Thursday 10 October 2013

تاریخی سیاق اور سفیر لیلیٰ کی بازیافت

اسلوب عربوں کے نزدیک وہ کرگہ ہے جس پر کپڑا بنا جاتا ہے یا وہ سانچہ ہے جس میں کوئی چیز ڈھالی جاتی ہے۔
(ابن خلدون)
اسلوب قائم کرنا آسان کام نہیں ہے۔کوئی اس بات کو مانے یا نہ مانے مگر الفاظ کو ایک نئے لہجے کی تسبیح میں پرونا بہت مشکل کام ہے۔خود ہمارے پاس اردو میں ایسے بہت کم نام ہیں جو اسلوب نگاری میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔شاعری میں میر، غالب، داغ، اقبال،راشد ، میراجی ،عزیز حامد مدنی ،ظفر اقبال اور شفیق فاطمہ شعریٰ وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں اور افسانہ و ناول نگاری میں یہی دنیا عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، شمس الرحمن فاروقی اور نیر مسعود جیسے چند ناموں تک محدود ہے۔دراصل الفاظ اور خیال کی آمیزش کو ملا کر نظم یا نثر کو پیش کردینا بالکل الگ بات ہے ،جبکہ اس آمیزے میں کس لفظ کی مقدار کتنی ہونی چاہیے اسے اسلوب نگار کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ابن خلدون کی بات سے کسی کو انکار نہیں کہ اسلوب کو کرگے اور سانچے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے مگر اسلوب کی ایک پہچان اس سے بھی بڑی ہے اور یہ پہچان بالکل غیر مکتبی ہے یعنی اسلوب اس طرز تحریر کا نام ہے جو ایک زمانے کو اپنی غیر شعوری تقلید پر مائل کردے۔اسلوب کا اثر غیر زمانی ہوتا ہے،کسی بھی زبان میں اس کی اثر انگیزی ہر تیسرے ذہن پر اپنا تسلط قائم کرتی ہے اور بعض دفعہ تو ادیبوں اور شاعروں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ساری زندگی جو شاعری کرتے گئے اور جن کی بنیاد پر انہیں شہرت کی بلندیاں حاصل ہوئیں وہ نہ جانے کتنے اہم اسالیب کے تتبع کا نتیجہ تھیں۔علی اکبر ناطق کو اس تعلق سے اگر جدید ترین دور کا ایک اہم اسلوب نگار کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔خاص طور پر ان کی نظموں میں اسلوب نگاری کا یہ فن اپنی معراج پر پہنچ چکا ہے۔اسلوب نگاری میں شاعر یا افسانہ نگار ہر جگہ اس اسلوبیاتی پیکر کو پوری طرح ثابت و سالم رکھنے کی کوشش نہیں کرتا اسی وجہ سے کہیں اس کے اسلوب کی آنچ دھیمی ہوتی ہے تو کہیں تیز۔کیا پتہ میری اس بات کو تسلیم کیا بھی جائے یا نہیں مگر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر اسلوب نگار تاریخ کے دامن پر بوسہ ضرور دیتا ہے۔اسلوب نگاری، تاریخی نویسی نہیں ہے مگر تاریخ دانی ، اسلوب نگاری کے فن کو جلا بخشنے میں کہیں نہ کہیں شامل ضرور ہوتی ہے۔تاریخ کے سرد چولھوں سے اسلوب نگار اپنی تحریر پر لفظوں اور خیالوں کی راکھ ملتا رہتا ہے، یہ راکھ دراصل ان تاریخی نتائج کا وہ بھبھوت ہے جس کی رگڑ سے امروز کی بھٹی گرم کی جاتی ہے۔