Monday 30 September 2013

ریختہ کو یونیورسٹیوں سے ملحق کرنا ، وقت کی ایک اہم ضرورت

کسی بھی کام کی ابتدا میں اس کی ترقی کے آثار اور اس کے قیام و وجود پر سوالیہ نشان قائم کرنا یا اس کے بارے میں کوئی بھی حتمی فیصلہ دینا ممکن نہیں ہے۔تاہم کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کی پرورش اگر صحیح طور سے کی جائے تو وہ نہال نورستہ کی طرح کچلنے سے بچ جاتے ہیں اور تعمیر کی دھوپ، تعبیر کے چھینٹوں اور تشہیر کے گرم ہاتھوں سے اس کی آبیاری کے فرائض انجام دیے جاسکتے ہیں اور ایک وقت کے بعد وہ گھنے اور تناور درخت میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ریختہ ڈاٹ اوآرجی دھیرے دھیرے اردو دنیا میں فروغ پارہا ہے، اس کو لوگ جاننے لگے ہیں اس کی اہمیت اور انفرادیت سے اکتساب فیض بھی کررہے ہیں۔بہت سے زمینی اور زمانی مسئلے جو اب شاعروں کے کلام اور اچھی کتابوں کی فراہمی کے سلسلے میں جو دشواریاں تھیں اسے ریختہ نے بہت حد تک دور کردیا ہے، ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں ہرروز کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔تعلیم اردو داں طبقے کی اس وقت سب سے اہم ضرورت ہے، جدید اور جدید ترین وسائل سے لیس ہوکر ہی دنیا کی ترقی کے جگمگاتے ہوئے سورج سے آنکھیں ملانا ممکن ہے اور ایسے میں ضروری ہے ان وسائل سے حاصل ہونے والی روشنی کو اپنی نگاہوں میں جمع کرنے کی اور اس روشنی سے دنیا کو دیکھنے کی۔ریختہ ڈاٹ او آرجی نے آج ایسے ہی وسیلے انٹرنیٹ پر اردو علم و ادب کی وراثتوں کو سمیٹنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔کیا ایسے میں ضرورت نہیں ہے کہ اردو والے آگے بڑھیں اور اس اقدام کو اردو کے ایک بہتر مستقبل کے طور پر قبول کرکے اسے یونیورسٹی کے طلبا میں حد سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش میں جٹ جائیں۔ان کے مقالوں کو ریختہ پر اپلوڈ کروائیں، ان کو ریختہ کے ذریعے سنجیدہ ادب پڑھنے اور سنجیدہ مباحث قائم کروانے پر زور صرف کریں اور اس طرح ایک ایسے روشن ادبی مستقبل کا سنگ بنیاد رکھیں جس سے ذہنوں میں عالمی سطح پر اپنے ادب اور اپنے علم کو فروغ دینے کی کوششوں کا ایک نیا باب کھل سکے۔ریختہ اپنے تمام ہمدردوں اور محبت کرنے والوں سے اس بات کی اپیل کرتی ہے کہ وہ اسے نصابی سطح پر فروغ دینے کی جس حد تک بھی کوشش کرسکتے ہیں کریں۔کیونکہ ریختہ آج کے دور میں کل کی کلید ہے ،جس پر زنگ نہ لگنے دینا ان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو ابھی تعلیم گاہوں میں ادب و علم پر اساتذہ سے درس حاصل کررہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment