Tuesday 12 November 2013

دیوان چرکین


یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ چرکین کے یہاں فحاشی بہت کم ہے، اور اگر کلام کے ذریعہ جنسی لذت پیدا کرنے یا حاصل کرنے کی شرط کو سب سے اہم قرار دیں تو چرکین کا کلام ایسا کلام نہیں ہے کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کو پڑھایا جاسکے یا اسے ان کے سامنے پڑھا جاسکے-اس شرط کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں۔لیکن یہ شرط چرکین کے لیے انوکھی نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے پہلے کا کوئی اردو شاعر شاید ایسا نہیں کہ اس کے کلام کا کچھ نہ کچھ حصہ خلاف تہڈیب نہ کہا جاسکے۔ لیکن خلاف تہذیب بھی اضافی اصطلاح ہے۔ آخر دنیا میں ایسی فلمیں روزانہ بنتی ہیں جنہیں اے یعنی اڈلٹ سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔۔ یعنی وہ صرف بالغوں کے لیے ہوتی ہیں لیکن وہ بے کھٹکے تمام سنیما گھروں میں دکھائی اور دیکھی جاتی ہیں۔ بہت چھوٹا بچہ تو خیرلیکن عام حالات میں ٹکٹ گھر کا بابو ٹکٹ خریدنے والے سے بلوغت کا ثبوت تو نہیں مانگتا۔ اور پھر اب تو سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا زمانہ ہے کہ جو فلم چاہیں گھر بیٹھے، دیکھ لیں۔ لہذا خلاف تہذیب کا تصور بھی اضافی اور موضوعی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی

1
عشق ہے چرکیںؔ کو کس خوش چشم سے اغلام کا 
ہے منی میں اس کی عالم روغن بادام کا 

میل ہے اس کے بدن کا غیرت مشک ختن
عنبر سارا سے گو بہتر ہے اس گل فام کا 

خود بخود بانکوں کے ڈر سے دپدپاتی ہے جو گانڑ
کس نے غمزے کو دیا ہے حکم قتل عام کا 

غیر کونی سے چھپا ہرگز نہ اس کا عشق خام
ہضم ہونا غیر ممکن تھا غذائے خام کا 

موت دے دہشت کے مارے ہگ دے جلاد فلک
دیکھے عالم یار کی گر تیغ خوں آشام کا 

شیخ جی کو پھر طبیبوں نے بتایا ہے عمل 
ہوگیا پھر آج کل ان کو خلل سرسام کا 

سامنے اس کے نہ کیجیے گفتگو ہر ایک سے 
گو اچھالے گا بہت چرکیںؔ ہے اپنے نام کا 
***

2
معطر ہوگیا اک گو زمیں سارا مکاں اپنا 
ترا سفرہ یہ اے گل پیرہن ہے عطر داں اپنا 

طلب پر ایک بوسے کی چھپا کر گانڑ بھاگو گے 
یقیں تو کیا نہ نہ تھا اس بات پر ہرگز گماں اپنا 

سنے گر رستم دستاں تو ہگ دے مارے خطرے کے 
غرض اظہار کے قابل نہیں درد نہاں اپنا 

شب فرقت کے صدمے سے پھٹی جاتی ہے بلبل کی 
بس اب اڑپاد منہ کالا کر اے باد خزاں اپنا 

اٹھا سکتا نہیں اب نازک انداموں کے کنڑ غمزے 
یہاں تک پادا پونی ہے یہ جسم ناتواں اپنا 

چلیں گے دیکھنے جس روز گو گا پیر کا میلا 
بنے گا مہتروں کا ٹوکرا تخت رواں اپنا 

اگر نفخ شکم سے دد کچھ محسوس ہوتا ہے 
ہمارا گوز بن جاتا ہے فوراً نوحہ خواں اپنا 

سخن گوئی کو کرکے ترک ادن پدن اب کیجئے 
نہیں دنیا میں اے چرکینؔ کوی قدرداں اپنا
***

3
موت دے دیکھے اگر خنجر مژگاں تیرا
سامنا کر نہ سکے رستم دستاں تیرا

تیرے دیوانے کے گھس جانے سے یہ خطرہ ہے 
موتنے بھی کبھی جاتا نہیں درباں تیرا

کوئے جاناں کے جو باشندے ہیں ان کے آگے 
باغباں گھورے سے بدتر ہے گلستاں تیرا

سن کے نالوں کو مرے چوں نہ کرے گلشن میں 
گوز یہ بند ہو اے مرغ خوش الحال تیرا

دیکھ اس گوہر نایاب کے پیشاب کی بوند
جوہری نام نہ لے او در غلطاں تیرا

قمریاں موتنے جائیں نہ کبھی سرو کے پاس
گر چلن دیکھیں وہ اے سرو خراماں تیرا

کیا کہیں تجھ سے کہ کیا کیا ہوئی چرکیںؔ کو ہوس
پائخانے میں بدن دیکھ کے عریاں تیرا
***
4
مہرباں چرکیںؔ جو وہ مہتر پسر ہوجائے گا
اپنا بھی بیت الخلا میں اس کے گھر ہوجائے گا

نکہت گل پر گماں ہووے گا بوئے گوز کا 
یار بن گلشن میں گر اپنا گزر ہوجائے گا

آگے اس کے گانڑ چرخ پیر رگڑے گا مدام
دیکھ لینا گر جواں مہتر پسر ہوجائے گا 

موتنے میں آیا گر دندان جاناں کا خیال
جو گرے گا موت کا قطرہ گہر ہوجائے گا

گانڑ تک کی بھی نہ حیرت سے رہے گی کچھ خبر
سامنے گر شیخ کے مہتر پسر ہوجائے گا 

جلوہ فرما ہوگا گھورے پہ جو وہ خورشید رو
چھوت گو کا غیرت قرص قمر ہوجائے گا

واسطے ہگنے کے آوے گا جو وہ خورشید رو
عکس سے بیت الخلا برج قمر ہوجائے گا 

وصل کا طالب میں پھر چرکیںؔ نہ ہوں گا یار سے 
گھورا گھاری میں مرا مطلب اگر ہوجائے گا
***
5
مجھ سے جو چرکیںؔ وہ خفا ہوگیا 
رعب سے پیشاب خطا ہوگیا 

تونے نہ اس حال میں پوچھی خبر
دستوں سے یہ حال مرا ہوگیا 

ہگ دیا دہشت سے شب ہجر کی 
دم مرا جینے سے خفا ہوگیا 

کانچ جو اس گل نے دکھائی مجھے 
شیشۂ دل چور مرا ہوگیا 

توڑتے ہو گوز سے اپنا وضو
شیخ جی صاحب تمہیں کیا ہوگیا 

شیخ جی اب اسکو بدل ڈالئے 
آپ کا عمامہ سڑا ہوگیا 

ملتا ہوں کپڑوں میں اے رشک گل 
عطر مجھے موت ترا ہوگیا 

حیض کے لتوں سے ترے اے صنم
گل کا گریباں قبا ہوگیا 

طائر رنگ رخ اغیار بھی 
گوز کے ہمراہ ہوا ہوگیا 


شوخی میں اے شوخ ترا خون حیض
رشک وہ رنگ حنا ہوگیا 

سبزۂ خط آیا جو چرکینؔ کو یاد
زخم دل اور ہرا ہوگیا 
***
6
غیر کا دھک سے ہوا دل کوں سے جاری خوں ہوا 
کوچۂ گیسو میں مجھ کو دیکھ موئی جوں ہوا 

غیر جس دم پادتا ہے سن کے ہنستا ہے وہ طفل
اس کے آگے اس کا سفر دمڑی کی چوں چوں ہوا 

چرک دینا سے نہ ہو کچھ پاک طینت کو خطر
گو کے پڑنے سے بھلا ناپاک کب جیحوں ہوا

چھوکرے تھے میرے آگے کے یہ دونوں دشت میں 
گانڑ کھولے پھرتے تھے وامق ہوا مجنوں ہوا

ایسے افیونی کی کھجلائے ہوئی جو گانڑ لال
مغ بچے بولے کہ شیخ تیرہ رو میموں ہوا

غیر نے پادا جو کو کا اس کبوتر باز نے 
گوزکا نالہ کبوتر کا سا بس غٹ غوں ہوا 

آئی ہ رنگیں بیانی پر اگر چرکینؔ کی طبع
تازہ مضموں ہے گل آدم گل مضموں ہوا 
***
7
بے_یار سیر کو جو میں گلزار تک گیا 
دامن پہ گل کے حیض کے لتے کا شک گیا 

کیا گانڑ پھاڑ منزل صحرائے نجد تھی 
دو چار کوس بھی نہ چلا قیس تھک گیا 

ہگتا تھا غیر کوئے صنم میں گیا جو میں 
بن گانڑ دھوئے خوف سے میرے کھسک گیا 

فضلے کی جا نکلتی ہے اب پیپ گانڑ سے 
دل غیر کا یہ ہاتھ سے جاناں کے پک گیا 

ہگتے میں اس کی گانڑ سے نکلا جو کیچوا
نامرد غیر سانپ سمجھ کر جھجھک گیا 

پی میں نے جا کے ہمرہ جاناں جو کل شراب
ہگ مارا پائجامے میں ایسا بہک گیا 

نشو و نمائے باغ ہے چرکیںؔ کے فیض سے 
دی کھاد جس درخت کی جڑ میں پھپک گیا
***
8
گو جدا اچھلے گا خوش ہوئیں گے اغیار جدا 
سر چرکیںؔ نہ کراو قاتل خوں خوار جدا

ہے پرستارئی بیمار محبت مشکل 
گانڑ پھٹ جاتی ہے ہوجاتے ہیں غم خوار جدا

ناک گھسنے کے عوض گانڑ گھسی ہے یاں تک 
پٹ جدا خوں سے ہے ترسنگ در یار جدا 

شیخ نے خوف سے رندوں کے یہ ہگ ہگ مارا
جبہ آلودہ جدا گو سے ہے دستار جدا

دسترس پاؤں تلک بھی نہیں سفرا کیسا 
پہلوئے یار سے ہوتے نہیں اغیار جدا 

گو نہ کھا دعویٰ بیجا ہے یہ او کبک دری
تیر رفتار الگ یار کی رفتار جدا

جب چرکینؔ نہانے کو گیا دریا پر 
گو اچھلتا ہے پڑا وار جدا پار جدا
***
9
شب کو پوشیدہ جو آنکھوں سے وہ مہ پارا ہوا 
پھٹکیاں گو کی مرے آگے ہر اک تارا ہوا

کھانے سے افیون کے پہنچی یہ نوبت شیخ جی 
اس قدر پیٹ آپ کا پھولا کہ نقارا ہوا 

تھے مقید اے جنوں بیت الخلائے یار میں 
گوز کے مانند نکلے اپنا چھٹکارا ہوا 

جا نہ اہل آبرو کو دے کبھی کندہ مزاج
حوض پاخانے میں کب تعمیر فوارا ہوا 

گانڑ پھٹتی ہے ہمارے ساتھ چلتے چرخ کی 
خلق دنیا میں نہ ہم سا کوئی آوارا ہوا 

کتنی ہی رگڑی توے پر گانڑ افلاطون نے 
عشق کے بیمار کا ہرگز نہ کچھ چارا ہوا 

گھورنے گھورنے پہ اک مہتر پسر کو جائے گا
گر کبھی چرکین کو منظور نظارا ہوا
***
10
رند ہر اک مارے خطر کے مودب ہوگیا 
محتسب کے آتے ہی میخانہ مکتب ہوگیا 

لب بلب چرکینؔ سے مہتر پسر جب ہوگیا
ہوگئی حاجت روا مقصود دل سب ہوگیا 

پڑ گیا مہتر پسر کے چاند سے منہ کا جو عکس 
چاہ مبرز بے_تکلف چاہ نخشب ہوگیا 

رفع حاجت کے لئے آیا جو پاخانے میں یار
گھورا گھاری ہی میں حاصل اپنا مطلب ہوگیا 

باغ باغ عاشق ہوئے ،لینڈی خوشی سے تر ہوئی 
خرمن گل پر تمہارے دسترس جب ہوگیا 

خدمت بیت الخلا غیر نجس سے چھٹ گئی 
چھن گئی جاگیر اس کی ضبط منصب ہوگیا 

بیٹھنا بیت الخلا میں غیر کو کب تھا نصیب
دستگیری سے تمہاری وہ مقرب ہوگیا 

چوں نہ کی گو اس کے آگے ہم نے رعب حسن سے 
اپنا خاموشی ہی میں سب عرض مطلب ہوگیا 

چھوڑ دی مکھڑے پہ جس دم زلف شب گوں یار نے 
وصل کا بھی روز چرکیںؔ ہجر کی شب ہوگیا 
*** 
11
وصف گیسو پر دل چرکینؔ پھر مائل ہوا 
پھر یہ گو عنبر بنا سب کا پسند دل ہوا 

گوہا چھی چھی پر مزاج یار پھر مائل ہوا 
غیر سگ سیرت کی پھر صحبت میں وہ داخل ہوا 

گو اٹھانے پر دل اغیار پھر مائل ہوا 
یار کے بیت الخلا میں آ کے پھر داخل ہوا 

پھر وہی موجیں شراب عشق کی ہیں گانڑ پھاڑ
پھر وہی بھسمنت جل جل کر کباب دل ہوا 

غیر پھر دوڑا ہوا آتا تھا ہگتا پادتا 
پھر غبار کوئے جاناں موت گو سے گل ہوا 

قیس کا نالہ اسے گوز شتر پھر ہوگیا 
باد پر پھر اب مزاج صاحب محمل ہوا 

پر ہوا گندا گرا دل غیر سگ سیرت کا پھر
چاہ نخشب وہ ذقن تھا پھر چہ بابل ہوا 

محتسب کی گانڑ پھر پھاریں نہ کیوں کر مغ بچے 
میکشی پر آج پھر وہ بوالہوس مائل ہوا 

میکشوں سے شیخ کونی پھر لگا کرنے سکیڑ
خواب میں شیطاں پھر اس کی گانڑ میں منزل ہوا 


شستہ و رفتہ ہے مصرع پھر پڑھو چرکیںؔ اسے 
پھر یہ گو عنبر بنا سب کا پسند دل ہوا
***
12
مقعد کی طرح منہ بھی مرے سامنے ڈھانکا 
یہ آپ نے گنڑ غمزہ نکالا ہے کہاں کا 

دنیا کی نجاست سے بری گوشہ نشیں ہے 
رغبت نہ کرے گو پہ کبھی زاغ کماں کا 

ہیں گو کے جہاں ڈھیر وہاں خرمن گل تھے 
کیا سبز قدم باغ میں آیا تھا خزاں کا 

اپنے ہی سڑے ٹکڑوں پہ کی ہم نے قناعت 
چکھا نہ متنجن کی نواب کے خواں کا 

گو لرکا مگر پھول ہے اس کا رخ رنگیں 
پایا نہ پتہ ہم نے کبھی اس کے نشاں کا 

سدوں کو کبابوں سے اگر دیجئے تشبیہ
پاخانے پہ عالم ہو کبابی کی دکاں کا 

چرکیںؔ مرے کوچے میں کہیں رہنے نہ پاوے 
مہتر پہ یہی حکم ہے اس آفت جاں کا 
***
13
مہر وفا کے بدلے ستم یار نے کیا 
چرکیںؔ اثر یہ آہ شرر بار نے کیا 

پڑتے ہی سر پہ گانڑ کے نیچے اتر گئی 
کیا کاٹ اے صنم تری تلوار نے کیا 

پھر ہم سے آج کل وہ لگا کرنے گنڑ اچھال
پھر ربط غیر کونی سے دلدار نے کیا 

پھر گفتگوئے پوچھ لگی آنے بیچ میں 
پھر گوز بند یار کی گفتار نے کیا 

چلتے ہی گانڑ پھٹ گئی اٹھنا محال ہے 
ایسا نحیف عشق کے آزار نے کیا 

گو میں نہائے خوب سے جھاڑے گئے کمال
بوسہ طلب جو یار سے اغیار نے کیا 

گوز اک تونے جو اے غنچہ دہن چھوڑ دیا 
بوسہ طلب جو یار سے اغیار نے کیا 

گودا بھی ہڈیوں کا جلا کر کیا ہے خاک
چرکیںؔ سے یہ سلوک تپ حار نے کیا 
***
14
تونے آنا جو وہاں غنچہ دہن چھوڑ دیا 
گل پہ پیشاب کیا ہم نے چمن چھوڑ دیا 

عطر بو سے معطر ہوا بلبل کا دماغ
گوز اک تونے جو اے غنچہ دہن چھوڑ دیا 

کانچ اس شوخ کی جس روز سے دیکھی ہم نے 
نام لینا ترا اے لعل یمن چھوڑ دیا 

صدمۂ عشق کا بوجھ اس سے اٹھایا نہ گیا 
یہ پھٹی گانڑ کہ بس روح نے تن چھوڑ دیا 

روز و شب ہگنے سے تم اس کے خفا رہتے تھے 
مہترو خوش رہو چرکیںؔ نے وطن چھوڑ دیا 
***
15
تھا گرفتاری میں جو خطرہ مجھے بے_داد کا 
کردیا بیت الخلا ہگ ہگ کے گھر صیاد کا

یار کے قد کا جو آتا ہے مجھے ہگنے میں دھیا
لینڈی استادہ پہ ہوتا ہے گماں شمشاد کا 

مجھ سے رہتا تھا خفا مہتر پسر ملوا دیا 
کیا کروں میں شکر گوگا پیر کی امداد کا 

روبرو اعلی کے اسفل سرکشی کرتا نہیں 
سامنا پھسکی سے ہوسکتا نہیں ہے پاد کا 

شدت درد جدائی سے میں گوہوں جاں بلب
دھیان ہے اس حال میں بھی اس ستم ایجاد کا 

گانڑ پٹ کر حوض ہوگی رستم و سہراب کی 
خنجر براں ارگ دیکھا مرے جلاد کا 

ایک دن بھی دل نہ اس بت کا پسیجا قہر ہے 
تھا مگر گوز شتر نالہ دل ناشاد کا 

بھر دیئے ہیں کھیت ہضمی سے ہگ کر شیخ نے 
کوئی خواہش مند اب دہقاں نہیں ہے کھاد کا 

پاد نے میں شیخ کیا مجھ سے کرے گا سامنا 
مجھ میں اس میں فرق ہے شاگرد اور استاد کا 


یہ دعا ہے روز و شب چرکیںؔ کی گوگا پیر سے 
میں بھی اب مہتر بنوں جاکر الہ آباد کا 
***
16
خطرہ ہر ایک ترک کو شمشیر سے ہوا 
نو ذر کا گوز بند ترے تیرے سے ہوا 

رویا جو اس کے دست حنائی کی یاد میں 
ہر اشک سرخ خون بواسیر سے ہوا 

پیچس کبھی شکم میں کبھی سدے پڑے گئے 
جس دن سے عشق زلف گرہ گیر سے ہوا 

قطرہ گرا زمین پہ جو رشک گل بنا 
پاخانہ باغ خون بواسیر سے ہوا 

گوگل جلا کے سیکڑوں سفلی عمل پڑھے 
اس تک نہ دست رس کسی تدبیر سے ہوا 

لبدی کو روز بھنگ کی رکھتے ہیں گانڑپر 
یہ حال شیخ جی کا بواسیر سے ہوا 

تاعمر دسترس نہ ہوا اس پہ ایک دن 
چرکیںؔ کو عشق اس بت بے_پیر سے ہوا 
***
17
کاش گھورے سے ہوئے قسمت کا تیری زر پیدا 
تو بھی چرکینؔ چلن نیاریوں کا کر پیدا 

رفع حاجت کو گئے شہر سے جنگل کو جو ہم 
اپنا گو کھانے کو واں بھی ہوئے سور پیدا 

گردن شیخ پہ رندوں نے رکھا بار گناہ
کھاد اٹھوانے کو اچھا یہ کیا خر پیدا 

گاؤ دی غیر ہے تھپوائیے اپلے اس سے 
گاؤ خانے میں جو ہر روز ہو گوبر پیدا 

گو نہ کھا پوچ نہ رندوں کو سمجھ جھوٹ نہ بول 
صوفیا ہوش میں آ عقل و خرد کر پیدا 

کوچۂ یار می پھولا ہے جو کو کرمتا 
بلبلو ہوگا پھر ایسا نہ گل تر پیدا 

اس کے رتھ خانے کے دیوار پہ کہگل کیجیے 
لید گر ثور فلک کی ہو زمیں پر پیدا 

کیچوے دست میں ااتے نہیں پیچس سے مجھے 
عشق گیسو کے سبب ہوتے ہیں اژدر پیدا 

وصف گیسوئے معنبر میں غضب چرکیںؔ نے 
گو کے مضموں کئے عنبر سے بھی بہتر پیدا 
***
18
آ کے جو وہ غنچہ دہن ہوگیا 
مزبلہ چرکیںؔ کا چمن ہوگیا 

دانت گرے بوڑھے ہوئے شیخ جی 
گانڑ کی مانند دہن ہوگیا 

لال کیا حیض نے سدوں کا رنگ 
یار کا پاخانہ یمن ہوگیا 

یار نے اک دن نہ سنی غیر کی 
گوز شتر اس کا سخن ہوگیا 

گھورے پہ لاشہ ترے مقتول کا 
رزق سگ و زاغ و زغن ہوگیا 

شیخ کی مقعد میں نہیں لینڈیاں
بند یہ ناسور کہن ہو گیا 

ہجر میں او گل ترے چرکینؔ کا 
سوکھ کے کانٹا سا بدن ہوگیا 
***
19
اگر اے شیخ جی چھوڑو گے پینا ساغر مل کا 
پھٹے گی گانڑ ہوگا زور ہر مل اور خرمل کا 

چمن میں پھینکا اس گل نے جو استنجے کے ڈھیلے کو
گلیلا بن کے توڑا سنگ دانہ اس نے بلبل کا 

قلم اپنا نہ کیوں کر مشک موتے وصف لکھنے میں 
ختن ہے چین گیسو مشک نافہ حلقہ کا کل کا 

ٹپکتا رنگ گل ہر عضو سے ہے بل بے_رنگینی 
گلاب قسم اول کیوں نہ ہو پیشاب اس گل کا 

سر محفل بٹھاؤ میخ پر ہے غیر ہرجائی 
علاج اس سے نہیں بہتر اس کی گانڑ کی چل کا 

لگا ہے گو تری ایڑی میں بولا بدگمانی سے 
کہا جب میں نے کیا ہی حسن ہے شان و تحمل کا 

مثل مشہور ہے پڑتا ہے گو گانڑ میں چرکیںؔ 
لب شیریں کا بوسہ لو نہیں موقع تامل کا 
***
20
سرو ہی کھینچ کے قاتل جدھر کو جا نکلا 
ہگا ہگا دیا سب کو پدا پدا نکلا 

نظر پڑے جسے وہ ہاتھ اس کو دست چھٹے 
کبھی جو باغ سے مل کر وہ گل حنا نکلا 

حقیقتاً ہے عجب گانڑ پھاڑ منزل عشق
ادھر سے جو کوئی نکلا وہ پادتا نکلا 

یہاں تلک تو رہا ضبط راز عشق مجھے 
نہ انجمن میں کبھی گوز بھی مرا نکلا 

پڑا ہے صورت مردار جس جگہ چرکیںؔ 
کبھی نہ لید اٹھانے بھی کوئی آ نکلا
***
21
اس گل عذار کا جو گزر ناگہاں ہوا 
فیض قدم سے گھورا ہر اک گلستاں ہوا 

مرغ چمن کا نالہ اڑا دوں گا پاد سا 
گو کھانے کو عبث وہ مرا ہم زباں ہوا 

میرے نا کان پھوڑئے ب گو نہ کھائیے 
بولا وہ ناز سے جو میں گرم فغاں ہوا 

پیشاب آ کے جو پس دیوار کر چلے 
بیت الخلا تمہارا ہمارا مکاں ہوا 

گو کھانے پھر نہ آئیں گے اغیار سگ سرشت
بیت الخلا کا بند اگر نابداں ہوا 

پوری تو گانڑ دھونی نہیں آتی شیخ کو 
پھر پاد کر وضو جو کیا رائگاں ہوا 

گو میں نہائے غیر نہانے کو جب وہ شوخ 
چرکیںؔ کے ساتھ جانب دریا رواں ہوا 
***
22
اگر بیت الخلائے یار چرکیںؔ کا مکاں ہوگا 
وہیں تسکین دل ہوگی وہیں آرام جاں ہوگا 

سمند گوز نکلے گا تو جاں خفت سے جائے گی 
یہ گھوڑا تو سن روح رواں کے ہم عناں ہوگا 

مریض سلسل البول اک جہاں ہے تیری دہشت سے 
یقیں ہے دل کو قارورے کا شیشہ آسماں ہوگا 

بہت اغیار دم بھرتے ہیں ہردم جاں نثاری کا 
چھپا کر گانڑ بھاگیں گے جو وقت امتحاں ہوگا 

کہا اہل زمیں نے دیکھ طفل اشک کو میرے
پھٹے گی پیر گردوں کی جو یہ لڑکا جواں ہوگا 

اگر تعریف بھی کیجیے تو ہوجاتے ہو کھسیانے 
چرک پدنانہ تم سا بھی کوئی اے مہرباں ہوگا 

ہگے دیتے ہیں مرغان چمن صیاد کے ڈر سے 
یقیں ہے گو سے لت پت اے صبا ہر آشیاں ہوگا 

وبا نے مار ڈالا کیسے کیسے ہگنے والوں کو 
مقرر اس برس کچھ کھاد کا سودا گراں ہوگا 

شب فرقت یہ گو اچھلے گا چرکیںؔ کے تڑپنے سے 
ستارے پھٹکیاں مہ چھوت گھورا آسماں ہوگا 
***
23
کون یاں وارفتہ ہے خوباں کے مشکیں خال کا 
دل ہمارا شیفتہ ہے زاغ کے پیخال کا 

گو م اک ایسا لگیا ہے پرانی چال کا 
دل شگفتہ ہو گیا ہے اس سے مجھ بے_حال کا 

یار کی دعوت کریں کیا گانڑ میں گو بھی نہیں 
یہ مثل سچ کہتے ہیں کیا حوصلہ کنگال کا 

بیٹ ہاتھ آتی نہیں خواجہ سرائے کہنہ کی 
وقر ہے دنیا میں کتنا اس پرانے مال کا 

فتنۂ محشر وہیں ہگ دیوے مارے خوف کے 
گر سنے وہ شور پائے یار کی خلخال کا 

کانچ اس کی دیکھ کر چرکیںؔ نہ ہو کیوں باغ باغ
خوش نما ہوتا ہے ایسا پھول کب کچنال کا 
***
24
غیر واں جا کے گوز مار آیا 
بزم جاناں سے شرمسار آیا 

صورت بوئے گوز یار آیا 
باؤ کے گھوڑ پر سوار آیا 

گرگ و شیر و پلنگ کو و ترک 
لینڈی کتے کی موت مار آیا 

جب بڑھا اپنے موت کا دریا 
وار آیا نظر نہ پار آیا 

اک نہ اک عارضہ رہا ہم کو
تھم گئے دست تو بخار آیا 

ہگ دیا ڈر کے سوچ کر انجام 
زیر پا جب کوئی مزار آیا 

نہ ہوا صاف گانڑ تک رگڑی 
یار کے دل میں جب غبار آیا 

کھاد پڑنے لگی چمن میں پھر
بلبلو موسم بہار آیا 

شیخ صاحب تھے فرط نفخ سے تنگ
گوز نکلا تو پھر قرار آیا 

طفل مہتر کو دل دیا چرکیںؔ 
کیسے گہیل پہ تجھ کو پیار آیا 
***
25
لگا کر غیر کے اتنا بھی چرکا 
بھرا سب ہگ کے پاجامہ ادھر کا 

ہگوڑا کون گزرا ہے ادھر سے 
پٹا ہے گو سے رستہ بحر و بر کا 

ترے اٹھتے ہی او رشک گلستاں 
ہوا گھورے سے بدتر حال گھر کا 

نمک بھوسی کو تم خصیوں میں باندھو
خلل ہے شیخ جی گر درد سر کا 

جو آنکھوں نے نہ دیکھا تھا سو دیکھا 
اٹھا پردہ جو پاخانے کے در کا 

کسی دن غیر کی پھٹ جائیگی گانڑ
یہی ہگنا ہے گر دو دو پہر کا 

پڑا ہوگا کسی گھورے پہ چرکیںؔ 
پتا کیا پوچھتے ہو اس کے گھر کا 
***
26
چرکیںؔ رہا نہ پاس تجھے نام و نننگ کا 
پائل ہوں اپنے نشۂ مے کی ترنگ کا 

چلتی ہے گانڑ پھرنے کی طاقت نہیں رہی 
لت پت ہے گو سے سارا بچھونا پلنگ کا 

سدوں پہ سدے نکلے ہی آتے ہیں متصل
ہے کون شیخ یا کہ ہے مہرا سرنگ کا 

قبض الوصول لے کے بھی دیتا نہیں ہے گو
ممسک مزاج ایسا ہے اس شوم و شنگ کا 

یاں تک ہیں چرخ سفلہ سے زوباہ بازیاں
لینڈی سے گوز بند ہے شیر و پلنگ کا 

گو میں جلے ہیں ہڈیاں نادر سے شخص کی 
انجام ہے یہ ظالم پرریوں رنگ کا 

سر سیکھنا نہ تو کبھی گندھار کے سوا
چرکیںؔ اگر ہو شوق تجھے راگ و رنگ کا 
***
27
بھلا کیوں کر نہ آئے دست اے چرکیںؔ مجھے خوں کا 
تصور جب بندھے ہگنے میں اس کے روئے گلگوں کا 

دکھائے گا اگر وہ بحر خوبی چشم کی گردش
یقیں ہے حوض ہو جائے گا سفرا پیر گردوں کا 

دلائی کیچوؤں نے یاد اس زلف معنبر کی 
کھڑی لینڈی کو دیکھا دھیان آیا قد موزوں کا 

یہ گو کھانا ہے جو دولت کما کر جمع کرتے ہیں 
سنا تم نے نہیں کیا غافلو افسانہ قاروں کا 

مبس بار ریاضت سے وہ پر پر پادے دیتے ہیں 
گماں ہے شیخ جی کی گانڑ پر لڑکوں کی چوں چوں کا 

ہزاروں پیچ اٹھیں پیٹ میں دہشت سے ہگ مارے 
سنے گر سانپ افسانہ بتوں کی زلف شب گوں کا 

نہ کرنا عشق اس کے خال مشکیں سے کبھی چرکیںؔ 
نہایت گانڑ پھاڑے گا تری یہ نشہ افیون کا
***
28
پاخانہ وہیں ہوگیا گلزار تمہارا 
کھڈی میں گرا ٹوٹ کے جب ہار تمہارا 

وہ کون ہے جس سے نہیں قارورہ ملا ہے 
بندے ہی پہ موقوف نہیں پیار تمہارا 

منہ گانڑ ہے جو بات ہے وہ گوز شتر ہے 
انکار سے بدتر ہے یہ اقرار تمہارا 

ہگتا ہے بچھونوں پہ نہیں گانڑ کا بھی ہوش
اس حال کو اب پہنچا ہے بیمار تمہارا 

ہگ مارا ہے پہچان کے مرقد کو ہماری 
گزرا ہے جو اس سمت سے رہوار تمہارا 

ناپاک ہیں اغیار تم ان کو نہ کرو قتل 
ہوئے گا نجس خنجر خوں خوار تمہارا 

پیدا ہوں ہر اک دانے کی جا سیکڑوں خرمن 
گو مول لے چرکیں جو زمیندار تمہارا
***
29
دیکھیں جو کاٹ خنجر ابروئے یار کا 
چر جائے سفرا رستم و اسفند یار کا 

مقعد کنول کا پھول ہے اس بحر حسن کی 
جھانٹوں میں اس کے صاف ہے عالم سوار کا 

بیت الخلائے یار میں کیا غیر جاسکے 
دہشت سے گوز بند ہے اس نابکار کا 

پیشاب سے منڈائیں نہ کیوں داڑھی شیخ جی 
رندوں کو دھوکا ہوتا ہے موئے زہار کا 

ہوجائے حوض ماہئ بے_ااب کی بھی گانڑ
عالم بیاں کروں جو دل بے_قرار کا 

پھولے پھلے ہر اک شجر خشک باغباں
تھالوں میں گو پڑے جو مرے گل عذار کا 

ناوک کا تیر گوز ہے اور گانڑ ہے تفنگ
ہو کیوں نہ شوق یار کو چرکیںؔ شکار کا 
***
30
نہ غیر کونی سے اے یار ربط کر پیدا 
نہیں زمانے میں اس سا کوئی لچر پیدا 

جو ایک دست بھی آوے تو جان جاتی ہے 
ہوا نے آج کل ایسا کیا اثر پیدا 

چمن میں جاتا ہوں تجھ بن تو بوئے گل سے مرا 
دماغ سڑتا ہے ہوتا ہے درد سر پیدا 

قلق کے مارے گھسی گانڑ رات بھر میں نے 
ہوئی نہ اس پہ شب ہجر کی سحر پیدا 

جو حال دل کہوں کہتا ہے گو نہ کھا چرکیںؔ 
زیادہ بکنے سے ہوتا ہے درد سر پیدا 
***
31
اب کے چرکیںؔ جو زر کماؤں گا 
پائخانے میں سب لگاؤں گا 

موتنے پر کبھی جو آؤں گا 
سیر دریا اسے دکھاؤں گا 

تیرے گھر سے جو اب کے جاؤں گا 
موتنے بھی کبھی نہ آؤں گا 

پائخانے میں گر لگے گی آگ
موت موت اس کو میں بجھاؤں گا 

ہوں وہ منصف کہ گو گا پیر کا میں 
شہد پر فاتحہ دلاؤں گا 

صدمۂ عشق سے ہے غیر کا قول 
پھر کبھی ایسا گو نہ کھاؤں گا 

فخر ہوگا مرا میں عاشق ہوں
گو بھی گر آپ کا اٹھاؤں گا

غیر کونی جو چڑھ گیا ہتھے 
دیکھنا کیسا انگلیاؤں گا 

طرفہ یہ چہل ہے رقیبوں کو
گانڑ گھسواؤں گا پداؤں گا

سامنے اپنی راحت جاں کے 
خوب گنڑ چتڑیاں لڑاؤں گا 

سر فرہاد کی قسم چرکیںؔ 
لب شیریں پہ زہر کھاؤں گا 
***
32
غیر تب بولائیگا جب وہ خفا ہوجائے گا 
دست پاجامے میں دہشت سے خطا ہوجائے گا 

نوجوانو ضعف پیری پر مرے ہنستے ہوکیا
آگے آئے گا یہ دریا کاہگا ہوجائے گا 

بند انگیا کے نہ بندھوا غیر سے ہے ڈوریا
پاک دامن ہے نجس جوڑا ترا ہوجائے گا 

گانڑ میں گھس جائے گی ساری مشیخت شیخ جی 
جب یہ عمامہ پرانا اور سڑا ہوجائے گا

شافہ لے لے قبض کے مارے جو بولا یا ہے غیر
دست جوآئے گا وہ دست شفا ہوجائے گا 

اے سگ لیلیٰ وہ مجنوں اور سودائی ہوں میں 
جو مجھے کاٹے گا کتا باؤلا ہوجائے گا 

جانہ دے بیت الخلا میں غیر سگ سیرت کو جان 
خوب گو اچھلے گا رسوا جا بجا ہوجائے گا 

باؤ پر اب خاکروب کوئے جاناں جو ہے غیر
پاد سا اڑ جائے گا جب وہ خفا ہوجائے گا 

ناز سے بولا دم رخصت نہ آنا پھر کبھی 
ورنہ اے چرکیںؔ یہ گھر بیت الخلا ہوجائے گا
***
33
قبض سے اب یہ حال ہے صاحب 
پادنا بھی محال ہے صاحب 

روتے انسان کو ہنساتا ہے 
پاد میں وہ کمال ہے صاحب 

پاس سے دور اچک کے جا بیٹھے 
یہ کوئی گنڑ اچھال ہے صاحب 

گانڑ کی طرح منہ چھپاتے ہو 
شرم تم کو کمال ہے صاحب 

غیر نے پادا پادا خوب کیا 
تم کو کیوں انفعال ہے صاحب 

ہے بواسیر غیر کو شاید
زرد منہ گانڑ لال ہے صاحب 

شیخ صاحب سر مبارک پر 
یہ سڑی سی جو شال ہے صاحب

رند کہتے ہیں پھبتیاں اس پر 
لینڈی کتے کی کھال ہے صاحب 

ضعف سے جھانٹ اکھڑ نہیں سکتی 
زیست بھی اب وبال ہے صاحب 

چوں کرے سامنے ہمارے غیر
کب یہ اس کی مجال ہے صاحب

پیو چرکیںؔ شراب کھاؤ کباب
اک حرام اک حلال ہے صاحب
***
34
یار بن کس کو خوش آتی ہے نوائے عندلیب
چپ رہے گلشن میں اتنا گو نہ کھائے عندلیب

بس کہ یک رنگی ہے حسن و عشق میں اے دوستو
گوز سے اس گل کے آتی ہے صدائے عندلیب

درد کا شربت اسے دیوے اگر تو باغباں
گو کے نالے باغ میں ہگ ہگ بہائے عندلیب

اتحاد عاشق و معشوق سے کیا ہے عجب
طفل غنچہ کو جو پاؤں پر ہگائے عندلیب

ڈھیر ہگ ہگ کر کیا ہے اس نے چرکیںؔ ہر طرف
اب تو ہے کنج چمن بیت الخلائے عندلیب
***
35
نہ آئی ہجر میں کروایا انتظار بہت
اجل نے بھی کئے گنڑ غمزے مثل یار بہت 

نہ موڑا کھانے سے منہ کو تو پھر چلے گی گانڑ
وبا ہے شہر میں ہیضے کی ہے پکار بہت 

مثل ہے کافی ہے چیونٹی کو موت کاریلا 
ضعیف ہوں مجھے ہے جسم آشکار بہت

خود آپ گانڑ مراتے ہو صید گہہ سے تم 
شکار آپ کیا چاہیں تو (ہیں) شکار بہت

قبائے گل کی وہ بو جانتے ہیں گو کی بو
جنہیں پسند ہے بوئے لباس یار بہت 

جہاں تھے خرمن گل واں پڑے ہیں گو کے ڈھیر
کیا ہے باد خزاں نے چمن کو خوار بہت

نہ اپنی لاش کے اٹھنے کی فکر کر چرکیںؔ 
حلال خور بہت شہر میں چمار بہت 
***
36
بے_قراری ہے تیری اے دل ناشاد عبث
بے_اثر گوز کے مانند ہے فریاد عبث

تو سہی مزبلہ گھر اس کا ہو ہگتے ہگتے 
قید کرتا ہے قفس میں ہمیں صیاد عبث

چوں نہ کی شیخ نے محفل میں کبھی رندوں کی 
کانا پھوسی میں ہے یہ تہمت الحاد عبث

پادا پونی ہوں کفایت ہے مجھے موت کی دھار
قتل کرنے کو بلاتے ہیں وہ جلاد عبث

کھڈیاں بن گئیں کسریٰ کے جلو خانے میں 
غافلو قصر و عمارت میں ہیں ایجاد عبث

پیٹ میں فضلۂ ناپاک بھرا رہتا ہے 
کیا طہارت میں یہ شک کرتے ہیں زہاد عبث

کچھ بھی دایا کو نہ شیریں نے سزا دی چرکیںؔ 
بہہ گیا نہر میں خون سر فرہاد عبث
***
37
شعلۂ رخسار جاناں ہے چراغ خانہ آج 
شمع ہوگی گانڑ میں آیا اگر پروانہ آج

محتسب آیا تو ہوگی شمع مینا گانڑ میں 
مغ بچوں کا دور ہے گردش میں ہے پیمانہ آج 

کل جو تیرے قید گیسو سے چھٹا تھا اے پری 
کو بہ کو گو تھا پتا پھرتا ہے وہ دیوانہ آج

مانو کہنے کو ہمارے آپ کی چر جائے گی
ہے چیاں سی گانڑ ہاتھی کا نہ لو بیعانہ آج 

غیر کو بیت الخلائے یار کی خدمت ملی 
دیتے ہیں مہتر گل آدم اسے نذرانہ آج 

نعمتیں دنیا کی سب کل تک میسر تھیں جنہیں 
لید میں کا بھی نہیں ملتا ہے ان کو دانہ آج 

خوب سوجھی ہگ ہی دیتے گو اچھلتا فرش پر 
بھاگتے گر شیخ محفل سے نہ بے_تابانہ آج 

وصل کا وعدہ کیا بیت الخلا میں یار نے 
پنجۂ مژگاں سے جھاڑاچاہئے پاخانہ آج 

خواہش آرائش گیسو ہے چرکیںؔ یار کو 
چاہئے پنجے کی ہڈی کا بنادیں شانہ آج 
***
38
بے_ڈول ہے کچھ آپ کے بیمار کی طرح 
گھورے پہ اس کا حال ہے مردار کی طرح 

مقعد کاشیخ جی کی یہ دستوں سے حال ہے 
ہر دم کھلی ہے روزن دیوار کی طرح 

بھاگے ہیں دم دبا کے یہ خطرہ ہے آپ کا 
گو درز و سام گوم سے رہوار کی طرح 

دل لے گئے وہ گانڑ میں سرڈال کے مدام 
بیٹھا رہوں میں گھر میں عزادار کی طرح 

مقعد کی شکل منہ بھی چھپانا ضرور ہے 
بے_پردہ ہو نہ مردم بازار کی طرح 

بیمار غم کی گانڑ کے ڈھب پر چلیں جو آپ 
کبک دری اڑائے گی رفتار کی طرح 

گوز شتر سے کم نہیں تقریر آپ کی 
اب ہے کچھ اور ڈول پہ اقرار کی طرح 

منہ پر ہمارے چھوڑ دیں آ آ کے پھسکیاں
طرفہ نکالی آپ نے یہ پیار کی طرح 

چرکیںؔ دل اس کے نذر کروں اس ادا کے ساتھ
ہگ دے جو میرے یار طرحدار کی طرح 
***
39
دانت مہتر کے ہیں پانوں سے ہوئے سارے سرخ
یا شفق میں نظر آتے ہیں ہمیں تارے سرخ

کون سے کونئی حیضی کو اجی قتل کیا
پاؤں تک سر سے نظر آتے ہو تم پیارے سرخ

جیسی کرتا ہے کوئی ویسی ہی پیش آتی ہے 
کھائے جو آگ ہگے گا وہی انگارے سرخ

شیخ جی گانڑ سے سدوں کا نکلنا ہے محال
کونتھتے کو نتھتے ہوجائیں گے رخسارے سرخ

ذبح فرما کے جو دریامیں اسے پھینک دیا 
خون چرکیںؔ سے نظر آنے لگے دھارے سرخ

پادنے کی بھی خبر لے گئی وہ چوری سے
بن گئی حق میں مرے آپ کی ہرکاری سرخ

شیخ کی گانڑ سے نکلا جو بواسیر کا خون 
سینکتے سینکتے سب بن گئی پچکاری سرخ
***
40
مارے خطرے کے ہوا وہ بت بے_پیر سفید
دست بد ہضمی سے بیٹھا جو میں دل گیر سفید

گانڑ سے غیر کی یہ خون بواسیر بہا
شدت ضعف سے ہے جسم کی تعمیر سفید

وصف لکھنا ہے تری کانچ کا اوسیم اندام
کیوں نہ ہو رنگ محترر دم تحریر سفید

چھوت سے تیرے جو اے مہر اسے دی تشبیہ
ہوگئی اور بھی مہتاب کی تنویر سفید

یاد میں افعی گیسو کی بنی اے چرکیںؔ 
چشم ہر ایک مثال قدح شیر سفید
***
41
اپنے نوخط کو جو چرکینؔ نے لکھا کاغذ
عطر نایاب ہے گو گل سے بسایا کاغذ

اب تلون نے سکھائے ہیں انہیں گنڑ غمزے 
کبھی نیلا ہمیں بھیجا کبھی اودا کاغذ

اس نے لکھی ہے لفافے پہ جو ادن پدن 
یہ کنایا ہے کسی کو نہ سنانا کاغذ

سلسل البول کی مانند رہے ڈاک رواں
اتنے خط لکھوں زمانے سے ہو عنقا کاغذ

گوہا چھی چھی کے جو مضمون تھے تحریر اس میں 
یار نے موت کے دریا میں بہایا کاغذ

نین متنے ہو مرے رمز کو پہچانو گے 
لکھ کے چونے سے ہے اس واسطے بھیجا کاغذ

قاصدو غم سے یہاں گانڑ کا بھی ہوش نہیں 
کس کا لکھنا کسے خط کہتے ہیں کیسا کاغذ
***
42
جو شیفتہ رہے رخسار و قد دل بر پر 
کبھی نہ موتے وہ جاکر گل و صنوبر پر 

یہ سیتلا سے ہے غیر نجس کے منہ کا حال 
وہ جانتے ہیں کہ اولے پڑے ہیں گوبر پر 

پھنسی ہے قبض سے مقعد میں شیخ کی لینڈی 
ہزار طرح کے صدمے ہیں جان مضطر پر 

نہ حرف چوں و چرا ان سے درمیاں آئیں 
جو رگڑیں گانڑ بھی اغیار آپ کے در پر 

نہ روئیو کبھی چرکینؔ جا کے گلے میں 
گمان ہوگا بدر رو کا دیدۂ تر پر 
***
43
لینڈیاں گو کی میں سمجھا مار پیچاں دیکھ کر 
شبہ گھورے کا کیا میں نے بیاباں دیکھ کر 

ہوگیا انزال اے جاں مجھ کو گریاں دیکھ کر 
جل گئیں جھانٹیں تری زلف پریشاں دیکھ کر 

گڈیوں کے کپڑوں کا مجھ کو کفن دو ہمدمو
مرگیا ہوں سرخ میں پوشاک جاناں دیکھ کر 

اس کو پیچش کا خل بتلاتے ہیں سارے طبیب
جو ہوا بیمار وہ گیسوئے پیچاں دیکھ کر 

جمع رکھو ہوش میں دشمن نہیں ہوں گانڑ کا 
مجھ کو شہوت ہے جو پاخانے میں عریاں دیکھ کر 

اے گل ترجانتا ہوں اس کھڑی لینڈی سے کم 
باغ میں استادہ وہ سرد خراماں دیکھ کر 
***
44
چر نہیں جانے کی قاتل تری تلوار کی گانڑ
کھینچ کر اس کو اگر پھاڑ دے اغیار کی گاڑ

صحت اک دن نہ مریض غم فرقت کو ہوئی 
باندھتے باندھتے نسخے پھٹی عطار کی گانڑ

سر بازار ترے حسن کی قیمت سن کر 
دپد پانے لگی ہر ایک خریدار کی گانڑ

سن کے نالوں کو مرے کہتا ہے گل چیں چپ رہ 
بس بہت پھاڑ چکا بلبل گلزار کی گانڑ

ہوں وہ سفلہ کبھی چوموں کبھی چاٹوں اس کو
گو بھری بھی جو میسر ہو طرحدار کی گانڑ

طاقت اٹھنے کی نہیں ضعف سے پھرنا کیسا 
آج کل چلتی ہے ایسی ترے بیمار کی گانڑ

مرے آلت پہ وہ دوڑاتا ہے ہاتھ اے چرکیںؔ 
چل چلاتی ہے مگر آج کل اس یار کی گانڑ
***
45
بلند ہو جو کبھی گوز یار کی آواز 
نہ نکلے سامنے اس کے ستار کی آواز 

جو گوش زد ہے کسی گل عذار کی آواز 
صدائے گوز شتر ہے ہزار کی آواز

چمن میں پاد کے اس رشک گل نے ہگ مارا 
صبا نے بھی نہ سنی اس بہار کی آواز 

عجب ہے کیا جو پھٹے گانڑ شیخ صاحب کی 
سنیں جو نشہ میں مجھ بادہ خوار کی آواز

یقیں ہے خوف سے اس کی بھی دپدپائے گانڑ
سنے جو قیس دل بے_قرار کی آواز
***
46
جو دیکھے چرکیں کی یہ چشم خوں فشاں نرگس
تو سمجھے نالے سے کم نہر بوستاں نرگس

بعینہ اس کو خیابان گل نظر آئے 
نگاہ غور سے جو دیکھے کھڈیاں نرگس

نظیر باغ ہے پاخانہ اس گل تر کا 
جو آب جو ہے بدر رو تو ناہداں نرگس

چمن میں دھویا جو اس گل نے چیپٹر آنکھوں کا 
ہوئی یہ دیکھ کے بیمار و ناتواں نرگس

نہیں ہے قطرۂ شبنم گوہا نجنی نکلی 
پھٹی ہے گانڑ ہے اس غم سے خوں فشاں نرگس

ہے لال پیک ہر اک طفل غنچہ آنکھوں میں 
سمجھتی ہے گل تر گو کی پھٹکیاں نرگس

بہار باغ گیا دیکھنے جو میں چرکیںؔ 
ہوئی ہے دیکھ کے کس درجہ بدگماں نرگس
***
47
انہیں سکتا ہے گو چرکیںؔ ہمارے در کے پاس 
موت کا دریا بھرا رہتا ہے اپنے گھر کے پاس 

ہٹ کے سڑئے ہگ نہ دینا مجھ سے کہتا ہے کہیں 
بیٹھ جاتا ہوں اگر میں اس پری پیکر کے پاس

کھینچ لو گے میان سے جب غیر کے آگے اسے 
سر تو کیا ہے گانڑ تک رکھ دے گا وہ خنجر کے پاس

پائخانے کی مجھے ہوتی جس دم احتیاج
کون جائے دور ہگ دیتا ہوں میں بستر کے پاس 

جو کہ اس میں ہے کہاں ایسی ہے اس میں آب و تاب
موت کے قطرے کو رکھ دیکھو مرے گوہر کے پاس 

مجھ کو گنڑ غمزے تمہارے ایسے خوش آتے نہیں 
پاؤں پھیلائے ہوئے بیٹھے ہو میرے سر کے پاس 

گلشن ہستی میں میں بھی کس قدر مشہور ہوں
کھاد لینے باغباں آتے ہیں مجھ مہتر کے پاس 

دل میں جب آئے گا چرکیںؔ پڑ رہیں گے جا کے ہم 
کچھ نہیں ہے دور گھورا ہے ہمارے گھر کے پاس 
***
48
عبث کھاد اے باغباں کی تلاش
گئی فصل گل رائگاں کی تلاش

وہ ہیں ہم نجس لینڈی کتوں کو بھی 
ہمارے ہی ہے استخواں کی تلاش

لیا شیخ صاحب نے بول الملک 
کریں خاک پیر مغاں کی تلاش

یقیں ہے کسی دن ہگائے گی ہینگ
ہمیں یار نا مہرباں کی تلاش

جو ہو ان کے سفرے کی خوشبو نصیب
نہ پھر کیجئے عطرداں کی تلاش

کسی کے بھی روکے سے رکتا ہے گوز
عبث مجھ کو ہے پاسباں کی تلاش

نہ کھڈی نہ پاخانے میں وہ ملے 
پھرے جا کے خالی جہاں کی تلاش

بھری گو سے فرقت میں چلتی ہے گانڑ
کہاں کی تجسس کہاں کی تلاش

محلے میں چرکیںؔ کے موجود ہیں
اگر آپ کو ہے مکاں کی تلاش
***
49
گوز شتر بنا مری فریاد کا خواص
بدلا کبھی نہ اس ستم ایجاد کا خواص

پاخانہ اس کے دور میں مقتل سے کم نہیں 
سیکھا ہے صاف حیض نے جلاد کا خواص

چورن کے بدلے شیخ اسے کھا کے دیکھ لے 
معلوم ابھی نہیں ہے تجھے کھاد کے خواص

بیت الخلا میں بیٹھ کے خوش ہے وہ شرمگیں 
روتے کو بھی ہنسائے یہ ہے پاد کا خواص

ایسا نہ ہو کہ گانڑ کی سدھ بدھ نہ پھر رہے 
دیکھیں گے آپ نالہ و فریاد کا خواص

بندر کی گانڑ کیوں نہ کھجانے سے منہ بنے 
مشہور ہے جہان میں یہ داد کا خواص

سدوں میں خرمیوں کی ہے لذت بھری ہوئی 
مقعد میں اس صنم کے ہے قناد کا خواص

اے ترک خانہ جنگ تری دھار موت کی 
رکھتی ہے صاف خنجر فولاد کا خواص

پاخانہ شیخ جی کا بواسیر سے ہے سرخ 
رنگت میں اس کے حون کی ہے گاد کا خواص


گلیوں میں مثل قیس نہ گو تھاپتا پھرے 
چرکیں بنے جو یار پری ماد کا خواص
***
50
پیٹ بھرتا نہیں ہے آج بہت پیاری حرص
گانڑ کی راہ نکل جائے گی کل ساری حرص

گانڑ کے گو کو بھی کہتے ہیں نہ لے جانے دو
واہ کیا گھر میں امیروں کے ہے اب جاری حرص

دعوت موت ہے جوع البقروں کا ہگنا
نقد جاں ان سے دلائے گی گنہگاری حرص

کس طرح لاد کے ممسک اسے پہچائیں گے 
پادا پونی سا بدن اور بہت بھاری حرص

گرم کھانوں سے جو نکلے گا بواسیر کا خون 
پائخانے میں دکھائے گی یہ گل کاری حرص

کھاد کو بیچ کے تابوت کے ہوں گے ساماں
بعد مرنے کی کرے گئی یہ پرستاری حرص

جاکے محلوں سے امیروں کے پڑے گھورے پر
معرکہ جیت کے چرکینؔ گئے ہاری حرص
***
51
خس و خاشاک دیا چرخ نے بستر کے عوض
مزبلے کی یہ زمیں ملک میں ہہے گھر کے عوض

او پری رو تیری مقعد کا وہ دیوانہ ہوں
خشت پاخانہ لگے قبر میں پتھر کے عوض

کون سے غیرت مہتاب کا پاخانہ ہے 
پھٹکیاں گو کی نظر آتی ہیں اختر کے عوض

گوہا چھی چھی سے نہ مطلب نہ الجھنے سے غرض
خیز کے ان سے چلن چلتے ہیں ہم شر کے عوض

شیخ صاحب کو نہیں پاس حلال اور حرام
سدے پاخانے میں کھا جاتے ہیں کولر کے عوض

پائخانے کاجو فضلہ ہے اٹھانا منظور
شیخ صاحب کو بلا لیجئے اب خر کے عوض

گرمئ نزع میں چرکیںؔ جو مجھے حاصل ہو
موت اس گل کا پیوں شربت شکر کے عوض
***
52
چھوڑ او پردہ نشیں مردم بازار سے ربط
گو میں نہلائے گا اک روز یہ اغیار سے ربط

غنچۂ مقعد رشک گل تر جب دیکھے 
نہ رہے بلبل ناشاد کو گلزار سے ربط

گانڑ پھاڑے گی یہ اغلام کی صحبت اک دن 
دل کو رہتا ہے بہت مقعد دلدار سے ربط

گو سے بدتر ہے مجھے ذائقہ قند و نبات
جب سے رہتا ہے ترے لعل شکر بار سے ربط

میکدے سے نہ غرض مجھ کو نہ میخانے سے 
مجھ کو چرکیں ہے شب و روز دریار سے ربط
***
53
اتنا بھی چھوڑ دیں گے جو ہم بے_حیا لحاظ 
پھر پادتا پھرے گا یہ سب آپ کا لحاظ

ہگنے میں ان کے پاس گئے ہم تو یہ کہا 
باقی رہا نہ تجھ میں کچھ او بے_حیا لحاظ

سدے پھنسے ہیں قبض کی شدت ہے گانڑ پھاڑ
اے شیخ جی عمل کے ہے لینے میں کیا لحاظ

جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے کیا جو حسن 
کھودیں گے ایک روز یہ ناز و ادا لحاظ

کچھ گانڑ کی خبر نہ بدن کا رہا ہے ہوش
کپڑے اتارے پھرتے ہو کیا یہ کیا لحاظ

پاخانہ وہ جگہ ہے کہ ہیں ایک حال پر 
اس میں ہو بے_لحاظ کوئی یا کہ با لحاظ

چرکیںؔ سے منہ چھپاؤ گے بیت الخلا میں کیا 
بے_پردہ ہوگئے تو کہاں پھر رہا لحاظ
***
54
ساغر چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع
تیرے رخ کے سامنے پروانہ بن جاتی ہے شمع

اس پری نے واہ نام حسن کیا روشن کیا 
مقعد دیوانۂ عریاں میں جلواتی ہے شمع

گوز ہے غیر نجس کا یا کہ آندھی روگ ہے 
محفل رشک چمن میں گل جو جاتی ہے شمع 

آئی کس مہتر پسر کے ساعد سیمیں کی یاد
بزم گھورا لینڈ کی صورت نظر آتی ہے شمع 

دیکھ کر وہ ساق سیمیں گانڑ میں گھس جائے گی 
کیا صباحت کی حقیقت ہے جو اتراتی ہے شمع 

گانڑ دھونے نہر پر جاتا ہے جب وہ شعلہ رو
موج ہر اک اس کے جلوے سے نظر آتی ہے شمع 

اس قدر وحشت فزا اپنا سیہ خانہ ہوا 
جان کے خطرے سے اے چرکینؔ گھبراتی ہے شمع
***
55
عمر چرکیںؔ کا ہوا گل او بت پر فن چراغ
کھڈیوں میں مہتروں کی گھی کے ہیں روشن چراغ

کیا کریں چوں و چرا کوئے دیار حسن میں 
اے پری رو ہے ترے پیشاب سے رشن چراغ

شب کو ہگنے کے لئے آیا جو وہ رشک قمر
پائخانے کا نظر آیا ہر اک روزن چراغ

جب اندھیرے میں وہ آئے پھٹ گئی دہشت سے گانڑ
مفلسی کے ہاتھ سے رہتا ہے بے_روغن چراغ

وہ نجس ہوں پھول کے بدلے گل آدم چڑھے 
چاہئے گوبر کا اے چرکیںؔ سر مدفن چراغ
***
56
جب سے گئے ہیں کوچۂ دلدار کی طرف 
چرکیں نہ جا پھرے کبھی گلزار کی طرف

مہتر پسر کے گوہر دنداں جو ہاتھ آئیں 
دیکھوں کبھی نہ موتیوں کے ہار کی طرف

میلا ہے گوگا پیر کا چھڑیوں کی سیر ہے
چلئے نواز گنج کے بازار کی طرف

جوش جنوں میں ہم کو یہ پاس ادب رہا 
موتے نہ او پری تری دیوار کی طرف

غیروں سے اور یار سے گہرا ہے آب دست
اس حال میں وہ کیا ہو گنہگار کی طرف

دہشت سے پھٹ کے حوض ہو ترک فلک کی گانڑ
دیکھے جو تیرے خنجر خونخوار کی طرف

چرکیںؔ کو مزبلے سے وہ ہمراہ لے چلے 
جائے صبا جو محفل دلدار کی طرف
***
57
مژدۂ وصل آئے جائے فراق
ہینگ ہگتے ہیں مبتلائے فراق

ہگ چکے خون عاشق ناشاد
اب کوئی اور رنگ لائے فراق

پوتڑے ابتدا میں بچھتے ہیں 
دیکھئے کیا ہو انتہائے فراق

تیرے بیت الخلا میں رہنے دے
پا بگل وائے جو رضائے فراق

وصل سے گانڑ وہ چراتے ہیں 
کیوں نہ بڑھ جائے اب جفائے فراق

غیر سے گانڑ بخیا ہے 
ان کو ہم سے نہ کیوں خوش آئے فراق

اس نے سیکھے اگھوریوں کے چلن 
کیوں نہ چرکیںؔ کو آ کے کھائے فراق
***
58
دیکھتا ہوں خال سے رخسار جاناں کا تپاک
بڑھ گیا ہندو سے اے چرکیںؔ مسلماں کا تپاک

گوہا چھی چھی ہوگی اک دن گو ہے گہرا آبدست
مدعی کو گو میں نہلائے گا جاناں کا تپاک 

فاتحہ گو گل جلا کے دیں گے گوگا پیر کا 
کم ہو غیروں سے اگر اس آفت جاں کا تپاک

دشت وحشت خیز سے کوسوں کے پلے ہوگئے 
اب کہاں باقی رہا وہ جیب و داماں کا تپاک 

آ کے پاخانے میں کیسے بے_حیا بنتے ہیں لوگ
پائجامے سے رہے کیا جسم عریاں کا تپاک

گھیرے ہی رہتے ہیں اغیار نجس اس ترک کو 
لینڈیوں سے بڑھ گیا شیر نیستاں کا تپاک

موتنے میں تم جلی پھسکی جو کوئی چھوڑ دو
برق سوزاں سے نہ چھوٹے ابر باراں کا تپاک
***
59
جم جائے جب کہ پاد میں اس دل ربا کا رنگ 
اڑ جائے صاف بلبل رنگیں نوا کا رنگ 

سمجھوں عروس باغ کے ہی حیض کا لہو
جس دم دکھائے ہاتھ میں وہ گل حنا کا رنگ 

جب سے بڑھا ہے شیخ کا مہتر پسر سے ربط
بدلا ہے گوہا چھی چھی سے ان کی قبا کا رنگ 

پاخانہ اس کے فیض سے رشگ چمن بنا 
گندہ بہار میں بھی نہ بدلا ہوا کا رنگ 

اس زعفراں لباس کے ہگنے میں یاد ہے 
سدوں میں کیا عجب ہوا گر کہربا کا رنگ 

ہر دست میں خلال کی صورت نظر پڑے
جم جائے گنجئے میں جو اس بے_وفا کا رنگ

اس گل بدن کے عشق میں چرکیںؔ بھروں وہ آہ 
اڑ جائے مثل گوز چمن کی ہوا کا رنگ 
***
60
نیم بسمل نہ اسے چھوڑ کے گھر جا قاتل
رقص چرکیںؔ کا ذرا دیکھ تماشا قاتل

موت کی دھار سے بدتر میں سمجھتا ہوں اسے 
کس کو دھمکاتا ہے چمکاکے دودھارا قاتل 

سہمگیں ہوگئی ایسی مری صورت دم نزع
ہگ دے دہشت سے جو دیکھے مرا لاشا قاتل 

نین متنا کہیں مشہور نہ ہوجائے تو
میرے لاشے پہ نہ رو بیٹھ کے اتنا قاتل 

قتل کی غیر نجس کے ہے اگر دل میں امنگ
زہر قاتل میں بجھا اپنا تو تیغا قاتل 

سست پر دست چلے آتے ہیں لے جلد خبر
تیرے بیمار کا اب حال ہے پتلا قاتل 

نزع کے وقت تو یہ گانڑ چرانا ہے عبث
ایک دم اور ٹھہر اتنا نہ گھبرا قاتل 

دست بردار ہو ان باتوں سے آ جانے دے 
قتل چرکیںؔ کو نہ کر گو نہ اچھلوا قاتل
***
61
ہگے یہ دیتے ہیں ہر آن کے عتاب سے ہم 
کہ چوں بھی کر نہیں سکتے کبھی جناب سے ہم 

عمل ہو اپنا جو اخباریوں کے مذہب پر 
تو دھوکے گانڑ کریں خشک آفتاب سے ہم 

بتنگ آئے ہیں دنیا کی گو ہا چھی چھی سے 
ہو قبض روح نجس چھوٹیں اس عذاب سے ہم 

فلک ہو طشت ستارے ہوں پھٹکیاں گو کی 
جو گو کے چھوت کو نسبت دیں ماہتاب سے ہم 

ہو اس کی کھڈی میں صرف اپنے کالبد کی خاک
یہ چاہتے ہیں زمانے کے انقلاب سے ہم 

ہر اک کے سامنے تم گانڑ کھولے پھرتے ہو
تمہیں حیا نہیں مرتے ہیں اس حجاب سے ہم 

لگے کا دل کبھی چرکیں تو صف جاناں میں 
کہیں گے شعر کئی اور آب و تاب سے ہم 
***
62
ہے دل کو الفت زلف بتاں معلوم 
مروڑے اٹھتے ہیں کیوں ہر زماں نہیں معلوم 

کیا ہے گو بھرے سفرے کا وصف کس نے بیاں
غلیظ کیوں ہے ہماری زباں نہیں معلوم 

بنا ہے چرخ بریں طشت کہکشاں کھڈی 
ہگے گا کون سا شوکت نشاں نہیں معلوم 

ہر ایک آؤ کی پھٹکی ہے ریزۂ الماس
تمہاری گانڑ ہے ہیرے کی کاں نہیں معلوم 

پئیں گے شیخ جی عمامہ بیچ کر مئے ناب
اسی میں خیر ہے مغ کی دکاں نہیں معلوم 

ہوئی ہے زلف کے سودے میں اس قدر پیچش
امید زیست مجھے مہرباں نہیں معلوم 

اچک کے گانڑ میں کردے جو شیخ کی انگلی 
یہ شوخیاں تجھے اے جان جاں نہیں معلوم 

ہمارے پاس بناتا ہے گھر جو اے منعم 
ہمارے ہگنے کی کیا داستاں نہیں معلوم 

ہمیشہ رہتے ہو بیت الخلا میں تم چرکیںؔ 
جہاں میں کس کو تمہارا مکاں نہیں معلوم 
***
63
تمہارے ہجر نے صالح کیا جناب ہمیں 
عمل کے دست سے بدتر ہے اب شراب ہمیں 

نہ پایا اس سے کبھی اپنی گفتگو کا جواب
دہان یار نظر آیا لا جواب ہمیں 

دماغ کو یہ خوش آئی ہے اس کے موت کی بو
کبھی نہ سونگھیں اگر دے کوئی گلاب ہمیں 

سڑی کی طرح گو تھا پتے پھریں کب تک 
جمال اپنا دکھا او پری شتاب ہمیں 

کبھی پلید کبھی گہیل اور کبھی بھڑمل 
ہر ایک آن نئے ملتے ہیں خطاب ہمیں 

ہوئے ہیں محو کچھ ایسے نہیں ہے گانڑ کا ہوش
دکھا کے آپ نے مقعد کیا خراب ہمیں 

مروڑے پیٹ میں اٹھیں نہ کس طرح چرکیںؔ 
کسی کی زلف کا یاد آیا پیچ و تاب ہمیں 
***
64
کپڑے چرکینؔ جب بدلتے ہیں 
عطر کے بدلے موت ملتے ہیں 

کون کرتا ہے گانڑ میں انگلی 
آپ جو ہر گھڑی اچھلتے ہیں 

نہیں کہتے ہیں غیر ہم کو برا 
اپنے منہ سے یہ گو اگلتے ہیں 

کس شجر کے ثمر ہیں سیب ذقن
نہ تو سڑتے ہیں یہ نہ گلتے ہیں 

جب وہ کرتے ہیں غیر سے گرمی 
اس گھڑی اپنے خصئے جلتے ہیں 

چلتی ہے قیس و کوہکن کی گانڑ
جب ہمارے وہ ساتھ چلتے ہیں 

بزم جاناں میں پادتا ہے جو غیر
ہر طرف سے اشارے چلتے ہیں 

تیرے بیمار کے تلے غم خوار 
پوتڑے دم بدم بدلتے ہیں 

طبع چرکیںؔ بھی طرفہ سانچہ ہے 
گو کے مضمون جس میں ڈھلتے ہیں 
***
65
سگ دنیا جو ہیں کب جود و سخا رکھتے ہیں 
گو بھی بلی کی طرح سے یہ چھپا رکھتے ہیں 

کوچۂ زلف میں جو بیٹھ کے پیشاب کریں 
ایسے ہم لوگ کہاں بخت رسا رکھتے ہیں 

غیر گو کھاتے ہیں جو کرتے ہیں غیبت میری 
منہ وہ سنڈ اس سے وہ چند سڑا رکھتے ہیں 

ہم پدا دیں گے تجھے چو و چرا چھوڑ دے غیر
سن پدوڑے تجھے یہ بات سنا رکھتے ہیں 

نیچے کے سر سے نوا سنج ہیں مرغان چمن 
پاد پاد اس گل خنداں کو رجھا رکھتے ہیں 

گوہا چھی چھی کے سوا کچھ نہیں حاصل اس سے 
گو وہ کھاتے ہیں جو امید وفا رکھتے ہیں 

شیخ جی کھاتے ہیں افیون کی گولی پیچھے 
پہلے صابون کے شافوں کو بنا رکھتے ہیں 

دے کے دل ان کو پڑا گانڑ کلیجے جھگڑا
یہ بت ہند عجب ناز ادا رکھتے ہیں 

اور بھی خوبئ تدبیر سے ہوتا ہے قبض
کوں میں دست آنے کی جب غیر دوا رکھتے ہیں 

گوز کی بو سے معطر رہے چرکیںؔ کا دماغ
تجھ سے امید یہ اے باد صبا رکھتے ہیں 
***
66
دم گریہ بدر رو یار کی جب یاد کرتے ہیں 
مرے اشکوں کے ریلے نالوں کی امداد کرتے ہیں 

سمجھتا ہے اسے گوز شتربے درد محل میں 
پس جمازہ گر مثل جرس فریاد کرتے ہیں 

رقیبوں سے تو قار ورہ ملا ہے اس قدر ان کا 
مصاحب جان کر بیت الخلا میں یاد کرتے ہیں 

نجس ہے بیٹ مرغان حرم کی یا کہ پاکیزہ 
سنیں اے شیخ صاحب آپ کیا ارشاد کرتے ہیں 

اٹھائے گو مرا کیوں کر نہ مجنوں دشت وحشت میں 
سعادت منڈلڑ کے خدمت استاد کرتے ہیں 

طلب بیجا نے ان کو کردیا مجبوریوں ہم کو 
چلے جاتے ہیں ہگتے پادتے جب یاد کرتے ہیں 

بدل ڈورو کے چرکیںؔ بیٹھ کر چوتڑ بجاتا ہے 
چھڑی جس وقت گوگا پیر کے استاد کرتے ہیں
***
67
بھری جو ساقی نے چرکیںؔ شراب شیشے میں 
دکھائی کیفیت آفتاب شیشے میں 

نہیں ہے لینڈی کا اس بت کی میرے دل میں خیال
پری اتاری ہے یہ لاجواب شیشے میں 

طبیب دیکھ کے اس رشک گل کا قار ورہ 
سمجھتے ہیں کہ بھرا ہے گلاب شیشے میں 

ملایا ساقی نے شاید ہے اس میں پادا لون
ہوئی ہے موت سے بدتر شراب شیشے میں 

جو چشم مست کو اس بت کی دیکھے اے چرکیںؔ 
تو دل ہو دختر رز کا کباب شیشے میں 
***
68
یار کا بیت الخلا ہے ہفت باب آسماں
طشت ہے مہ آفتاب آفتاب آسماں

جس زمیں پر دھار مارے طفل اشک اپنا کبھی 
موت کے ریلے میں بہ جائے سحاب آسماں

جلوہ فرما ہو اگر وہ ماہ تو پرویں ہو کھاد
ہو زمیں گھورے کی بھی گردوں جواب آسماں

طفل گردوں کو چھٹے ہیں دست دیکھ اس ماہ کو 
پوتڑا گو کا ہے یہ نیلی نقاب آسماں

شیخ جی اس پر جو موتیں رند پی کر آفتاب
ریش حضرت ہو شعاع آفتاب آسماں

گو کا کیڑا نسر طائر ہے ہمیں اے ماہ رو
چھوت گو کا ہے بعینہ ماہتاب آسماں

وصف اے چرکیںؔ لکھا کس ماہ کے پاخانے کا 
سات بیتیں ہیں جواب ہف باب آسماں
***
69
باغ میں جاوے تو شیخ اب رند ہیں اس تاک میں 
گانڑ پھاڑیں گے گر آیا دار بست تاک میں 

پیشتر گو کھاتا ہے کوا سیانا ہے مثل 
غیر اغلامی پڑا سڑتا ہے اب گو زاک میں

گانڑ کے بدلے عبث دیتا ہے جی اے پاسباں
سد رہ میرا نہ ہو کوئے بت سفاک میں 

خوب سا پتلا ہگے گا شیخ رندو چہل ہے 
دو ملا حب السلاطیں حبۂ تریاک میں 

یار بن ہر گل گل آدم ہے اور گھورا چمن 
گو کی بو آتی ہے اے بلبل ہماری ناک میں 

ہے متوڑا طفل اشک غیر دامن میں نہ لے 
موت بھر جائے گا پاکیزہ تری پوشاک میں 

خوب سا گو تاکہ اچھلے شہر میں ہولی کے دن 
چہل یہ آئی خیال کافر بے_باک میں 

غیر کی جو گانڑ میں لکڑی گئی بھس میں گئی 
گو کی ہانڈی پھینکی قصر عاشق غم ناک میں 

پادا پونی سا ہے چرکیںؔ ناز سے بولا وہ شوخ
دب گیا ہوگا وہ گھورے کے خس و خاشاک میں 
***
70
کام تیرا غیر کونی بزم جاناں میں نہیں 
لوطئ نامرد کی جا باغ رضواں میں نہیں 

موت کے کہتا ہے ہم سے اپنے کوچے میں وہ گل 
اس روش کی آپ جو کوئی گلستاں میں نہیں 

غرہ کرنا گو ہی کھانا ہے برابر جان تو
ہے سگ ناپاک گر اخلاق انساں میں نہیں 

تیرے دیوانے کے ڈر سے قیس کی پھٹتی ہے گانڑ
بھول کر بھی پاؤں رکھتا وہ بیاباں میں نہیں 

یار بن گھورا نظر آتا ہے سب صحن چمن 
میرے آگے جھانٹیں ہیں سنبل گلستاں میں نہیں 

اس رخ روشن کے آگے صاف گوبر کا ہے چھوت
نام کو بھی نور باقی مہر تاباں میں نہیں 

کوچے میں اس برق وش کے تجھ کو لے جائے بہا
اتنی بھی توفیق چرکیںؔ آب باراں میں نہیں 
***
71
چرکیںؔ غرض نہیں گل و گلزار سے ہمیں 
مطلب ہے پائخانۂ دلدار سے ہمیں 

بھر مل کبھی پلید کبھی اور لر کبھی 
لاکھوں خطاب ملتے ہیں سرکار سے ہمیں 

کرتا ہوں عرض حال تو کہتا ہے گو نہ کھا 
ہوتا ہے درد سر تری گفتار سے ہمیں 

گو دے سمیت جل کے ہو چونا ہر استخوان
امید ہے یہ آہ شرر بار سے ہمیں 

جل جل کے گو ہو خاک تو کھانا حلال ہے 
فتویٰ ملا ہے شیخ سے ابرار سے ہمیں 

محفل میں اس کی گوز جو بھڑ سے نکل گیا 
کس درجہ انفعال ہوا یار سے ہمیں 

چرکیںؔ بندھیں گے گو کے جو مضمون اس قدر
آنے لگے گی قے ترے اشعار سے ہمیں 
***
72
بوسہ عزیز ان کا جو یہ خوب رو کریں
سیب ذقن دھرے دھرے سڑجائیں بو کریں

دیوانے اس کے چاک گریباں کو سی چکے 
پھٹ جائے گانڑ بھی تو نہ ہرگز رفو کریں 

اک پشم خایہ اس کو سمجھتے ہیں یہ صنم 
کیا وصف ان کے بالوں کا ہم مو بمو کریں 

لائی ہے رنگ گردش ایام سے بہار
لبریز خون حیض سے ساقی سبو کریں 

ہگ ہگ دے پاد پاد دے وہ مارے بوجھ کے 
میرا جو طوق قیس کے زیب گلو کریں 

جو لوگ شیفتہ ہیں ترے سر وقد کے یار
پیشاب بھی نہ جا کے لب آب جو کریں

سائل کو شہد لب کے وہ کہتا ہے گو نہ کھا 
کس منہ سے بوسہ لینے کی ہم آرزو کریں 

عاشق جو ہے تو ناصحو کے منہ کو گانڑ جان
گوز شتر سمجھ جو یہ کچھ گفتگو کریں 

پانی جو آپ دست کا اس بت کے ہاتھ آئے 
چرکیںؔ سڑی ہوں شیخ جی اس سے وضو کریں 
***
73
موت کی تھالی سے کچھ کم ساقیا ساغر نہیں 
خون سور کا ہے تجھ بن بادہ احمر نہیں 

کھانا پینا موتنا ہگنا نہ کیوں کر بند ہو
زیست کا جس سے مزہ تھا پاس وہ دلبر نہیں 

غیر کو لے تو نہ ہمراہ رکاب اے شہسوار 
لید اٹھوانے کے قابل بھی یہ گیدی خر نہیں 

گو میں جو ڈالے گا ڈھیلا چھینٹے کھائے گا ضرور
شیخ صاحب بحثنا رندوں سے کچھ بہتر نہیں 

جس سے پوجا کے لئے دیتا ہے وہ چوکا صنم
ہم سمجھتے ہیں اسے چندن ہے وہ گوبر نہیں 

گومتی میں غیر کو نہلانہ ساتھ اے بحر حسن 
کم نجس ہے وہ سگ ناپاک جب تک تر نہیں 

کیا خطا چرکیںؔ کی ثابت کی جو کہتے ہو برا
ہر گھڑی کی گوہا چھی چھی جان من بہتر نہیں 
***
74
گلستان دہر میں تجھ سا کوئی گل رو نہیں 
تو وہ غنچہ لب ہے جس کے پاد میں بدبو نہیں 

میں وہ مجنون زخود رفتہ ہو نظروں میں مری 
خال رخسار پری ہے پشکل آہو نہیں 

بزم جاناں میں نکل جاتا ہے رک سکتا نہیں 
کیا کروں ناچار ہوں کچھ گوز پر قابو نہیں 

خانقہ میں پادتا پھرتا ہے بدہضمی سے شیخ
اور کہتا ہے بہت کھانے کی مجھ کو خو نہیں 

جانتا ہے آپ کو گھورے سے بھی ناچیز تر
سچ تو ہے چرکینؔ سا کوئی بھی گو در گو نہیں 
***
75
پڑا رہ تو بھی اے چرکینؔ جاکر پائخانے میں 
وہ بت آئے گا ہگنے کو مقرر پائخانے میں 

چلی آتی ہے بو عنبر کی ہر اک گو کی لینڈی سے 
کھلی کس گل کی ہے زلف معنبر پائخانے میں 

نصیب دشمناں انسان کو ہوتی ہے بیماری 
نہ جایا کیجئے صاحب کھلے سر پائخانے میں 

ترے پیشاب کی ہے دھار یا کہ ابر نیساں ہے 
نظر آتی ہیں بوندیں مثل گوہر پائخانے میں 

ہوا ہے پائخانہ فیض خون حیض سے گلشن 
بنی ہیں لینڈیاں رشک گل تر پائخانے میں 

حیا کو کرکے رخصت کھول دیتے ہیں وہ پاجامہ 
عنایات و کرم ہوتے ہیں ہم پر پائخانے میں 

کریں نظارہ اس کے حسن کا ہر لحظہ اے چرکیںؔ 
اگر رہنے دے چرخ سفلہ پرور پائخانے میں
***
76
ہگ دے اگرچہ وہ بت بے_پیر ہاتھ میں 
لے گو کا بوسہ عاشق دلگیر ہاتھ میں 

اس دھج سے شیخ پھرتے ہیں گلیوں میں شہر کی 
بوتل بغل میں مے کی ہے خنزیر ہاتھ میں 

ازبسکہ اس کی زلف کا ہگنے میں بھی ہے دھیان
پاخانہ میں ہے پاؤں کی زنجیر ہاتھ میں 

کیا حال مجھ ہگوڑے کا ہمدم ہو پوچھتے
گہیل پری کی رہتی ہے تصویر ہاتھ میں 

رستم کا خوف سے وہیں پیشاب ہو خطا
عریاں جو دیکھے یار کی شمشیر ہاتھ میں 

خوف صنم سے جو یہ زمیندار ہگتے ہیں 
دیتے ہیں پیشگی زر جاگیر ہاتھ میں 

رکھتا ہوں گو کی طرح سے اس واسطے چھپا 
دیکھے نہ غیر تا تری تصویر ہاتھ میں 

چرکینؔ شوق زیب ہے پاخانے میں اسے 
ہگتے میں لی ہے زلف گرہ گیر ہاتھ میں 
***
77
رندو نہ لاؤ شیخ کی شیخی خیال میں 
خصلت ہے گو کے کھانے کی اس سگ خصال میں 

پادے اگر وہ غنچہ دہن تو ملہار ہو
کیا لائے بلبلوں کا ترانہ خیال میں 

بیت الخلا میں یار نے کی دعوت رقیب
یہ جانو کچھ ضرور ہی کالا ہے دال میں 

بلبل تو جانتی ہی نہی پیر کی بھی گانڑ
بو سیب کی ہے یار کے پھولوں سے گال میں 

داڑھی کو اپنی شیخ تو پیشاب سے منڈا
آزاد رند پھنستے ہیں کب ایسے جال میں 

ان دھوئی دھائی آنکھوں کے آگے غلیظ ہے
چیپڑ بھرا تمام ہے چشم غزال میں 

کھلواؤ تارقیب پدوڑا نہال ہو 
کوئل کے پادے آم پڑے ہوں جو پال میں 

چرکیںؔ نے جب سے سونگھی ہے وہ زلف مشک بیز
عنبر کو تب سے باندھا ہے گو کی مثال میں
***
78
کالک لگے نہ ریش سفید جناب میں 
اے شیخ جی ملائیے نورا خصاب میں 

ہے محتسب حرام کا تکال حلال خور
دو موت کو ملا کے شراب و کباب میں 

افسانہ میرے دیدۂ گریاں کا سنتے ہیں 
ڈر ڈر کے موت دیتے ہیں اغیار خواب میں 

رندو خراب فرش کرے گا ہگوڑا شیخ
اچھلے گا گو بلاؤ نہ بزم شراب میں 

بولا گیا ہے قبض کے مارے رقیب اگر
حقنہ کریں ملا کے دھتورا گلاب میں 

پیشاب کرکے ٹھیکرے میں دیکھے اپنا منہ 
اس رخ سا ہے فروغ کہاں آفتاب میں 

چرکیںؔ عدم کی راہ لے کب تک لڑے گا یاں
عالم ہے مزبلے کا جہان خراب میں 
***
79
کیا دور ہے کہ اسفل اعلی کو مارتے ہیں 
شیروں کی طرح لینڈی کتے ڈکارتے ہیں 

