Tuesday 5 November 2013

بالشت بھرخوف کا قصہ


غالب کا شعر ہے
تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
یہ بھی ایک عجیب صورت ہے کہ انسان کو موت آتی ہے، جیتے جاگتے، گوشت پوست کے چلتے پھرتے انسان کو ایک دم سے حلقۂ اجل اپنے دام میں پھانس کر نگل جاتا ہے۔لوگ کاغذی لباس میں آدمی کو لپیٹ کر لے جاتے ہیں اور وہ مٹی کی تہوں میں دبا دیا جاتا ہے۔ایک ایسا عمل جس کا کسی کو پہلے سے تجربہ نہیں، کسی کو اس کے بارے میں پتہ نہیں، بس ایک احساس غیر محسوس سے ریڑھ کی ہڈی میں چینوٹیاں سی رینگنے لگتی ہیں۔تکلیف ہے یا راحت، ٹھہراؤ ہے یا چل چلاؤ کون جانے، وہ جو میر صاحب نے کہا تھا
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
تو کیا وہ سچ مچ وہاں ٹھہر کر، سستا کر تھوڑا ہانپ وانپ کر پھر چل دیے تھے، پھر انہیں کوئی سفر درپیش تھا، یا پھر ہمیں کوئی سفر درپیش ہے، یا ہوگا۔انسان مٹی سے بنایا ہوا تودہ ہے، جس کی شکل و صورت خدا کی احسن تخلیق ہے، مگر اس تخلیق کے کینوس پر وقت کی اچھل کود سلوٹیں بکھیر دیتی ہے، پتے مرجھا جاتے ہیں، ان پر شکنں پڑجاتی ہیں اور شعبان کے مہینے میں ہر سال کچھ پتے جھڑ جاتے ہیں۔زندگی میں کون اتنا موت کے بارے میں سوچتا ہے، کون سوچتا ہے کہ اس کا قصہ انجام کی حد تک کس طرح پہنچے گا، لوگ کہیں گے سالا! قنوطی ہے، بیکار کی باتوں میں الجھا ہے، خدا نے جب، جس وقت اور جیسے موت لکھ دی ہے آجائے گی،اور ہڑپ لے گی۔موت کا عمل یہ بھی طے نہیں کہ کتنے وقفے کا ہے، کسی کو ایسی بیماری ہوجائے کہ کھانا حلق سے نیچے نہ اترے، جسم قوت سلب کرنے سے انکار کردے تو اس کی موت قسطوں میں آتی ہے، کٹ کٹ کر، سسک سسک کر اسے موت اپنا نوالہ بناتی ہے، اور کچھ لوگوں کا قصہ سن کر عقل نیر مسعود کی طرح حیران رہ جاتی ہے کہ سنا راہ میں چل رہے تھے، پٹ سے کہیں گرے، جھٹ سے مرگئے، جب تک لوگ سنبھالتے روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی تھی۔پھر بھی کبھی کسی کو کہتے نہیں سنا کہ’فلاں شخص کو موت آرہی ہے۔‘اچھا ایسا کوئی کیوں کہے کیونکہ موت تو سبھی کو آرہی ہے، سبھی کی طرف کبھی شارٹ کٹ لے کر، کبھی لمبے جنگلوں، دریاؤں،کھائیوں اور پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے،مگر وہ آرہی ہے۔اسے تو بس جسم سے لپٹ کر سونے کی جلدی ہے، مجھے اکثر ایسا لگتا ہے جیسے موت کوئی کالی بلا ہے، میں کسی روز اپنی چھت پر کھڑا ہوؤں گا، ہوائیں زوروں پر ہونگی اور موت کسی چھبیلی ،پھرتیلی بلی کی طرح گھو رتی ہوئی عقب سے میرے شانوں پر کودے گی اور پھر تیرتی ہوئی میری پیٹھ میں اترجائے گی، وہاں سے پیروں پر اور پھر آخر میں پنجوں پر آکر دم توڑ دے گی، اور میں ساکت ہوجاؤں گا۔پھر،پھر کیا۔موت آچکی، قصہ ختم!
مگر قصہ ہے کیا جو ختم ہوگیا۔زندگی تو ایک ایسی کہانی ہے جس پر کبھی بھی حرف تمت لاؤ مگر وہ ادھوری ہی لگے گی، لوگ اسی اسی سال کے مردوں پر ٹسوے بہاتے ہیں، آنکھیں سجاتے ہیں، وہ کیوں روتے ہیں،انسیت ؟کس سے؟ان کانپتی،جھلملاتی جھریوں سے جو تھوڑی دیر پہلے تک اس نام نہادزندہ آدمی کی جان پر عذاب بن کر طاری تھیں، ایسا لگتا تھا جیسے خاک راکھ ہوہوکر بدن سے لپٹی ہے اور جھڑتی ہی نہیں۔سردیوں کے موسم میں کسی کچی پتیلی کے تلے کی طرح کچکچاتی ہوئی زندگی اور پھر ایک ٹھنڈی تکلیف اور پھر خون کا ٹھہرا ہوا ایک قطرہ! وہ قطرہ جسے دنیا دل کہتی ہے۔جس میں لاکھوں،ہزاروں آفتوں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے۔اس سے یاد آیا کہ لوگ دل کی بیماری سے بھی مرتے ہیں، تو وہ موت کیسی ہوتی ہے جو دل کا گھیراؤ کرتی ہے، سنا ہے ہارٹ اٹیک میں بلا کی تکلیف ہوتی ہے۔تکلیف جو شریانوں میں رستے ہوئے گرم خون کا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے، ایک بے بس ہاتھ سینے پر ، دوسرا ہاتھ مٹھی کی شکل میں زمین کا سہارا لیے ہوئے اور وقت ایک چریخ کی طرح روح میں اترتا ہوا۔تب کون کہہ سکتا ہے کہ موت آئی گئی بات ہے، اس شخص کے لیے جو بس پانچ یا سات منٹ میں ان تکلیفوں سے گزرتا ہوگا، یہ پانچ یا سات منٹ کیا معنی رکھتے ہیں اس آدمی کے لیے جو جے پور کے سن سیٹ پوائنٹ پر غروب آفتاب کا منظر دیکھ رہا ہو یا پھر اس کے لیے جو سو رہا ہو، بے خبر اس بات سے کہ اسے بھی موت آنی ہے یا بے خبر اس بات سے بھی کہ وہ زندہ ہے۔کہتے ہیں نیند موت کی چھوٹی بہن ہے، مگر اس چھوٹی بہن میں کتنا سکون ہے،اس کے لیے بھی تو دن بھر تھکنا پڑتا ہے، ایک مسکراتی ہوئی نیند کی آنکھوں میں دن بھر کی دھوپ، اس میں بکھری ذلتوں کی کرچیاں، محنتوں کے آبلے اور حسرتوں کی کتنی کترنیں ہوتی ہیں یہ تو ہر عام آدمی جانتا ہے ، پھر بڑی بہن کے لیے زندگی بھر کی تھکن کا دورانیہ اس کے دامن میں ڈالنا کیوں ضروری نہ ہو۔موت کے بعد کا سوال تو دور کی بات ہے، موت کے عمل کا سوال ہی اپنے آپ میں ایسا معمہ ہے کہ اس کو وقت کے پھیلے ہوئے جال میں دیکھتے رہو، حیرا ن ہوتے رہو،میاں آتش فرماتے ہیں
آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
زندگی بھر چوکڑیاں بھر بھر کر ہم جس درندۂ عقب سے گھبرائے پھرتے ہیں وہ کسی بہانے کی صورت ہم پر جھپٹ پڑتی ہے، مگر اکثر یہ بہانہ بھی ضروری نہیں ہوتا۔وہی نیر مسعود والی بات پٹ سے گرے، جھٹ سے مرگئے۔موت کو بھلا بہانے بنانے کی کیا ضرورت ہے، وہ کوئی جھوٹی تھوڑی ہے،جس کو گلے سے تھوک نگلتے ہوئے پکڑ لیا جائے،وہ ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی ایک سچائی ہے۔ایک دیوار ہے جس کے اس طرف کتنا کہرام مچا ہے، کتنی خاموشی چھائی ہے، کسے کیا خبر۔میں نے کبھی شعر کہا تھا
اس طرف اور بھی شہرت ہے مرے ہونے کی
توڑ کر دیکھ لوں میں ذات کی دیوار کبھی
تو پھر توڑ کر دیکھوں، پھاند کردیکھوں ، مگر اس طرف والے تو میرا پیلا پڑتا ہوا منہ ہی دیکھ سکیں گے ، اور کچھ نہیں، ان کے لیے آنکھوں پر پھیلتے ہوئے تاروں کے سلسلے کے علاوہ اور کیا رہ جائے گا پرونے کو۔موت کی دیوار،دیوار قہقہہ سے کتنی مماثل ہے، کہ بس دیکھا اور ہنسے ، پھر ہنستے گئے، ہنستے ہی چلے گئے، ہاتھی ،گھوڑوں سے اپنے آپ کو زندگی کے اس پار کھڑے پہلوان بھی ادھر پھاندنے سے کہاں باز رکھ پائے۔اور پھر میری شہرت کیسے ہے اس طرف، اس طرف تو ایک صفر ہے، ایک گھنا، کالا صفر، جو اس طرف کے تمام اعداد پر حقارت سے بھی نظر نہیں ڈالتا۔بچپن سے سنتے تھے، کل نفس علیہا فان یا پھر اللہ باقی من کل فانی۔تو اللہ ہونا کتنی خوش قسمتی کی بات ہے۔یا پھر موت کے بغیر زندگی کا تصور کتنا کرب ناک ہے۔ایک ایسی زندگی جو بس چلتی ہی آرہی ہے، چلتی ہی جارہی ہے، نہ کوئی بیماری، نہ کوئی درد، نہ کوئی خوشی، نہ کوئی فل اسٹاپ۔کہتے ہیں خدا بے نیاز ہے، موت تو خیر دور کی بات ہے اسے تو زندگی سے بھی پوری طرح جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔کیونکہ ہماری لغات میں تو زندگی کا نام ہی دکھ کا میلہ ہے، سکھ کی جھالروں سے جھانکتے ہوئے خواب ہیں۔کل نفس ذائقۃ الموت، تو نفس تو ہر شے ہے۔ہر ارادہ، ہریقین، ہر جھوٹ ، ہر مکر اور ہر جاندار۔جاندار۔۔۔تو کیا خدا جاندار نہیں۔جاندار ہونے کے لیے موت کا ٹرانس ضروری ہے۔ایک ایسی ریل گاڑی میں اگر آپ کو بٹھا دیا جائے،جس کا کوئی اسٹیشن ہی نہ ہو، جس کی پٹری پر کوئی سگنل ہی نہ ہو، جو ایک ہی منظر پرچھلانگیں لگاتی ہوئی گزرتی رہے ، تو آپ کیا کریں گے۔آپ ایک کہانی لکھیں گے۔تو خدا نے بھی ایک کہانی لکھی۔ایک کہانی، جس کے کردار لکھے گئے۔جس میں آدم بنایا گیا، فرشتے پیدا کیے گئے، جنوں کی بستیاں آباد کی گئیں، خبائث کو گناہوں پر اکسانے کی ڈیوٹی پر لگایا گیا، خناس کو غیاب میں رکھ کر انسان کو جستجو کے عمل پر لگا دیا گیا۔آسمان کی چادر بچھائی گئی۔اس میں گول گول، ہرے بھرے، نیلے پیلے تارے ٹانکے گئے۔ایک گولے میں آگ بھری، دوسرے میں سفید مٹی، تیسرے میں پیڑ پودے اگائے اور سب کو اس آسمان کی چادر سے گوٹوں کی صورت ٹانک کر خلا میں لٹکا دیا گیا۔پھر آدم پیدا ہوا، پھر حوا پیدا ہوئی۔یا پھر آدم و حوا ساتھ میں پیدا ہوئے جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے۔وہ نفس جو آدم و حوا کے اختلاط کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، شاید اسی سے۔شاید اسی گرم اور مہکتی ہوئی سانس سے جو دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی عورت کے پھیپھڑوں سے نکل کر مرد کی ریڑھ میں اتر گئی ہوگی، اس کے شانوں پر پھیل گئی ہوگی، اس کے خمیر میں گھل گئی ہوگی۔پھر دنیا کے پہلے جھگڑے کی ابتدا ہوئی ہوگی۔گیہوں، وہ گیہوں جو زندگی کی علامت ہے اور ساتھ ہی موت کی بھی۔
تو دنیا کی سب سے پہلی موت غیرارادی تھی۔ہابیل کو قابیل نے پتھر مارا اور وہ مر گیا۔مگر اس موت کی تشخیص قابیل نے کیسے کی، اسے کیسے معلوم ہوا کہ اس کا بھائی مرگیا ہے، اسے تو بائیلوجیکل سائنس یا برین ڈیتھ کا شعور نہیں تھا، وہ کہاں جانتا تھا کہ انسان کا دل دھڑکنا بند ہوجائے، اس کا تار تنفس کٹ جائے، پندرہ سے ایک سو بیس منٹ کے درمیان بدن پیلا پڑنے لگے، تب ہی موت سینہ تان کر سامنے آتی ہے، اس سے پہلے تو وہ آنکھ مچولی کھیلتی ہے، یا پھر واقعہ بہت دلچسپ تھا، اس سے بھی زیادہ جتنا ہم سوچتے ہیں۔یہ اسی طرح کا معاملہ ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ میں آئینہ تھمادیا جائے۔ہابیل کی نعش سامنے پڑی ہے، قابیل اسے گھور رہا ہے۔بس گھور رہا ہے، پہاڑ کے نیچے آدم کو تشویش ہورہی ہے کہ کیا خبر اللہ نے کس کی قربانی قبول کی تھی، کیونکہ بجلی کی وہ چمک تو حوا نے بھی دیکھی تھی، آدم نے بھی اور اقلیما نے بھی۔قابیل بوکھلایا ہوا بیٹھا ہے، اس نے دوچار ہتڑ ہابیل کے سینے پر مارے ہیں کہ وہ ان کی شدت سے اٹھ بیٹھے۔لیکن اس سے پہلے بھی ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نذر قبول نہ ہونے سے تلملا کر اس نے پتھر ہی کیوں مارا؟ کیا اسے معلوم تھا کہ پتھر پڑنے سے تکلیف ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس سے پہلے اسے خود کبھی پتھر سے کوئی چوٹ لگی ہو، قابیل یا آدم یا حوا ، اقلیما وغیرہ کسی پتھر سے ٹکرا کر گھائل ہوئے ہوں۔ہوسکتا ہے کہ قابیل کو درد کا تجربہ رہا ہو۔مگر پتھر پڑنے سے موت؟ اور پھر موت کا یقین کس نے دلایا۔کیاخود اللہ نے قابیل سے کلام کیا
’ارے او کور عقل! توشیطان کے دام میں آگیا، اس نے ایک بدن کے حصول کے لیے تجھے ایسا اکسایا کہ تو اپنے ہی بھائی کا قتل کربیٹھا۔‘
پھر قابیل نے پوچھا ہوگا۔’قتل ! یہ کیا ہوتا ہے؟‘
’ موت کی وہ شکل، جو تونے اپنے بھائی کو عطا کی ہے۔‘
’موت؟‘ اب کے قابیل اور گھبرایا ہوگا
’ہاں موت! جیسے زندگی ایک اٹل حقیقت ہے ،ویسے ہی انسان کے لیے موت بھی ایک ابدی حقیقت ہے، جو لوگ سانس لیتے ہیں، ان پر کبھی نہ کبھی موت اختتام کی صورت اترتی ہے۔جو انسان کے اندر سے روح کو باہر لے آتی ہے اور انسان مر جاتا ہے۔آدم کو بتایا تھا ہم نے!‘
’مگر انہوں نے تو نہیں بتایا ! اے خدا! اقلیما اسے ہی دیدے، مجھے نہیں چاہیے، مگر اس کی روح واپس اس کے جسم میں ڈال دے،میں اسے تکلیف دینا چاہتا تھا، مگر مارنا نہیں چاہتا تھا۔‘
ایک بار مرنے کے بعد کوئی زندہ نہیں ہوسکتا۔یہی قدرتی اصول ہے،اور میں اپنے بنائے ہوئے اصول کسی کے لیے نہیں توڑتا، اپنے لیے بھی نہیں۔مگر جو میرے بنائے ہوئے اصولوں کو توڑتا ہے میں اس پر لعنتی سفوف مل دیتا ہوں۔جا اب تو بھی میری کائنات سے بے دخل ہوجا! تونے قتل کیا ہے۔تو مجرم ہے۔تو نے دانستاً اپنے بھائی کو تکلیف دینے کے لیے اس پر حملہ کیا۔جا اب تو بھی مرے گا۔ایک شیطانی موت۔
اور پھر موت کی قسمیں بننے لگیں، جستہ جستہ، موت طرح طرح سے لوگوں پر اترنے لگی۔اجتماعی موت، انفرادی موت، عزت کی موت، حیرت کی موت، طلسمی موت، مرضی کی موت اور شیطانی موت۔اورہر موت کے الگ الگ حصے بننے لگے، کام دھیرے دھیرے اتنا بڑھا کہ موت نے ایک کارخانہ قائم کرلیا،جس میں مختلف قسم کے ذائقے بنانے کا کام شروع کردیا گیا، جیسا کہ میں نے شعر کہا ہے
یہ کارخانۂ ہستی ہے اس میں سب کی موت
لگی ہے ایک نیا ذائقہ بنانے میں
پہلے ہم قصہ سنتے تھے کہ ملک الموت آسمان سے خاص طور پر لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں، روح جس کو خدا کے اوتارکرشن جی کے مطابق نہ آگ جلا سکتی ہے، نہ پانی بہا سکتا ہے، نہ اسے کاٹا جاسکتا ہے، نہ دفنایا جاسکتا ہے۔وہ امر ہے۔وہی امر روح جو اللہ کا حکم ہے، جو انسانی بدن کی ایسی چابی ہے، جس میں خدا کی حکمت بالقویٰ بھری ہوئی ہے۔ملک الموت کے قبضے میں آجاتی ہے۔جنہوں نے شداد کے ماں باپ کو پانی پر تیرتے ہوئے پترے پر سے اٹھایا تو اسے اپنی بنائی جنت میں داخل ہوتے سمے۔جنہیں نہ قارون کے خزانے سے رشوت کی ضرورت محسوس ہوئی نہ نمرود و فرعون کی خدائیوں کا انہوں نے رتی برابر خیال کیا۔جو پہلے پہل لوگوں کے سامنے جاکر ان سے مرجانے کا حکم مانتے تھے، اور جن کو اپنی اسی شرافت کے سبب موسیٰ کا طمانچہ کھانا پڑا تھا۔اب جدیدزندگی میں منہ در منہ نہیں آتے، بلکہ خدا نے انہیں موت کے اسی کارخانے کا منتظم اعلیٰ بنادیا ہے، وہ موت ایجاد کرتے ہیں، اس کام پر ایک اسٹاف لگا ہوا ہے، لوگ آخر جس افراط سے پیدا ہورہے ہیں، اسی صورت انہیں مارنا بھی توپڑے گا۔
وہ اس کے لیے پراجیکٹ تیار کرتے ہیں اور جدید زندگی اتنی ٹھسی ٹھسائی ہے کہ خدا بھی کبھی کبھار ایٹمی موت اور ڈارون حملوں جیسے پراجیکٹس بھی قبول کرلیتا ہے۔ایک ایسی موت کی قسم جس میں موت کا ذائقہ چکھنے کے لیے زبان بھی چیتھڑے کی صورت ہوا میں اڑجائے۔جس میں ذائقے کو محسوس کرنے والے دماغی سیل کا بھی وجود باقی نہیں رہتا۔قصہ ختم
مگر قصہ ختم کہاں ہوتا ہے، کوئی لاکھ کچھ کہے موت کا رومانس کہاں ختم ہوتا ہے، زندگی کا رومانس بھلے ختم ہوجائے،اس حوالے سے حال ہی میں میں نے اردو کے بہت اہم شاعر نصیر احمد ناصر کی نظم پڑھی ہے، اپنا یہ مضمون انہی کی سطروں کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔آپ بھی سنیے۔انہوں نے اس نظم پر ایک نوٹ بھی لگایا تھا،جو کہ یوں ہے
کچھ عرصہ پہلے جب میں یہ سطریں لکھ رہا تھا تو ماں زندہ تھی،اب ماں نہیں رہی اور میرے لیے موت کا رومانس بھی نہیں رہا۔آج ماں بہت یاد آرہی ہے۔
نصیر احمد ناصر
اگر مجھے مرنا پڑا
تو موت سے کچھ دیر خاموش رہنے کی
درخواست کرتے ہوئے
اپنا پسندیدہ میوزک سنوں گا
اور ہمیشہ کی طرح
وائلن اور پیانو کی دھنوں پر امنڈ آنے والے
آنسوچھپانے کی کوشش ہرگز نہیں کروں گا
موت کی موجودگی میں تھوڑا رو لینا
اور پرانی یادوں کو تازہ کرنا
اور پاس بیٹھے ہوؤں سے
رسول حمزہ توف کی کوئی نظم سنانے کی
فرمائش کرنا
کتنا رومانٹک لگے گا
اور دوستوں میں
انوار فطرت کا ہاتھ تھامنا مجھے سب سے اچھا
لگتا ہے
سن رہے ہو انوار فطرت!
یہ بھی ہوسکتا ہے
کہ دل ناگاہ کہیں رک جائے جہاں کوئی نہ ہو
اگرچہ یہ سب کچھ اداس کردینے کے لیے کافی
ہوگا
لیکن میں مسکراتے ہوئے دھیرے دھیرے
خیرچھوڑیں ابھی سے اداس ہوکر
موت کا مزہ کیوں کرکرا کیوں کروں
ابھی تو ماں زندہ ہے
اور اس کے آنسو
میرے لیے کسی لائف سیونگ ڈرگ سے کم نہیں 
۰۰۰

مضمون نگار: تصنیف حیدر

موت کے حوالے سے اقبال کی نظم ریختہ پر ملاحظہ کیجیے
گورستان شاہی
http://rekhta.org/Nazm/aa2c1244-221a-45a4-b46b-3184b6c2e300

No comments:

Post a Comment