Monday 13 January 2014

وقت کی قید سے ثروت زہرا کی آواز


میں کوئی تنقیدی مضمون لکھنے نہیں بیٹھا ہوں، یہ صرف میرے کچھ منتشر تاثرات ہیں ، اس کتاب کے متعلق ابھی کچھ عرصہ پہلے لوگوں کے ہاتھوں میں آئی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ شاعر کی اصلیت اگر معلوم کرنی ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ نظم کیسی لکھتا ہے۔میرے ہاتھوں میں اس وقت ثروت زہرا کی کتاب’ وقت کی قید سے‘ موجود ہے۔میں ویسے بھی محبت سے دی گئی کتابوں پر ایک نظر ضرور ڈالتا ہوں، اور بعض اوقات ایک نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ کتاب پڑھنی بھی چاہیے یا نہیں۔یہ کتاب دراصل ثروت زہرا کی نظموں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ثروت زہرا کی کچھ تخلیقات اس سے پہلے بھی میں نے پڑھی ہیں۔ان کے یہاں تخلیقت کی حقیقی روشنیاں بے پناہ موجود ہیں۔میں جس شاعر کے یہاں بے کلی، بے چینی اور سماج کی تپتی ہوئی پتیلی میں ابلتا ہوا محسوس کرتا ہوں، اسے سچا سمجھتا ہوں۔کیونکہ جو تخلیق کار اس تپن کے سبب چیختا نہیں، چٹختا نہیں، وہ فیک ہے، جعلی ہے۔ہمارے یہاں شاعری کے معاملے میں شاعرات کو ان کی لپ اسٹک پاؤڈر تھوڑا بہت چمکانے کی کوشش ضرور کرتی ہے، یقیناًمیں اکثر سوچتا ہوں کہ بیشتر خوبصورت عورتیں اچھی تخلیقات کیوں نہیں لکھتیں۔دراصل اس کے پیچھے منافقت اور جھوٹی تعریف کی وہ گھٹیا سیاست موجود ہوتی ہے جو انہیں شاعری کا محرک تو بنا سکتی ہے، شاعرہ نہیں بنا سکتی۔دوسری طرف عورت کے حقوق کا نعرہ لگاتی اور دندناتی ہوئی وہ شاعرات ہیں ، جن کے پاس ’عورت ذات‘ پر ہونے والے مظالم کا رونا رونے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ثروت زہرا نہ اس طرف والوں میں ہیں، نہ اس طرف والوں میں۔نسائی حسیت اور مردانہ حسیت دراصل دھوکے بازیاں ہیں۔حسیت تو ہر جاندار کا جزو ہے، اور بقا کی جنگوں میں حسیت کی انفرادیت کوئی معنی نہیں رکھتی، ہمارا ہر مسئلہ کسی نہ کسی طور پر آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہے، چاہے وہ بھڑوں کے مصنوعی چھتے ہوں، بھیڑیوں کے بدن سے نچتا ہوا گدلا اون ہو، چاول کی فصل میں کیڑا لگنے سے ہونے والی تباہی ہو،دلدل میں پھنسا ہوا کوئی بچھڑا ہو، پردے کے اندر بچے کو دودھ پلاتی ہوئی کوئی عورت ہو یا جنون میں دیوار سے سرمارتا کوئی آدمی، اب یہ مسائل کسی خاص حسیت سے تعلق نہیں رکھتے، ان سب کا تعلق ہماری ذات سے ہے،ہمارے سرواوئل سے ہے، ہم دھیرے دھیرے سمجھتے جارہے ہیں کہ جنم آنکھیں کھلی رکھنے اور ہاتھ تھامنے کا نام ہے، ان دونوں معاملات میں آواز اور عمل دونوں ہی بہت ضروری ہیں، اسی لیے اچھی شاعری ان دونوں معاملات کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اس سرد خاموش رات میں پھیلے ہوئے ایک بسیط سناٹے کی مانند جس پر ننگے پاؤں چلتے رہنا بھی اپنی مرضی کے خلاف بتائے جانے والی زندگی کے خلاف ایک زبردست مورچہ ہے، صرف فنکارہی مزے سے سیر کرسکتا ہے۔ثروت زہرا اسی طرح کی شاعرہ ہیں۔ان کی نظموں میں اپنی خود اختیاری کا بھرپور احساس بھی موجود ہے اور پاؤں میں پڑی ہوئی بیڑیوں کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھنے کا حوصلہ بھی۔ہماری زندگیاں فلیٹوں میں بند کرفیو کے دوران سڑکوں پر گشت کرنے والے سپاہی کو دیکھتی رہتی ہیں، ہمارے لفظ ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس میں بیٹھے کسی مریض کے رشتے دار کی طرح الجھن میں مبتلا ہیں، مگر ہم زندہ ہیں۔یہ کام فرشتوں کے بس کا نہیں ہے، حوریں تو اس زندگی کے خیال کی حدت سے ہی پگھل جائیں گی، یہ تو آدم و حوا کی بیٹی ہے جو ایسے میں بھی خوبصورت نظر آرہی ہے۔اس کا حزن بھی حسن ہے، اس کا ملال بھی جمال ہے۔ثروت زہرا نے بھی اسی دکھ سے، اسی کرب سے محبت کرکے جو آوازیں لگائی ہیں وہ دراصل’ وقت کی قیدسے‘ آرہی ہیں۔ثروت زہرا ایک اچھی شاعرہ ہیں، ایک زبردست فنکا رہیں۔ان کے یہاں لفظ کی جادوئی صفت اس خوف زدہ اور خون میں لتھڑے ہوئے سماج میں پلتی زندگی کی آئنہ دار ہے۔جس کا کام ہی ایک سچے ادیب کی طرح اس سے منہ موڑنا وتیرہ نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ ان میں بھی ذائقے کے ایک اضافی حسن کو تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہے۔شاعری کا باب طلسم بیان کے اس ’کھل جاسم سم‘ کا مرہون ہے جس میں بقول یوسفی صرف اسے کہہ دینے سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کے لیے علی بابا کا خاص لہجہ بھی درکار ہے اور بے کار محض شاعرات کو پروموٹ کرنے والے جان لیں کہ یہ لہجہ ثروت زہرا کے پاس ہے۔

ریخٹہ پر ثروت زہرا کی کتابیں جلد ہی پیش کی جائیں گی۔ فی الحال ان کا انداز بیان دیکھنے کے لیے ہمارے ویڈیو سیکشن کو دیکھا جاسکتا ہے۔
http://rekhta.org/UrduPoetryVideos

No comments:

Post a Comment