صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی کیا معنویت ہے؟
اس سوال کی تہ میں شعری تنقید کا ایک نہایت اہم قضیہ کارفرما ہے۔ اس قضیے کے مطابق شاعری کے معنی اور معنویت میں فرق ہے۔ بعض لوگوں نے ان کے لیے بالترتیب Verbal meaning اور Significanceکی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ۱ معنی دراصل وہ بنیادی مفہوم ہے جو شعری متن کے فوری سیاق، اس کے آس پاس کے صنفی و شعریاتی منطقے کو ملحوظ رکھنے سے برآمد ہوتا ہے۔ معنی بالعموم متعین، مقرر اور محدود ہوتا ہے، مگر واضح رہے کہ معنی کا متعین اور محدود ہونا متن کے اس فوری سیاق کا مرہون ہوتا ہے جس میں متن تخلیق ہوا تھا اور جو متن کو اس کے لمحہء تخلیق و ماحول سے وابستہ رکھتا ہے۔ وگرنہ متن، سیاق کے کناروں کو توڑ کر باہر جانے کے لیے مضطرب ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شعری متن، زبان کے ایک ایسے استعمال سے عبارت ہے، جس میں زبان کی بدیعی و تلازماتی قوت کو زیادہ سے زیادہ ابھارا جا سکے۔ شعری زبان میں آہنگ و صوت سے لے کر نحویاتی و معنیاتی سطحوں تک نئے نئے رشتے ابھارنے اور معنیاتی عدم تعین کی مستقل صورتِ حال تخلیق کرنے کا غیر معمولی ملکہ ہوتا ہے۔ چناں چہ جب کسی شعری متن کا معنی متعین کیا جاتا ہے تو دراصل شعری زبان کی تلازماتی قوت پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کی کام یابی کا انحصار شعری متن کے فوری سیاق کو گرفت میں رکھنے پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شعری زبان کی تلازماتی قوت کو اگر کوئی چیز پابند کر سکتی ہے تو وہ سیاق یا تناظر ہے، وگرنہ یہ ایک مرکز گریز قوت ہے اور اس کی فطرت میں ایک ایسا اضطراب ہے جو اسے کسی ایک مقام پر رکنے نہیں دیتا اور نئے معنیاتی سلسلوں کی تخلیق پر اسے مائل رکھتا ہے۔ یہ اضطراب انسانی روح میں بھی موجود ہے اسے نئی حیرتوں کی تلاش اور محدود سے لامحدود کی طرف سفر پیما رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔ جب شعری متن اپنے سیاق سے گریز اختیار کرکے کسی دوسرے تناظر میں قدم رکھتا ہے، یعنی کسی دوسرے زمانے، کسی مختلف صورتِ حال، کسی نئی فکر، کسی نامانوس معنیاتی فضا میں اسے پڑھا جاتا اور اس کی تعبیر کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہمارے ہاتھ آتا ہے وہ متن کی معنویت ہے۔
بجا کہ معنویت، شعری زبان کی تلازماتی قوّت کے برسرِ عمل ہونے کا نتیجہ ہے، مگر اس قوت کی عمل آرائی کا میدان وہ عمومی ثقافتی فضا ہے، جسے ہم دنیا کو سمجھنے اور برتنے میں اکثر غیر شعوری طور پر کام میں لاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شاعری کی معنویت ایک نفسیاتی عمل نہیں، ایک ثقافتی عمل ہے۔ کوئی شعری متن یا اس کے بعض مصرعے یا الفاظ کسی قاری کے یہاں کسی نفسیاتی واقعے کا محرک بن سکتے ہیں؛ قاری، متن اور اپنی ذہنی دنیاؤں میں بعض اشتراکات دریافت کر سکتا اور ایک جذباتی کیفیت میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اس کیفیت کے زیرِ اثر ادبی متن کے مخصوص معانی قائم کر سکتا ہے، مگر انھیں متن کی معنویت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معنویت، کسی ادبی متن میں معنی سازی کی قوّت کا وہ انکشاف ہے جسے ایک ثقافتی عمل بنایا جا سکے۔ راشد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ الفاظ کے اندر رنگ بھی ہوتے ہیں اور کئی طرح کے ٹیڑھے ترچھے زاویے بھی۔‘‘ ۲ ایک شاعر کی حیثیت میں راشد الفاظ کی اس دنیا سے خوب واقف تھے جو الفاظ کے لغوی و عمومی معانی کے آگے کی دنیا ہے۔ راشد نے دانستہ معانی کے بجائے رنگوں اور زاویوں کا ذکر کیا ہے۔ الفاظ کس طور اپنے محدود، مقرر معانی کو عبور کرنے کے لیے بے تاب رہتے، نئی نئی جمالیاتی کیفیتوں اور نئے نئے فکری اطراف کے اشارہ نما ہوتے ہیں، اس کے لیے رنگ اور زاویے ہی موزوں استعارہ ہیں۔ الفاظ کے انھی رنگوں اور زاویوں میں، معنی سازی کی قوّت ہوتی ہے۔ انگریزی تنقید میں الفاظ کے رنگوں اور زاویوں کے لیے Connotations کی اصطلاح مروّج ہے۔ ٹیری ایگلیٹن نے لکھا ہے کہ Denotations کے مقابلے میں Connotations آسانی سے گرفت میں نہیں آتے۔ ۳ حقیقت یہ ہے کہ Denotations میں فقط معنی ہے اور Connotations میں معنی سازی کا ملکہ ہے معنی گرفت میں آ جاتا ہے مگر معنی سازی کی قوت پر دست رس محال ہے اور اس قوّت کے ثقافتی تناظر میں اظہار کا دوسرا نام معنویت ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ صارفی معاشرت کا کوئی براہِ راست تعلق راشد کی شاعری کے معنی سے نہیں ہے۔ بلاشبہ صارفی معاشرت، راشد کی نظم کا فوری سیاق نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بیسویں صدی کے تیسرے تا ساتویں عشرے کے درمیان، جب راشد شاعری تخلیق کر رہے تھے، صارفی معاشرت نے یہاں وہاں اپنے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ راشد کو اس مغربی معاشرت کو براہِ راست دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا تھا، جہاں صارفیت دوسری جنگ عظیم کے بعد اہم ترین ثقافتی مظہر میں تیزی سے ڈھلنے لگی تھی، مگر راشد کے لیے صارفی معاشرت بوجوہ مرکزی شعری سروکار نہیں بن سکی تھی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ راشد نے اپنی معاصر عالمی معاشرت کا تصور استعماری معاشرت کے طور پر کیا تھا۔ چناں چہ صارفی معاشرت بالعموم، استعماری معاشرت کے ایک جز کے طور پر ہی ان کے شعری ادراک میں آئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ راشد بہ طور شاعر صارفی معاشرتی کا ٹھیک اسی قدر ادراک کرنے میں کام یاب ہوئے، جس قدر یہ استعماری معاشرت کا حصّہ ہے۔ راشد کے یہاں استعماریت کا سیاسی پہلو مقابلتاً زیادہ نمایاں اور زیادہ اہم تھا۔ یہ سب برحق، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راشد کے لیے اہم ترین چیز شاعری تھی اور وہ شاعر کے طور پر نہ صرف اپنی ذمے داریوں سے خوب آگاہ تھے بلکہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ’’ادیب کی اصل ذمہ داری پوری زندگی کے سامنے ہے۔ کسی جغرافیائی حد بندی، کسی حکومت، سیاسی عقیدے یا سیاسی حزب یا گروہ کے سامنے نہیں۔ کیوں کہ یہ اس عظیم اور بے کراں زندگی کے، جو ادیب کی ذات کے اندر اور باہر ازل سے رواں دواں ہے اور ابد تک رواں دواں رہے گا، محض مختصر، بے مایہ اور ناقابلِ ثبات اجزا ہیں۔‘‘ ۴ ہر چند ذمے داری کا تصور اور شعور ایک چیز ہے اور اسے اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنانا دوسری چیز ہے۔ تاہم راشد کی شاعری سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کی معاصر سیاسی، مقامی، عالمی صورتِ حال بہ ہر حال پوری زندگی کا ایک جز تھی۔ ہر چند راشد نے تنقیدی شعور کے لمحات میں اس جز کو بے مایہ اور حقیر کہا ہے، مگر انھوں نے استعماریت کو جس گہرائی سے پیش کیا ہے اور ایشیائی ممالک کو استعماری تہذیب کی بلندی کی چھپکلی سے تشبیہ، دی ہے، اس سے ہرگز نہیں لگتا کہ ان کے لیے یہ جز پوری زندگی کا بے مایہ اور ناقابلِ ثبات جُز تھا۔ غالباً شاعری کے اسی تصور کی وجہ سے ان کے شعری متن میں ’کئی رنگ اور ٹیڑھے ترچے زاویے‘ ظاہر ہوتے چلے گئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کی نئی معنویتیں سامنے آ رہی ہیں۔
صارفی معاشرت اپنے تمام تر جلووں کے ساتھ تو یورپ اور امریکا میں نظر آتی ہے، مگر اس کے اثرات کی زد میں پوری دنیا ہے۔ مغرب میں یہ مابعد صنعتی عہد کی صورتِ حال ہے۔ اکثر سماجی مفکّرین اسے صنعتی عہد کا لازمی، تاریخی نتیجہ قرار دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صنعتی عہد کے نتیجے میں جب اشیا نہایت فراوانی کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کا صَرف سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ان کے صَرف کو ممکن بنانے کے لیے ماس مارکیٹ، ماس پاپولر کلچر کو پیدا کیا گیا اور ان کے فروغ کی خاطر میڈیا، اشتہاری صنعت وغیرہ وجود میں لائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعتوں کی بقا، ان کی پیداوار کی کھپت میں تھی، مگر صنعت کار محض اپنی صنعتوں کی بقا پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں تھے: انھیں اپنے سرمائے میں مسلسل اور تیز تر اضافے کی بے لگام ہوس تھی۔ اس ہوس ہی نے صارفیت کو جنم دیا۔ لہٰذا صارفیت، صنعتی عہد کا لازمی تاریخی نتیجہ نہیں، سرمایہ پرستی کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ صارفیت، کثیر پیداواریت کے لا متناہی اور پیہم صَرف کو ممکن بنانے کی تدبیروں کی عملی شکل ہے۔ ان تدبیروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا وہ تصوّر تھا، جس کے مطابق انسان چند بنیادی ضرورتیں رکھتا ہے۔ (خود صنعتیانے کے عمل میں یہ تقاضا کہیں موجود نہیں تھاکہ اشیا کی پیداواریت انسان کی بنیادی ضرورتوں سے فزوں تر ہوگی۔) سرمایہ پرست ذہن نے اس تصوّرِ انسان کو تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ اس ذہن کے نمایندہ امریکی مصنّف وکٹر لیبو نے ۱۹۵۵ء میں لکھا۔
ہماری عظیم پیداواری معیشت ۔۔۔ تقاضا کرتی ہے کہ ہم صَرفیت کو اپنا طرزِ زندگی بنائیں۔ یہ کہ ہم اشیا کی خریداری اور ان کے استعمال کو رسومیات میں تبدیل کریں، یہ کہ ہم اپنی رومانی تسکین، اپنی انا کا اطمینان، صَرفیت میں تلاش کریں ۔۔۔ ہمیں ایسی اشیا درکار ہیں جو صَرف ہو جائیں، راکھ ہو جائیں، پرانی بوسیدہ ہو جائیں، تبدیل ہو جائیں اور انھیں تیزی کے ساتھ ٹھکانے لگا دیا کریں۔ ۵
گویا صارفی انسان کا تصوّر تخلیق کیا گیا۔ اس تصوّر کے مطابق انسان کی ضرورتوں کا کوئی انت نہیں۔ اس کے اندر ان تمام اشیا کی شدید طلب ہے جنھیں کثرت سے منڈی میں لایا جاتا ہے۔ صارفی معاشرت میں اشیا، انسانی ضرورتوں کے مطابق پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ اشیا کے مطابق انسانی ضرورتیں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ صارفی معاشرت، انسانی نفسیات اور ثقافت کے گہرے مطالعے سے وہ تمام طریقے دریافت کرتی ہے، جو ایک طرف نئی انسانی ضرورتوں کی تخلیق کو ممکن بنائیں اور دوسری طرف نت نئی اشیا اور ان کے روز بدلتے برانڈ کے صَرف کو ایک ثقافتی تعیّش اور روحانی اطمینان میں بدل سکیں۔ دوسرے لفظوں میں صارفی انسان کے تصّور میں روح کا انکار موجود نہیں ہے، مگر یہ روح ارفع اور بے غرضانہ اعمال سر انجام دینے میں اطمینان حاصل کرنے کے بجائے نئی، مہنگی صنعتی اشیا کے صَرف میں سرشاری پاتی ہے۔ کیا انسانی روح اپنی اصل کو ترک کرکے باقی رہ سکتی ہے؟ صارفی معاشرت میں یہ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ صارفی معاشرت کسی ایسی انسانی ضرورت کے امکان ہی کو ردّ کرتی ہے، جسے وہ پورا نہ کر سکے۔ صارفی تصوّرِ کائنات میں انسانی ضرورتوں اور تمنّاؤں سے انکار کا شائبہ تک موجود نہیں ہوتا؛ وہ خود کو غیر معمولی خلاقیّت کا حامل سمجھتی ہے کہ جو ہر قسم کی انسانی تمنّا کی سرشاری کا سامان پیدا کر سکتی ہے۔
اب اگر اس تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت دریافت کریں تو مجموعی حیثیت میں ان کی پوری شاعری صارفی معاشرت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ نظر آتی ہے۔ وجودیاتی سطح پر راشد کی شاعری اس تصوّر کے خلاف ایک باقاعدہ احتجاج ہے، جس کے مطابق ہر شے کی قدر و قیمت، اس کی صَرفی حیثیت سے متعین ہوتی ہے۔ صارفی معاشرت میں معنی کے واحد اور اٹل تصوّر کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ متبادل اور استعاراتی معانی کو قبول کرنے کا مطلب لوگوں کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ اشیا کے معنی اور مقصد کو خود اپنے تناظر میں متعین کر سکتے ہیں۔ صارفی معاشرت کے لیے اس سے زیادہ خطرناک کوئی بات نہیں کہ لوگ معنی متعین کرنے اور فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ چناں چہ وہ واحد معنی پر اپنے اجارے سے کسی طور دست بردار نہیں ہوتی۔اس زاویے سے دیکھیں تو راشد کی شاعری صارفی معاشرت کے تصوّرِ معنی کے یک سر برعکس تصوّرِ معنی کی علم بردار نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ خصوصیت دنیا کی تمام شاعری میں ہوتی ہے کہ وہ واحد معنی کے اجارے کو مسترد کرتی اور معانی کے نئے آفاق کی جستجو میں رہتی ہے، تاہم اس ضمن میں راشد کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کی کثرت ہے، نیز بعض مقامات پر راشد براہِ راست صارفی کلچر کی بنیادوں پر ضرب لگاتے ہیں۔ مثلاً
زندگی ہیزمِ تنور شکم ہی تو نہیں
پارۂ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں
(کلیات، ص۱۶۱)
صارفی معاشرت کا سارا زور، انسانی زندگی کو اپنے تنور شکم کا ایندھن بنا ڈالنے پر ہے۔ اس نظم میں اس سے انکار ملتا ہے کہ زندگی کو اپنے یا غیر کے تنورِ شکم میں جھونک دیا جائے۔ اس انکار کے پردے میں زندگی کا وسیع اور بلند تصوّر تو موجود ہی ہے، زندگی کے بعض ایسے معانی کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے، جو زندگی کو کسی بھی شے کا ایندھن بننے کا انکار کرتے ہیں، خواہ وہ پارۂ نانِ شبینہ اور ہوسِ دام و درم ہوں یا آتشِ دیروحرم ہو۔ نظم کے آخر میں جن مردانِ جنوں پیشہ کا ذکر ہے، ان کے لیے زندگی انھی کی اپنی ہے اور وہی اس کے معانی و مقاصد متعین کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو راشد کے یہاں صارفی معاشرت کا ایک غیر معمولی اور وسیع تصوّر ملتا ہے۔ فقط سرمایہ پرست اور استعمار ہی لوگوں کی زندگی کو ایک قابلِ صَرف شے میں تبدیل نہیں کرتے، مختلف سٹیٹ اپریٹس، نظریے، کلامیے اور آئیڈیالوجی بھی انسانی زندگی کو اپنے تصرّف میں لاتے اور انسانوں سے اپنی ہستی کے معانی خود طے کرنے کی آزادی اور اختیار سلب کرتے ہیں۔ راشد کے یہاں فرد کی داخلی آزادی ایک ایسے تقدّس کی حامل ہے جسے مجروح کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ راشد اپنی اس فکر میں پوری طرح واضح تھے۔
میں فرد کی کامل آزادی اور اس کی انا کی نشو و نما کا شدّت سے حامی ہوں۔ ایسی آزادی جس کے راستے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو ... میرا عقیدہ یہ ہے کہ تمام اقدار کا مرکز انسان ہے اور تمام اقدار انسان کے ذاتی تجربات سے پیدا ہوئی ہیں۔ کسی الوہی طاقت کی طرف سے مقرر نہیں کی جاتیں، نہ کسی حکومت یا گروہ کی طرف سے عائد کی جا سکتی ہیں۔ ۶
ہر چند یہ فرد کی آزادی کا مثالی تصوّر ہے جسے مغرب میں بشرمرکزیت فلسفے اور جدیدیت نے پیدا کیا، تاہم راشد کے لیے یہ تصوّر عقیدے کا درجہ رکھتا تھا اور وہ فرد کو ایک قابلِ صَرف شے نہیں سمجھتے تھے اور مذہبی، ریاستی یا سماجی کسی بھی ادارے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں تھے کہ وہ فرد کو اپنے مقاصد کے حصول میں صَرف کر دے۔ ان کے نزدیک ان اداروں کا کام فرد کو شے نہیں، ایک باشعور ہستی سمجھنا اور اس کی انا، شعورِ ذات کی نشوونما میں مدد دینا تھا۔ گویا راشد کے یہاں صارفیت کا محض اقتصادی مفہوم نہیں ملتا، ایک نیم فلسفیانہ اور ثقافتی مفہوم بھی موجود ہے۔ یہ مفہوم لا236انسان اور گماں کا ممکن کی نظموں میں شدّت سے پیش ہوا ہے۔ مثلاً نظم ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کے یہ مصرعے فرد کی آزادیِ کامل پر زور دیتے ہیں۔
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پر لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینہء گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
(کلیات، ص۲۹۱)
مابعد صنعتی عہد کی صارفی معاشرت کی تمام قباحتوں کو راشد کے یہاں تلاش کرنا عبث ہے کہ یہ ان کی شاعری کا مرکزی سروکار نہیں تھا۔ تاہم ان کی بعض نظموں کی تلازماتی اور استعاراتی جہات کی تعبیر صارفی تناظر میں ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی نظم ’وزیرے چنیں‘ ہے۔
اس نظم کی بنیاد الف لیلہ و لیلہ کی ایک کہانی ہے۔ یہ کہانی شیراز کے ایک نائی کی ہے جو نائی ہونے کے علاوہ دماغوں کا بھی مشہور ماہر تھا۔ وہ دماغ کو کاسہء سر سے الگ کرکے، اس کی آلائشیں پاک کرکے اسے واپس اس کی جگہ لگانے کے فن میں قابل تھا۔ ایک دن اس کی دُکان پر ایران کا ایک وزیر کہن سال آیا۔ ابھی ’ماہرِ کامل‘ نے دماغ کو صاف کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اسے بادشاہ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو اسے عجلت میں بے مغز سر لیے دربارِ سلطانی میں جانا پڑا (گویا وہاں مغز کے بغیر ہی کام چل جاتا تھا)۔ دوسرے دن واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اس کا دماغ نائی کے پڑوسی کی بلّی کھا گئی تھی۔ چناں چہ متبادل کے طور پر دانیالِ زمانہ کے سر میں بیل کا مغز رکھ دیا گیا اور اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جنابِ وزیر، فراست، دانش اور کاروبارِ وزارت میں پہلے سے بڑھ کر چاق و چوبند ہو گئے ہیں۔ اس کہانی کا (سامنے کا) معنی تو یہ ہے کہ حکومتوں کے لیے وہ لوگ زیادہ موزوں ہوتے ہیں جو مغز ہی نہیں رکھتے یا زیادہ سے زیادہ بیل کا دماغ رکھتے ہیں۔ اس سے بہتر طنز اربابِ حکومت پر نہیں ہو سکتا تاہم یہ نظم ایک اور تناظر میں گہری معنویت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ غور کریں تو یہ نظم صارفی معاشرت میں فرد کے نئے تشخّص کی تخلیق کے پورے عمل کو منکشف کرتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار وزیر نہیں، نائی ہے۔ نظم میں اہم تبدیلی وزیر کے کردار میں رونما ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی وزیر کے اپنے ارادے یا اقدام سے نہیں، نائی کی مہارت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو نائی سرمایہ پرست طبقے کی اس آئیڈیالوجی کی علامتی نمایندگی کرتا ہے جس کے ذریعے نئے انسانی تشخّص کی تخلیق کی جاتی ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ نظم میں اس کے نائی کے پیشے سے زیادہ اس کے ماہرِ دماغ ہونے پر ارتکاز ملتا ہے۔ ہر چند اسے دعویٰ ہے کہ وہ دماغ کی آلائشیں دور کر تا ہے، یعنی وہ ایک معالج ہے، مگر یہ دعویٰ اسی تضاد اور خود تردیدی صورتِ حال کا حامل ہے جو ہر آئیڈیالوجی میں ہوتی ہے۔ نظم میں اس کے معالج ہونے کے دعوے کے ثبوت میں کوئی واقعہ مذکورہ نہیں اور جو واقعہ مذکورہ ہے اور جو کہانی میں ایک فیصلہ کن موڑ لاتا ہے، وہ اسے ایک ایسے پیشہ ور نیوروسرجن کے طور پر سامنے لاتا ہے جو نیا دماغ ٹرانسپلانٹ کرنے میں ماہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صارفی معاشرت میں فرد کو یک سر نیا تشخص دیا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کی جگہ بیل کے دماغ کی پیوندکاری، اسی نئے تشخص کی تشکیل کی علامت ہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ نائی کے پاس کئی حیوانوں کے مغز موجود تھے۔ وہ کہاں سے آئے؟ کیا ہم اسے نیم اساطیری کہانیوں کے اس عمومی واقعے کے طوپر پر لیں جس میں کوئی بھی عجیب و غریب بات اچانک ممکن ہوتی ہے اور اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی یا پھر یہ سمجھا جائے کہ وہ لوگوں کے دماغوں کو تبدیل کرنے اور انھیں نئی شناختیں دینے کی خاطر طرح طرح کے دماغ اپنی دست رس میں رکھتا تھا اور اس کا یہ کہنا کہ وزیر کا مغز ہمسائے کی بلی کھا گئی ہے دراصل اسے نیا اور حیوانی دماغ لگانے کا محض بہانہ تھا۔ اسی طرح سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس نے آخر بیل کے مغز کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ کیا اس بات کا علامتی مفہوم یہ نہیں کہ اس کی دست رس میں ایک سے زیادہ تشخصّات تھے اور اسے اپنی مرضی اور ترجیح کے مطابق کسی ایک تشخص کے انتخاب کا اختیار بھی تھا۔ صارفی معاشرت میں سرمایہ پرست طبقے کو بھی شناخت سازی کے وسائل پر اجارہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز بیل کے مغز کا انتخاب کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ صارفی آئیڈیالوجی کو ایک ایسا انسانی تشخص مطلوب ہوتا ہے جو ارادے اور منشا سے محروم ہو؛ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہو؛ انفرادی سطح پر تلاشِ معنی کی تمنّا نہ رکھتا ہو۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر صارفی طرزِ معاشرت میں شے پر شے صَرف کرتے چلے جانے اور پھر بھی نئی اشیا کی طلب کرتے چلے جانے کے لیے بیل کا مغز ہی چاہیے۔ اگر یہاں ایک لمحے کے لیے الف لیلہ و لیلہ کی بیل اور گدھے کی کہانی یاد کریں تو بیل کی کرداری خصوصیات آئنہ ہو جاتی ہیں: وہ وہی کچھ کرتا ہے جس کا مشورہ اسے گدھا دیتا ہے۔
اس سلسلے کی دوسری نظم ’ایک اور شہر‘ ہے جو ۱۹۵۷ء میں نیویارک میں لکھی گئی تھی۔ نظم کا موضوع بھی نیویارک شہر ہی ہے۔ اسے ایک اور شہر کا عنوان دینے کی ایک وجہ تو اسے اپنی ایک پہلی نظم ’ایک شہر‘ سے ممیز کرنا ہے جو ۱۹۵۰ء میں کراچی میں تخلیق ہوئی تھی اور دوسری وجہ اس بات پر زور دینا ہے کہ نظم جس شہر سے متعلق ہے وہ ایک نئی، انوکھی اور عجب قسم کا شہر ہے۔ نظم میں شہر اور اس کے باسیوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ اسے ایک صارفی معاشرت کا حامل شہر ثابت کرتا ہے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور یورپ میں صارفی کلچر کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا گیا اور اسے سرمایہ دارانہ معیشت کی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔
یہ نظم ’وزیرے چنیں‘ کے گیارہ برس بعد لکھی گئی، مگر دونوں کی بافت (Texture) کو دیکھیں تو دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہیں۔ ’وزیرے چنیں‘ میں انسان کو ایک ایسی نئی شناخت دینے کی کہانی ملتی ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت اپنی داخلی آزادی، اپنی ہستی کے معنی خود دریافت کرنے کی صلاحیت سے محرومی ہے۔ نظم ’ایک اور شہر‘ کے پہلے بند میں اسی جانب اشارہ ملتا ہے:
خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش
تاریکی خود بے چشم و گوش
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
(کلیات، ص۲۳۹)
ایک اور شہر یا صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کو خودشناسی کی تمنا ہی نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ انھیں اس مغز ہی سے محروم کر دیا گیا ہے جو خود آگاہی کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صارفیت، معاشی سرگرمی کے نام پر لوگوں کو مسلسل حرکت میں رکھتی ہے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرنے کی تحریک دیتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چیزیں خرید سکیں۔ صارفیت منڈی کو مسلسل آباد اور سرگرمِ کار دیکھنا چاہتی ہے اور آدمی سے اس فرصت، تنہائی اور باطنی خلوت کو چھین لیتی ہے، جس میں آدمی اشیا و مظاہر سے بے نیاز اور ماورا ہونے اور کائنات کی بے کرانیت کو محسوس کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
جب آدمی کا دل، فرصت، آزادی اور خودفہمی کے ارماں سے خالی ہو تو دل کی بھی ’قلبِ ماہیت‘ ہو جاتی ہے۔
سینوں میں دل یوں جیسے چشم آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیوِ آہن کے مانند!
(کلیات، ص ۲۶۶)
چشمِ آزِ صیّاد، افرنگی مردانِ راد اور دیو آہن اس سرمایہ دارانہ استعماریت کی طرف غیر مبہم اشارہ ہیں، جس نے ہی صارفیت کو جنم دیا ہے۔ صارفیت کی وحشیانہ ترین شکل وہ ہوتی ہے، جو سیم وزر کو میزان قرار دے دیتی اور باقی تمام پیمانوں (اقدار) کو بے صَرفہ کر ڈالتی ہے۔ یعنی صارفی معاشرت میں اشیا کے معنی اور قدر کا واحد، یک رُخا اور حتمی تصوّر ہوتا ہے۔ یک رُخی، زر اساس اقدار کے سامنے ذوقِ حسن اور ذوقِ عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جو ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلّی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ ذوقِ حسن کی عطا کردہ بے قراری اور صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کی ’اک بے پایاں عجلت، میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے__ اسی نظم میں راشد خودفہمی کے ارماں سے تہی، اپنے دل کو چشم آزِ صیّاد اور سیم وزر کو میزان بنانے والوں کو افقی انسان قرار دیتے ہیں: یہ سب افقی انسان ہیں، یہ ان کے سماوی شہر۔ افقی انسان دراصل وہی صارفی انسان ہے۔
نظم ’تعارف‘ جو نیویارک ہی میں ۱۹۶۳ء میں لکھی گئی، اس میں افقی انسان کے تصوّر کو منفی انسان کے تصوّر سے بدل دیا گیا ہے۔ افقی انسان کی طرح منفی انسان بھی بندگانِ زمانہ اور بندگانِ درم ہیں۔ شاعر ان کے لیے اجل تجویز کرتا ہے۔
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو، بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہِ کرم
(کلیات، ص۱۹۶)
قابلِ غور بات ہے کہ راشد کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر صارفی معاشرے کے مشاہدے ہی سے پیدا ہوا ہے۔ ہر چند اسے راشد کے اس تصوّرِ انسان سے جوڑا جا سکتا ہے جو شروع سے آخر تک ان کی شاعری میں برابر ارتقا پذیر ملتا ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ راشد افقی یا منفی انسان کے تصوّر کو نہ تو دہراتے ہیں نہ آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر مذکورہ دو نظموں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ تاہم بعد کی دو ایک نظموں میں یہ مکمل تصوّر بین السطّور ظاہر ہوتا ہے۔افقی انسان دراصل وہ انسان ہے، جس سے عمودیت منفی ہو گئی ہے۔ نفسیاتی زاویے سے دیکھیں تو شخصیت کی افقی خصوصیات وہ ہیں جن میں کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی، جب کہ شخصیت کے عمودی پہلووں میں درجہ بندی ہوتی ہے: کچھ خصوصیات اور اقدار، دیگر سے کم تر یا برتر ہوتی ہیں، اور انھی کی وجہ سے شخصیّت میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں افقی انسان اقدار کے تصوّر سے تہی ہوتا ہے۔ اس کی نفسی قلم رَو پر واحد، یک رُخے، حتمی اور غیر مبدّل طرزِ فکر کی حاکمیت قائم ہوتی ہے۔ وہ متخیّلہ سے محروم ہوتا ہے جس کی مدد سے آدمی اپنے محدود تجربات کو وسیع تر کائناتی تناظر سے وابستہ کرنے یا اشیا و مظاہر کے نہاں پہلووں کا تصور کرنے، موجود کے جبر سے نجات پانے اور چند ایک معانی پر تکیہ کرنے کے بجائے نئے اور کثیر معانی خلق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ راشد کے لیے متخیّلہ یا عمودیت سے عاری انسان کو زندہ تصوّر کرنا محال ہے، اسی لیے وہ اسے اجل کے سپرد کرتے ہیں۔ یعنی انسان کے تصوّر میں افقی یا منفی تصوّرِ انسان کی گنجایش ہی نہیں دیکھتے۔
’اندھا کباڑی‘ بھی صارفی تناظر میں خاص معنویت کی حامل نظم ہے۔ اندھے کباڑی پر ہومر کا گمان گزرتا ہے جو یونان کی گلیوں میں اپنی نظمیں گاتا پھرتا تھا، مگر یہ جدید دور کا ہومر ہے جس کے خواب/نظمیں دام سمیت لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اس نظم کی معنیاتی بافت میں افقی اور عمودی تصوّر انسان مضمر اور کارفرما ہے۔ اندھا کباڑی عمودی انسان کی نمایندگی کرتا ہے اور خوابوں کو لینے سے گریزاں تمام لوگ افقی انسان ہیں۔ کباڑی، ہومر کی طرح بصارت سے محروم ہے، مگر اس کی متخیّلہ حددرجہ فعال ہے اور خوابوں کی صورتِ گرثانی دینے میں ثانی نہیں رکھتی۔ لہٰذا اس کا اندھا ہونا درحقیقت اس کے اپنی عمودیت میں غرق ہونے کی علامت ہے۔
صارفی معاشرت میں ہر شے کو قابلِ صَرف بنایا جا سکتا ہے، سوائے خوابوں کے۔ یہی وجہ ہے کہ اندھے کباڑی کے خواب نہ کوئی خریدتا ہے، نہ مفت لیتا ہے اور نہ دام سمیت لینے پر تیار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں خواب انسانی ہستی کا وہ جوہر ہیں جسے ’شے‘ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور صرف اشیا ہی صَرف ہوتی اور معدوم ہوتی ہیں۔ خود راشد کہتے ہیں:
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے
آلودگیِ گردِ سرِراہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
(کلیات، ص۲۸۸)
چناں چہ صارفی معاشرت خوابوں سے گریزاں ہوتی ہے۔ اس معاشرت میں ہر شے عارضی، وقتی، لمحاتی، موسمی ہوتی ہے۔ ٹھہراؤ، استقلال، دوامیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں وقت کا تصوّر فقط لمحہء حال تک محدود ہوتا ہے اور ہر شے کی معنویت اور افادیت فقطہ لمحہء موجود کے حاوی رجحان کے ہاتھوں متعین ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اس معاشرت میں خوابوں سے گریز اور خوف پایا جاتا ہے۔ خواب اگر ایک طرف انسانی وجود کے عمودی اور دوامی عنصر کی نمایندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ وقت کا ایک ایسا ہمہ گیر تصوّر دیتے ہیں، جس میں لمحہء حال محض ایک معمولی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا خواب صارفی یا افقی انسانوں کو ان کے عمود سے آشنا کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھیں لمحہء حال یا جز کی سطح سے اوپر اٹھا کر اُس کُل سے متعارف کروانے کی سعی کرتے ہیں جو ذرّے سے کہکشاں تک ہر شے میں رواں دواں ہے اور جس کے بغیر انسان آزادی کامل کے تجربے سے نہیں گزر سکتا، مگر صارفی انسان اس سب کے سلسلے میں بے حسّ ہوتا ہے، تشکیک میں مبتلا ہوتا ہے یا بری طرح خوف زدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ اندھا کباڑی خوابوں کو (افقی) انسانوں کے سپرد کرنے میں ناکام ہوتا ہے اور نظم کے آخری مصرعے: ’’خواب لے لو ، خواب__/میرے خواب/ خواب __میرے خواب__/خوااااب__ / ان کے دااام بھی ی ی ی، اس کے غیر معمولی حُزن کا تاثر نمایاں کرتے ہیں، مگر نظم کا المیہ اختتام دراصل ایک ’کنونشن‘ ہے جس کے ذریعے اس امر پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے کہ ’خواب‘ کسی حال میں ’کموڈیٹی‘ نہیں بن سکتے۔ صارفی معاشرت میں خواب واحد ایسا مظہر ہیں جو اس معاشرت کے مرکزی فلسفے کہ ہر شے قابلِ صَرف اور براے فروخت ہے، کا انکار کرتے ہیں۔ نظم میں خود خواب علامت ہیں۔ شاعر نے خاص قسم کے خوابوں کا ذکر نہیں کیا، اس لیے خواب کو ان تمام مثالی تصوّرات و اقدار کی علامت گردانا جا سکتا ہے جنھیں آرٹ نے منکشف کیا ہے یا جن میں آرٹ بنیاد رکھتا ہے اور جو صدیوں سے انسانی روحوں میں بصیرا کیے ہوئے ہیں۔۔ شاید اسی لیے اندھا کباڑی خود کو نقشِ گر ثانی کہتا ہے اور خود کو خوابوں کے مالک کے بجاے وارث کے طور پر پیش کرتا محسوس ہوتا ہے (یوں بھی ملکیت کا تصوّر استعماری/صارفی ہے)۔ حقیقی آرٹ، کبھی کموڈیئی نہیں بن سکتا۔ اسی لیے صارفی معاشرت ان کا انکار کرتی، ان کے سلسلے میں تشکیک پیدا کرتی، ان سے بے زاری خوف کو جنم دیتی ہے یا پھر اس جعلی آرٹ کی سرپرستی کرتی ہے جو خود کو قابلِ صَرف شے کے طور پر پیش کرے یا خود کو صارفیت کے ترجمان کے طور پر سامنے لائے۔
حواشی
۱ یہ فرق تعبیریات کے معروف نظریہ ساز ای۔ڈی۔ ہرش جونیئر نے کیا ہے۔اپنے مقالے Meaning and Significance Reinter-preted میں لکھا ہے:
"Meaning, then, may be conceived as a self-identical schema whose boundries are determined by an originating speech event, while significance may be conceived as a relationship drawn between that self-identical meaning and something, anything, else."