نظم یا نثر نگار اگر فنی صلاحیتوں میں دوسروں کے اسلوب سے دامن کشاں رہنا چاہتا ہے تواسے گزرے ہوئے وقت کے اس صحرا کا سفر کرنا پڑتا ہے جس کی ریت میں طرح طرح کے قصے دفن ہیں، ان قصوں کو زبان دینے والا کمزور ذہن کا تخلیق کار ہوتا ہے مگر جو شاعر ان قصوں کی زبان میں بات کرنے لگتاہے اسے تاریخ میں ایک نئے اسلوب کا حامل سمجھا جاتا ہے۔علی اکبر ناطق کی نظم ’سفیر لیلیٰ’ ایک ایسے ہی تاریخی سیاق کے صحرا میں دفن قصہ ہے جس کی ذیلی کہانیاں اپنے اندر اونچے قصروکاخ ، مینارومحراب، کھلکھلاتی اور کھنکتی ہوئی آوازیں بھی رکھتی ہیں اور نوحوں، مرثیوں،کھنڈروں ،چیخوں اور سسکیوں کو بھی گودیوں میں لیے پھررہی ہیں۔’سفیر لیلیٰ‘ دراصل اس پورے فکری رویے کی بازیافت ہے جو تاریخ میں کبھی عمر بن عبدالعزیز جیسے خلیفہ کے حصے میں آیا تو کبھی غزالی جیسے مفکر کے۔کبھی سعدی کی حکایتوں میں نغمہ زن ہوا تو کبھی ابن خلدون کی تحقیقات میں سر بلند ہوا۔جس نے تاریخ کے مصلحت آمیز رویے کو اپنے قلم سے تتر بتر کردیا اور جس کی روشنی میں تمام تاریخی شکوہ و حشمت ،دعوی و دلیل اورتزک و احتشام ننگے کھڑے دکھائی دینے لگے۔
نظم صرف مصرعوں کی تکمیل کا نام نہیں ہے اس کی بنت میں کسی بھی اسطور کی ایک داخلی ترتیب کا موجود ہونا لازمی ہے۔نظم کو اپنے تمام تر معانی خیز امکانات میں جتنا علاقہ آہنگ سے نہیں ہوتا اتنا ابہام سے ہوتا ہے۔پس ساختیاتی تھیوری چاہے جو کہے مگر معانی اور قاری کے درمیان مصنف کی منشا اپنی وجودیت سے کبھی انکار نہیں کرسکتی،نظم کا ابہام جتنا گہرا ہوگا،نظم نگار کی تخلیق پر فنی گرفت کا اشاریہ اتنا ہی روشن ہوگا،وہ فکر کو الفاظ کے چاک پر نئی شکل دینے کا ہنر جانتا ہوگا اور یہ ہنر ہی ادب میں اس کے تخلیق کردہ فن پارے کی قدر کا تعین کرے گا۔علی اکبر ناطق کی نظموں میں ان تمام فنی لوازمات کا اہتمام موجود ہوتا ہے، ان کے یہاں تکملے تک فضابندی کی موجیں کم اور تفکیر کی لہریں زیادہ سر ابھارتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔تاریخ اور اساطیر میں اس حد تک فرق ہے کہ ایک جگہ افراد عمل کے کھلے ہوئے نمونوں کے ساتھ منظر عام پر آتے ہیں تودوسری جگہ کرداروں کے اعمال مبالغے کی حقیقی نقابوں میں سماجی احتیاط و تدابیر کی قلعی کھولتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر تاریخ کے سرد وگرم کو اساطیری شکل دینے کی کوشش کرنا اور تمثیل و بیانیہ کے ذریعے نظم کے داخلی محرکات کے ساتھ ساتھ اس کی خارجی شکل و شباہت کو بھی حسین تر بنانا ہر نظم نگار کے بس کی بات نہیں ہے ، اس حوالے سے میں علی اکبر ناطق کی کئی نظموں کے نام لے سکتا ہوں مگر ان کی نظم سفیر لیلیٰ اس معاملے میں اقبال اور راشد کی تاریخی دروں بینی سے کچھ مقام آگے نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اس کی وجہ ان کا اپنی تاریخ کو بحیثیت نظم نگار اس زمانی فاصلے سے دیکھنا ہے جو اقبال اور راشد کے عہد کے حصے میں نہیں آیا تھا۔