Thursday 24 October 2013

فکشن کا گورکھ دھندا

عمر کہانیاں لکھنے میں صرف کی ہے۔ اس کے متعلق باتیں تو کرسکتا ہوں جو غلط بھی ہوسکتی ہیں، صحیح بھی ہوسکتی ہیں۔ اس ذیل میں موٹی سی بات تو یہی ہے کہ ہماری افسانوی روایت یا کہہ لیجیے کہ ہمارے اردو فکشن کا آج، کل سے ناتا توڑکر اپنی گاڑی چلا رہا ہے۔ آج برحق، مگر جب اتنا سفر کرلیا ہے تو پیچھے مُڑکر یہ بھی تو دیکھ لینا چاہیے کہ کل کیا تھا۔ اس سفر میں پایا ہی پایا ہے یا کچھ کھویا بھی ہے۔ کل اب تو بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سمجھ لیجیے کہ ۱۸۵۷ء سے پرے۔ اس پُر آشوب برس نے ہماری تاریخ میں ایک بڑی دراڑڈال دی تھی، پھر ادبی روایت میں بھی دراڑ پڑنی ہی تھی۔ اسے مزید گہرا کیا ہمارے مصلحین کے نوزائیدہ ادبی شعور نے۔ اور وہ ایسا تند و تیز ادبی شعور تھا کہ پوری کلاسیکی روایت ہی کو حرفِ غلط بتارہا تھا۔ مولانا حالی مرنجان مرنج قسم کے بھلے مانس، مگر جوش میں ساری شعری روایت کو شعر و قصائد کا ناپاک دفتر بتاکر ٹھکانے لگانے کے درپے نظر آتے تھے۔ ایک آواز اٹھی کہ یہ آتشؔ و مصحفیؔ کیا بیچتے ہیں، ان کے کلام کو بھاڑ میں جھونکو۔ اس باغیانہ یلغار کو شعری روایت نے تو سہار لیا اور غزل ایسی سخت جان نکلی کہ آگے آنے والے دشمنوں کے بھی وار اس نے خالی دیے۔ مگر بیچاری داستانی روایت اس میں پس گئی۔ توجدید نظم، نظم معریٰ، نظم آزاد، نثری نظم، ایسے سارے باغیانہ تجربوں کے باوجود شاعری کی روایت میں ماضی و حال کا رشتہ کسی نہ کسی صورت کسی نہ کسی سطح پر برقرار رہا۔
اس کے برخلاف قصہ کہانی کی دنیا میں پہلے تخریب تمام ہوئی، پھر نئی تعمیر کا کاروبار شروع ہوا۔ اور وہ اس طرح ہوا کہ فکشن کی دو اصناف مغرب سے برآمد کی گئیں۔ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ ان اصناف کے کیا آداب ہیں اور پھر ان میں ٹوں ٹاں شروع ہوا۔ یعنی ا ب ت کے سبق سے کام شروع ہوا۔ اور اس میں شک نہیں کہ اب ت کا سبق ہمیں جلدی ہی یاد ہوگیا۔ وہ تو یہ کہیے کہ ڈپٹی نذیر احمد کو جو وعظ و پند کا چسکا تھا، اس نے کھنڈت ڈال دی، ورنہ ناول کی عمارت بڑی شان سے کھڑی ہوئی تھی۔ پھر مختصر افسانے کی عمارت کھڑی کرنے کی ذمہ داری پریم چند نے سنبھالی۔ یہ عمارت اس شان سے کھڑی ہوئی کہ ناول کی نئی تعمیر بھی پس منظر میں چلی گئی۔ مجھے یہ کہہ کر مت ٹوکیے کہ ناول تو ڈپٹی نذیر احمد سے پہلے ہی لکھا جاچکا تھا اور پہلا مختصر افسانہ بھی پریم چند نے نہیں بلکہ فلاں فلاں نے لکھا تھا۔ یہ محققوں کے چونچلے ہیں۔ اور وہ بھی سچے ہیں کہ اگر وہ یہ نہ کریں تو ان کی تحقیق کا کاروبار کیسے چلے۔ ارے بابا، اگر تم نے کھودکر پریم چند سے پہلے کا لکھا ہوا کوئی مختصر افسانہ برآمد کر بھی لیا تو اس سے کیا فرق پڑا۔ مختصر افسانے کی روایت تو پریم چند کے افسانوں سے قائم ہوئی۔ ناول کے سلسلے میں یہی حیثیت نذیر احمد کو حاصل ہوئی۔ تو چلیے اردو میں فکشن کی نئی روایت کا ڈول پڑ گیا۔ باقی رہی داستانی روایت، تو اس کا آغاز داستان گوئی سے ہوا اور خاتمہ سروتے اور چھالیا پر ہوا۔ میر باقر علی داستان گو کے ہاتھ میں آخر آخر میں ایک سروتا رہ گیا تھا اور جو کمال انھوں نے داستان سنانے میں دکھایا تھا وہی چھالیاں کترنے میں دکھایا۔ گلی گلی چھالیاں بیچتے پھرتے تھے۔ کوئی پوچھتا کہ میر صاحب یہ کیا شغل اپنایا ہے، جواب دیتے کہ دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول گئے ہیں، وہ سکھا رہا ہوں۔ یہ کیسے کہتے کہ دلّی والوں نے داستان کے آداب کو تو فراموش کردیا، کم از کم پان کے آداب کو تو فراموش نہ کریں۔
خیر، وہ زمانہ رفت گزشت ہوا۔ بغاوتوں کے کتنے ابال اٹھے اور ٹھنڈے پڑ گئے۔ اب تو ذرا مڑکر دیکھ لیں کہ وہ کیا روایت تھی جو گُم ہوگئی۔ اور نئی روایت برحق، مگر اسے بھی دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں اس کی تعمیر میں کوئی خرابی کی صورت تو مضمر نہیں تھی۔ بغاوتیں تو ادب میں خیر ہونی ہی چاہییں۔ عمل اور ردِّعمل کا سلسلہ رُک جائے تو پھر راوی ادب کے نام جمود لکھتا ہے۔ردوقبول دونوں ہی ادبی روایت کی ضرورتیں اور ادب کی بقا اور فروغ کی ضامن ہیں۔ مگر ہر بغاوت اور ہر نئی ادبی تحریک انتہا پسندی کی روش ساتھ لے کر آتی ہے۔ اس عمل کے بعد طبیعتوں کو اعتدال پر بھی تو آنا چاہیے اور تب مڑکر ایک نظر پیچھے ڈال لینی چاہیے۔
تو داستان کو کس بنیاد پر رد کیا گیا تھا؟ شاید بنیادی استدلال تو یہی تھا کہ ان قصوں میں ایسی ایسی باتیں ہوتی ہیں جنھیں عقل قبول نہیں کرتی۔ یہ اعتراض تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ ہمارے مصلحین کا Rationalism کے تصور سے نیا نیا تعارف ہوا تھا۔ زندگی کے معاملات کو جانچنے پرکھنے کا حتمی پیمانہ اب عقل ٹھہری تھی۔ داستانوں کی تو پوری دنیا ہی خلافِ عقل اور مافوق الفطرت نظر آتی تھی، تو اسے تو رد ہونا ہی تھا۔ اور حقیقت نگاری کا اسلوب ہمارے لیے کتنا نیا اور کتنا پُرکشش تھا۔ مغرب میں انیسویں صدی کے فکشن نے اسی اسلوب کو اپناکر کیسے کیسے شاہکار پیدا کیے تھے۔ اس چکاچوند میں ہماری نئی افسانوی روایت نے آنکھ کھولی اور وہاں سے بساط بھر روشنی لے کر اپنا دیا جلایا۔ مگر بیسویں صدی لگ چکی تھی اور ادھر مغرب میں فکشن نے ایک نیا گل کھلایا۔ حقیقت نگاری کو جو انیسویں صدی کے فکشن کا طرۂ امتیاز تھی، طاق میں رکھا اور نئی حقیقتوں کی آگاہی کے ساتھ کسی اور ہی رستے پر چل کھڑی ہوئی، ایسے اوبڑ کھابڑ رستے پر کہ واقعات کا منطقی ربط، کہانی کا تسلسل، ماضی و حال کی خانہ بندی، خارجی اور داخلی کی تقسیم، ایسے سب بنے بنائے سلسلے الٹ پلٹ ہوگئے اور ناول و افسانہ گورکھ دھندا بن گئے۔ مگر اب یہ گورکھ دھندا ہی انسانی حقیقت سے آگاہی کا امین تھا اور نئے فکشن کا طرۂ امتیاز۔ اُڑتی اُڑتی یہ خبر ہماری دنیائے افسانہ میں بھی پہنچ گئی۔ اور اب ہمارے ایمان میں کہ عقل پرستی اور حقیقت نگاری سے عبارت تھا، خلل پڑنے لگا۔ ترقی پسندوں کو داد دینی چاہیے کہ وہ اپنے ایمان میں پکے نکلے۔ قدم تو ان کے بھی ڈگمگائے تھے مگر انھیں، سب سے بڑھ کر سجاد ظہیر کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔ انھوں نے ایسے سارے فکشن پر زوال پرستی اور رجعت پسندی کی مہر لگاکر اس پر تین حرف بھیجے اور اپنے ایمان کی کشتی کو اس بھنور سے سلامتی کے ساتھ نکال کر لے گئے۔ مگر کچھ افسانہ نگاروں نے اسی گورکھ دھندے کو فکشن کی معراج جانا۔ ان میں سب سے بڑھ کر محمد حسن عسکری تھے جنھوں نے ایک وقت میں اپنے شروع کے زمانے میں یہ بیڑا اٹھایا کہ یہ اردو والے اور یہ اردو کے پروفیسر لوگ جوائس اور اس کے ’یولیسس‘ کو کیا سمجھیں گے، میں انھیں سمجھاتا ہوں۔
لیجیے اس حوالے پر مجھے ایک ذاتی واقعہ یاد آگیا۔ میں نیا نیا اپنی تعلیم سے فارغ ہوا تھا اور نیا نیا عسکری صاحب سے تعارف ہوا تھا۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے یہاں جو نوجوان نیا نیا بی. اے، ایم. اے کرکے نکلتا ہے اور نصاب کے علاوہ بھی ڈھائی تین انگریزی کی کتابیں، کچھ شعر و افسانہ، کچھ تنقیدی کتب، کچھ نیم فلسفیانہ مباحث پڑھ لیتا ہے، وہ بس افلاطون بن جاتاہے۔ اپنی اوقات کا پتا تو آگے جاکر چلتا ہے۔ بعض کو آخر عمر تک یہ پتا نہیں چلتا اور افلاطونیت ان کی نگارشات کا طرہ بنی رہتی ہے۔ہاں تو میں عسکری صاحب سے اپنے نئے نئے تعلق کا ذکر کررہا تھا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے خلاف کمربستہ تھے۔ میں نے ان پریہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ کرشن چندر کتنا بڑا افسانہ نگار ہے۔ یہ کہ کرشن کا افسانہ اردو افسانے کی معراج ہے۔ عسکری صاحب نے نہایت خاموشی سے میری پوری تقریر سنی۔ مگر اگلے دن جب ملے تو ایک کتاب ہاتھ میں پکڑا دی۔ کہا کہ پہلے یہ جِلد پڑھ لو، اگلی جلدیں بعد میں دوں گا۔ میں نے وضاحت چاہی تو کہا کہ یہ بیسویں صدی کے بڑے ناول نگار ٹامس مان کا ناول ہے۔ اس سے تمھیں پتا چلے گا کہ ناول اور افسانہ کیا ہوتا ہے۔ مگر جب کتاب کو کھول کر دیکھا تو حیران کہ ارے یہ تو وہی پرانا قصہ ہے۔ وہی یوسف زلیخا، وہی برادرانِ یوسف، وہی حضرت یعقوب کا گریہ۔ یا اللہ یہ بیسویں صدی کا نیا فکشن ہے۔ پھر میں نے اپنے طور پر ٹامس مان کے افسانوں، ناولوں میں تاک جھانک کی۔ Magic Mountain تو خیر ہوا، مگر یہ Holy Sinners کس قسم کا ناول ہے۔ یہ ناول ہے یا داستان لکھنے کی کوشش ہے۔ اوریہ Transposed Heads ارے تو یہ تو بیتال پچیسی سے اچکی ہوئی چنگاری ہے۔ جادو کے پہاڑ کے مقابل میں یہ پرانے جادو کا پہاڑ۔ پتا چلا کہ بیسویں صدی کے فکشن کے لیے پرانے قصے کہانیاں، انجیل، توریت کے قصے، یونانی دیومالا، ان سے سیراب ہونے والی رزمیائیں ناٹک، سب پھر سے بامعنی بن گئے ہیں۔ اور ہم ان کے اس فکشن پر فریفتہ ہیں۔ مولانا حالیؔ زندہ ہوتے تو سر پیٹ لیتے۔ انھی عقل کے پتلوں نے جن پر انھوں نے تکیہ کیاتھا، ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
اچھا اس سب کے بعد جنوبی امریکہ کے فکشن میں ایک نیا شگوفہ پھوٹا۔ اس کا اصطلاحی نام ہے۔۔۔۔ میجک ریلیزم۔ سبحان اللہ! حقیقت نگاری کی اصطلاح میں کیا خوب پھندنا ٹانکا ہے۔ حقیقت نگاری کے ماننے والوں کے حساب سے تو اسے بدعت کہنا چاہیے۔
خیر، بیسویں صدی کے فکشن کے اس سارے گورکھ دھندے کو دیکھ کر میں حیران ہوتا ہوں کہ آخر ہم نے کس خوشی میں اپنے گورکھ دھندے سے انکار کیا تھا۔ ارے کیا اس میدان میں ہم کچھ پتلا موتتے ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میجک ریلزم کیا شے ہے، مگر اتنا جانتا ہوں کہ اپنی ’الف لیلہ‘ اپنی جگہ پر بہت بڑا جادو ہے۔ اور اس سے ہٹ کر بھی ایک بڑا جادو ہے، اور فکشن کے اگلے پچھلے گورکھ دھندوں سے بڑھ کر گورکھ دھندا ہے۔۔۔ وہ ہے ’کتھا سرت ساگر‘۔ آپ کہیں گے کہ تم تو اردو کی داستانی روایت کی بات کررہے تھے، یہ ’کتھا سرت ساگر‘ کہاں سے آگئی۔ نہیں، میں اس روایت سے باہر نہیں گیا ہوں۔ دیکھیے، روایت کا معاملہ یہ ہے کہ آپ اسے جتنا چاہے سکیڑتے چلے جائیں اور جتنا چاہے اس میں وسعت اور کشادگی پیدا کرلیں، یہ آپ کی وسعتِ نظر پر موقوف ہے۔ اور میرے ساتھ ہوا یوں کہ داستانوں کی دنیا میں سفر کرتے کرتے عربی، عجمی رنگ ہی کے بیچ ایک اور رنگ جھلکتا نظر آیا۔ تھوڑا چکرایا کہ عربی عجمی رنگ کی داستانیں، قصے، حکایتیں تو ہوئیں، مگر یہ کس رنگ کی کہانیاں ہیں۔ یہ تو ہندی رنگ لگتا ہے۔ کہیں پراچین کال سے آئی ہوئی کہانیاں، اور یہ عربی عجمی داستانوں میں گھلی ملی بھی نظر آرہی ہیں۔ اور ان کا اپنا ایک جادو ہے جو عربی عجمی جادو سے الگ اپنا جادو جگا رہا ہے۔ تو میں نے اردو کی داستانی روایت ہی کے واسطے سے انھیں جانا۔ ہاں، یہ مرحلہ آگے چل کر پیش آیا کہ انگریزی ترجموں کی مدد سے ان کہانیوں کے سرچشموں تک پہنچنے کی کوشش کی اور وہاں پہنچا تو حیران کہ یا مولا یہ کون سا جہاں ہے: ع
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
اور یہ کس ڈھب کا بھید بھاؤ ہے۔ رنگ رنگ کی مخلوقات، چرند، پرند، درندے، سانپ سنپولیے‘۔ پنچھی ایک سے بڑھ کر ایک، راج ہنس، مور، طوطے، مینا، کاگا، شاما اور ان کے بیچ آدمی، راجہ، رانی، راجکماریاں، رشی منی، سادھو سنت، مگر کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کون اصل میں کیا ہے۔ بہ ظاہر ہنس ہنسنی، اور اچانک دیکھو تو لوٹ پوٹ کر آدم زاد بن گئے۔ پتا چلا کہ اصل میں تو راجہ رانی تھے۔ کسی رشی نے شاپ دیا تو ہنس ہنسنی بن گئے۔ یا کسی نے پاپ کیا تو آدمی کا جنم چھوڑ بلی بن گیا یا بکری۔ جون تو خیر داستانوں میں بھی بدلتی ہے۔ کمبخت ساحرائیں اپنے نامراد عاشقوں کو پڑھ پھونک کر دم کے دم میں ہرن بناکر مقید کرلیتی ہیں۔ مگر یہاں تو جنموں کا ایسا چکر ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ بس اسی چکر میں کہانی سے کہانی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ الجھی ڈور کو سلجھایا جاسکتا ہے مگر یہاں کہانیاں اس طرح آپس میں الجھی ہوئی ہیں کہ سلجھنے میں نہیں آتیں۔ سلجھتے سلجھتے کوئی اور ہی کہانی نکل آتی ہے اور نئی گتھی پیدا کردیتی ہے۔ ہر کہانی اپنے ساتھ ایک نیا بھید لے کر آتی ہے۔ یہاں ہر درخت، ہرپھول، ہر پھل اپنی جگہ ایک بھید ہے۔ ممکن ہے یہ خوش رنگ پھل جب شاخ سے گرے تو گرتے ہی پھٹ جائے اور اس کے بیچ سے ایک سندر ناری نکل کر سامنے آکھڑی ہو۔ یہ ہے بھید بھاؤ سے بھری کتھا کہانی کی دنیا۔
ہاں اسی سے جڑا ہوا اور اس سے تھوڑا الگ کتھاؤں کا ایک اور سلسلہ ہے۔ جاتک کتھاؤں کی مالا۔ ایک مہاتما اپنے جنم گناتا چلا جارہا ہے۔ ہر جنم اپنی جگہ پر ایک کہانی ہے۔ نہ جنم ختم ہونے میں آرہے ہیں نہ کہانیوں کا سلسلہ رُک رہا ہے۔ اور دنیا کی کتنی مخلوقات ہیں جن کے پیکر میں اس نے جنم لیا ہے۔
کتھا کہانیوں کے اس سارے گورکھ دھندے کو میں اپنی داستانی روایت سے الگ کیسے تصور کروں۔ ان میں سے کتنی کہانیاں تو انھیں داستانوں کے بیچ اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں۔ کچھ نے اس طرح سے قالب بدلا ہے کہ اچھا خاصا عجمی رنگ ان میں پیدا ہوگیا ہے جیسے پنچ تنتر کی کہانیاں۔ اور پھر ان میں سے کتنی کہانیاں یا ان سے ملتی جلتی میں نے اپنی نانی اماں سے سنی ہیں۔ اور ہاں، ہماری داستانی روایت اولاً تو سماعی روایت تھی۔ اور اگر وہ سماعی روایت تھی تو دلّی اور لکھنؤ کے داستان گو اپنی جگہ، مگر میری نانی اماں بھی کوئی چھوٹی داستان گو نہیں تھیں۔ وہ بھی رات کو جب کہانی شروع کرتی تھیں تو پچھلا پہر آجاتا تھا اور کہانی ختم نہیں ہوتی تھی۔ پھر اسے اگلی رات کے لیے ملتوی کیا جاتا تھا۔
قصہ کہانیوں، کتھاؤں کے یہ سارے سلسلے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حقیقت کو صرف اتنا مت جانو جتنی وہ نظر آتی ہے: ع
چاند کو چاند سے ادھر دیکھو
حقیقت نگاری جس حقیقت پر اصرار کرتی ہے وہ ادھوری ہے۔ اس کے ماورا بھی کچھ ہے۔ وہ کیا ہے۔ بس اس سوال ہی سے تو بھید بھاؤ کی دنیا جنم لیتی ہے اور عقل پیچھے ٹاپتی رہ جاتی ہے۔
اس تصور ہی سے تو ان داستانوں اور ان کتھاؤں میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے اور تحیر کی فضا جنم لیتی ہے۔ اور یوں یہ کہانیاں ایک گہری معنویت کی حامل بنتی ہیں۔
