Friday 18 October 2013

بلراج مینرا کے ایک پیش لفظ کی گونج


(بلراج مینرا ایک اچھے ادیب اور افسانہ نگار تھے۔مگر ان کا امدیرانہ ذہن بھی کمال کا تھا، انہوں نے اپنی زندگی میں شعور، مینرا جنرل اور سرخ و سیاہ نام کے جریدے اپنے زیر ادارت شائع کیے۔ان تمام پرچوں کے ذریعے ان کا خاص متحرک ذہن اس کام پر زور دیتا تھا کہ جدیدیت کے نام پر اول فول بکنے والوں کو اس لکیر سے باہر نکال کر جینوین فنکاروں کی تلاش کی جائے۔انہوں نے اسے نہ صرف ایک کام سمجھا بلکہ وقت کی اہم ضرورت اوراپنی اہم ذمہ داری گردانا، سرخ وسیاہ کا غالباً ایک ہی شمارہ ان کی زندگی میں شائع ہوا، اس کے بعد اگر کوئی اور شمارہ مینرا نے نکالا ہے تو مجھے اس کاعلم نہیں، تاہم اس ایک شمارے کے پیش لفظ میں جسے مینرا نے کلراسکیم کانام دیا تھا، ادب اور آرٹ کے تئیں اپنا اور اپنے ہم خیال ادیبوں کا نظریہ واضح کیا ہے اس پیش لفظ کو پڑھنے کے بعد مینرا اور سہ ماہی سرخ و سیاہ سے جڑے ادیبوں کی ذہنیت کو نزدیک سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔یہ شمارہ جولائی 1983 میں شائع ہوا اور اس کے ابتدائی صفحے پر افتتاحی اور رسمی شمارہ بھی لکھا ہوا ہے۔اس پہلے اور غالباً آخری شمارے کے ناشر و طابع اور مدیر خود بلراج مینرا تھے، جبکہ معاونین کے ذیل میں عبدالمغنی اور رشمی کے نام درج ہیں، خطاط کے طور جمال گیاوی اور طباعت کے آگے لبرٹی آرٹ پریس ، پٹودی ہاؤس ، دریا گنج،نئی دلی لکھا ہوا ہے۔اس شمارے میں موجود قلم کاروں کے نام اعجاز احمد، عین رشید، عتیق اللہ، باقر مہدی، ساگر سرحدی، شمیم حنفی اوراقبال مجید ہیں۔آخری صفحے پر منٹو کے حوالے سے اوما واسودیو کا دی ٹائمز آف انڈیا کے کسی شمارے میں شائع یہ اقتباس درج کیا گیا ہے۔
Who would not want to read Manra's Manto?
And if youd dont know Urdu, even to learn it to be able do so!
Cultural close-up: The Times of India: Uma Vasudev
یہ پرچہ جلد ہی ریختہ ویب سائٹ پر موجود ہوگا۔امید ہے کہ آپ اس پیش لفظ کو پڑھیں گے، پسند کریں اور ہاں جیسا کہ مینرا نے کہا، کچھ سوچیں گے بھی!)

تصنیف حیدر

کلر اسکیم
کہتے ہیں جدت اور بغاوت ہم معنی الفاظ ہیں۔۔۔!
جدید اردو ادب کے دائرے میں اس ہم معنویت کے کیا معنی ہوتے ہیں۔۔۔؟
سمجھانا ذرا مشکل ہے،ہاں خود سمجھنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے، یہی سہی۔۔۔!