اس نظم میں انہوں نے اسلام کی تقریباً پندرہ سو سالہ تاریخ میں ہونے والی مذہبی،سیاسی، سماجی، معاشی اور فکری اتھل پتھل کا جیسا جائزہ لیا ہے وہ اس خوبصورتی سے پہلے کبھی نہیں لیاگیا تھا۔علی اکبر ناطق کی نظم سفیر لیلیٰ دراصل ایک تاریخ داں شاعر کا تحریر کیا گیا وہ مرثیہ ہے جو عرب اسلامی تہذیب کی شان و شوکت کے علاوہ اس کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔میں نے سفیر لیلیٰ کو کئی بار پڑھا ہے اور میرا ہر بار کا تجربہ اس معاملے میں مجھے تقویت فراہم کراتا رہا کہ یہ شاعر نظم کے ابتدائی تین حصوں میں جس شخص سے ہم کلام ہے وہ دراصل قاری ہی ہے۔قاری جو سفیر لیلیٰ ہے، یعنی رات کے شہر سے آنے والا ایک ایسا شخص جو شاعر کو بھی آگہی کے اس لق و دق صحرا سے اپنے ساتھ لیلیٰ شب کی راہوں پر لے جانا چاہتا ہے۔اوررات استعارہ اس بے خبری کا جہاں باطن تک ظلمت کے سائے لہراتے گھومتے ہیں،اس نظم میں اقبال کی طرح عبرت کے تازیانے نہیں ہیں، شاعر یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنی طرح دوسروں کو بھی اس تاریخی زوال کی طرف دیکھنے کے لیے مجبور کرے وہ تو آخر میں اس شعوری رو کو بھی قاری کے سر سے اتار لینا چاہتا ہے جسے نظم میں ناقے سے تعبیر کیا گیا ہے۔کیونکہ وہ ایک حد سے زیادہ اس بوجھ کو برداشت ہی نہیں کرسکتا۔عوام ہمیشہ تاریخی اغلاط کو مور کے پیروں کی طرح سمجھتی ہے پھر بھی اسے لگتا ہے کہ اس کا ماضی ہمیشہ اس کے حال سے بہتر ہی رہا ہوگا۔اس کے طبعی اسباب کیا ہیں اس سے مجھے کوئی غرض نہیں تاہم میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ گزرا ہوا وقت کسے اچھا نہیں لگتا، پدرم سلطان بود کا رویہ تاریخ کا پیدا کیا ہوا ایک سراب ہے جسے اقبال جیسے شاعر اپنی شہرت کا حوالہ بناتے ہیں ،تاریخی نظمیں لکھنے کا ایک فائدہ مبالغہ آرائی میں خط کمال کھینچنے جیسا ہے، جوکہ شاعری کرنے کے لیے بے حدمفید اور کارآمدہے۔تاریخ وہم اور اعتقاد کی دھند میں لپٹا ہوا وہ آئنہ ہے جس میں ماضی کااصلی چہرہ دیکھنے والے بہت کم ہوتے ہیں،اسی لیے گزرے ہوئے وقت کو دیکھنے کا اجتماعی شعور ہمیشہ سے کچھ اور رہا اور انفرادی شعور کچھ اور۔ شاعر اس معاملے میں زندگی کے ان باوزن خوابوں کو ڈھونے کی جرات کرتا ہے جن کی تعبیر کے سرے ماضی کے ستون سے لپٹے ہوئے ہوتے ہیں، اسے ان خوابوں کوحقیقت میں بدلنے کا سودا نہیں ہوتا مگر اس کا اضطرار جب بھی اسے ماضی کے ان ستونوں کی جانب لے جاتا ہے تو وقت کے بلند میناروں سے چمٹے ہوئے قصے، لپٹی ہوئی یادیں ،قہقہے، چیخیں اور سسکیاں اسے نظر آجاتی ہیں۔یہ بصیرت ہی دراصل شعور کا وہ عذاب ہے جو شاعر کے حصے میں آتا ہے، ان تاریخی عروج و زوال کی کھنکتی ہوئی لہروں کو اظہار کے کوزے میں اتارنے کا کام شاعر کرتا ہے ، ناطق نے یہ کام بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔ان کی نظم پڑھتے ہوئے تاریخی ہنگامے ،سکون وقت کے لحاف سے شور مچاتے، کودتے پھاندتے نکل آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے جیسے ہم استعاروں کی ایک ایسی دنیا کی سیر پر ہیں جہاں وقت رک گیا ہے اور تاریخ تیزی سے نظروں کے آگے دوڑرہی ہے۔میں علی اکبر ناطق کی اس نظم کی کیا تشریح و تعبیر کروں گا جبکہ یہ خود تاریخی ادراک و شعور اورمجاز و حقیقت کی تشریح بھی ہے اور تعبیر بھی۔مجاز کی تشریح اس طرح کہ اس میں ظاہری عمل داریوں اور معاشرتی برائیوں کے فرق پر کوئی وعظ نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر طنز کیا گیا ہے، کیونکہ شاعر کو لوگوں کی فطری ریا کاری اور زوال پسندی پر نہ تو کوئی حیرت ہے اور نہ ہی وہ اسلامی تہذیب کے نیست و نابود ہوجانے پر نوحہ کناں ہے۔اس پوری نظم میں تاریخ کے تین بڑے ادوار کو بڑے ہی پراسرار طریقے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔حقیقت کی تشریح یوں ہے کہ اس میں ایرانی تصوف کے عرب میں فروغ پانے اور اس کی وجہ سے نئی نئی بدعتیں پیدا ہونے کی جس کثیف لہر کو دکھایا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ عربی زوال محض ان مسجدوں اورمیناروں کے ظاہری انہدام تک محدود نہیں ہے جس میں ایسے خلیفہ بھی منبروں پر بیٹھے دکھائی دیے جن کے دور حکومت میں مقدس کعبتہ اللہ میں بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا اور آوازوں بھرے شہر سنسان کردیے گئے، بازار تہس نہس ہوئے، عورتوں ، بچوں کو تاراج کیا گیا اور نہ جانے کیسی کیسی بغاوتیں ہوئیں جبکہ وہ ذہنی انقلاب بھی انہیں بدعتوں میں شامل ہے جن میں عباسی دور حکومت کے آتے آتے خطاطی کے بہانے تصویر کشی اور جمال پسندی کے نام پر امرد پرستی جیسے افعال عرب تہذیب میں کھلے طور پر در آئے۔ایک نئی تہذیب، دو یا دو سے زیادہ تہذیبوں کا آمیزہ ہوتی ہے۔عوامی تحریک کے نام پر عرب میں بھی جس حکومت نے خود کو قائم کیا اس نے عربی وجاہت و وقار اور نسلی امتیاز اور تفخر کے جذبے کو برسرطاق رکھ کر دنیا کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا اور دراصل یہی وہ وقت تھا جب عربوں نے خود اپنی تہذیب کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسانے شروع کردیے تھے۔اس پورے فکری انقلاب نے جہاں اسلامی تہذیب کوایک نیا چہرہ عطا کیا وہیں کچھ لوگوں کی فکر کے دائرے پھیلائے تو کچھ کے اور سکوڑدیے۔یہ دورعربی تہذیب کی اپنے ہی وطن سے ہجرت کا دور تھا، وقت تو بانہیں پھیلا کر اس تبدیلی کو خوش آمدید کہہ رہا تھا مگر قدیم عربی تہذیب کے پروردہ ذہن اسے کسی بھی طرح ایک فکری زوال سے کم نہیں سمجھ رہے تھے اور یہیں سے اس تاریخی حقیقت کو فراموش کردینے کی وہ اجتماعی کوشش شروع ہوئی جس نے بیشتر افراد کو رات کی اس گہری وادی کی طرف روانہ ہونے پر مجبور کردیا جسے ہم ’ملک لیلیٰ‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔اب ذراناطق کی نظم کے پہلے حصے کی یہ سطریں ملاحظہ کیجیے۔
سفیرِ لیلیٰ تم آج آئے ہو تو بتاؤں 
ترے مسافر یہاں سے نکلے اُفق کے پربت سے اس طرف کو
وہ ایسے نکلے کہ پھر نہ آئے
ہزار کہنہ دعائیں گرچہ برزگ ہُونٹوں سے اُٹھ کے بامِ فلک پہ پہنچیں
مگر نہ آئے
اور اب یہاں پر نہ کوئی موسم ،نہ بادلوں کے شفیق سائے
نہ سورجوں کی سفید دُھوپیں
فقط سزائیں ہیں،اُونگھ بھرتی کر یہہ چہروں کی دیویاں ہیں
سفیرِ لیلیٰ 
یہاں جو دن ہیں وہ دن نہیں ہیں
یہاں کی راتیں ہیں بے ستارہ 
سحر میں کوئی نمی نہیں ہے
ظاہر ہے کہ یہ نظم شاعر کی انفرادی سوچ کا اعلامیہ ہے ، جو کہ ہمیشہ سے اجتماعی فکر سے الگ تھلگ رہی ہے۔ناطق نے اپنی نظم کے دوسرے حصے میں جو کچھ لکھا ہے وہ اسی عباسی دور حکومت کے درمیان عرب میں ترویج پانے والی اس تہذیب کی یادگار ہے جسے وقت نے عرب میں بین الملوکی تہذیب کا سب سے بڑا نمائندہ بنادیا تھا۔وقت بدل رہا تھا اور زندگی مذہب کے موٹے رسے سے چھوٹ کر اپنی من مانیوں کی ڈگر پر دوڑے جارہی تھی۔اس تہذیبی اختلاط نے لوگوں کے ذہن کو ایک بار پھر جاہلی دور کے اسی ریگستان میں پہنچادیا تھا جہاں باہر سے دیکھنے پر عرب باشعور، فیاض و سخی اور مذہبی مورثین کی طرح نظر آتے تھے مگر داخل میں جھانکتے ہی ان کی فطرت کا اصل نمونہ نظروں کے سامنے عریاں ہوتے دیر نہیں لگتی تھی۔اس نظم کی جرات یہ ہے کہ اس نے اس پورے تاریخی ابلاغ و احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جس کے سہارے اقبال گردش ایام کی باگیں پیچھے کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اس پورے منظرنامے کو ناطق نے اپنی نظم کے دوسرے حصے میں یوں سمیٹا ہے:
یہ صحنِ مسجد تھا، یاں پہ آیت فروش بیٹھے دعائیں خلقت کو بیچتے تھے
یہاں عدالت تھی اور قاضی امان دیتے تھے رہزنوں کو
اور اس جگہ پر وہ خانقاہیں تھیں، آب و آتش کی منڈیاں تھیں
جہاں پہ امرد پرست بیٹھے صفَائے دل کی نمازیں پڑھ کر 
خیالِ دنیاسے جاں ہٹاتے
سفیرِ لیلیٰ میں کیا بتاؤں کہ اب تو صدیاں گزر چکی ہیں
مگر سنو اے غریبِ سایہ کہ تم شریفوں کے راز داں ہو
یہی وہ دن تھے ، میں بھول جاؤں تو مجھ پہ لعنت
یہی وہ دن تھے سفیرِ لیلیٰ، ہماری بستی میں چھ طرف سے فریب اُترے
دروں سے آگے ، گھروں کے بیچوں پھر اُس سے چولہوں کی ہانڈیوں میں
جوان و پیرو زنانِ قریہ خوشی سے رقصاں
تمام رقصاں