تو یہ تھی وہ رنگارنگ افسانوی روایت جسے ہمارے مصلحین نے جوشِ اصلاح میں رد کیا۔ اس قطعی انداز میں رد کیا کہ جب ہمارے کہانی کار کہانی لکھنے بیٹھے تو ان کے سامنے خالی موپساں کاا فسانہ تھا اور اللہ کا نام تھا۔ تو جو افسانوی عمارت تعمیر ہوئی وہ بالکل ہی نئی تھی۔ روایت سے اس کا رشتہ القط تھا۔ تو جو افسانوی روایت جس کے سہارے ہم لکھ رہے ہیں، اس کی عمر ہی کیا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔ شاعری کی نئی روایت نے تو اقبالؔ پیدا کیا۔ اس روایت کو دو بڑے سہارے حاصل تھے۔ ایک تو اپنی کلاسیکی روایت، اس روایت کو پیچھے سے ایک اور بڑی روایت سہارا دے رہی تھی، فارسی شاعری کی روایت۔ نئی افسانوی روایت کو ایسا کوئی بڑا سہارا حاصل نہیں ہے۔ غریب اپنے ہی بوتے پر کھڑی ہے۔ سو جتنا اس سے برآمد ہوا اسے غنیمت جانیے۔
مگر اب پچھلی روایت کے قبول کرنے میں اور اس سے ٹوٹا رشتہ بحال کرنے میں کیا قباحت ہے۔ اب تو اس کے جائز ہونے کی سند وہاں سے بھی مل سکتی ہے جہاں کی سند ہمارے لیے سب سے بڑھ کر مستند ہے۔ میں نے ابھی ذکر کیا نا کہ بیسویں صدی کے مغربی فکشن نے انیسویں صدی کے تعصبات سے انحراف کرکے وہ سارے کھیل کھیلے ہیں جن کی بنا پر ہماری داستانی روایت کو رد کیا گیا۔ ہماری نئی تنقید میں تو آگہی آگئی ہے مگر افسانہ نگاروں تک شاید ابھی یہ خبر نہیں پہنچی ہے۔ ویسے سوچیے کہ اگر ہم اس ٹوٹے رشتے کو 
بحال کرپائیں تو ہماری افسانوی روایت میں کتنی وسعت آجائے۔ یوں سمجھیے کہ اس روایت میں قصہ کہانی کے تین بڑے دھارے گھلے ملے نظر آئیں گے، ایک وہ جو عرب و عجم سے آیا، دوسرا وہ جو قدیم ہند کی کتھا کہانی کی روایت سے پھوٹا اور اس روایت میں آملا۔ تیسرا وہ جو مغربی فکشن سے بہتا آیا اور ہمارے افسانوی شعور پر چھا گیا۔
یہ تین دھارے جو اپنا اپنا تہذیبی مزاج رکھتے ہیں اور اپنے جلو میں افکار و تصورات کی رنگا رنگ دولت لاتے ہیں، یہاں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک تنوع بھی پیدا کرتے ہیں اور اس روایت کو ایک وسیع القلبی، ایک لبرل مزاج بھی عطا کرتے ہیں۔ اور اگر ہم اپنی شعری روایت کے لبرل مزاج کو پیش نظر رکھیں تو پھر یہ ہماری ادبی روایت کا مجموعی مزاج ٹھہرتا ہے۔
انفرادی جوہر اپنی جگہ، مطالعہ و مشاہدے کی اہمیت اپنی جگہ، مگر پیچھے کوئی بڑا تخلیقی سرمایہ بھی تو ہونا چاہیے یا کہہ لیجیے کہ ایک بڑی روایت کی کمک۔ اس کمک کے موجود ہوتے ہوئے آخر ہم اسے کیوں فراموش کریں۔

مضمون نگار: انتظار حسین

انتظار حسین صاحب کی کتاب ریختہ پر ملاحظہ فرمائیے
چراغوں کا دھواں
http://rekhta.org/ebook/charaaGon_kaa_dhuaan_Intizaar_Husain

No comments:

Post a Comment