]مشمولہ Critical Inquiry، شکاگو یونیورسٹی، دسمبر ۱۹۸۴ء، ص۲۰۴[
۲ ن۔م۔راشد ، راشد بقلم خود، (مرتبین: سعادت سعید، نسرین انجم بھٹی) جی۔سی یونیورسٹی، لاہور، ص۸۲
۳ ٹیری ایگلٹن، How to Read a Poem ، بلیک ول پبلشنگ، اوکسفرڈ، ۲۰۰۷ء۔ ص۱۱۲
۴ ن م راشد ، راشد بقلم خود، ص۸۹
۵ وکٹر لیبو (Victor Lebow) ، Journal of Retailing ، بہار۱۹۵۵ء، ص۷
۶ ن م راشد، راشد بقلم خود، ص۹۳
ڈاکٹر ناصر عباس نیّر
راشد کی شاعری پڑھنے کے لیے کلک کریں
http://rekhta.org/Poet/Noon_Meem_Rashid/Nazms
اس سوال کی تہ میں شعری تنقید کا ایک نہایت اہم قضیہ کارفرما ہے۔ اس قضیے کے مطابق شاعری کے معنی اور معنویت میں فرق ہے۔ بعض لوگوں نے ان کے لیے بالترتیب Verbal meaning اور Significanceکی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ۱ معنی دراصل وہ بنیادی مفہوم ہے جو شعری متن کے فوری سیاق، اس کے آس پاس کے صنفی و شعریاتی منطقے کو ملحوظ رکھنے سے برآمد ہوتا ہے۔ معنی بالعموم متعین، مقرر اور محدود ہوتا ہے، مگر واضح رہے کہ معنی کا متعین اور محدود ہونا متن کے اس فوری سیاق کا مرہون ہوتا ہے جس میں متن تخلیق ہوا تھا اور جو متن کو اس کے لمحہء تخلیق و ماحول سے وابستہ رکھتا ہے۔ وگرنہ متن، سیاق کے کناروں کو توڑ کر باہر جانے کے لیے مضطرب ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شعری متن، زبان کے ایک ایسے استعمال سے عبارت ہے، جس میں زبان کی بدیعی و تلازماتی قوت کو زیادہ سے زیادہ ابھارا جا سکے۔ شعری زبان میں آہنگ و صوت سے لے کر نحویاتی و معنیاتی سطحوں تک نئے نئے رشتے ابھارنے اور معنیاتی عدم تعین کی مستقل صورتِ حال تخلیق کرنے کا غیر معمولی ملکہ ہوتا ہے۔ چناں چہ جب کسی شعری متن کا معنی متعین کیا جاتا ہے تو دراصل شعری زبان کی تلازماتی قوت پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کی کام یابی کا انحصار شعری متن کے فوری سیاق کو گرفت میں رکھنے پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شعری زبان کی تلازماتی قوت کو اگر کوئی چیز پابند کر سکتی ہے تو وہ سیاق یا تناظر ہے، وگرنہ یہ ایک مرکز گریز قوت ہے اور اس کی فطرت میں ایک ایسا اضطراب ہے جو اسے کسی ایک مقام پر رکنے نہیں دیتا اور نئے معنیاتی سلسلوں کی تخلیق پر اسے مائل رکھتا ہے۔ یہ اضطراب انسانی روح میں بھی موجود ہے اسے نئی حیرتوں کی تلاش اور محدود سے لامحدود کی طرف سفر پیما رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔ جب شعری متن اپنے سیاق سے گریز اختیار کرکے کسی دوسرے تناظر میں قدم رکھتا ہے، یعنی کسی دوسرے زمانے، کسی مختلف صورتِ حال، کسی نئی فکر، کسی نامانوس معنیاتی فضا میں اسے پڑھا جاتا اور اس کی تعبیر کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہمارے ہاتھ آتا ہے وہ متن کی معنویت ہے۔
بجا کہ معنویت، شعری زبان کی تلازماتی قوّت کے برسرِ عمل ہونے کا نتیجہ ہے، مگر اس قوت کی عمل آرائی کا میدان وہ عمومی ثقافتی فضا ہے، جسے ہم دنیا کو سمجھنے اور برتنے میں اکثر غیر شعوری طور پر کام میں لاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شاعری کی معنویت ایک نفسیاتی عمل نہیں، ایک ثقافتی عمل ہے۔ کوئی شعری متن یا اس کے بعض مصرعے یا الفاظ کسی قاری کے یہاں کسی نفسیاتی واقعے کا محرک بن سکتے ہیں؛ قاری، متن اور اپنی ذہنی دنیاؤں میں بعض اشتراکات دریافت کر سکتا اور ایک جذباتی کیفیت میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اس کیفیت کے زیرِ اثر ادبی متن کے مخصوص معانی قائم کر سکتا ہے، مگر انھیں متن کی معنویت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معنویت، کسی ادبی متن میں معنی سازی کی قوّت کا وہ انکشاف ہے جسے ایک ثقافتی عمل بنایا جا سکے۔ راشد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ الفاظ کے اندر رنگ بھی ہوتے ہیں اور کئی طرح کے ٹیڑھے ترچھے زاویے بھی۔‘‘ ۲ ایک شاعر کی حیثیت میں راشد الفاظ کی اس دنیا سے خوب واقف تھے جو الفاظ کے لغوی و عمومی معانی کے آگے کی دنیا ہے۔ راشد نے دانستہ معانی کے بجائے رنگوں اور زاویوں کا ذکر کیا ہے۔ الفاظ کس طور اپنے محدود، مقرر معانی کو عبور کرنے کے لیے بے تاب رہتے، نئی نئی جمالیاتی کیفیتوں اور نئے نئے فکری اطراف کے اشارہ نما ہوتے ہیں، اس کے لیے رنگ اور زاویے ہی موزوں استعارہ ہیں۔ الفاظ کے انھی رنگوں اور زاویوں میں، معنی سازی کی قوّت ہوتی ہے۔ انگریزی تنقید میں الفاظ کے رنگوں اور زاویوں کے لیے Connotations کی اصطلاح مروّج ہے۔ ٹیری ایگلیٹن نے لکھا ہے کہ Denotations کے مقابلے میں Connotations آسانی سے گرفت میں نہیں آتے۔ ۳ حقیقت یہ ہے کہ Denotations میں فقط معنی ہے اور Connotations میں معنی سازی کا ملکہ ہے معنی گرفت میں آ جاتا ہے مگر معنی سازی کی قوت پر دست رس محال ہے اور اس قوّت کے ثقافتی تناظر میں اظہار کا دوسرا نام معنویت ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ صارفی معاشرت کا کوئی براہِ راست تعلق راشد کی شاعری کے معنی سے نہیں ہے۔ بلاشبہ صارفی معاشرت، راشد کی نظم کا فوری سیاق نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بیسویں صدی کے تیسرے تا ساتویں عشرے کے درمیان، جب راشد شاعری تخلیق کر رہے تھے، صارفی معاشرت نے یہاں وہاں اپنے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ راشد کو اس مغربی معاشرت کو براہِ راست دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا تھا، جہاں صارفیت دوسری جنگ عظیم کے بعد اہم ترین ثقافتی مظہر میں تیزی سے ڈھلنے لگی تھی، مگر راشد کے لیے صارفی معاشرت بوجوہ مرکزی شعری سروکار نہیں بن سکی تھی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ راشد نے اپنی معاصر عالمی معاشرت کا تصور استعماری معاشرت کے طور پر کیا تھا۔ چناں چہ صارفی معاشرت بالعموم، استعماری معاشرت کے ایک جز کے طور پر ہی ان کے شعری ادراک میں آئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ راشد بہ طور شاعر صارفی معاشرتی کا ٹھیک اسی قدر ادراک کرنے میں کام یاب ہوئے، جس قدر یہ استعماری معاشرت کا حصّہ ہے۔ راشد کے یہاں استعماریت کا سیاسی پہلو مقابلتاً زیادہ نمایاں اور زیادہ اہم تھا۔ یہ سب برحق، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راشد کے لیے اہم ترین چیز شاعری تھی اور وہ شاعر کے طور پر نہ صرف اپنی ذمے داریوں سے خوب آگاہ تھے بلکہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ’’ادیب کی اصل ذمہ داری پوری زندگی کے سامنے ہے۔ کسی جغرافیائی حد بندی، کسی حکومت، سیاسی عقیدے یا سیاسی حزب یا گروہ کے سامنے نہیں۔ کیوں کہ یہ اس عظیم اور بے کراں زندگی کے، جو ادیب کی ذات کے اندر اور باہر ازل سے رواں دواں ہے اور ابد تک رواں دواں رہے گا، محض مختصر، بے مایہ اور ناقابلِ ثبات اجزا ہیں۔‘‘ ۴ ہر چند ذمے داری کا تصور اور شعور ایک چیز ہے اور اسے اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنانا دوسری چیز ہے۔ تاہم راشد کی شاعری سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کی معاصر سیاسی، مقامی، عالمی صورتِ حال بہ ہر حال پوری زندگی کا ایک جز تھی۔ ہر چند راشد نے تنقیدی شعور کے لمحات میں اس جز کو بے مایہ اور حقیر کہا ہے، مگر انھوں نے استعماریت کو جس گہرائی سے پیش کیا ہے اور ایشیائی ممالک کو استعماری تہذیب کی بلندی کی چھپکلی سے تشبیہ، دی ہے، اس سے ہرگز نہیں لگتا کہ ان کے لیے یہ جز پوری زندگی کا بے مایہ اور ناقابلِ ثبات جُز تھا۔ غالباً شاعری کے اسی تصور کی وجہ سے ان کے شعری متن میں ’کئی رنگ اور ٹیڑھے ترچے زاویے‘ ظاہر ہوتے چلے گئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کی نئی معنویتیں سامنے آ رہی ہیں۔
صارفی معاشرت اپنے تمام تر جلووں کے ساتھ تو یورپ اور امریکا میں نظر آتی ہے، مگر اس کے اثرات کی زد میں پوری دنیا ہے۔ مغرب میں یہ مابعد صنعتی عہد کی صورتِ حال ہے۔ اکثر سماجی مفکّرین اسے صنعتی عہد کا لازمی، تاریخی نتیجہ قرار دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صنعتی عہد کے نتیجے میں جب اشیا نہایت فراوانی کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کا صَرف سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ان کے صَرف کو ممکن بنانے کے لیے ماس مارکیٹ، ماس پاپولر کلچر کو پیدا کیا گیا اور ان کے فروغ کی خاطر میڈیا، اشتہاری صنعت وغیرہ وجود میں لائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعتوں کی بقا، ان کی پیداوار کی کھپت میں تھی، مگر صنعت کار محض اپنی صنعتوں کی بقا پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں تھے: انھیں اپنے سرمائے میں مسلسل اور تیز تر اضافے کی بے لگام ہوس تھی۔ اس ہوس ہی نے صارفیت کو جنم دیا۔ لہٰذا صارفیت، صنعتی عہد کا لازمی تاریخی نتیجہ نہیں، سرمایہ پرستی کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ صارفیت، کثیر پیداواریت کے لا متناہی اور پیہم صَرف کو ممکن بنانے کی تدبیروں کی عملی شکل ہے۔ ان تدبیروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا وہ تصوّر تھا، جس کے مطابق انسان چند بنیادی ضرورتیں رکھتا ہے۔ (خود صنعتیانے کے عمل میں یہ تقاضا کہیں موجود نہیں تھاکہ اشیا کی پیداواریت انسان کی بنیادی ضرورتوں سے فزوں تر ہوگی۔) سرمایہ پرست ذہن نے اس تصوّرِ انسان کو تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ اس ذہن کے نمایندہ امریکی مصنّف وکٹر لیبو نے ۱۹۵۵ء میں لکھا۔
ہماری عظیم پیداواری معیشت ۔۔۔ تقاضا کرتی ہے کہ ہم صَرفیت کو اپنا طرزِ زندگی بنائیں۔ یہ کہ ہم اشیا کی خریداری اور ان کے استعمال کو رسومیات میں تبدیل کریں، یہ کہ ہم اپنی رومانی تسکین، اپنی انا کا اطمینان، صَرفیت میں تلاش کریں ۔۔۔ ہمیں ایسی اشیا درکار ہیں جو صَرف ہو جائیں، راکھ ہو جائیں، پرانی بوسیدہ ہو جائیں، تبدیل ہو جائیں اور انھیں تیزی کے ساتھ ٹھکانے لگا دیا کریں۔ ۵
گویا صارفی انسان کا تصوّر تخلیق کیا گیا۔ اس تصوّر کے مطابق انسان کی ضرورتوں کا کوئی انت نہیں۔ اس کے اندر ان تمام اشیا کی شدید طلب ہے جنھیں کثرت سے منڈی میں لایا جاتا ہے۔ صارفی معاشرت میں اشیا، انسانی ضرورتوں کے مطابق پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ اشیا کے مطابق انسانی ضرورتیں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ صارفی معاشرت، انسانی نفسیات اور ثقافت کے گہرے مطالعے سے وہ تمام طریقے دریافت کرتی ہے، جو ایک طرف نئی انسانی ضرورتوں کی تخلیق کو ممکن بنائیں اور دوسری طرف نت نئی اشیا اور ان کے روز بدلتے برانڈ کے صَرف کو ایک ثقافتی تعیّش اور روحانی اطمینان میں بدل سکیں۔ دوسرے لفظوں میں صارفی انسان کے تصّور میں روح کا انکار موجود نہیں ہے، مگر یہ روح ارفع اور بے غرضانہ اعمال سر انجام دینے میں اطمینان حاصل کرنے کے بجائے نئی، مہنگی صنعتی اشیا کے صَرف میں سرشاری پاتی ہے۔ کیا انسانی روح اپنی اصل کو ترک کرکے باقی رہ سکتی ہے؟ صارفی معاشرت میں یہ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ صارفی معاشرت کسی ایسی انسانی ضرورت کے امکان ہی کو ردّ کرتی ہے، جسے وہ پورا نہ کر سکے۔ صارفی تصوّرِ کائنات میں انسانی ضرورتوں اور تمنّاؤں سے انکار کا شائبہ تک موجود نہیں ہوتا؛ وہ خود کو غیر معمولی خلاقیّت کا حامل سمجھتی ہے کہ جو ہر قسم کی انسانی تمنّا کی سرشاری کا سامان پیدا کر سکتی ہے۔
اب اگر اس تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت دریافت کریں تو مجموعی حیثیت میں ان کی پوری شاعری صارفی معاشرت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ نظر آتی ہے۔ وجودیاتی سطح پر راشد کی شاعری اس تصوّر کے خلاف ایک باقاعدہ احتجاج ہے، جس کے مطابق ہر شے کی قدر و قیمت، اس کی صَرفی حیثیت سے متعین ہوتی ہے۔ صارفی معاشرت میں معنی کے واحد اور اٹل تصوّر کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ متبادل اور استعاراتی معانی کو قبول کرنے کا مطلب لوگوں کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ اشیا کے معنی اور مقصد کو خود اپنے تناظر میں متعین کر سکتے ہیں۔ صارفی معاشرت کے لیے اس سے زیادہ خطرناک کوئی بات نہیں کہ لوگ معنی متعین کرنے اور فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ چناں چہ وہ واحد معنی پر اپنے اجارے سے کسی طور دست بردار نہیں ہوتی۔اس زاویے سے دیکھیں تو راشد کی شاعری صارفی معاشرت کے تصوّرِ معنی کے یک سر برعکس تصوّرِ معنی کی علم بردار نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ خصوصیت دنیا کی تمام شاعری میں ہوتی ہے کہ وہ واحد معنی کے اجارے کو مسترد کرتی اور معانی کے نئے آفاق کی جستجو میں رہتی ہے، تاہم اس ضمن میں راشد کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کی کثرت ہے، نیز بعض مقامات پر راشد براہِ راست صارفی کلچر کی بنیادوں پر ضرب لگاتے ہیں۔ مثلاً
زندگی ہیزمِ تنور شکم ہی تو نہیں
پارۂ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں
(کلیات، ص۱۶۱)
صارفی معاشرت کا سارا زور، انسانی زندگی کو اپنے تنور شکم کا ایندھن بنا ڈالنے پر ہے۔ اس نظم میں اس سے انکار ملتا ہے کہ زندگی کو اپنے یا غیر کے تنورِ شکم میں جھونک دیا جائے۔ اس انکار کے پردے میں زندگی کا وسیع اور بلند تصوّر تو موجود ہی ہے، زندگی کے بعض ایسے معانی کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے، جو زندگی کو کسی بھی شے کا ایندھن بننے کا انکار کرتے ہیں، خواہ وہ پارۂ نانِ شبینہ اور ہوسِ دام و درم ہوں یا آتشِ دیروحرم ہو۔ نظم کے آخر میں جن مردانِ جنوں پیشہ کا ذکر ہے، ان کے لیے زندگی انھی کی اپنی ہے اور وہی اس کے معانی و مقاصد متعین کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو راشد کے یہاں صارفی معاشرت کا ایک غیر معمولی اور وسیع تصوّر ملتا ہے۔ فقط سرمایہ پرست اور استعمار ہی لوگوں کی زندگی کو ایک قابلِ صَرف شے میں تبدیل نہیں کرتے، مختلف سٹیٹ اپریٹس، نظریے، کلامیے اور آئیڈیالوجی بھی انسانی زندگی کو اپنے تصرّف میں لاتے اور انسانوں سے اپنی ہستی کے معانی خود طے کرنے کی آزادی اور اختیار سلب کرتے ہیں۔ راشد کے یہاں فرد کی داخلی آزادی ایک ایسے تقدّس کی حامل ہے جسے مجروح کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ راشد اپنی اس فکر میں پوری طرح واضح تھے۔
میں فرد کی کامل آزادی اور اس کی انا کی نشو و نما کا شدّت سے حامی ہوں۔ ایسی آزادی جس کے راستے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو ... میرا عقیدہ یہ ہے کہ تمام اقدار کا مرکز انسان ہے اور تمام اقدار انسان کے ذاتی تجربات سے پیدا ہوئی ہیں۔ کسی الوہی طاقت کی طرف سے مقرر نہیں کی جاتیں، نہ کسی حکومت یا گروہ کی طرف سے عائد کی جا سکتی ہیں۔ ۶
ہر چند یہ فرد کی آزادی کا مثالی تصوّر ہے جسے مغرب میں بشرمرکزیت فلسفے اور جدیدیت نے پیدا کیا، تاہم راشد کے لیے یہ تصوّر عقیدے کا درجہ رکھتا تھا اور وہ فرد کو ایک قابلِ صَرف شے نہیں سمجھتے تھے اور مذہبی، ریاستی یا سماجی کسی بھی ادارے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں تھے کہ وہ فرد کو اپنے مقاصد کے حصول میں صَرف کر دے۔ ان کے نزدیک ان اداروں کا کام فرد کو شے نہیں، ایک باشعور ہستی سمجھنا اور اس کی انا، شعورِ ذات کی نشوونما میں مدد دینا تھا۔ گویا راشد کے یہاں صارفیت کا محض اقتصادی مفہوم نہیں ملتا، ایک نیم فلسفیانہ اور ثقافتی مفہوم بھی موجود ہے۔ یہ مفہوم لا236انسان اور گماں کا ممکن کی نظموں میں شدّت سے پیش ہوا ہے۔ مثلاً نظم ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کے یہ مصرعے فرد کی آزادیِ کامل پر زور دیتے ہیں۔