ورثے میں ملی ہوئی زندگی کے چوکھٹے سے نکل کر جینے کی کوشش بغاوت ہے،اور جب یہ کوشش ذہنی رویے میں ڈھل جاتی ہے تو تخلیقی اظہار میں جدیدیت کا آہنگ بن جاتی ہے۔تڑپ کر بیکراں ہوجانے کی خواہش نئی نہیں ہے! تاریخ کے ہر دور میں روایات اور مانی ہوئی قدریں (جو اپنی نوعیت میں سماجی ہوتی ہیں)اس خواہش کا راستہ روکتی ہیں اور جدلیاتی تصادم کا پیش خیمہ بلکہ ایک ناگزیر تقاضہ بن جاتی ہیں۔۔۔

شروع ہوگئیں نا وہی گھسی پٹی اصطلاحی باتیں !
اچھا یوں نہیں،یوں باتیں کرتے ہیں۔

اگر زندگی کے ہر دور میں یہی ہوتا آیا ہے تو پھر جدیدیت کو ہمارے عہد کا مذہب بنانے کی کوشش کیوں کی گئی؟
یہ مزاحمتی رویہ ہے، ہم اس کے چکر میں نہیں آئیں گے۔
ہم مذاکروں والی چھیڑ چھاڑ اور مارا ماری کے چکر میں نہیں پڑیں گے۔
آپ بھی چکر میں نہ پڑیے۔بس اپنی خوش فہمیوں کو اپنے پائپ میں بھر لیجیے اور دھوئیں کے مرغولے بناتے جائیے۔
________اچھا مشغلہ ہے: ادبی تخلیق اور روحانی سرشاری کا اس سے بہتر طریقہ ایجاد نہیں ہوا ہے۔۔۔!
اس طرح کی طنزیہ تیر اندازی اور چاند ماری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔! سیدھے سیدھے یہ بتائیے کہ پچھلے تیس سال میں وہ کون سی خاص بات ہوئی ہے جو اس سے پہلے کے بیس پچیس سال کی خاص بات سے مختلف ہے؟ وہ باریک لکیر کون سی ہے جو ان دو ادوار کے درمیان سرحد کا کام کرتی ہے؟
ہماری موٹی عقل میں تو یہ خاص بات کوئی کنواں نہیں ہے جس میں آپ ڈول ڈالتے جائیں اور پانی نکالتے جائیں۔۔۔اگر آپ شاعرانہ تلمیح و استعارے میں بات کرنے پر اتارو ہیں تو اس خاص بات کو ایک دریا کہہ لیجیے۔۔۔!
آپ نے حمایت میں سر ہلایا نہیں کہ آئے جال میں!
دریا کے معنی ہیں روانی: روانی صرف عرضی فاصلے ہی کو نہیں بلکہ وقت کی ناگزیریت کو بھی ثابت کرتی ہے: یہ ناگزیریت تاریخ ہے۔۔۔!

دیکھیے صاحب آپ دیر سے ادھر ادھر کی باتیں کررہے ہیں،کام کی بات کیوں نہیں کرتے؟
آپ جس چیز کو ادھر ادھر کی بات کہہ رہے ہیں، وہی مری کام کی بات ہے جناب۔۔۔!

ہر فنی تخلیقی عمل میں اس کی حیثیت طوفانی سمندر میں مضبوط پاؤں جمائے مینارۂ نور کی ہے، اور روشنی میں سمٹے لا محدود رقبے پر تخلیق اور اس کی نوعیت کا انحصار ہے۔۔۔۔پچھلے پچیس سال میں اس رقبے کی نوعیت میں تبدلی پیدا ہوئی ہے، یعنی مینارۂ نور کی روشنی میں سمٹا خارجی لامحدود رقبہ تو وہی ہے لیکن اب تخلیقی عمل خود مینار�ۂ نور کے اندر بھی ایک چکر لگالیتا ہے۔۔۔ہم سمجھتے ہیں ،یہ تخلیقی عمل میں ایک انقلابی موڑ ہے، اور یہی انقلابی موڑ اس دور کی خاص بات ہے۔