ہجومِ طِفلاں تھا یا تماشے تھے بوزنوں کے
کہ کوئی دیوار و در نہ چھوڑا
وہ اُن پہ چڑھ کر شریف چہروں کی گردنوں کو پھلانگتے تھے
درازقامت، لحیم، بونے
رضائے باہم سے کُولھووں میں جُتے ہوئے تھے
خراستے تھے وہ زرد غلّہ تو اُس کے پِسنے سے خون بہتا تھا پتھروں سے
مگر نہ آنکھیں کہ دیکھ پائیں نہ اُن کی ناکیں کہ سُونگھتے وہ
فقط وہ بَیلوں کی چکّیاں تھیں سَروں سے خالی
فریب کھاتے تھے، خون پیتے تھے اور نیندیں تھیں بَجوؤں کی
دراصل عرب میں منظم حکومت کا سرے سے کبھی کوئی بنیادی خیال موجود ہی نہیں تھا اور اس کا سبب تھا عربوں کا وہ مزاجی انتشار جس نے انہیں کبھی ایک فکری نظام کا پابند ہونے پہ مائل ہی نہیں کیا۔خلفائے راشدین کے عہد میں حضرت عمر فاروقؓ اور خلفائے امویہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے ادوار کے علاوہ عرب میں پرسکون عہد حکومت کے شاید ہی اکادکا نمونے اور ہوں۔اسی لیے فردوسی جیسے شاعر نے بھی ایران پر عربوں کے تسلط کی خواہش کو وقت کے ظلم و مذاق سے تعبیر کیا ہے۔چنانچہ وہ سعد بن ابی وقاص کے ملک یزدگرد پر حملہ آور ہونے کے منظر پر شاہنامے میں لکھتا ہے کہ
بہ شیر شتر خوردن سوسمار
عرب را بجاے رسیداست کار
کہ تخت کیاں را کنند آرزو
تفف بر تو اے چرخ گرداں تفو
نظم کے تیسرے حصے میں اس تاریخی سیاق سے ابھرنے والے دھویں کی وہ لہریں دیکھی جاسکتی ہیں جن کی سیاہی آنکھوں کو جلانے کا فن جانتی ہے۔اس حصے میں شاعر نے قاری کو اس فکری کج رو سے الجھتے رہنے کی اپنی اذیت کا اشاریہ فراہم کیا ہے۔دراصل شاعر بھیڑ میں بھی اکیلا ہوتا ہے،قاری کا اور اس کا ساتھ دراصل مطالعۂ نظم کے اس دورانیے کا استعارہ ہے جس میں قاری کو وہ اپنے غموں کا شریک کرتا ہے اس کے ذہن پر لگی ہوئی دیمک گراتا ہے اورتاریخ، تہذیب، سماج، مذہب اور ایمان کے تعلق سے اس کی ان موجودہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرتا ہے جسے وہ اب تک خوشی خوشی وراثتوں کا حسین تحفہ سمجھ کر ڈھو رہا تھا۔علی اکبر ناطق کی نظم سفیر لیلیٰ تاریخ کے مدفن میں پڑے ہوئے استخواں کا اصلی چہرہ سامنے لاتی ہے جسے ہم نے اپنی نظروں کے دھوکے کے لیے مسکراتا ہوا سمجھ لیا ہے جبکہ اس استخواں کا پھیلا ہوا جبڑہ اس کی شدت تکلیف کو ظاہر کرنے کا آخری ذریعہ ہے۔ایسی نظمیں صرف اسی لیے یادگار نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے ابلاغ کے لیے ذہن کے کھنڈرات پر جمے ہوئے جالے صاف ہوتے ہیں بلکہ یہ نظمیں مذہبی ادب کی تخلیق کے اس رویے کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں جوتاریخ کو گڈمڈ کرکے اپنے حصے کی کامیابی تو لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا جانتا ہے لیکن ناکامی کے داغوں کو وقت کی چادر میں چھپائے رکھنے کے سلیقے کو ہی اپنی شہرت کی اصل وجہ سمجھتا ہے۔یہ بات جگ ظاہر ہے کہ فکر بدلی جاسکتی ہے، وقت بدلا جاسکتا ہے، انقلابات کی تہوں میں لوگوں کی سسکیوں کو دفنایا جاسکتا ہے، تاریخ کے شور میں سچائیوں کی آوازوں کو قید کیا جاسکتا ہے مگر تخلیقی ادب اس تاریخی اہرام کے سائے میں دبے ہوئے قصوں اور حکایتوں کو ننگی دھوپ میں لانا جانتا ہے۔اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ اصل فن کاری قصوں کی زبان میں بات کرنا ہے، نہ کہ ان کو اپنی زبان عطا کرنا۔میں اس رویے سے بھی انکار کرتا ہوں کہ ادب تاریخ کا مرثیہ نہیں ہوسکتا، عوام کا نمائندہ نہیں ہوسکتا، کسی تحریک کا ترجمان نہیں ہوسکتا، مذہبی ابلاغ و ترسیل نہیں ہوسکتا یا پند ونصیحت نہیں ہوسکتا۔ادب سب کچھ ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ ادب ہو۔بہت دور کیوں جائیں سعدی کی گلستاں بوستاں تو پھر بھی مقبول کتابیں ہیں لیکن ان کی کریما میں شامل ایسے اشعار کی تاثیر سے کون انکار کرسکتا ہے جس میں انہوں نے نصیحت کرتے کرتے ایسے خوبصورت استعارے اور کنایے ٹانک دیے ہیں کہ شاعری کا فن اس ایک نصیحت آموز نظم سے سیکھا جاسکتا ہے۔ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں کہ لکھنے والا کس ذہنیت کا مالک ہے،ہم صرف فن کاری چاہتے ہیں،جس تخلیق میں کوئی نیا پن نہ ہو، جہاں صرف لوگوں کو ورغلانے او ربہلانے پھسلانے کے لیے ادب کے نام پر تاریخ کی افیونی گولیاں کھلائی جاتی ہوں ،ہم اسے قبول کرنے پر تیار نہیں۔تخلیق کی قدر اس کی فنی نوعیت کے اعتبار سے ہوتی ہے نہ کہ کسی مقصدیت کے فروغ سے اور اس حوالے سے میں کہہ سکتا ہوں کہ علی اکبر ناطق کی یہ نظم اردو ادب کا ایسا شاہکار ہے جس سے پہلے اس طرح کی کوئی نظم اردو میں نہیں لکھی گئی۔اس کے چاروں حصے تخلیقیت سے بھرپور، استعاروں،کنایوں اور تشبیہوں، تمثیلوں کی آماجگاہ ہیں۔علی اکبر ناطق کے بارے میں اب اس کے بعد اور کچھ نہیں کہوں گا کہ اس نظم کے آخری حصے میں جو سطریں اس امانت کیش کے بارے میں لکھی گئی ہیں جسے نظم میں کہیں بھی مجنوں کے نام سے نہیں پکارا گیا،وہی ان کے ذہنی افکار کی بلندیوں اور عمومی پست نگاہی کے درمیان خط فاصل کھینچتی ہیں:
وہیں پہ بیٹھا تھا سربہ زانوں تمہارا محرم
کھنڈر کے بوسیدہ پتھروں پر حزین وغمگیں
وہیں پہ بیٹھا تھا
قتل ناموں کے محضروں کو وہ پڑھ رہا تھا
جو پستیوں کے کوتاہ ہاتھوں نے اُس کی قسمت میں لکھ دیے تھے
حریمِ محمل میں اپنے ناقہ سے نیچے اُترا تو میں نے دیکھا کہ اُس کی آنکھیں خموش و ویراں
غبارِ صحرا مژہ پہ لرزاں تھا، ریت دیدوں میں اُڑ رہی تھی
مگر شرافت کی ایک لَو تھی کہ اُس کے چہرے پہ نرم ہالہ کیے ہوئے تھی
***

مضمون نگار: تصنیف حیدر

http://rekhta.org/Nazm/ali_akbar_naatiq_safiir_e_lailaa_1

No comments:

Post a Comment