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پر لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینہء گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
(کلیات، ص۲۹۱)
مابعد صنعتی عہد کی صارفی معاشرت کی تمام قباحتوں کو راشد کے یہاں تلاش کرنا عبث ہے کہ یہ ان کی شاعری کا مرکزی سروکار نہیں تھا۔ تاہم ان کی بعض نظموں کی تلازماتی اور استعاراتی جہات کی تعبیر صارفی تناظر میں ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی نظم ’وزیرے چنیں‘ ہے۔
اس نظم کی بنیاد الف لیلہ و لیلہ کی ایک کہانی ہے۔ یہ کہانی شیراز کے ایک نائی کی ہے جو نائی ہونے کے علاوہ دماغوں کا بھی مشہور ماہر تھا۔ وہ دماغ کو کاسہء سر سے الگ کرکے، اس کی آلائشیں پاک کرکے اسے واپس اس کی جگہ لگانے کے فن میں قابل تھا۔ ایک دن اس کی دُکان پر ایران کا ایک وزیر کہن سال آیا۔ ابھی ’ماہرِ کامل‘ نے دماغ کو صاف کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اسے بادشاہ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو اسے عجلت میں بے مغز سر لیے دربارِ سلطانی میں جانا پڑا (گویا وہاں مغز کے بغیر ہی کام چل جاتا تھا)۔ دوسرے دن واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اس کا دماغ نائی کے پڑوسی کی بلّی کھا گئی تھی۔ چناں چہ متبادل کے طور پر دانیالِ زمانہ کے سر میں بیل کا مغز رکھ دیا گیا اور اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جنابِ وزیر، فراست، دانش اور کاروبارِ وزارت میں پہلے سے بڑھ کر چاق و چوبند ہو گئے ہیں۔ اس کہانی کا (سامنے کا) معنی تو یہ ہے کہ حکومتوں کے لیے وہ لوگ زیادہ موزوں ہوتے ہیں جو مغز ہی نہیں رکھتے یا زیادہ سے زیادہ بیل کا دماغ رکھتے ہیں۔ اس سے بہتر طنز اربابِ حکومت پر نہیں ہو سکتا تاہم یہ نظم ایک اور تناظر میں گہری معنویت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ غور کریں تو یہ نظم صارفی معاشرت میں فرد کے نئے تشخّص کی تخلیق کے پورے عمل کو منکشف کرتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار وزیر نہیں، نائی ہے۔ نظم میں اہم تبدیلی وزیر کے کردار میں رونما ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی وزیر کے اپنے ارادے یا اقدام سے نہیں، نائی کی مہارت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو نائی سرمایہ پرست طبقے کی اس آئیڈیالوجی کی علامتی نمایندگی کرتا ہے جس کے ذریعے نئے انسانی تشخّص کی تخلیق کی جاتی ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ نظم میں اس کے نائی کے پیشے سے زیادہ اس کے ماہرِ دماغ ہونے پر ارتکاز ملتا ہے۔ ہر چند اسے دعویٰ ہے کہ وہ دماغ کی آلائشیں دور کر تا ہے، یعنی وہ ایک معالج ہے، مگر یہ دعویٰ اسی تضاد اور خود تردیدی صورتِ حال کا حامل ہے جو ہر آئیڈیالوجی میں ہوتی ہے۔ نظم میں اس کے معالج ہونے کے دعوے کے ثبوت میں کوئی واقعہ مذکورہ نہیں اور جو واقعہ مذکورہ ہے اور جو کہانی میں ایک فیصلہ کن موڑ لاتا ہے، وہ اسے ایک ایسے پیشہ ور نیوروسرجن کے طور پر سامنے لاتا ہے جو نیا دماغ ٹرانسپلانٹ کرنے میں ماہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صارفی معاشرت میں فرد کو یک سر نیا تشخص دیا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کی جگہ بیل کے دماغ کی پیوندکاری، اسی نئے تشخص کی تشکیل کی علامت ہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ نائی کے پاس کئی حیوانوں کے مغز موجود تھے۔ وہ کہاں سے آئے؟ کیا ہم اسے نیم اساطیری کہانیوں کے اس عمومی واقعے کے طوپر پر لیں جس میں کوئی بھی عجیب و غریب بات اچانک ممکن ہوتی ہے اور اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی یا پھر یہ سمجھا جائے کہ وہ لوگوں کے دماغوں کو تبدیل کرنے اور انھیں نئی شناختیں دینے کی خاطر طرح طرح کے دماغ اپنی دست رس میں رکھتا تھا اور اس کا یہ کہنا کہ وزیر کا مغز ہمسائے کی بلی کھا گئی ہے دراصل اسے نیا اور حیوانی دماغ لگانے کا محض بہانہ تھا۔ اسی طرح سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس نے آخر بیل کے مغز کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ کیا اس بات کا علامتی مفہوم یہ نہیں کہ اس کی دست رس میں ایک سے زیادہ تشخصّات تھے اور اسے اپنی مرضی اور ترجیح کے مطابق کسی ایک تشخص کے انتخاب کا اختیار بھی تھا۔ صارفی معاشرت میں سرمایہ پرست طبقے کو بھی شناخت سازی کے وسائل پر اجارہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز بیل کے مغز کا انتخاب کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ صارفی آئیڈیالوجی کو ایک ایسا انسانی تشخص مطلوب ہوتا ہے جو ارادے اور منشا سے محروم ہو؛ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہو؛ انفرادی سطح پر تلاشِ معنی کی تمنّا نہ رکھتا ہو۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر صارفی طرزِ معاشرت میں شے پر شے صَرف کرتے چلے جانے اور پھر بھی نئی اشیا کی طلب کرتے چلے جانے کے لیے بیل کا مغز ہی چاہیے۔ اگر یہاں ایک لمحے کے لیے الف لیلہ و لیلہ کی بیل اور گدھے کی کہانی یاد کریں تو بیل کی کرداری خصوصیات آئنہ ہو جاتی ہیں: وہ وہی کچھ کرتا ہے جس کا مشورہ اسے گدھا دیتا ہے۔
اس سلسلے کی دوسری نظم ’ایک اور شہر‘ ہے جو ۱۹۵۷ء میں نیویارک میں لکھی گئی تھی۔ نظم کا موضوع بھی نیویارک شہر ہی ہے۔ اسے ایک اور شہر کا عنوان دینے کی ایک وجہ تو اسے اپنی ایک پہلی نظم ’ایک شہر‘ سے ممیز کرنا ہے جو ۱۹۵۰ء میں کراچی میں تخلیق ہوئی تھی اور دوسری وجہ اس بات پر زور دینا ہے کہ نظم جس شہر سے متعلق ہے وہ ایک نئی، انوکھی اور عجب قسم کا شہر ہے۔ نظم میں شہر اور اس کے باسیوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ اسے ایک صارفی معاشرت کا حامل شہر ثابت کرتا ہے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور یورپ میں صارفی کلچر کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا گیا اور اسے سرمایہ دارانہ معیشت کی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔
یہ نظم ’وزیرے چنیں‘ کے گیارہ برس بعد لکھی گئی، مگر دونوں کی بافت (Texture) کو دیکھیں تو دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہیں۔ ’وزیرے چنیں‘ میں انسان کو ایک ایسی نئی شناخت دینے کی کہانی ملتی ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت اپنی داخلی آزادی، اپنی ہستی کے معنی خود دریافت کرنے کی صلاحیت سے محرومی ہے۔ نظم ’ایک اور شہر‘ کے پہلے بند میں اسی جانب اشارہ ملتا ہے:
خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش
تاریکی خود بے چشم و گوش
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
(کلیات، ص۲۳۹)
ایک اور شہر یا صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کو خودشناسی کی تمنا ہی نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ انھیں اس مغز ہی سے محروم کر دیا گیا ہے جو خود آگاہی کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صارفیت، معاشی سرگرمی کے نام پر لوگوں کو مسلسل حرکت میں رکھتی ہے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرنے کی تحریک دیتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چیزیں خرید سکیں۔ صارفیت منڈی کو مسلسل آباد اور سرگرمِ کار دیکھنا چاہتی ہے اور آدمی سے اس فرصت، تنہائی اور باطنی خلوت کو چھین لیتی ہے، جس میں آدمی اشیا و مظاہر سے بے نیاز اور ماورا ہونے اور کائنات کی بے کرانیت کو محسوس کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
جب آدمی کا دل، فرصت، آزادی اور خودفہمی کے ارماں سے خالی ہو تو دل کی بھی ’قلبِ ماہیت‘ ہو جاتی ہے۔
سینوں میں دل یوں جیسے چشم آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیوِ آہن کے مانند!
(کلیات، ص ۲۶۶)
چشمِ آزِ صیّاد، افرنگی مردانِ راد اور دیو آہن اس سرمایہ دارانہ استعماریت کی طرف غیر مبہم اشارہ ہیں، جس نے ہی صارفیت کو جنم دیا ہے۔ صارفیت کی وحشیانہ ترین شکل وہ ہوتی ہے، جو سیم وزر کو میزان قرار دے دیتی اور باقی تمام پیمانوں (اقدار) کو بے صَرفہ کر ڈالتی ہے۔ یعنی صارفی معاشرت میں اشیا کے معنی اور قدر کا واحد، یک رُخا اور حتمی تصوّر ہوتا ہے۔ یک رُخی، زر اساس اقدار کے سامنے ذوقِ حسن اور ذوقِ عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جو ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلّی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ ذوقِ حسن کی عطا کردہ بے قراری اور صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کی ’اک بے پایاں عجلت، میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے__ اسی نظم میں راشد خودفہمی کے ارماں سے تہی، اپنے دل کو چشم آزِ صیّاد اور سیم وزر کو میزان بنانے والوں کو افقی انسان قرار دیتے ہیں: یہ سب افقی انسان ہیں، یہ ان کے سماوی شہر۔ افقی انسان دراصل وہی صارفی انسان ہے۔
نظم ’تعارف‘ جو نیویارک ہی میں ۱۹۶۳ء میں لکھی گئی، اس میں افقی انسان کے تصوّر کو منفی انسان کے تصوّر سے بدل دیا گیا ہے۔ افقی انسان کی طرح منفی انسان بھی بندگانِ زمانہ اور بندگانِ درم ہیں۔ شاعر ان کے لیے اجل تجویز کرتا ہے۔
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو، بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہِ کرم
(کلیات، ص۱۹۶)
قابلِ غور بات ہے کہ راشد کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر صارفی معاشرے کے مشاہدے ہی سے پیدا ہوا ہے۔ ہر چند اسے راشد کے اس تصوّرِ انسان سے جوڑا جا سکتا ہے جو شروع سے آخر تک ان کی شاعری میں برابر ارتقا پذیر ملتا ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ راشد افقی یا منفی انسان کے تصوّر کو نہ تو دہراتے ہیں نہ آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر مذکورہ دو نظموں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ تاہم بعد کی دو ایک نظموں میں یہ مکمل تصوّر بین السطّور ظاہر ہوتا ہے۔افقی انسان دراصل وہ انسان ہے، جس سے عمودیت منفی ہو گئی ہے۔ نفسیاتی زاویے سے دیکھیں تو شخصیت کی افقی خصوصیات وہ ہیں جن میں کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی، جب کہ شخصیت کے عمودی پہلووں میں درجہ بندی ہوتی ہے: کچھ خصوصیات اور اقدار، دیگر سے کم تر یا برتر ہوتی ہیں، اور انھی کی وجہ سے شخصیّت میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں افقی انسان اقدار کے تصوّر سے تہی ہوتا ہے۔ اس کی نفسی قلم رَو پر واحد، یک رُخے، حتمی اور غیر مبدّل طرزِ فکر کی حاکمیت قائم ہوتی ہے۔ وہ متخیّلہ سے محروم ہوتا ہے جس کی مدد سے آدمی اپنے محدود تجربات کو وسیع تر کائناتی تناظر سے وابستہ کرنے یا اشیا و مظاہر کے نہاں پہلووں کا تصور کرنے، موجود کے جبر سے نجات پانے اور چند ایک معانی پر تکیہ کرنے کے بجائے نئے اور کثیر معانی خلق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ راشد کے لیے متخیّلہ یا عمودیت سے عاری انسان کو زندہ تصوّر کرنا محال ہے، اسی لیے وہ اسے اجل کے سپرد کرتے ہیں۔ یعنی انسان کے تصوّر میں افقی یا منفی تصوّرِ انسان کی گنجایش ہی نہیں دیکھتے۔
’اندھا کباڑی‘ بھی صارفی تناظر میں خاص معنویت کی حامل نظم ہے۔ اندھے کباڑی پر ہومر کا گمان گزرتا ہے جو یونان کی گلیوں میں اپنی نظمیں گاتا پھرتا تھا، مگر یہ جدید دور کا ہومر ہے جس کے خواب/نظمیں دام سمیت لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اس نظم کی معنیاتی بافت میں افقی اور عمودی تصوّر انسان مضمر اور کارفرما ہے۔ اندھا کباڑی عمودی انسان کی نمایندگی کرتا ہے اور خوابوں کو لینے سے گریزاں تمام لوگ افقی انسان ہیں۔ کباڑی، ہومر کی طرح بصارت سے محروم ہے، مگر اس کی متخیّلہ حددرجہ فعال ہے اور خوابوں کی صورتِ گرثانی دینے میں ثانی نہیں رکھتی۔ لہٰذا اس کا اندھا ہونا درحقیقت اس کے اپنی عمودیت میں غرق ہونے کی علامت ہے۔
صارفی معاشرت میں ہر شے کو قابلِ صَرف بنایا جا سکتا ہے، سوائے خوابوں کے۔ یہی وجہ ہے کہ اندھے کباڑی کے خواب نہ کوئی خریدتا ہے، نہ مفت لیتا ہے اور نہ دام سمیت لینے پر تیار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں خواب انسانی ہستی کا وہ جوہر ہیں جسے ’شے‘ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور صرف اشیا ہی صَرف ہوتی اور معدوم ہوتی ہیں۔ خود راشد کہتے ہیں:
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے
آلودگیِ گردِ سرِراہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
(کلیات، ص۲۸۸)
چناں چہ صارفی معاشرت خوابوں سے گریزاں ہوتی ہے۔ اس معاشرت میں ہر شے عارضی، وقتی، لمحاتی، موسمی ہوتی ہے۔ ٹھہراؤ، استقلال، دوامیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں وقت کا تصوّر فقط لمحہء حال تک محدود ہوتا ہے اور ہر شے کی معنویت اور افادیت فقطہ لمحہء موجود کے حاوی رجحان کے ہاتھوں متعین ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اس معاشرت میں خوابوں سے گریز اور خوف پایا جاتا ہے۔ خواب اگر ایک طرف انسانی وجود کے عمودی اور دوامی عنصر کی نمایندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ وقت کا ایک ایسا ہمہ گیر تصوّر دیتے ہیں، جس میں لمحہء حال محض ایک معمولی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا خواب صارفی یا افقی انسانوں کو ان کے عمود سے آشنا کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھیں لمحہء حال یا جز کی سطح سے اوپر اٹھا کر اُس کُل سے متعارف کروانے کی سعی کرتے ہیں جو ذرّے سے کہکشاں تک ہر شے میں رواں دواں ہے اور جس کے بغیر انسان آزادی کامل کے تجربے سے نہیں گزر سکتا، مگر صارفی انسان اس سب کے سلسلے میں بے حسّ ہوتا ہے، تشکیک میں مبتلا ہوتا ہے یا بری طرح خوف زدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ اندھا کباڑی خوابوں کو (افقی) انسانوں کے سپرد کرنے میں ناکام ہوتا ہے اور نظم کے آخری مصرعے: ’’خواب لے لو ، خواب__/میرے خواب/ خواب __میرے خواب__/خوااااب__ / ان کے دااام بھی ی ی ی، اس کے غیر معمولی حُزن کا تاثر نمایاں کرتے ہیں، مگر نظم کا المیہ اختتام دراصل ایک ’کنونشن‘ ہے جس کے ذریعے اس امر پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے کہ ’خواب‘ کسی حال میں ’کموڈیٹی‘ نہیں بن سکتے۔ صارفی معاشرت میں خواب واحد ایسا مظہر ہیں جو اس معاشرت کے مرکزی فلسفے کہ ہر شے قابلِ صَرف اور براے فروخت ہے، کا انکار کرتے ہیں۔ نظم میں خود خواب علامت ہیں۔ شاعر نے خاص قسم کے خوابوں کا ذکر نہیں کیا، اس لیے خواب کو ان تمام مثالی تصوّرات و اقدار کی علامت گردانا جا سکتا ہے جنھیں آرٹ نے منکشف کیا ہے یا جن میں آرٹ بنیاد رکھتا ہے اور جو صدیوں سے انسانی روحوں میں بصیرا کیے ہوئے ہیں۔۔ شاید اسی لیے اندھا کباڑی خود کو نقشِ گر ثانی کہتا ہے اور خود کو خوابوں کے مالک کے بجاے وارث کے طور پر پیش کرتا محسوس ہوتا ہے (یوں بھی ملکیت کا تصوّر استعماری/صارفی ہے)۔ حقیقی آرٹ، کبھی کموڈیئی نہیں بن سکتا۔ اسی لیے صارفی معاشرت ان کا انکار کرتی، ان کے سلسلے میں تشکیک پیدا کرتی، ان سے بے زاری خوف کو جنم دیتی ہے یا پھر اس جعلی آرٹ کی سرپرستی کرتی ہے جو خود کو قابلِ صَرف شے کے طور پر پیش کرے یا خود کو صارفیت کے ترجمان کے طور پر سامنے لائے۔
حواشی
۱ یہ فرق تعبیریات کے معروف نظریہ ساز ای۔ڈی۔ ہرش جونیئر نے کیا ہے۔اپنے مقالے Meaning and Significance Reinter-preted میں لکھا ہے:
"Meaning, then, may be conceived as a self-identical schema whose boundries are determined by an originating speech event, while significance may be conceived as a relationship drawn between that self-identical meaning and something, anything, else."
]مشمولہ Critical Inquiry، شکاگو یونیورسٹی، دسمبر ۱۹۸۴ء، ص۲۰۴[
۲ ن۔م۔راشد ، راشد بقلم خود، (مرتبین: سعادت سعید، نسرین انجم بھٹی) جی۔سی یونیورسٹی، لاہور، ص۸۲
۳ ٹیری ایگلٹن، How to Read a Poem ، بلیک ول پبلشنگ، اوکسفرڈ، ۲۰۰۷ء۔ ص۱۱۲
۴ ن م راشد ، راشد بقلم خود، ص۸۹
۵ وکٹر لیبو (Victor Lebow) ، Journal of Retailing ، بہار۱۹۵۵ء، ص۷
۶ ن م راشد، راشد بقلم خود، ص۹۳
ڈاکٹر ناصر عباس نیّر
راشد کی شاعری پڑھنے کے لیے کلک کریں
http://rekhta.org/Poet/Noon_Meem_Rashid/Nazms
No comments:
Post a Comment