سطحی لکھنے والے اور گہرے فنکار ہر زمانے میں ہوتے ہیں، پہلے بھی تھے اب بھی ہیں۔۔۔۔کلیشے کا بازار پہلے بھی گرم تھا، اب بھی ہے۔۔۔سطحی لکھنے والے اور گہرے فنکار کا فرق یہی ہے کہ گہرا فنکار کلیشے کا طلسم توڑتا ہے اور سطحی لکھنے والا دوسروں کے بنائے ہوئے طلسم کے جال میں بھنبھناتا رہتا ہے۔

بغاوت پوز نہیں، عمل ہے۔
فنی عمل بھی عمل ہے اور چونکہ یہ اپنی نوعیت میں تخلیقی ہے اس لیے اس میں اظہار کی تہہ داریوں کا سمٹ آنا ناگزیر ہے۔۔۔!

پھر وہی مسئلہ کھڑا ہوگیانا!
صلاحیت اور عدم صلاحیت کی پہچان کامسئلہ!
کیا خوب تماشا ہے۔۔۔!

سینکڑوں ادیب و شاعر اس تماشے میں شریک ہیں۔۔۔سینکڑوں ادیب اور شاعر خود فریبیوں کے اس عظیم الشان سرکس میں (جسے گزشتہ پچاس برس ی تنقید میں ’’ترقی پسند ادب‘‘ اور ’’جدید ادب ‘‘ کہا جاتا ہے)شریک ہیں:اس نیشنل اور انٹرنیشنل میری گو راؤنڈ میں کاٹھ کے گھوڑے ہیں، ٹین کے طوطے ہیں، کاغذ کے الو ہیں، چیتھڑوں کے بندر ہیں اور حالات یا حادثات انہیں نچار ہے ہیں۔۔۔رقص کا یہ دائرہ ایک آئینہ خانے میں محصور ہے اور سب کے سب اتنے ذہین ہیں کہ اپنے متحرک عکس کو بار بار دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔


ناراض ہونے کی ضرورت نہیں! سوچنے اور سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔۔۔!

اصل بات یہ ہے کہ زیادہ تر ادیب و شاعر اس آئینہ خانے کے قیدی ہیں: کچھ پچاس سال پہلے کے آئینہ خانے میں پاؤں پسارے پڑے ہیں: کچھ پچیس سال پہلے کے آئینہ خانے میں قہقہے لگانے کے بعد گم سم پڑے ہیں۔۔۔!

کچھ ادیب و شاعر، گنتی کے چند ادیب و شاعر ایسے بھی ہیں جوان آئینہ خانوں کو توڑ رہے ہیں۔۔۔۔زندگی سے سرشار وہ چند ذہین اور مجاہد فنکار جو اسیری سے لڑرہے ہیں، کون ہیں؟ ان کی پہچان کیا ہے؟

ممکن ہے سہ ماہی سرخ و سیاہ میں ان گنتی کے چند فن کاروں کی پہچان ہم سب کو مل جائے!


سرخ و سیاہ اس دور بلاخیز کو سمجھنے کا ایک جان لیوا جتن ہے۔

جغرافیائی حد بندیوں کے سبب یوں تو سرخ و سیاہ پر ’نئی دلی ‘ کی مہر لگی ہوئی ہے، لیکن اہل نظر کے لیے یہ جریدہ کلکتہ، لاہور،طہران، بیروت، ماسکو، پیکنگ، ایل سیلوادور، برلن، لندن اور پیرس کی دوریاں سمیٹنے کی ایک مشکل ترین کوشش ہے۔

تاریخی اور فکری تسلسل کے اعتبار سے اس صدی کے بلند حوصلوں کی کہانی کی گواہی دینا سرخ و سیاہ کا ایمان ہے۔

سرخ و سیاہ کا مطالعہ کمزور، تنگ نظر اور سہل پسند لوگوں کے لیے اعصاب شکن ثابت ہوگا اور بلند ہمت اور بیدار لوگوں کے لیے فکر و عمل کے لمحات مہیا کرے گا۔

پیش لفظ: بلراج مینرا

عین رشید کی نظمیں پڑھیے ریختہ پر

No comments:

Post a Comment