام شمارے بہت جلد ریختہ(www.rekhta.org) پر اپلوڈ ہوجائیں گے جس کی وجہ سے آپ اس تازہ شمارے کے ساتھ ساتھ اس کے تمام پچھلے شماروں کا بھی مطالعہ کرسکیں گے۔


(نوٹ:اگلا تبصرہ پاکستان سے آنے والی محمد حمید شاہد کے تازہ افسانوی مجموعے ’آدمی ‘ پر ہوگا۔)

No comments:

Post a Comment