عمامہ چل کے سر سے زاہد کے مارتے ہیں 
اس گو کے ٹوکرے کو سر سے اتارتے ہیں 

پشموں سے بھی زیادہ بے_قدر ہوں گے اک دن
گو کھاتے ہیں جو اپنی زلفیں سنوارتے ہیں 

شدت یہ قبض کی ہے بے_تاب ہو کے ہردم 
کھڈی پہ شیخ صاحب سردے دے مارتے ہیں 

اس گل کی سوکھی لینڈی جب دیکھتی ہیں بلبل
گل برگ تر کو اس پر صدقے اتارتے ہیں 

طرفہ یہ ماجرا ہے بیت الخلا کے اندر
لے لے کے نام میرا ہردم پکارتے ہیں 

پریاں ہیں کیا بلائیں افسون پڑھ کے چرکیںؔ 
شیشے میں دیو کو بھی انساں اتارتے ہیں 
***
80
بولا کہ ملیدا مجھے کھلوائے گا کون 
مرگیا آج گانڑ کو مروائے گا کون 

اٹھ گیا گانڑ مرانے کا مزہ دنیا سے 
گانڈو اس طرح کا پھر ہاتھ میر آئے گا کون 

ساتھ ہر دھکے کے اب کون کرے گا نخرے
جلد ہونا نہ کہیں یہ مجھے فرمائے گا کون 

ہینجڑے جتنے ہیں وہ ہوویں گے اب کس کے مرید
پیر اب گانڈوؤں کا شہر میں کہلائے گا کون 

ہوویں گے آن کے اب کس کے زنانے شاگرد
ہائے اب لینڈی لڑانا انہیں سکھلائے گا کون 

کون اب چوسے گا آلت مرا منہ میں لے کر 
کھول پاجامے کو آگے مرے پڑجائے گا کون 

کانی کوڑی بھی نہیں گھر میں بڑی فکر ہے یہ 
لاش اس بھڑوے کی یاں آنکے اٹھواے گا کون 

خارجی جتنے ہیں ان کونیوں پہ لعنت ہے 
کر نہ خطرہ ارے چرکیںؔ تجھے کھا جائے گا کون 
***
81
قبلہ رو میخانہ ہے میں موتنے جاؤں کہاں
گر نہ موتوں شیخ کے منہ میں تو پھر موتوں کہاں

آگے ان آنکھوں کی گردش کے پھرے گی پادتی 
ہمسری آئی ہے کرنے گردش گردوں کہاں

لیاسے بھی گانڑ میں اپنے گھسیڑ اے سوز عشق
خانۂ دل جل گیا ہے نقد دل رکھوں گا کہاں

باولی قمری ہے سوجھے موت کی کیا دھار سے 
سرو گندا سا کہاں اس کا قد موزوں کہاں 

لب لگا کر غیر میں انگلی کروں چوتڑکو پھیر
قبض میں شافے کی خاطر ڈھونڈے گا صابوں کہاں

مار گیسوئے صنم کی ہے بجا ہم سے سکیڑ
گانڑ میں گو بھی نہیں ہے دولت قاروں کہاں

نیاریا بن کر نہیں آیا چرکیںؔ تنگ ہوں
زر کمانے رفع حاجت کے لیے جاؤں کہاں
***
82
آجاتی ہے طاقت ترے بیمار کے تن میں 
گو گھول کے تیرا جو چواتے ہیں دہن میں 

ہگتا ہے گل اندام مرا جاکے چمن میں 
گھورے پہ نہ کھڈی میں گڑھیا میں نہ بن میں 

کہتا ہے وہ گل گانڑ میں گل میخ چلادوں
بلبل کوئی ہگ دے مرے آگے جو چمن میں 

جھوٹے تو کیا کرتے ہو عشاق سے وعدے 
بو گو کی نہ آنے لگے غنچے سے دہن میں 

اسہال کی شدت سے موا تیرا جو بیمار
غسال کو خطرہ ہے کہ ہگ دے نہ کفن میں 

اے زہرہ جبیں جھانٹوں میں تیری جو چمک ہے 
یہ روشنی دیکھی نہیں سورج کی کرن میں 

ہر بیت جو پر ہے مری مضمون سے گو کے 
مہتر مجھے کہتا ہے ہر اک ملک سخن میں 

لازم ہے کہ چرکینؔ اگر مائیو بیٹھے 
بٹنے کے عوض گو کو ملیں اس کے بدن میں 
***
83
دیکھتا مہتر پسر کی ہوں میں صورت خواب میں 
گو اچھلنے کی رہا کرتی ہے صحبت خواب میں 

کس کے سفرے کا رہا کرتا ہے بیداری میں دھیان
تیز رہتا ہے مرا ہر شب کو آلت خواب میں 

گانڑ ملنے میں چراتے ہو اگر ظاہر میں تم 
منہ تو دکھلا ایک دن اوبے مروت خواب میں 

کونسی گوہیل پری کے عشق میں دیوانہ ہوں
رات بھر مہتر دکھاتے ہیں نجاست حواب میں 

سامنے ردوں کے چوں کرتا نہیں ظاہر میں شیخ 
بن کے شیطاں اپنی دکھلاتا ہے صورت خواب میں 

ہینگ ہگتا ہوں شب فرقت میں میں آٹھوں پہر
ایک شب تو آ صنم بہر عیادت خواب میں 

سر پہ میں چرکیںؔ اسے رکھوں گل تر کی طرح 
خشک لینڈی بی کرے گر وہ عنایت خواب میں 
***
84
دست آتے ہیں اگر مجھ کو تو اس کا غم نہیں 
یعنی بدہضمی مری جلاب سے کچھ کم نہیں 

ہجر میں صحن چمن گھورے سے مجھ کو کم نہیں 
پھٹکیاں ہیں گل نہیں پیشاب ہے شبنم نہیں 

بسکہ ضعف باہ سیرہتا ہے آستمنا مجھے 
کون سا دن ہے جو پاجامہ ہمارا نم نہیں 

وقت تنہائی صدا آتی ہے اس کی کان میں 
گوز سا دنیا میں کوئی دوسرا ہمدم نہیں 

بلبلو تم نے سنا ہوگا چغل بندہ وہ ہے 
عشق دنیا میں مجھے غیر از گل آدم نہیں 

راہ مقعد ہوگئی ہے بند مارے قبض کے 
کوئی سدوں کے سوا اس زخم کا مرہم نہیں 

اصل کی جانب ہر اک شے کرتی ہے آخر رجوع
گر پڑا سنڈاس میں چرکیںؔ تو اس کا غم نہیں 
***
85
پائخانے میں رہا کرتے ہیں 
گو کے مضمون بندھا کرتے ہیں 

اے پری جو ترے دیوانے ہیں 
تنکے گھورے پہ چنا کرتے ہیں 

کوں سے آتا ہے بواسیر کا خون 
لعل و یاقوت ہگا کرتے ہیں 

سامنے جاتے ہی ہم قاتل کے 
خوف سے پاد دیا کرتے ہیں 

قبض سے شیخ کی پھٹی ہ گانڑ
حقنے پر حقنے ہوا کرتے ہیں 

چاہئے رکھ لیں وہ ہگنے کی بھی جا 
جو کہ پاجامہ سیا کرتے ہیں 

ملتے ہیں پاؤں تلے چرکیںؔ کو
مہرباں آپ یہ کیا کرتے ہیں 
***
86
ہے وہ گلرو یا سمیں تو گلشن ایجاد میں 
نکہت گل سے سوا خوشبو ہے جس کے پاد میں 

شاخ گل پر باغ میں لاسا لگاتا ہے عبث
بیٹ بلبل کی نہ بھر جائے کف صیاد میں 

جلوہ فرما کون سا گلرو ہوا گھورے پہ آج 
خرمن گل کا نظر آتا ہے عالم کھاد میں 

جب سے کھجلی اس کے نکلی غیر بھی بولا گیا 
گانڑ کھجلاتا ہے جب ہوتی ہے خارش داد میں 

شیخ کعبہ میں پھرا گر چڑھ کے خچر پر تو کیا 
کھاد اٹھانی اس گدھے کی ساری تھی بنیاد میں 

غیر کے تو زر کمانے پر جا اے جان جاں
نیاریا ہے خاکروبوں کی ہے وہ اولاد میں 

دم میں بھردیتے ہیں وہ زخم دہان غار کو
مرہم زنگار کا چرکیںؔ اثر ہے کھاد میں 
***
87
جو اختروں پہ ترے بن نگاہ کرتے ہیں 
تو گو کی پھٹکیوں کا اشتباہ کرتے ہیں 

منہ اپنا ٹھیکرے میں موت کے زرا دیکھیں 
برابری تری کیا مہر و ماہ کرتے ہیں 

جو غیر پادتے ہیں گوش دل سے سنتے ہیں آپ 
خیال ادھر نہیں ہم آہ آہ کرتے ہیں 

چمن میں اس کو املتاس کا سمجھتے ہیں دست
جو ہجر میں سوئے سو سن نگاہ کرتے ہیں 

نہ بادہ خواری سے کر منع گو نہ کھا اے شیخ
تجھے ہے فکر عبث ہم گناہ کرتے ہیں 

جو دھار موت کی اک مارتے ہیں ہم اے ابر
ابھی یہ کشتئ گردوں تباہ کرتے ہیں 

نہیں پدوڑا کوئی تجھ سا دوسرا چرکیںؔ 
پدوڑوں کا تجھے ہم بادشاہ کرتے ہیں 
***
88
جاری رہتی ہے منی طاقت امساک نہیں 
کون سے روز میانی مری ناپاک نہیں 

سدے افیونیوں کے گھول کے چپکے پی لو 
شیخ صاحب تمہیں گر نشۂ تریاک نہیں 

موت کے حوض میں کس طرح نہ ڈوبے چرکیںؔ 
میر مچھلی کی طرح سے تو وہ پیراک نہیں 
***
89
حیض کے خون میں چرکینؔ ڈبایا مجھ کو 
مری قسمت نے عجب رنگ دکھایا مجھ کو 

گل آدم مری قسمت نے بنایا مجھ کو 
ہاتھ کیا پاؤں کسی نے نہ لگایا مجھ کو

یاد دریا میں جو ہگنا ترا آیا مجھ کو 
موج نے لینڈیوں کی طرح بہایا مجھ کو 

گانڑ کے بوسہ کا جاناں سے ہوا تھا سائل 
یہ دل آزردہ ہوا منھ نہ لگایا مجھ کو 

عشق سفرے کا نہیں یار کے دل کو میرے 
حوض میں گو کے نصیبوں نے گرایا مجھ کو

گو میں لتھڑے ہوئے کتے کی ہو تم شکل اے شیخ
آپ کا خرقۂ پشمینہ نہ بھایا مجھ کو 

اٹھ گئے رشک سے یہ گانڑ پھٹی غیروں کی 
مہربانی سے جو اس مہ نے بٹھایا مجھ کو 

مہترانی کا اٹھانے میں ہوا ہے دم بند 
ایک بھی دست جو کھل کر کبھی آیا مجھ کو 

کوچۂ یار میں چرکینؔ پڑا کہتا ہے 
گو سمجھ کر بھی کسی نے نہ اٹھایا مجھ کو 
***
90
کوئی اتنا بھی نہ جائے طعن خاص و عام ہو 
بزم میں پادے کوئی چرکیںؔ ہمارا نام ہو 

میکدے میں ہو گزر مجھ سے اگھوری کا اگر
موت سے شیشہ ہو پر لبریز گو سے جام ہو 

اک بت پستہ دہن کی چشم کا بیمار ہوں
میرے حقنے میں طبیبوں روغن بادام ہو

ہجر میں ساقی کرے مجھ کو جو تکلیف شراب
بول صفر اوی سے بدتر بادۂ گلفام ہو 

پائخانے میں جو گزرے زفل شب گوں کا خیال
صبح کو ہگنے جو بیٹھوں ہگتے ہگتے شام ہو 

چشم کی گرش دکھائے تجھ کو وہ دریائے حسن 
حوض تیری گانڑ بھی اے گردش ایام ہو 

ضبط آہ نیم شب سے بے_قراری کیا عجب 
جب کہ ہو بند آدمی کا گوز بے_آرام ہو 

چار دن چرکیںؔ کی ہو جس کے مکاں میں بود و باش
گو سے آلودہ در و دیوار سقف و بام ہو 
***
91
حیران ہگ کے شیخ جی تم اس قدر نہ ہو 
ڈھیلے سے گانڑ پونچھ لو پانی اگر نہ ہو 

گو کھانا خالی دینا ہے قاتل کے دار کا 
سینہ ہی کر سپر جو میسر سپر نہ ہو 

رسوا کیا ہے نالے نے جس طرح غیر کو 
بدنام پاد کر بھی کوئی اس قدر نہ ہو 

حقنہ علاج آپ کا ٹھہرا ہے شیخ جی 
یہ درد سر کرو تو کبھی درد سر نہ ہو 

چرکیںؔ یہ اپنا قول ہے اسرارؔ کی طرح 
ٹرٹر کرے وہ گانڑ کی جس کو خبر نہ ہو
***
92
قاتل اے شوخ نہ چرکیںؔ سے مردار کا ہو 
گو سے آلودہ نہ پھلڑا تری تلوار کا ہو

ٹوکری گو کی ترازو کے لیے منگواؤں
تل بٹھانا مجھے منظور جو دلدار کا ہو 

وقت پیشاب جو دھیان آئے ترے دانوں کا 
موت کی بوند میں عالم در شہوار کا ہو

پادتے پادتے مرجائے وہ ہگ ہگ مارے 
زخمی رستم بھی اگر یار کی تلوار کا ہو 

آکے گھورے پہ کھڑا ہو جو مرا رشک بہار
گل آدم میں بھی نقشہ گل گلزار کا ہو 

رنگ لائے جو بواسیر کا خوں سفرے پر 
شیخ کی گانڑ نمونہ در گلزار کا ہو 

اس کو اے ترک بجھا لا کے گدھے کا پیشاب
نہ بچے وہ کہ جو زخمی تری تلوار کا ہو

ہجر میں بستر غم پر ہے یہ اپنا احوال 
جس طرح گھورے پہ عالم کسی مردار کا ہو 

موجیں لینڈی کی طرح اس کو بہا لے جائیں 
عزم چرکیںؔ کو جو اس پار سے اس پار کا ہو 
***
93
کانچ کا رنگ جو اے گل نظر آیا مجھ کو 
دیکھ کر جلنے لگی بلبل شیدا مجھ کو 

بل بے_نامرادی مرا ہوگیا پیشاب خطا
کل بنڈیلے نے جوں ہی گھورے پہ گھورا مجھ کو 

چنچنے گانڑ میں شاید کہ لگے ہیں ان کی 
شیخ جی چھیڑتے ہیں آج جو بیجا مجھ کو 

اس کے در ہی پہ ہگا میں نہ اٹھا پر نہ اٹھا 
پائخانے کا ہوا رات جو خطرا مجھ کو 

راہ مقعد سے مری خون بواسیر بہا 
حیض کے خوں کا نظر آیا جو دھبا مجھ کو 

گوز کی سن کے صدا گل کا ہے پیشاب خطا
ہگ دیا بس وہیں بلبل نے جو دیکھا مجھ کو 

ایسی باتوں پہ کیا کرتا ہوں پیشاب اے شیخ
عشق چرکیںؔ کا نہ چھوٹے گا نہ بگوا مجھ کو 
***
94
یوں نہ کرنا تھا فلک بے_سرو ساماں مجھ کو 
گانڑ کھولے ہوئے پھروایا جو عریاں مجھ کو 

دیکھ لوں گا چہ مبرز ہی کو پاخانے میں 
یاد جب آئے گا وہ چاہ زنخداں مجھ کو 

اے پری زاد صنم وہ ترا دیوانہ ہوں
ڈر سے ہگ ہگ دے اگر دیکھے پری خواں مجھ کو 

گوز کی طرح در کوں سے نکل جاؤں گا 
روک سکتا ہے کوئی آپ کا درباں مجھ کو 

اے گل اندام ترے دست حنا بستہ کا 
دیوے دھوکا نہ کہیں پنجۂ مرجاں مجھ کو 

پادا پونی یہ کیا عشق کی بیماری نے 
موت کی دھار ہوئی خنجر براں مجھ کو 

بدتر از پشم سمجھتا ہوں میں اس کو چرکیںؔ 
پیچ میں لائے گی کاکل پیچاں مجھ کو
***
95
اس کے پاخانے کا ملتا جو ٹھکانا مجھ کو 
کرتا پامال نہ اس طرح زمانہ مجھ کو 

خرچ کرتا اسے سنڈاسیوں کی دعوت میں
حوض پاخانے کا ملتا جو خزانہ مجھ کو 

روندے دستوں کے پیادوں کی پڑی پھرتی ہیں 
شب کو اس کوچے میں دشوار ہے جانا مجھ کو 

آنولے ڈال کے بالوں میں شب وصل صنم
موت کے حوض میں لازم ہے نہانا مجھ کو 

عشق ہے دل کو مرے اس بت سنگین دل کا 
ہو نہ جائے مرض سنگ مثانہ مجھ کو 

مال نعمت سے زیادہ اسے سمجھا میں نے 
لید کا بھی جو میسر ہوا دانا مجھ کو 

میں وہ مردود خلائق ہوں جہاں میں چرکیںؔ 
نہ کیا تیر قضا نے بھی نشانہ مجھ کو 
***
96
بے_خطر لازم ہے جانا اس بت مغرور کو
دست آیا آخری ہے عاشق رنجور کو 

جب سے اس شیریں دہن کے گو پہ بیٹھیں مکھیاں
شہد ہگنے کا مزہ تب سے پڑا زنبور کو 

یوں اچھلتے شیخ جی ہیں چنچنے لگتے ہیں جب 
جس طرح لڑکے اچھالیں کاھ کے لنگور کو 

پھسکیوں نے شور محشر کا کیا ہے گوز بند
گوز نے میرے اڑایا ہے صدائے صور کو 

چشم بیمار صنم میں نکلی ہے گو ہانجنی 
ٹوکا ہگتے دیکھ کر کیا عاشق رنجور کو 

گو نہیں ہے گانڑ میں کووں کے کیا ہوں میزباں
دست آنے کو نہ دیں جلاب مجھ رنجور کو 

کھڈی بنواتا ہے چرکیںؔ اینٹ گارے کے بدل
ٹوکرا گو کا اٹھانا ہوگا اب مزدور کو 
***
97
گرسنے چرکینؔ تیرے پاد کی آواز کو 
منہ چھپائے لے کے مطرب پردہ ہائے ساز کو 

کاٹی انگلی پر نہیں وہ موتتا کافر ذرا 
زخم دل دکھلاؤں کیا میں اس بت طناز کو

پیٹ کا ہلکا ہے اے جاں کہہ نہ دے ہر ایک سے 
غیر کونی سے نہ کہنا دل کے ہرگز راز کو 

طائر بزدل وہ ہوں میں صید قاہ عشق میں 
بیٹ سے اکثر بھرا ہے چنگل شہباز کو

رشک سے کبک دری نے ہگ دیا گلشن کے بیچ
دیکھ کر اے گل تری رفتار کے انداز کو 

موتنے تک کا مرے احوال جاناں سے کہا
گو میں نہلاؤں کہیں پاؤں اگر غماز کو 

سر سوا گندھار کے اس میں نہ بولے پھر کبھی 
بزم میں گر بیٹھ کر چرکیںؔ بجاؤں ساز کو
***
98
دیکھ کر بیت الخلا میں اس بت طناز کو 
نالۂ ناقوس سمجھا گوز کی آواز کو 

فائدہ دنیا میں گو کھانے سے کیا اے قوم لوط
کیا ملیں گے خلد میں غلمان لونڈے باز کو 

سب سے کہہ دے گا یہ تیرے پادنے تک کا بھیحال 
جا نہ دے بیت الخلا میں اے صنم غماز کو 

پادتا ہے تال سر سے وہ بت مطرب پسر
تھاپ طبلے کی سمجھئے گوز کی آواز کو 

غیر ہے گندہ بغل کیوں ہم بغل ہوتا ہے تو
گو میں کیوں ملتا ہے اے گل چنپئی پشواز کو 

رہ تو سفلی کی نجاست میں زیادہ گو نہ کھا 
شیخ تو کیا عالم علوی کے سمجھے راز کو 

کب تلک لتھڑا رہے گا اپنی طینت پاکھ رکھ 
دل سے چرکیںؔ دور کر دنیا کی حرص و آز کو 
***
99
کیوں کیا ناخوش سنا کر نالۂ جاں کاہ کو
پاد کر چرکیںؔ رجھایا تھا بت دلخواہ کو 

پاٹ دیتے چاہ بابل ہگ کے اے زہرہ جبیں
گر فرشتے دیکھتے تیرے ذقن کی چاہ کو 

گانڑ میں کیا نسر طائر کے پر سرخاب ہے 
خط مرا لے جا کے دے آیا نہ جو اس ماہ کو 

کیجئے پیشاب اگر تو دھار جاتی ہے وہاں
دور سمجھے غیر ہے کوئے بت گمراہ کو 

گانڑ میں بتی چراغ مے کی رکھ لو شیخ جی 
تیرہ شب میں تانہ بھولو میکدے کی راہ کو 

گھر میں اے چرکینؔ کب تک گوز مارا کیجئے 
دیکھئے اب جا کے گوگا پیر کی درگاہ کو 
***
100
خوں حیض کا سمجھتے ہیں تجھ بن شراب کو 
سور کا گوشت جانتے ہیں ہم کباب کو 

رندوں کے ساتھ پیجئے مے شیخ جی نہ آپ 
جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے جناب کو 

گوبر کو پی کے قاضئ بے_دین ہو برہمن
گر دیکھ پائے اس بت مست شراب کو 

گویہ توے پہ گانڑ بھی رگڑے نہ کر یقیں
دیتا ہے نان خشک یہ روز آفتاب کو 

چرکیںؔ نہ مانگ مطبخ چرخ دنی سے تو
ٹکڑا تو کیا نہ پائے گا خالی جواب کو
***
101
گئے جب شہر سے ہگنے کی خاطر بیاباں کو
صدائے گوز سمجھے نالۂ شیر نیستاں کو 

چمن میں جب قد موزوں کسی کا یاد آتا ہے 
کھڑی لینڈی سے بدتر جانتا ہوں سرد بستاں کو 

لگائے گا نہ منہ گر غیر جاکر گانڑ بھی رگڑے 
محبت ہوگئی ہے ان دنوں یہ ہم سے جاناں کو 

ہمارے ساتھ چلتے چلتے مجنوں کو جو دست آئے 
تو اس نے گانڑ پوچھی پھاڑ کر صحرا کے داماں کو 

ہگایا خون مدت تک خیال روئے رنگیں نے 
مروڑا پیٹ میں اٹھا جو دیکھا زلف پیچاں کو 

تبرا بھیج دنیا پر عدم کی راہ لے ناداں
نہ کر اس مزبلے میں بیٹھ کر آلودہ داماں کو 

وہ بلبل ہوں کہ جس کے نالۂ موزوں نے اے چرکیںؔ 
اڑایا چٹکیوں میں زمزمہ سنجان بستاں کو
***
102
چرکیں سے مدعی کو اگر عزم جنگ ہو
ناوک صدائے گوز ہو مقعد تفنگ ہو

ہتھیار تو ہر ایک کے دستوں پہ چھن گئے 
گنڑ چتڑی اب لڑے وہ جسے شوق جنگ ہو

بجھواؤ تیغ ناز کو لے کر گدھے کا موت
غیر نجس کے قتل کی جس دم امنگ ہو 

مطرب نہ کر چغانہ و شہرود پر گھمنڈ
جس ٹھیکرے میں موت دوں وہ جل ترنگ ہو 

چہرہ تمہارا ضعف سے ہے زرد شیخ جی 
حیض سفید پی لو تو پھر سرخ رنگ ہو 

اک پادری پسر کی محبت میں ہیں اسیر
دل اپنا کیوں نہ قائل قید فرنگ ہو 

غم خانۂ جہاں میں ہوں چرکیںؔ وہ تلخ کام
جلاب گر پیوں تو وہ جام شرنگ ہو
***
103
ہیں مریض چشم و لب اپنا اگر جلاب ہو
روغن بادام چرکیںؔ شربت عناب ہو 

رونق افزا ہو جو پاخانہ میں وہ رشک بہار
گل ہو لینڈی گو کی شبنم قطرۂ پیشاب ہو

بھوک سے مرتی ہے خلقت کچھ عجب اس کا نہیں 
کھاد بھی اکسیر کی مانند گر نایاب ہو 

کیجئے مضمون خون حیض میں رنگینیاں
تا زمین شعر رشک مسلخ قصاب ہو 

گانڑ دھونے سے نہ تو بھی شیخ کی نیت بھرے 
حوض تو کیا پشم ہے خالی اگر تالاب ہو 

اے صنم ہر اک برہمن دیکھ کر سجدہ کرے 
تیرے پاخانے کی چوکی میں اگر محراب ہو 

اب تو کیا ہے دیکھنا اس وقت تم چرکیںؔ کی قدر
لکھنؤ میں میرزا مہتر اگر نواب ہو 

آگے اس نو خط کے ہے اب سادہ رویوں کا یہ حال
جس طرے بے_قدر چرکیںؔ محمل کمخواب ہو
***
104
حیض کا سب رنگ ہے سو ہے برن میں آئنہ 
موت کا ہے ٹھیکرا دولہہ دولہن میں آئنہ 

کیوں نہ اس کی گانڑ کے نیچے بہے گنگا سدا
دیکھتا ہے منہ ترے چاہ ذقن میں آئنہ 

شیخ کی داڑھی کو مونڈیں گے گدھے کے موت سے 
کہہ دو ان سے میکشوں کی انجمن میں آئنہ 

گانڑ گل کی پھٹ گئی رخسار جاناں دیکھ کر 
دست بلبل کو بھلا کیوں کر چمن میں آئنہ 

تردۂ آئنہ چوکی عکس رخ سے بن گئی 
طشت ہے بیت الخلائے سیم تن میں آئنہ 

اس کاہر جوہر نہیں ہے کرم سے کم آنکھ میں 
چھوت گو کا ہے ترے بیت الحزن میں آئنہ 

نام چرکیںؔ پوچھتے حیرت سے کیا ہو شاعرو
ہے وہ پورب پچھم اور اتر دکن میں آئنہ 
***
105
اگر ہوتے نہ وارفتہ کسی زہرہ شمائل کے 
تو سڑتے کس لئے زنداں میں قیدی چاہ بابل کے 

ترے خال لب شیریں کے ہگنے میں جو یاد آئی 
جو نکلے پیٹ سے سدے وہ لڈو بن گئے تل کے 

ہوا ہے شوق کس رنگیں ادا کو زیب و زینت کا 
جو مشک وعود سے لوٹے بسائے جاتے ہیں گل کے 

اٹھے گو دلیلیں استبرے کی سنت پر 
عمل کرتے ہیں کب دانا سخن پر ایسے جاہل کے 

کسی کونی کی چربی سے مقرر اسکو ڈھالا ہے 
ہمیں بو گوز کی آئی دھوئیں سے شمع محفل کے 

مریدوں کی طرح دوں ان کو میں بھی دست بیعت کا 
کریں حل شیخ جی عقدے اگر عقد انامل کے 

بہت کی کنڈیاں لیکن پڑے ہیں آج تک چرکیںؔ 
ہمارے خوں کے دھبے پیلے پر تیغ قاتل کے 
***
106
رقیب اور شیخ کو اے یار گنڑ چتڑی لڑانیی ہے 
سر محفل ہمیں ان کو نیوں کی چل مٹانی ہے 

بت سیمیں کے پاخانے کی چوکی بھی ہے چاندی کی 
پھر اس طشت میں قلعی کی جا سونے کا پانی ہے 

نہ جا تو غیر کے گھگھیانے پر مفسد ہ وہ کونی 
وہ قابو چی بڑا ہے اس کی یہ منت زبانی ہے 

ابٹنا گو کا مل پہلے ہگوڑے غیر کے منہ پر 
شب عید اے صنم گر پاؤں میں مہندی لگانی ہے 

سدا کرتا ہے چلتے بیل کی وہ گانڑ میں انگلی 
لرزتا نام سے اس مہ کے ثو آسمانی ہے 

اگر ہو قبض افیوں سے پیو اے شیخ جی اس کو 
تمہارے واسطے دار و سڑے حقے کا پانی ہے 

میسر اس صنم کی گانڑ دھونے کا جو پانی ہے 
ترے حق میں وہ اے چرکینؔ آب زندگانی ہے 
***
107
چرکیںؔ اگلتی مجھ سے جو مردار کے لیے 
اک نام ہوتا یار کی تلوار کے لیے

دوبار راہ بول سے نکلے ہو شیخ جی 
واجب ہے غسل آپ پر ابرار کے لیے 

کس کا ہے نامہ بر یہ کبوتر کہ جس کی بیٹ
مرہم ہوئی ہے اس دل افگار کے لیے 

او شاہ حسن منہ سے گو ہر گھڑی نکال 
زیبا یہ گفتگو نہیں سردار کے لیے 

کس درجہ گو کی بو سے معطر ہوا دماغ
بو سے جو ہم نے مقعد دلدار کے لیے 

گو گل جلا کے آگ میں بیت الخلا کے بیچ
سفلی عمل پڑھیں گے کوئی یار کے لیے 

چرکیںؔ کو اپنے پاس سے اے گل جدا نہ کر
رہنے دے کھاد حسن کے گلزار کے لیے
***
108
زلف چھونے پہ جو دلدار خفا ہوتا ہے 
پائجامے میں مرا دست خطا ہوتا ہے 

دیکھ لیتا ہے مٹھولے جو لگاتے وہ مجھے 
ہو کے حیران وہ کہتا ہے یہ کیا ہوتا ہے 

سرکشوں کو بھی ہگاتا ہے وہ نیلا تھوتھا 
زلف خوباں کا بھی انداز برا ہوتا ہے 

پائخانہ اسے ٹھہراتے ہیں سارے شاعر
وصف جس بیت میں ہگنے کا بندھا ہوتا ہے 

شدت قبض سے پھر پادتا پھرتا ہے شیخ 
نشہ افیون کا جس وقت سوا ہوتا ہے 

پائخانے میںں وہ لے جاتے ہیں جو ساتھ مجے 
پاد کی طرح سے پھر غیر ہوا ہوتا ہے 

بھاگ کر چھپتا ہے پائخانہ میں چرکیںؔ اس دم 
دست اندازی پہ جب یار خفا ہوتا ہے 
***
109
داغے گا پٹاخا نہ وہ دلدار ہوئی 
چھوڑوں گا جو میں گوز کی یکبار ہوائی 

چر جائے کئی جا سے وہیں گانڑ فلک کی 
ماروں جو خدنگ کی دوچار ہوائی 

ہگتا تھا وہ بت ریتے میں اٹھا جو بگولا 
دشمن ہوئی نظارے کی دیوار ہوائی 

جب الشہیب گوز آپ کی مقعد سے چھٹے گا 
پکڑا نہیں جانے کا یہ رہوار ہوائی 

سرد آہوں سے میں چیرتا ہوں گانڑ کو ان کی 
جڑتا ہوں رقیبوں پہ یہ تلوار ہوائی 

ہگتا ہے اگر ہینگ لب یار کا بیمار
پستے کی کھلاتے ہیں پرستار ہوائی 

ال گل نے بلی اپنے کبوتر جو اڑائے 
چرکینؔ یہ سمجھا کہ ہے گلزار ہوائی 
***
110
گر آب دیکھ لیں تری تیغ خوش آب کی 
چر جائے گانڑ رستم و افرا سیاب کی 

میخانے میں ہوا مجھے ادرار اس قدر
ریلے میں موت کے بہی بوتل شراب کی 

دن کو بچوں بچوں نہ بچوں کیا ہو دیکھئے 
دستوں سے رات کو نہ فرصت ہو خواب کی 

منہ سڑ گیا ہے شیخ کا آتی ہے گو کی بو
جس دن سے اس نے کی ہے مذمت شراب کی 

ہے گانڑ غنچہ کانچ ہے اس گل کی رشک گل 
کیوں کر نہ بو ہو موت میں بوئے گلاب کی 

ہگ ہگ کے میں نے یار کے گھر میں کیا ہے ڈھیر
پاداش ہوگی کیا مرے فعل خراب کی 

شوال میں تو گانڑ کو چرکینؔ اپنی دھو 
ماہ صیام میں بڑی قلت تھی آب کی 
***
111
وفور شوق سے شافہ لیا ہے انگلی ڈالی ہے 
بڑے زوروں سے لینڈی شیخ نے باہر نکالی ہے 

وہ خود گندہ ہے جو گندہ مزاجوں کو ستاتا ہے 
نجاست کا سبب انساں کو گو کی پائمالی ہے 

ترے بیمار کو اتنی نہیں طاقت ہگے اٹھ کر 
تن کا ہیدہ اس کا رشک تصویر نہالی ہے 

پلا مے آج وہ ساقی کہ پاجامے میں ہگ ماریں
چمن ہے ابر ہے چلتی ہوائے برشکالی ہے 

ہمارے آگے بدتر گو بھرے سفرے سے بھی وہ ہے 
دہن جو تیرے وصف پاک سے اے یار خالی ہے 

شب دیجور بھی دیکھے تو ہگ دے مارے خطرے کے 
فراق یار میں وہ رات ہم پر آج کالی ہے 

کہے گا جو ہمیں چرکیںؔ برا وہ بھی سنے گا کچھ 
پڑی ہے چھینٹ اس پر جس نے گومیں اینٹ ڈالی ہے 
***
112
اہل ہنر سمجھتے ہیں اہل ہنر مجھے 
چرکیںؔ وہ خود لچر ہے جو سمجھے لچر مجھے

لاکھوں ہی احتلام ہوئے تا سحر مجھے 
سفرے کا کس کے دھیان رہا رات بھر مجھے 

مضمون خون حیض کی دقت میں وقت فکر
کھانا پڑا کمال ہی خون جگر مجھے 

سن رکھئے گو میں خوب سا نہلاؤں گا اسے
پھر غیر بزم یار میں گھورا اگر مجھے 

جس دن سے کاٹ کھایا ہے اس مار زلف نے 
گر دیکھوں کیچوا بھی تولگتا ہے ڈر مجھے 

یہ زور پر ہے وحشت دل اب تو اے پری 
پھٹ جائے گانڑ قیس کی ہے دیکھے اگر مجھے 

اک روز پھٹ نہ جائے کہیں سقف آسماں
چرکیںؔ تمہارے گوز سے لگتا ہ ڈر مجھے 
***
113
پھسکی میں تری باد بہاری کا اثر ہے 
سنبل اگر جھانٹیں تو سفر اگل تر ہے 

بنتی نظر آتی نہیں اس سیم بدن سے 
یاں گانڑ میں گو بھی نہیں وہ طالب زر ہے 

حاجت ہے ملاقات کی تو آئیے صاحب
پاخانہ جو مشہور ہے بندے ہی کا گھر ہے 

اے رشک چمن بے_ترے نظروں میں ہماری 
سوکھی ہوئی لینڈی سے بھی بدتر گل تر ہے 

جس فرے میں آلت کا ہوا ہو نہ کبھی دخل
گویا مرے نزدیک وہ ناسفتہ گہر ہے 

ہر لحظہ ہر اک بات میں گو اچھلے نہ کیونکر
چاہت جسے کہتے ہیں ادھر ہے نہ ادھر ہے 

چرکیںؔ کی خطا پر نہیں ہنسنے کی جگہ یار
ہگتا نہ ہو دنیا میں وہ کون ایسا بشر ہے 
***
114
غیر نجس کی قبض سے حالت تباہ ہے 
گردن جھکی ہے سفرے کی جانب نگاہ ہے 

چرکیںؔ تمہارے ہگنے کو بھی واہ واہ ہے 
مہتر چبوترے میں ہر اک داد خواہ ہے 

ہگنے کے وقت ہے جو رخ و زلف کا خیال ہے 
کوئی ہے لینڈی سرخ تو کوئی سیاہ ہے 

رکھ دیں گے اس اس کو نوچ کے ہم طشت یار میں 
پولا سی داڑھی شیخ کی مثل گیا ہے 

نے گانڑ کی تمیز ہے نے فرج کا ہی پاس
لوڑا کھڑا بھی اپنا عجب پادشاہ ہے 

کس طرح کھائیں کوفتوں پر ہم کو ہجر میں 
سدوں کا شک ہے لینڈیوں کا اشتباہ ہے 

وحشت کو اس کی دیکھ کے کہنے لگا وہ شوخ
چرکیںؔ ہمارا قیس کا بھی قبلہ گاہ ہے 
***
115
وہ مضمون گو کے پیدا کیجئے طبع گرامی سے 
جیبی انت یا چرکیں کا غل ہو گور جامی سے 

طرح عنبر کی بو کا وصف ہے ہم میں تو کیا حاصل 
رہے پھر گو کے گو باز آئے ایسی نیک نامی سے

سمند گوز بھی کوئی عجب منہ زور گھوڑا ہے 
پھٹی ہے شبہہ سواروں کی بھی جس کی بدلگامی ہے 

ہوا ہے شوق آرائش یہاں تک اس پر روکو
منڈھی جاتی ہے چوکی پائخانے کی تمامی سے

جو اپنے لب پہ بیٹھے آ کے ہگنے ہگ دیا اس نے 
یہی حاصل ہوا ہم کو فقط شیریں کلامی سے 

کیا کرتے ہیں اس سے دو بدو ہی گفتگو ہردم 
نہ مطلب نامہ و پیغام سے ہے نے پیامی سے 

لکھا رہنے دے چہرہ مہتروں میں زر کمائے گا
نہ اے چرکینؔ ہونا دست بردار اس اسامی سے 
***
116
کوئی مہتر ترے بیت الخلا میں جب کہ جاتا ہے 
نصیبوں پر ہمیں پھر اس کے کیا کیا رشک آتاہے

طلب کیجئے اگر بوستہ تو ہنس کر یہ سناتا ہے 
زمانے میں کوئی چرکینؔ کو بھی منہ لگاتاہے 

یہاں تک بدقماشی ہم سے ہے اس چرخ ابتر کی 
جو کھیلیں گنجفہ بھی تو برا ہی دست آتا ہے 

دل اپنا کاہ کی صورت اگرچہ پادہ پونی ہے 
و لیکن اس پہ بھی کیا کیا یہ کوہ غم اٹھاتا ہے 

ذرا اے بحر خوبی لے خبر تو اپنے چرکیںؔ کی 
ترے بیت الخلا کے حوض میں غوطے لگاتا ہے 
***
117
دید تیری گر نصیب اے مہ لقا ہو جائے گی
گھورا گھاری میں مری حاجت روا ہوجائے گی 

مان کہنا کھا نہ تو مجھ سے نجس کی ہڈیاں
گو سے لت پت چونچ تیری اے ہما ہوجائے گی

کوتھنے میں منہ بنائے گا جو وہ بت ناز سے 
اک ادا ہگنے میں بھی اس سے ادا ہوجائے گی

تنکے گھورے پر چنے گا بن کے دیوانوں کی شکل 
وہ پری عاشق سے اپنے گر حفا ہوجائے گا 

شیخ جی صاحب کریں گے تجھ سے بے_خطرے نکاح
دختر صوفی اگر تو پارسا ہوجائے گی

وصل کی شب بستر جاناں پہ میں نے ہگ دیا 
کیا سمجھتا تھا کہ یہ مجھ سے خطا ہوجائے گی 

قبض شدت اگر چرکیںؔ یہی عالم میں ہے 
کھاد بھی نایاب مثل کیمیا ہوجائے گی
***
118
کہدو خبر لے حسن کے اس بادشاہ سے 
چرکیںؔ پڑا ہے گھورے پہ حال تباہ سے 

کھانہ عبث ہے منہ سے غذائے لذیذ کو 
گو ہو کے ساری نکلے گی مقعد کی راہ سے 

دہشت سے میکشوں کی ہوا ہے یہ گوز بند
نکلا نہ شیخ بہر وضو خانقاہ سے 

ڈر سے ہمارے غیر کا پیشاب ہے خطا
جریاں نہیں ہوا ہے اسے ضعف باہ سے 

گوز شتر سمجھتا ہوں تحسین ناشناس
چرکیںؔ خوش اہل فہم کی ہوں واہ واہ سے
***
119
پدوڑی ہے نہ کر تو ہم زبانی 
یہ گو کھانی کی بلبل ہے نشانی 

لگوگے ہینگ ہگنے شیخ جی تم 
مضر ہے ماش کی یہ دال کھانی 

ہمارے آگے ہگ دیتا ہے دشمن 
یہ اس کونی کی شیخی ہے زبانی 

جگت کی غیر کو گوگل کھلا کر
نکالے اس نے گو کے دو معانی 

کرے گی قبض پادالون کھالو
یہ نسخہ سن لو چرکیںؔ کی زبانی 
***
120
نمک بن پاد کر اغیار کونی بے_حیائی سے 
سوا ان کی سڑی کوں ہے گڑھیا اور کھائی سے 

جو پتلی دال کھاکر شیخ اپھرے پیٹ بائی سے 
کرم تھوڑی سی کھا مرغی سوا ہے گرم رائی سے 

ترے بیمار کو دو تین ایسے دست آئے ہیں 
زمیں پر گانڑ کا گو بہہ چلا ہے چار پائی سے 

سر بازار کوڑی پاد پادو شیخ جی صاحب
زمانے میں کوئی بہتر نہیں ہے اس کمائی سے 

نکالا غیر کو بیت الخلا سے یار نے چرکیںؔ 
کھڑا ہے گھر پہ گو کھانے کو وہ سور ڈھٹائی سے
***
121
اک بوسے پہ کیوں بگڑ کے اٹھے 
گو کھایا جو اس سے لڑ کے اٹھے 

دیوانہ تیرا جو ہگنے بیٹھا 
پتھر لے لے کے لڑکے اٹھے 

اغیار نے ہگ دیا ہے ڈر سے 
تلوار جو ہم پکڑ کے اٹھے 

اس مہر کو گھر سے آتے دیکھا 
ہگنے کے لیے جو تڑکے اٹھے 

پایا نہ عصا جو شیخ جی نے 
آلت کو مرے پکڑ کے اٹھے 

بٹھلایا نہ اپنے پاس اس نے 
ہم گانڑ تلک رگڑ کے اٹھے 

قاتل کی گلی سے لاش چرکیںؔ 
ارمان یہ ہے کہ سڑ کے اٹھے
***
122
چرکیںؔ چمن میں آ کے جو یکبار ہوگئے 
ہر اک روش پہ کھاد کے انبار ہوگئے 

دولت کمائی ہے ترے صدقے سے اس قدر
مہتر تمام شہر کے زردار ہوگئے 

اس مزبلے میں بیٹھ کے سنڈاسیوں کی طرح 
لاکھوں نجاستوں میں گرفتار ہوگئے 

منہ گانڑ اور گوز شتر ہے تمہاری بات
القصہ آپ جھوٹوں کے سردار ہوگئے 

مجھ سخت جاں کی جھانٹ کے بھادیں ہوا نہ کچھ 
عاری تمہارے خنجر خوں خوار ہوگئے 

نے دست و پا کا ہوش ہے نے گانڑ کی خبر
کس درجہ محو صورت دلدار ہوگئے 

بیت الخلائے یار سے چرکیںؔ نکل کے ہم 
گھوے پہ بیٹھنے کے سزاوار ہوگئے
***
123
مشابہ غنچۂ گل ہے ہر اک لیلیٰ کے محمل سے 
صدائے گوز مجنوں آتی ہے صوت عنادل سے

غم فرقت سے لیلیٰ کی ہوا ہے ناتواں ایسا 
پھٹی جاتی ہے مقعد قیس کی بار سلاسل سے 

جو ہیں ناپاک ناپاکوں سے رغبت ان کو ہوتی ہے 
اگھوری موت اور گو کو ملاکر کھاتے ہیں دل سے 

فلک پر رشک کھائے مہر تاباں اے ہلال ابرو
جو دیکھے طشت پاخانے میں تیرے ماہ کامل سے 

عوض ہد ہد کے خوں کے حیض کے خوں سے وہ بھرتا ہے 
کبھی گر نقش حب چرکیںؔ لکھواتا ہے عامل سے
***
124
کوئل کو گانڑ کی خبر اے باغباں نہ تھی 
آموں پہ پادتی وہ پدوڑی کہاں نہ تھی 

گو کھایا قاضیوں نے جو رندوں پہ کی حرام 
بنت العنت تو زوجۂ پیر مغاں نہ تھی 

اغیار کی جو گانڑ بھی تھوکا بجا کیا 
کچھ عزت اس پدوڑے کی اے جان جاں نہ تھی 

گلشن خراب تو سن باد خزاں سے تھا 
گھوڑے کی لید تھی سمن وارغواں نہ تھی 

سڑتے تھے پھول جوش تھا گندہ بہار کا 
کچھ کم موتالی سے روش بوستاں نہ تھی 

منہ زور گویا باؤ کا گھوڑا ہے اس کا گوز
اغیار کے جو قبضے میں اس کی عناں نہ تھی 

چرکیںؔ نے طرفہ شستہ و رفتہ غزل کہی 
ایسی رواں طبیعت صاحبؔ قراں نہ تھی 
***
125
تیغ اس نے لگائی جب کمر سے 
مریخ نے ہگ دیا ہے ڈر سے 

کر بات نہ غیر فتنہ گر سے 
گو اچھلے گا خوب ادھر ادھر سے 

ٹل جائے گی ناف آئیں گے دست
تلوار نہ تو لگا کمر سے 

ہگنے میں بندھا جو زلف کا دھیان
پیچس رہی شام تک سحر سے 

ناداں اٹھا نہ بار عصیاں
یہ ٹوکرا گو کا پھینک سر سے 

اک موت کے ریلے میں بہادیں
رگ سامنے اپنے ابر برسے 

کہنے لگے مجھ سے ہٹ کے سڑئے 
بیٹھا جو میں لگ کے ان کے در سے

کیا دوں جواب میں شیخ بد کو 
گو کھانا ہے بحثنا لچر سے 

قسمت کی برائی دیکھوں چرکیںؔ 
گھورے پہ سڑے نکل کے گھر سے 
***
126
یہ قول ان کا ہے جن کا کوچۂ دلدار مسکن ہے
خیابان چمن میں کھڈیاں پاخانہ گلشن ہے 

نکالے جاتے ہیں محفل اس کی پاد کے ہاتھوں
کسی کو دوش کیا دیں گانڑ ہی یاں اپنی دشمن ہے 

وہ تیرا غمزۂ سرہنگ ہے او قاتل عالم 
دو پارہ جس کے دم سے سفرۂ اسقند و بہمن ہے 

خیال آتا ہے اے بت جب ترا وہ پاد دیتا ہے 
یہ سفرا غیر کا ہے یا کہ ناقوس برہمن ہے 

بجا ہے پادری مجھ کو کہیں گر سارے نصرانی 
پدوڑا میں ہوں عاشق میری معشوقہ فرنگن ہے 

نظر آتا ہے جب ہر اک فرنگی چھلکے دیتے ہیں 
کہوں کیا بول صاحب کے جو کچھ مکھڑے پہ جو بن ہے 

رہ مقعد ہزاروں ہی کی ماری اس نے اے چرکیںؔ 
ذکر اپنا بھی اپنے وقت کا اک مار رہزن ہے 
***
127
لڑتی ہیں آنکھیں اپنی اب اس شوخ وشنگ سے 
رستم کی گانڑ پھٹتی ہے جس خانہ جنگ سے 

سفرے کا غیر کے ہے بواسیر سے یہ حال
بندر کی گانڑ سرخ نہیں جس کے رنگ سے 

سدے نکل رہے ہیں زبس گولیوں کی طرح
کم گانڑ شیخ جی کی نہیں ہے تفنگ سے 

افسوس آج ان کو نہیں گانڑ کی خبر
کل تک خراج لیتے تھے جور وم و زنگ سے 

لبدی تم اس کی گانڑ پہ اب باندھو شیخ جی 
بہتر نہیں دوائے بواسیر بنگ سے 

منہ تک ہوئی نہ غیر کو اس بت کے دسترس
برسوں ہی گرچہ گانڑ گھسی در کے سنگ سے 

چرکیںؔ ہر ایک بیت میں اپنی ہزار بار
مضمون خون حیض بندھے لاکھ رنگ سے 
***
128
حال یہ شیخ کا ہے قبض کی بیماری سے 
پاد بھی گانڑ سے آتا ہے تو دشواری سے 

تن بدن پھنکتا ہے سوز اک کی بیماری سے 
بوند پیشاب کی کچھ کم نہیں چنگاری سے 

غیر کونی کو نہ دروازے تک آنے دے گا 
اس کے دل میں ہے یہ گھر میری وفاداری سے 

بات اچھی نہیں گو اچھلے گا اس میں صاحب
دستبردار ہو غیروں کی طرفداری سے 

پاس باقی نہ رہا گانڑ کا پاجامے تک 
حال اپنا یہ بہم پہنچا ہے بیکار سے 

یاں سیجو سوئے عدم گانڑ چھپا کر بھاگا
تھا عمر کو بھی مگر ڈر تری عیاری سے 

اہل عبرت کو ہو چرکیں نہ تعلق کا مزا
مرغ تصویر کو کیا کام کرفتاری سے 
***
129
پادے ہیں اطبا سبھی پوں پوں مرے آگے 
گنڑ گھسنیاں کرتا ہے فلاطوں مرے آگے 

بولائی مجھے دیکھتے ہی جوشش باراں
اک قطرۂ پیشاب ہے جیحوں مرے آگے 

وہ گرگ کہن سال ہوں میں دشت جنوں کا
کوں کھولے ہوئے پھرتا تھا مجنوں مرے آگے 

وہ کانچ دکھاتا نہیں اپنی مجھے ہرگز
لیتا ہے چھپا سفرۂ گلگوں مرے آگے 

اے مرغ چمن کیا ہے خوش آوازی پہ نازاں
ہے گوز ترا نالۂ موزوں مرے آگے 

اس زور سے پادو کہ دہل جائے فلک بھی 
اسرارؔ جو مجلس میں کرے چوں مرے آگے 

وہ میں نہیں چرکینؔ جو دب جاؤں کسی سے 
ہر ایک بنڈیلا ہے کم از جوں مرے آگے
***
130
صدائے گوز اے چرکیںؔ یہاں دمڑی کی چوں چوں ہے 
تری پھسکی کی یہ آواز نقارے کی دوں دوں ہے 

اگر کوڑی گرے گو میں اٹھا لے غیر دانتوں سے 
وہ مکھی چوس ہے کیا مال جس کے آگے قاروں سے 

لہو موتا کرے کب تک مریض غم ترا اوبت
خبر لے ہے خلل پتھری کا حال اس کا دگر گوں ہے 

نہ رکھ اغیار سگ سیرت سے گہرے ااب دست اے جاں
وہ گو کھاتا ہے اور ناشستہ اس ناپاک کی کوں ہے 

اڑادیں پاد سا نالہ نہ کیونکر مرغ گلشن کا 
ہماری آہ شور انگیز وہ دمڑی کی چوں چوں ہے 

مقشر شیخ کی کرلو ملاکر اس میں نوسادر
ہگوگے نیلا تھوتھا ورنہ حضرت زہر افیوں ہے 

نہ ملنا غیر سے اے جان گر وہ گانڑ بھی رگڑے 
نہ کرنا دوستی زنہار وہ موذی ہے میموں ہے 

مل ہے آگ جو کھاتا ہے انگارے وہ ہگتا ہے 
غذایاں خون دل اپنی ہے جاری گانڑ سے خوں ہے 

زمین شعر میں کیا کھڈیاں ہیں تونے بنوائیں 
جو اے چرکیںؔ پسند طبع تیری گو کا مضموں ہے 
***
131
آج دیکھئے چرکیںؔ کس کی موت آئی ہے 
اس نے زہر قاتل میں تیغ کیں بجھائی ہے 

خال روئے جاناں کی کیا کروں ثنا اے دل 
ہگ دیا ہے رستم نے جب وہ گولی کھائی ہے 

جھینپتی ہے آنکھ اس کی سامنے جب آتا ہے 
گانڑ غیر نے شاید آپ سے مرائی ہے 

زور ناتوانی ہے بسکہ ہجر کی شب میں 
ہگتی پادتی لب تک اپنے آہ آئی ہے 

مررہے ہیں آپہی ہم ہم سے نیم جانوں پر
گو کا کھانا او قاتل تیغ ازمائی ہے 

گانڑ کیوں چراتا ہے ہم سے پنجہ کرنے میں 
پادا پونی اے گل رو کیا تری کلائی ہے 

تھاپتا ہے گو ایسا ہو گیا ہے دیوانہ 
کس پری سے اے چرکیںؔ آج کل جدائی ہے 
***
132
روکتے گوز جو اپنا تو بڑی بات نہ تھی 
شیح صاحب میں تو اتنی بھی کرامات نہ تھی 

سو رہا گانڑ مرے منہ کی طرف کرکے وہ شوخ
ہجر کی رات سے کم وصل کی بھی رات نہ تھی 

گھس گیا پا کے میں تنہا اسے پاخانے میں 
وصل کی اس کے سوا اور کوئی گھات نہ تھی 

گانڑ کی طرح سے منہ اپنا چھپالیتے تھے 
میری اور آپ کی جب تک کہ ملاقات نہ تھی 

گو میں کس روز وہ غیروں کو نہ نہلاتا تھا 
کب مرے حال پہ اس بت کی عنایات نہ تھی 

ایک ہی موت کے ریلے میں بہے سیکڑوں گھر
دیکھی اس طرح کی ہم نے کبھی برسات نہ تھی 

مفت دم پر جو وہ چڑھتے تو بن آتی چرکیںؔ 
خرچی بلوانے کے قابل مری اوقات نہ تھی 
***
133
کوئی ثانی نہیں مہتر مری توقیر میں ہے 
کس کا پاخانہ گل انداموں کی جاگیر میں ہے 

ہگ دے مریخ فلک بھی جو چمکتی دیکھے 
آبداری یہ مرے ترک کی شمشیر میں ہے 

ہے یقیں گانڑ کے رستے سے نکل جائے گا دم 
مبتلا شیخ اب اس درجہ بواسیر میں ہے 

قصر قیصر میں بھی اے یار نہ ہوگا ہرگز
جو کہ عالم ترے پاخانے کی تعمیر میں ہے 

ہگ دے مجنوں بھی یقیں ہے جو اٹھائے یک بار
بوجھ بھاری یہ مرے پاؤں کی زنجیر میں ہے 

اس پری رو کے ہوا دل میں نہ اک بار اثر
عالم گوز شتر نالۂ شب گیر میں ہے 

جو کہ سنتا ہے وہ بے_ساختہ ہنس دیتا ہے 
عالم اب گوز کا چرکیںؔ تری تقریر میں ہے 
***
134
جو وہ پاخانہ دیکھے قصر شیریں کو ہکن بٹھولے 
گھسے گا گانڑ آ کے ہاں سر پھوڑتا سب تیشہ زن بھولے 

ہگوڑا غیر سگ سیرت تھا ہگ ہگ کر موا آخر
دیا اس کو نہ گو کے پوتڑے کا جو کفن بھولے 

سے گر نام مجھ دیوانے کا دہشت سے ہگ مارے 
لگے گو تھانپے قیس اپنا سب دیوانہ پن بھولے 

چراغ غول سمجھے چھوت گو کا دشت وحشت میں 
جو دیکھے کیچوئے صحرا میں مار راہ زن بھوے 

پھٹی گانڑ ان کی میرے نالۂ رنگیں کو سنتے ہی
ہوئے رودم دبا کر نالے مرغان چمن بھولے 

لگے گو تھانپے اے بت نہ دے گوبر کا وہ چوکا 
جو دیکھے تیرا پاخانہ کلیسا برہمن بھولے 

ہماری سی کرے گر سینہ کاوی اے بت شیریں
چرے گانڑ ایسی ساری تیشہ رانی تیشہ زن بھولے 

ہگے کو اپنے بلی کی طرح ممسک چھپاتے ہیں 
نہ ان کی صورت مسکیں پہ دزد نقب زن بھولے 

رقیبوں کی لڑاتے آنکھ ہم سے دپدپاتی ہے 
لگایا تھوک ایسا گانڑ میں سب بانکپن بھولے 

جو کھودے یار کے سنڈاس میں تو قبر چرکیںؔ کی 
قیامت تک نہ وہ احساں ترا اے گورکن بھولے
***
135
چرکیںؔ اگلتی مجھ سے جو ناکام کے لیے
اک نام ہوتا یار کی صمصام کے لیے

حاجت جو اس نگار کو استنجے کی ہوئی 
آنکھوں کے ڈھیلے عاشق بدنام کے لیے 

محتاج ہو کے گھر میں امیروں کے تو نہ جا 
دربار گانڑ پھاڑیں گے انعام کے لیے 

اس بات پر عمل کرو کروالو شیخ جی 
حقنہ بہت مفید ہے سرسام کے لیے 

چرکیںؔ نے پائخانے میں کی اپنی بود و باش
گوشہ نہ جب ملا کوئی آرام کے لیے 
***
136
کس طرح صاحب کو پھر اے بندہ پرور چاہئے 
گانڑ میں یاں گو نہیں ہے آپ کو زر چاہئے 

غیر کہتے ہیں کہ جان و مال تو کیا چیز ہے 
گانڑ تک حاضر ہے لیجیے آپ کو گر چاہیے 

دشمن بد گو کے منہ پر تو بڑا گو کا چڑھا 
ایسے کو ایسی سزا اے ماہ پیکر چاہیے 

جان دی ہے ہم نے اک مہتر پسر کے عشق میں 
اپنی مرقد پر گل آدم کی چادر چاہیے 

رکھ کے استنجے کا دھیلا سرتلے گھورے پہ لیٹ 
تجھ کو اے چرکینؔ کیا بالیں و بستر چاہیے
***
137
اس درجہ پائخانۂ جاناں بلند ہے 
سنڈاس جس کا چرخ بریں سے دو چند ہے 

کرتا نہیں ہے چوں کبھی رندوں کے روبرو
دہشت کے مارے شیخ کا یہ گوز بند ہے 

عاشق ہوں گو بھی اس بت شیریں کلامکا 
نزدیک اپنے شہد ہے مصری ہے قند ہے 

بیمار جو ہوا کسی سفرے کے عشق میں 
حقنہ کمال اس کے لیے سود مند ہے 

جس نے سنی ہے اس بت خوش گپ کی گفتگو
گوز شتر سمجھتا وہ ناصح کی پند ہے 

چرکیںؔ کی قدر کچھ نہیں لیتے ہیں کھاد مول
ہے سچ مثل کہ خلق بھی مردہ پسند ہے 
***
138
درد دل کی مرے چرکینؔ دوا لائے کوئی 
پائخانے تلک اس بت کو لگا لائے کوئی 

مرغ زریں ہے چغل یار کے پاخانے کا 
یاں تک اس سونے کی چڑیا کو اڑالائے کوئی 

غیر بکتا ہے تو بکنے دو وہ گو کھاتا ہے 
ایسے کونی کا سخن دھیان میں کیا لائے کوئی 

زر تو کیا گانڑ تلک بھی نہ کرے گا وہ عزیز
شکل لیلیٰ کی جو مجنوں کو دکھلائے کوئی 

آمد حیض ہے اس رشک چمن کی گدی
پھاڑ کر دامن گل جلد بنا لائے کوئی 

زمزمے سن کے مرے بند ہیں مرغان چمن
ان کو تھوڑی سی کرم جا کے کھلا لائے کوئی 

درد سر کایہی چرکینؔ کے بہتر ہے علاج
اس کا گو تھوڑا سا صندل میں ملا لائے کوئی 
***
139
ترا مریض یہ گو میں خراب رہتا ہے 
کہ جس سے مہتروں کو اجتناب رہتا ہے 

مروڑے پیٹ میں میرے ہی کچھ نہیں اٹھتے 
کمر کو آپ کی بھی پیچ و تاب رہتا ہے 

فلک شکوہ ہے اے بت وہ تیرا پاخانہ 
بجائے طشت جہاں آفتاب رہتا ہے 

نظر پڑی تری اے یار جب سے موت کی بوند
ذلیل آنکھوں میں در خوش آب رہتا ہے 

ملا ہے سارے زمانے سے تیرا قار ورہ 
ہمیں سے تجھ کو مگر اجتناب رہتا ہے 

پڑا جو رہتا ہے چرکینؔ اس کے کوچے میں 
حلال خوروں پہ اکثر عتاب رہتاہے
***
140
سوائے رنج کچھ حاصل نہیں اے دل ربا تجھ سے 
وہ گو کھاتے ہیں جو رکھتے ہیں امید وفا تجھ سے 

نہ ہوتا وصل کی شب میں نہ کیونکر وہ حفا تجھ سے 
ہگا بستر پہ اس گل کے ہوئی چرکیںؔ خطا تجھ سے 

نہ پائی اک دن ہگنے کی اجازت تیرے کوچے میں 
نہ اتنی بھی کبھی اپنی ہوئی حاجت روا تجھ سے 

نہیں محفل میں بھی اے شوخ تجھ کو گانڑ پر قابو
نکل جاتی ہے رک سکتی نہیں اتنی ہوا تجھ سے 

مثال گوز پاخانے سے باہر نکلا پڑتا ہے 
کہے چرکینؔ کیونکر اپنے دل کا مدعا تجھ سے 
***
141
کچھ ان دنوں یہ یار سے قار ورہ ملا ہے 
پادا بھی اگر اس نے ہے تو ہم سے کہا ہے 

برسوں ترے بیمار نے کہتے ہیں ہگی ہینگ
تپ موت گئی اب کوئی دو دن میں شفا ہے 

نالوں سے مرے پادتے پھرتے ہیں چمن میں 
سو مرتبہ گو بلبلوں کے منہ میں دیا ہے 

مے پیتا ہے پیشاب سے داڑھی بھی منڈائے 
گو کھانے میں اب شیخ کے کیا باقی رہا ہے 

کوچہ ترا اے رشک چمن دیکھا ہے جب سے 
سیر گل و گلزار پہ پیشاب کیا ہے 

جب غیر نے دیکھا ہے مجھے رعب سے میرے
ہگ مارا ہے پاجامے میں اور موت دیا ہے 

قار ورہ مرا دیکھ کے یہ بولے اطبا
غم کھایا بہت بند اسے ہیضہ ہوا ہے 

گو کھاتا ہے وہ گالیاں کھاتا نہیں تیری
یہ غیر اگھوری نہیں اے جان تو کیا ہے 

سد رہ دیوار صنم جو ہوئی خندق
چرکینؔ نے ہگ ہگ کے اسے پاٹ دیا ہے 
***
142
ترشوا کر گل نسرین و سمن پتھر کے 
اس نے پاخانے میں بنوائے چمن پتھر کے 

اے فلک زیر زمیں ان کی پھٹی جاتی ہے گانڑ
ڈھیر جن مردوں پہ ہیں سیکڑوں من پتھر کے 

نسبت ان ہونٹوں سے دینا انہیں گو کھانا ہے 
سب سمجھتے ہیں کہ ہیں لعل یمن پتھر کے 

پرسش روم جزا سے نہیں خطرہ ان کو 
دل مگر رکھتے ہیں دز دان کفن پتھر کے 

کیا کریں تجھ سے بھلا گفت و شنید اے چرکیںؔ 
ان بتوں کے ہیں لب و گوش و دہن پتھر کے 
***
143
دور بھاگیں اس ہوا سے کہدو قوم عاد سے 
ہوگئے ہیں گھر کے گھر برباد اپنے پاد سے 

اے فلک بیداد اتنی بھی غریبوں پر نہ کر
گانڑ کھجلایا کرے تا چند کوئی داد سے 

وقت مشکل کے نکلتا ہے دلا ہمدم سے کام
آئے افیونی کو غایط حقے کی امداد سے 

دامن کہسار کو ہگ ہگ کے آلودہ کرے
بیستوں پر سامنا کیجیے اگر فرہاد سے

سرخ پوشی کا اگر ہے شوق اے چرکینؔ تجھے 
خون حیض دختر رز کم نہیں ہے گاد سے
***
144
کریں گے بحث جو ہم شعر کے اصولوں کی 
تو ہوگی گانڑ غلط سارے بوالفضولوں کی 

نواز گنج میں میلا ہے آج گوگا کا 
ہنڈولے گڑتے ہیں تیاریاں ہیں جھولوں کی 

چمن میں جا کے جو یاد آئی اس کے گوز کی بو
ذرا دماغ کو بھائی نہ باس پھولوں کی 

کیا جو بوسہ طلب بولے گو نہ کھاؤ زیاد
قبول بات نہیں ہم کو ناقبولوں کی 

یہاں اگا نہںی چرکیںؔ ہمارا نخل مراد
وہاں ابھی سے ہیں تیاریاں بسولوں کی 
***
145
کرتے ہیں بہت صحبت دلدار میں گرمی 
گھس جائیگی سب مقعد اغیار میں گرمی 

گوگل تو نہ کھائے ہو بواسیر کی خاطر
رہتی ہے جو نبض بت عیار میں گرمی 

ہگ دیتے ہیں سن سن کے زمانے کے جکت رنگ
کرتا ہوں زنانوں سے جو بازار میں گرمی 

گوز اک کے آزار سے برسوں ہی ہگی ہینگ
کیا قہر کی تھی مقعد اغیار میں گرمی 

تو اچھلے گا اس درجہ کہ اٹھ جاؤ گے جل کر
کرتے ہو بہت بیٹھ کے دوچار میں گرمی

چرکیںؔ نہ جلی پھسکیاں میخانے میں مارو
چڑھ جائے گی مغز بت میخوار میں گرمی
***
146
منشی کچھ نہیںیہ نسخۂ معجون عنبر ہے 
دہی اپلے ملاکر شیخ جی کھالو تو بہتر ہے 

نہ کیونکر پادنے میں غیر حلقے گانڑ سے چھوڑے 
نہیں گانڑ اس کی آتش بازی کی گویا چھچھوندر ہے 

سڑی شبیہہ ہے کیا بوئے زلف یار سے دوں میں 
جسے کہتے ہیں سب عنبر حقیقت میں وہ گوبر ہے 

بدی میری نہ کر تو دوست سے دشمن سمجھ جی میں 
برا کہنا کسی کو اور گو کھانا برابر ہے 

رقیب مبتذل کی کھیلتی ہے گانڑ گنجیفہ
یہاں پچیسی آکر کھیلتا جب ہم سے دلبر ہے 

پلاکر میگنی خرگوش کی حقے میں اے رندو
پداؤ شیخ افیونی کو وہ گیدی بڑا خر ہے 

وہ بازی شہ کی سڑجاتی ہے چرکیںؔ کے نصیبوں سے 
جو بازی بوسہ بازی کھیلتا جاناں سے چوسر ہے 
***
147
بیت الخلائے یار ہے روز سعید ہے 
نظارۂ جمال ہے چرکیںؔ کو عید ہے 

دستوں پہ دست آتے ہیں بچھتے ہیں پوتڑے
اس حال میں نہ آؤ یہ تم سے بعید ہے 

دشمن کی گفتگو پہ عمل کیجئے نہ آپ 
جھوٹا ہے مفتری ہے وہ کونی پلید ہے 

پھولے نہیں سماتے ہیں گلچیں و باغباں
آئی بہار کھاد کی ہوتی خرید ہے 

دیکھا جو ماہ نو کو فلک پر تو یہ کھلا 
بیت الخلا کے قفل کی اس کے کلید ہے 

غیر نجس نہ آتش فرقت سے کیوں جلے 
کچھ اس میں شک نہںی ہے کہ ناری یزید ہے 

دیتا ہے گالیاں کبھی کہتا ہے گو نہ کھا 
اک بوسہ مانگنے پہ یہ گفت و شنید ہے 

سوجی ہیں آنکھیں رو رو کے سفرے کے عشق میں 
گو کا ضماد ایسے ورم کو مفید ہے 

آمد ہے خون حیض کی بنتی ہیں گدیاں
گودڑ کی لعل سے بھی زیادہ خرید ہے 

بیراگی اس کی پنجہ ہے کشتی ہے ٹوکرا
چرکینؔ گوگا پیر کے گھر کا مرید ہے 
***
148
صاحب کی بے_وفائی سے خطرہ نہیں مجھے
تم پھر گئے تو پھر گئے پروا نہیں مجھے 

ہاتھوں سے بے_زری کے ہواہوں یہ تنگ دست
اب قوت لا یموت بھی ملتا نہیں مجھے 

ناصح یہ گفتگو تری بیجا ہے گو نہ کھا 
اڑ پاد یاں سے دور ہو بھڑکا نہیں مجھے 

آلودہ ہوں نجاست دنیا میں رات دن 
کیا قہر ہے کہ خطرۂ عقبیٰ نہیں مجھے 

کڑوی لگے نہ آپ کو کیوں ترش گفتگو
مرغوب میٹھی بات ہے صفر انہیں مجھے

لوطی ہوں بچہ باز ہوں مقعد سے کام ہے 
او بحر حسن خواہش دریا نہیں مجھے 

دل دے کے اس پری کو جو گو تھا پتا پھروں
چرکیںؔ تمہاری طرح سے سودا نہیں مجھے 
***
149
جائے آرام ہے چرکیںؔ تو ہیں تھوڑی سی 
کسی کھڈی میں جو مل جائے زمیں تھوڑی سی 

جوہری کہتے ہیں دیکھ اس کے لب لعلیں کو
ہینگ بگوائے گا ہم کو یہ نگیں تھوڑی سی 

گو میں نہلائیے غیروں ہی کو غصہ ہو کے 
ہے بہت اپنے لیے چین جبیں تھوڑی سی 

روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پ کہا 
لید کرنی ہو تو کرلے تو یہیں تھوڑی سی 

ہاتھ لگ جائے تو پارے کی طرح سے ماریں
ہم کو دے ڈالے اگر کوئی حسیں تھوڑی سی 

قبض ابنائے زمانہ کو ہواہے یاں تک
گھس لگانے کو کہیں کھاد نہیں تھوڑی سی 

کبھی چوموں کبھی چاٹوں کبھی آنکھوں سے لگاؤں
صاف سی گانڑ جو مل جائے کہیں تھوڑی سی 

پھسکیاں مارئیے ایسی کہ سڑا دیجے دماغ
دے جگہ ہم کو جو وہ اپنے قریں تھوڑی سی 

کوئی دم مجھ سے بد اختر کی بھی لینڈی تر ہو 
مہربانی کرے وہ ماہ جبیں تھوڑی سی 

اچھلے کس طرح نہ گو زیر فلک اے چرکیںؔ 
ہگنے والے ہیں بہت اور زمیں تھوڑی سی
***
150
صحت جاں سے تری تن میں مرے جاں آئی 
گوز سے بوئے گل و سنبل و ریحاں آئی

قبر پر آ کے بھی اس بت نے ہوتا افسوس
کام کچھ اپنے نہ مرگ شب ہجراں آئی 

نا گوارا ہوئی گلگشت چمن کی تکلیف
سر پھرانے تجھے اے سرد خراماں آئی 

گانڑ کی راہ گئی قبض سے جاں شیخ کی پر 
لینڈی سفرے سے نہ باہر کسی عنواں آئی 

نظر آنے لگا سنبل ہمیں پادا پونی 
یاد گلشن میں جو وہ زلف پریشاں آئی 

مارے دہشت کے نکل جائے گا دم گانڑ کی راہ 
تو مرے سامنے گر اے شب ہجراں آئی 

گو اچھالے گا سڑی ہوگا چنے گا تنکے 
وہ پری گھر میں جو چرکینؔ کے مہماں آئی 
***
151
جس نے بو سونگھی کبھی اس کے گل رخسار کی 
پاد کی بو اس کے آگے بو ہے پھر گلزرا کی 

میرے آگے چل نہ اے کبک دری بس گو نہ کھا 
یاں کبھی ہے دل میں چال اک سرو خوش رفتار کی 

وصل کا کرتا ہے وعدہ مجھ سے جب وہ بحر حسن 
گانڑ پھٹ کر حوض ہوجاتی ہے تب اغیار کی 

کیا کہوں کیسی شراب عشق ہے ساقی کڑی 
جس کو پیتے گانڑ پھٹتی ہے ہر اک میخوار کی 

خرمن گل باغ میں کہتا ہے جس کو باغباں
لید اس کو جانتا ہوں میں سمند یار کی 

عشق میں سفرے کے مرتا ہے ترے چل اس کو دیکھ 
ہگتے ہگتے غیر حالت ہے ترے بیمار کی 

موتتے اس قاتلہ کو دیکھ کر میں مرگیا 
موت کی بھی دھار گویا دھار تھی تلوار کی 

بزم رنداں میں جو آئے شیخ پھاڑیں اس کی گانڑ
دھجیاں میکش اڑائیں جبہ و دستار کی 

باغ گھورا سا نظر آتا ہے اس کی آنکھ میں 
سیر جو کرتا ہے اے چرکینؔ کوئے یار کی 
***
152
مال و دولت نے مجھے کشور ستانی چاہئے 
پائخانے کی صنم کے پاسبانی چاہئے 

حیض کے خوں سیہے بدتر یہ فراق یار میں 
کس کو اب ساقی شراب ارغوانی چاہئے 

چل مئے مقعد کم ہو حرمل و خرمل کا دور
شیخ جی کو گانڑ مستوں سے مرانی چاہئے 

دیکھے استادہ جو لینڈی تیری اے بالا بلند
خاک میں مل جائے سرو بوستانی چاہئے 

گانڑ ملنے میں چرانا عاشق دل خستہ سے 
یہ نہیں تجھ کو مرے محبوب جانی چاہئے 

گر یہی رفع حدث ہے شیخ جی تو ایک دن 
گوز کے صدمے سے پھٹ جائے میانی چاہئے 

صحبت ہم جنس باہم جنس ہوتی ہے برآر
تم کو معشوقہ بھی چرکیںؔ مہترانی چاہئے 
***
153
شوق گلگشت کا چرکینؔ کو جس دم ہوجائے 
گل ہر اک باغ میں رشک گل آدم ہوجائے 

جاکے گھورے پہ کریں گو کے جو مضموں موزوں 
اپنی ہر بیت میں پاخانے کا عالم ہوجائے 

بے بہا اس میں جڑے جاتے ہیں نگ سدوں کے 
شیخ کی گانڑ نہ کیوں غیر خاتم ہوجائے 

اور بھی اس کو پڑے گا گانڑ کلیجے جھگڑا 
جس سے خلطہ تجھے اے قاتل عالم ہوجائے 

دیکھ لے اس گل خوبی کی جو پیشاب کی بوند 
پانی پانی ہو گہر قطرۂ شبنم ہوجائے 

چوڑیاں کانچ کی ہاتھوں میں پہنتا ہے وہ شوخ 
پھبتی نیچے کی نہ نیچے پہ مسلم ہوجائے 

نام اگر چاہے تو مل جھک کے ہر اک سے چرکیںؔ 
قدم خم گشتہ ترا حلقۂ خاتم ہو جائے 
***
154
پیا ہے موت جو چرکیںؔ شراب کے بدلے
گڑک بھی لینڈیوں کی کھا کباب کے بدلے 

ہر بسہ نکلے گا اس مہ کی دیگ فشری کا 
طبق ہو مہر کا غوری کے قاب کے بدلے 

ہمیشہ شیخ سے یہ گفتگو ہے رندوں کی 
لگاؤ داڑھی میں نورا خضاب کے بدلے 

ہگے ہی دیتے ہیں عشاق مارے خطرے کے 
نظر جب آتے ہیں تیور جناب کے بدلے 

رہے گا موج پر گریوں ہی موت کا دریا 
ترے گی کشتی گردوں حباب کے بدلے 

رہیں گے یوں ہی گراں مغ بچوں کے گنڑ غمزے 
پویں گا گھونٹ کے سبزی شراب کے بدلے 

مریض عشق کا خط پڑھ کے اس نے اے چرکیںؔ 
جواب نامہ لکھا ہے جواب کے بدلے 
***
155
قول ہیں دام محبت کے گرفتاروں کے 
گانڑ پھٹ جائے جو غمزے سہے دلداروں کے 

ہجر میں نرگس بیمار کے آنکھوں میں مری 
غنچۂ گل نہیں قارورے ہیں بیماروں کے 

سر بازار چرا گانڑ کھسک جاتے ہیں 
سور چڑھتے نہیں منہ پر تری تلواروں کے 

ترے عشقا کو دکھلاتے ہیں عریاں تجھ کو
کیا ہیں روزن ترے پاخانے کی دیواروں کے 

اس قدر خطرۂ سیاد سے ہگ ہگ مارا 
گو سے لتھڑے ہیں قفس سارے گرفتاروں کے 

بلبلیں جمع ہیں گلزار سمجھ کر اس کو 
پھول گھورے پہ پڑیہیں جو ترے ہاروں کے 

جب سے رشک گل لالہ ترا سفرا دیکھا 
داغ دل ہوتا ہے نظارے سے گلزاروں کے 

شربت ورد جو پی کر وہ ہگیں پائیں شفا 
جو ہیں بیمار ترے پھول سے رخساروں کے 

شہر میں پھر نے سے چرکینؔ کے یہ خطرہ ہے 
گو سے پٹ جائیں نہ رستے کہیں بازاروں کے 
***
156
عجب تماشا ہو چرکینؔ بہار کے بدلے 
جو پھسکی شیخ جی چھوڑیں انار کے بدلے 

چمن میں گل کی جگہ پر پرے ہیں گو کے ڈھیر
دکھائی دیتے ہیں کوئے ہزار کے بدلے 

پڑا ہے گو میں وہ لت پت کسی نے اے گلرو
نہ پوتڑے بھی ترے غمگسار کے بدلے 

بڑھادو شوق سے پشموں کو شیخ جی صاحب
منڈاؤ داڑھی کو موئے مہار کے بدلے 

ہماری ہگنے میں نکلی ہے جان گانڑ کی راہ 
ضرور کھڈی میں رکھنا مزار کے بدلے 

کہے گی دیکھ کے کیا خلق شیخ جی صاحب
گلے میں جوتیاں پہنو نہ ہار کے بدلے 

اٹھاتے منہ سے ہو ناحق نقاب ہٹ کے سڑو
دکھاؤگو بھرا سفرا عذار کے بدلے 

کرے گا سامنا کیا پادنے میں شیخ اپنا 
جو شرط چاہے تو وہ ہاتھ مار کے بدلے 

جو ہم امیروں کی ڈیوڑھی پہ جاتے ہیں چرکیںؔ 
خواص روکتے ہیں چوبدار کے بدلے 
***
157
نجس کون سا وارد لکھنؤ ہے 
جدھر دیکھتا ہوں ادھر گو ہی گو ہے 

پھٹی شیخ کی ڈر سے رندوں کے ایسی
نہ ٹانکوں کا موقع نہ جائے رفو ہے 

ہزاروں ہیں مہتر پسر تک پری رو
پرستاں جسے کہتے ہیں لکھنؤ ہے 

ترے ہجر میں مجھ کو اے سرو رعنا 
بدر رو سے بدتر ہر اک آب جو ہے 

گیا ٹوٹ اک گوز میں شیخ صاحب
عجب پادا پونی تمہارا وضو ہے 

نہ کیوں کر ہو آپس میں پھر گوہا چھی چھی 
میں نازک مزاج اور وہ تند خو ہے 

عجب کیا جو پیچش ہو موئے کمر میں 
وہ مرغولہ رفتار و مرغولہ مو ہے 

محبت کہاں ہے عزیزوں میں چرکیںؔ 
منی سے سفید ان سبھوں کا لہو ہے 
***
158
آئی بہار چھوٹے چمن بوم و زاغ سے 
وہ بھی ہوں دن خزاں کہیں اڑپادے باغ سے 

روشن کیا ہے بزم میں یہ کس پدوڑے نے 
آتی ہے بوئے گوز جو دود چراغ سے 

کیا غنچہ ہو کے بلبلیں بیٹھیں گلوں کے پاس 
ہگنے کو باغباں کبھی نکلا جو باغ سے 

جراح کا یقین ہے سڑجائے گا دماغ
پھاہا اگر اٹھا مرے سینے کے داغ

شرم و حیا کو چھوڑئے گھر اپنا جانئے 

ہگ لیجے بندہ خانے میں صاحب فراغ سے 

کیا غیر تیرہ زو سے چھٹے جھوٹ بولنا 
خصلت نہ گو کے کھانے کیچھوٹے گی زاغ سے 

نمرود سا رقیب میں چرکیںؔ غرور تھا 
دو جوتیوں میں جھڑ گیا بھیجا دماغ سے 
***
159
مجھ کو اب اس حال میں کیا سیر گلشن چاہئے 
میں ہوں چرکیںؔ میرا اک گھورے پہ مسکن چاہئے 

قبض سے دھوبی کے سفرے میں یہ لینڈی اٹکی ہے 
کہتا پھرتا ہے مجھے شافے کو صابن چاہئے 

میں پدوڑا ہوں مری ہے صحت جاں پادنا 
ہائے صاحب آپ کو اتنا نہ قدغن چاہئے 

ہگتے ہگتے اس پری نے مجھ کو دیوانہ کیا 
گو بھرے دامن سے اب صحرا کا دامن چاہئے 

پیٹ سے نکلے نہ کیونکر گانڑ کی ہے راہ تنگ
یہ وہ سدے ہیں کشادہ جن کو روزن چاہئے 

ڈھیر اندھیری رات میں کر رکھتا ہوں میں لینڈیاں
مہتروں میں نام میرا ہووے روشن چاہئے 

میرے اس بت کی سنی ہگنے میں یہ غمزہ گری 
شیخ پادے چوں سے ہگ دیوے برہمن چاہیے 

گر یہی شدت رہی دستوں کی ہجر یار میں 
موت سا بہہ جائے سارا رنگ و روغن چاہئے 

گو اٹھاتے ہی اٹھاتے موت آنی ہے مجھے 
پائخانے میں مرا چرکینؔ مدفن چاہئے 
***
160
ہووے اے چرکیںؔ اگر بارش مرے پیشاب سے 
مہتروں کی مٹیاں بہتی پھریں سیلاب سے 

گانڑ کھولے سوتے ہیں وہ خاک پر زیر زمیں
پوتڑے سلتے تھے جن کے قاقم و سنجاب سے 

کانچ ہگتے میں جو اس گل کی نظر آئی مجھے 
میں نے جاناں ہے بھرا شیشہ شراب ناب سے 

دیکھے ہگتے گر اسے پاخانے میں پیر فلک 
گانڑ پوچھے پنجۂ خورشید عالم تاب سے 

ہگتے میں بھی ہے جو آرائش اسے مد نظر
چوکی منڈھوائی ہے اس نے چادر مہتاب سے 

خوش دماغی کا کروں اس گل کی کیا تحریر وصف
گانڑ بھی ہگ کر نہیں دھوتا گلاب ناب سے 

ناتوانی نے کیا چرکیںؔ مجھے مور ضعیف
موت کا ریلا بھی مجھ کو کم نہیں سیلاب سے
***

مرتب: ابرار الحق شاطر گورکھپوری

جعفر زٹلی کی کتاب زٹل نامہ پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔
http://rekhta.org/ebook/Zatal_Nama_

2 comments: